لال سبز کبوتروں کی چھتری

ظہیر جب تک دلی میں تھے ڈاکٹر اسلم فرخی سے ہر سال حضرت سلطان جی کے عرس کے موقع پر ان کی ملاقات ہوتی رہی۔۔۔

ڈاکٹر اسلم فرخی حضرت نظام الدین اولیاؒ کے عرس میں شرکت کرنے کے لیے دلی گئے ہوئے تھے۔ وہاں مغیث الدین فریدی نے ان کی ملاقات ایک صاحب سے کروائی جو حضرت سلطان جیؒ کے ہم وطن تھے۔ یہ ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی تھے۔

ظہیر ان دنوں دلی یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر تھے۔ اسلم فرخی خود بھی اردو کے فاضل ادیب، کالج اور یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے تھے۔ دونوں میں یہ ایک نسبت تھی۔ پھر جب اسلم فرخی کو یہ معلوم ہوا کہ ظہیر ان کے مرشد و مولائی ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں کے محترم استاد ڈاکٹر ضیا احمد صدیقی کے فرزند ارجمند ہیں تو یہ نسبت عقیدت میں بدل گئی۔ مولانا ضیا احمد صدیقی فارسی کے مستند عالم تھے۔ بدایوں سے ان کا جدی تعلق تھا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ تھے۔ ظہیر اپنے زمانہ طالب علمی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میگزین کے ایڈیٹر تھے۔ انھوں نے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں کو خط لکھا کہ میگزین کے خصوصی نمبر کے لیے مضمون بھیج دیجیے۔ اپنی درخواست کو موثر بنانے کے لیے دو حرف مولانا ضیا احمد سے بھی تائید میں لکھوا دیے۔ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں نے استاد کی تحریر دیکھی تو ظہیر کو لکھا۔

لو تبسم بھی شریکِ نگہِ ناز ہوا
آج کچھ اور بڑھا دی گئی قیمت میری

پھر ظہیر کراچی آئے۔ مولانا غلام مصطفیٰ خاں حیدر آباد میں مقیم تھے۔ انھیں اطلاع دی کہ میں آپ سے ملنے حیدر آباد آ رہا ہوں۔ مولانا نے فرمایا، نہیں آپ میرے استاد زادے ہیں، میں آپ سے ملنے کراچی آؤں گا۔ یہ میرا فرض ہے۔

دلی میں ظہیر سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر اسلم فرخی اپنی شخصی خاکوں کی کتاب ''لال سبز کبوتروں کی چھتری'' میں لکھتے ہیں ''مغیث فریدی نے تعارف کروایا تو میں نے ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی پر ایک نظر ڈالی۔ ان کے نام اور علمی کارناموں سے میں کسی قدر واقف تھا مگر وہ ایک بڑے سیدھے سادھے، بے تکلف اور منکسر المزاج آدمی نظر آئے۔ ادعائے علم سے بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں لیکن ان کے یہاں نہ ادعائے علم تھا، نہ کسی قسم کی تمکنت۔ بڑی گرم جوشی سے ملے اور اس طرح ملے کہ میں مغیث کی طرح انھیں ظہیر بھائی کہنے لگا۔ ظہیر بھائی متوسط قد، گندمی رنگ، روشن آنکھوں، چوڑی پیشانی، نازک دہانے، باریک ہونٹوں، گول چہرے کے ہنستے مسکراتے انسان تھے۔ دلی میں رہتے تھے لیکن بدایوں کی چھاپ بہت گہری تھی۔ پہلی ہی ملاقات میں ہم لوگ ایک گوشے میں بیٹھ گئے اور بڑی یادگار باتیں ہوئیں۔''


ظہیر نے دوسرے دن ہی دلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں محمد حسین آزاد کے حوالے سے ڈاکٹر اسلم فرخی کے ایک لیکچر کا اہتمام کر دیا اور پھر بہت اصرار کر کے ان کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کیا۔ کھانے پر ظہیر کی بیوی، ڈاکٹر افتخار بیگم سے ملاقات ہوئی اور لوگ بھی تھے۔ ڈاکٹر افتخار جامعہ ملیہ میں اردو کی استاد تھیں۔ وہ کئی کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔ کھانے پر پر لطف گفتگو رہی۔ اچھا وقت گزرا۔

ڈاکٹر اسلم فرخی کہتے ہیں ''دلی میں ہماری یہ ملاقات مختصر مگر یادگار تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ ایک بہت اچھے انسان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ دل زندہ اور دیدہ بیدار کے حامل ہیں، مخلص ہیں، ہمدرد ہیں، رکھ رکھاؤ کے آدمی ہیں، وضع دار ہیں۔ بڑے سینئر استاد ہیں لیکن کسی پر رعب نہیں گانٹھتے، پڑھنے لکھنے میں وقت گزارتے ہیں۔ محنتی ہیں اور ادب کا صحیح ذوق رکھتے ہیں۔ ان کے ادبی ذوق میں ان کے خاندانی پس منظر کا بھی حصہ تھا۔ ان کے اہل خاندان میں علم و ادب اور شعر کے معروف نام ملتے ہیں لیکن انھوں نے اپنا راستہ خود نکالا، روایات سے استفادہ کیا اور جدت پسندی کی راہ اختیار کی۔ وہ دلی یونیورسٹی کے تدریسی اور غیر تدریسی حلقوں میں مقبول تھے۔ وجہ ان کی سادگی اور فطری بے تکلفی تھی۔ ہر ایک سے کھلے دل سے ملتے تھے اور ہر ایک کے کام آتے تھے۔''

