قوم کی تعمیر
ماضی میں پاکستانی قوم کو اندھیرے میں بھٹکانے میں پرنٹ میڈیا نے بھی نمایاں کردار ادا کیا تھا۔۔۔
پروفیسر نیل پوسٹ مین نیو یارک یونیورسٹی میں میڈیا ایکو لوجی پڑھاتے تھے۔ ابلاغ کے ذرایع انسانی ذہن پر کیسے اور کتنے اثرات مرتب کرتے ہیں اس موضوع پر ان کی تحقیق لا جواب تھی زندگی بھر انھوں نے عوام کو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کر نے والے عوامل کے بارے میں تحقیق کی Amunsing Ourselves to Death ، 1985 میں شایع ہوئی۔ اس کتاب میں نیل پوسٹ مین نے الیکٹر انک میڈیا کی بہتا ت سے انسانی ذہن پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں بحث کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں دنیا بھر میں حکومتیں عوام کے اذہان کو مٹھی میں کرنے کے جدید ترین طریقے اختیار کر رہی ہیں ان طریقوں پر عمل سے خون خرابہ بھی نہیں ہوتا اور مقاصد بھی حاصل ہو جاتے ہیں ۔ نیل پوسٹ مین کا کہنا ہے کہ تفریحی پروگرام دیکھتے دیکھتے انسان ان کا ایسا عادی ہو جاتا ہے کہ پڑھنے کی عادت بھی ترک کر بیٹھتا ہے اور جب انسان پڑھنا ترک کرتا ہے تو اس میں سو چنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی دم توڑ جاتی ہے۔ ''امیوزنگ اور سیلوز ٹو ڈیتھ '' کا آئیڈیا نیل پوسٹ مین کو اس وقت آیا جب انھوں نے فرینکفرٹ بک سیلرز کنو نشن سے خطاب کیا یہ خطاب انھوں نے جارج آر ویل کے مشہور ناول 1984 پر بحث کے لیے تشکیل شدہ پینل کے رکن کی حیثیت سے کیا تھا۔
آرویل نے ایک ایسی دنیا کا تصور پیش کیا تھا جس میں ایک انتہائی ظالم حکومت تمام حقوق چھین کر عوام کو جانوروں کی سطح پر لے آئے گی۔ کتاب کے نام سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ جارج آرویل نے پیش گوئی کی تھی کہ جس بھیانک دور کا اس نے خواب دیکھا ہے وہ 1984تک واقع ہو چکا ہو گا۔ نیل پوسٹ مین نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ہم ٹیکنا لو جی کا راستہ نہیں روک سکتے مگر اسے استعمال کرنے کے ڈھنگ کا تعین تو کر سکتے ہیں اس سلسلے میں بہترین فورم تعلیمی شعبہ ہے بچوں کو بہت چھوٹی عمر سے ہی سکھایا جا سکتا ہے کہ کسی بھی ٹیکنا لوجی کو زیادہ سے زیادہ فوائد کے حصول کے لیے کس طور استعمال کر نا ہے۔ اصل مسئلہ ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کا ہے عام طور پر لوگ ٹیکنالوجی کے ہاتھوں استعمال ہونے لگتے ہیں ۔ جب کہ آلڈس ہکسلے نے بھی ایک ایسی دنیا کا تصور پیش کیا تھا جس میں کسی پر کوئی جبر نہیں کیا جائے گا ۔ بلکہ نفسیاتی طریقے اختیار کرتے ہوئے ہر انسان کو ایک ایسی زندگی کا عادی بنا دیا جائے گا جس میں معلومات اور تفریحی مواد کی فراوانی سو چنے اور سمجھنے کی صلاحیت سلب کر لے گی۔ ہکسلے نے ''بر یو نیوورلڈ '' میں لکھا تھا کہ لوگ ایک پرکیف زندگی کے عادی ہو کر اپنے تمام حقوق سے رضاکارانہ طور پر دستبردار ہو جائیں گے۔ ہکسلے نے '' سوما '' کے نام سے تیار کی جانے والی نشہ آور دوا کا تصور پیش کیا تھا اس دوا کے عادی ہو جانے پر تمام انسان ایسی زندگی گزاریں گے جس میں کسی بھی مرحلے پر مزاحمت نہیں ہو گی۔ نیل پوسٹ مین نے ٹیلی ویژن انڈسٹری کو بھی ''سو ما'' کے روپ میں ہی سوچا ہے۔
ان کا استدلال تھا کہ لو گ ٹیلی ویژن کے اس قدر عادی ہو جائیں گے کہ اس کے بغیر جینے کا تصور بھی نہ کر سکیں گے قدیم ہندوستانی ادب میں نشہ آور شے کے لیے سوم رس کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی۔ نیل پوسٹ مین کامر کزی استدلال یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا اور بالخصوص ٹیلی ویژن نے مواد کی اصلیت اور معیار کو بالا ئے طاق رکھ کر صرف پیش کش کے انداز کو مر کزی حیثیت دے دی ہے وہ ٹیلی ویژن پر پیش کی جانے والی خبروں اور سیاسی تجزیوں کی مثال پیش کرتے ہیں۔ پوسٹ مین کے نزدیک ٹیلی ویژن پر پیش کیے جانے والے 90 فیصد سے زائد پروگرام خالصاً عوا م کے لیے ہوتے ہیں ان میں پیش کیے جانے والا مواد کا معیار انتہائی پست ہوتا ہے وہ کہتے ہیں کہ ٹیلی ویژن ایسا میڈیا ہے جس میں پیش کش کا انداز باقی تمام امور پر غالب آ کے رہتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو کچھ دکھائی دے رہا ہوتا ہے آنکھ اسی میں گم ہوکر رہ جاتی ہے ٹیلی ویژن کا پروگرام بنیادی طور پر عوام میں کھپت کے لیے ہوتا ہے لہذا عوام کی پسند اور ناپسند کا ہر پروگرام پر شدید اثر مرتب ہوتا ہے۔
یہ ہی سبب ہے کہ ٹیلی ویژن میں سیاست اور مذہب ایک دوسرے میں گڈمڈ ہو جاتے ہیں خبروں کا بھی یہ ہی حال ہے ردعمل کے خوف سے خبروں کو بھی قابل قبول بنا نے پر خاص توجہ دی جاتی ہے کسی بھی موضوع پر پروگرام پیش کرتے وقت پیش کش کا انداز اس قدر اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ معیار بہت پیچھے رہ جاتا ہے اور پورا معاملہ تفریح طبع کی سطح پر آ جاتاہے وہ اس بات پر بھی شدید معترض دکھائی دیتے ہیں کہ خبریں پڑھنے والوں کو بھی ایک خاص انداز سے سجا سنوار کر پیش کیا جاتا ہے گویا وہ بھی برائے فروخت ہوں۔ نیل پوسٹ مین اور ہکسلے کی میڈیا کے متعلق سو چ اور ارادے حقیقت کے انتہائی قریب ہیں جب ہم اپنے ملک کے الیکٹرونک میڈیا کے پروگرام پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں معلوم چلتا ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہمارے ہاں بھی وہی سب کچھ اسی طرح سے ہو رہاہے جیسا پوسٹ مین اور ہکسلے نے کہا تھا یہ ٹیلی ویژن ہی ہے جس کی وجہ سے پاکستانی قوم ایک مفلو ج قوم میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے پوری قوم اس سوم رس کی عادی ہو چکی ہے یا کر دی گئی ہے۔ ٹیلی ویژن نے سیاست اور سیاست دانوں کا کردار گھٹانے میں مر کزی کر دار ادا کیا ہے سیاسی پروگراموں میں سیاسی امور پر کم بحث ہوتی ہے اور کسی بھی سیاست دان کو ایک خاص امیج دینے میں زیادہ محنت کی جاتی ہے زیاد ہ تر غیر تربیت یافتہ حضرات کا میڈیا پر غلبہ ہے جو سوچ کے اعتبار سے بھی غیر تربیت یافتہ ہیں اور سچائی کو غیر متعلق باتوں میں ڈبو دیتے ہیں کسی کو بھی معیار میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہر کوئی عوام کو صحیح راہ سے بھٹکانے کے لیے بے تا ب رہتا ہے مذہبی حساسیت کو تیزی سے فروغ مل رہاہے اور رفتہ رفتہ یہ حساسیت اندھے اعتقادمیں تبدیل ہو گئی ہے۔
ماضی میں پاکستانی قوم کو اندھیرے میں بھٹکانے میں پرنٹ میڈیا نے بھی نمایاں کردار ادا کیا تھا اور ایو ب خان کے دور میں ملک کے ٹیکسٹ بک بورڈ نے تو رہی سہی کسر پوری کر دی۔ اس دور میں طلباء کو پڑھائے جانے والے نصاب کو نظریاتی اور رجعتی بنا کر مستقبل کی نسل کو تباہ کر کے رکھ دیا گیا۔ قدیم تاریخ ، جغرافیہ ، فنون لطیفہ ، موسیقی، ڈرامہ، کلاسیکل، جدید اور ترقی پسند ادب کو نصا ب سے خارج کر دیا گیا۔ پرائمر ی سطح سے لے کر ایم اے تک کی کلاس کے مضامین سوشل سائنسز میں سے وہ تمام مواد نکال باہر کیا گیا جو ذہنی بالیدگی اور تخلیقی مہارت کے لیے ضروری تھا اور اس کی جگہ وہ مواد ڈال دیا گیا جو نئی نسل کے ذہنوں کو مفلو ج کرنے کے لیے کافی تھا وہی نصاب آج تک جاری و ساری ہے۔ جسکا نتیجہ ہمارے سامنے آ چکا ہے ماہرین عمرانیات اس بات پر متفق ہیں کہ کسی قوم کی تعمیر سالوں میں نہیں صدیوں میں ہوتی ہے جس میں کئی عوامل کا م کرتے ہیں ان عوامل میں تعلیمی نصاب کا عوامل سب سے اہم ہے اور ساتھ میں میڈیا کا کردار بھی انتہائی اہم ہوتا ہے۔ لہٰذا میڈیا کے مثبت کردار کے بغیر قوم کی تعمیر نہیں ہو سکتی اور ساتھ ساتھ جب تک تعلیمی نصاب کو آپ جدید ترقی پسند، جدید سائنٹفک اپرو چ کے مطابق نہیں ڈھالیں گے قوم کی تعمیر اور ترقی ناممکن ہے اور وہ اسی طرح اندھیروں میں بھٹکتی رہے گی۔