ڈاکٹر اسلم فرخی نے ظہیر کی جو تصویر کھینچی ہے وہ بڑی سچی ہے۔ وہ ایسے ہی تھے۔ یہ ان کی مردم شناسی کا کمال ہے۔

ظہیر میرے بچپن کے دوست اور میرے اسکول کے ساتھی تھے۔ ہم دونوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسکول میں نو سال ساتھ رہے۔ تقسیم ملک نے ہمیں ایک دوسرے سے جدا کر دیا۔ اسکول کے زمانے کی دوستیاں بڑی پائیدار ہوتی ہیں۔ ہم دور رہ کر بھی ایک دوسرے کے قریب رہے، ایک دوسرے کے حال سے بھی واقف رہے۔ وہ گاہے بہ گاہے کراچی آتے تھے۔ ان کے کئی دوست، ہم جماعت یہاں تھے۔ پھر بعد میں ان کی صاحبزادی بھی بیاہ کر یہاں آ گئیں، ان کے بڑے بھائی، حبیب صاحب یہاں فارن آفس میں کام کرتے تھے۔ میں بھی دو بار دلی گیا اور کچھ وقت ان کے ساتھ گزارا۔ ظہیر اب اس دنیا میں نہیں، اپنے رب کے پاس ہیں اور اپنی صاف ستھری زندگی، اپنی نیکیوں کا صلہ پا رہے ہیں۔

دلی میں ملاقات کے بعد ظہیر جب بھی کراچی آئے ڈاکٹر اسلم فرخی سے ان کی ضرور ملاقات ہوئی۔ وہ ان سے بہت متاثر تھے اور قرب دلی رکھتے تھے۔ ڈاکٹر فرخی نے ظہیر کے کراچی آنے کے واقعے کا اپنی کتاب میں یوں ذکر کیا ہے۔ ''ایک دن صبح دس بجے گیٹ کی گھنٹی بجی۔ اٹھ کر گیا تو دیکھا ظہیر بھائی کھڑے ہیں۔ نہ کوئی اطلاع، نہ کوئی خط ۔ بس چلے آ رہے ہیں۔ حیران رہ گیا۔ حیرانی اس لیے بھی ہوئی وہ کسی کی رہنمائی اور مدد کے بغیر میرے یہاں پہنچ گئے۔ میرا مکان ڈھونڈنے میں تو بہت سے دوستوں کو بھی دقت ہوتی ہے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ یہ اس دیار خوش انوار سے تعلق رکھتے ہیں جہاں خلق خدا کو ہدایت اور رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ انھیں رہنمائی کی کیا ضرورت تھی۔''

ظہیر جب تک دلی میں تھے اور یونیورسٹی سے ریٹائر نہیں ہوئے تھے ڈاکٹر اسلم فرخی سے ہر سال حضرت سلطان جی کے عرس کے موقعے پر ان کی ملاقات ہوتی رہی۔ ڈاکٹر فرخی لکھتے ہیں۔ ''وہ میرے منتظر رہتے تھے۔ میں جس دن پہنچتا اسی دن درگاہ میں ملاقات ہوتی وہ اور مغیث دونوں مغرب کے وقت وہاں موجود ہوتے۔ ہم وہاں سے اٹھ کر خواجہ حسن ثانی نظامی کے یہاں جا بیٹھتے۔ باتوں کا سلسلہ جو شروع ہوتا تو وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوتا۔ کراچی کے ایک ایک جاننے والے کی خیریت پوچھتے۔ ڈاکٹر صاحب قبلہ کی صحت کے بارے میں دریافت کرتے۔ ظہیر بھائی بڑے محنتی آدمی تھے۔ لکھنے پڑھنے سے بڑا شغف تھا۔ علمی کام بہت کیا ہے اور بہت اچھا کیا ہے۔ مزاج تحقیقی تھا۔ فارسی بہت اچھی جانتے تھے۔ مطالعہ مومنؔ میں اختصاص حاصل تھا۔ خواجہ میر دردؔ پر بھی کام کیا۔ فانیؔ ان کے ہم وطن تھے۔ فانیؔ کی شاعری پر بھی ایک کتاب لکھی۔ متعدد کتابیں مرتب کیں، مضامین کے مجموعے شایع کیے۔ قدیم و جدید دونوں پر یکساں حاوی تھے۔''
Load Next Story