ڈائریکٹریٹ جنرل آف ہیومن رائٹس خیبر پختونخواہ میں غیر قانونی بھرتیوں کا الزام
تقرریوں میں ہوم ڈسٹرکٹ کے لوگوں کو نظر انداز کرکے دوسرے اضلاع کے افراد کو بھرتی کیا گیا۔
ڈائریکٹریٹ جنرل آف ہیومن رائٹس خیبر پختونخواہ میں مبینہ طور پر سیاسی دباؤ کے تحت غیر قانونی بھرتیاں کی گئیں۔
ڈائریکٹوریٹ جنرل نے مبینہ طور پر انسانی حقوق ونگ کے لئے 14 اضلاع میں تقرریاں کی جن میں ہوم ڈسٹرکٹ کے لوگوں کو نظر انداز کیا گیا اور نشستوں کو پُر کرنے کے لیے دوسرے اضلاع کے افراد کو بھرتی کیا گیا۔
ضلع چترال میں ایک بھی چوکیدار نہیں ملا اور پوسٹ ضلع صوابی کے امیدوار کو دی گئی ۔ حیران کن طور پر چترال کا ایک بھی ڈرائیور پورے ضلع میں ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس نہیں کر سکا۔ ضلع چترال کے رہائشی جنہوں نے کمپیوٹر آپریٹر اور جونیئر کلرک کے لیے درخواستیں دی تھیں، وہ بھی ٹیسٹ میں ناکام ہوئے اور پشاور و نوشہرہ کے لوگوں کو تعینات کیا گیا۔ چترال سے نائب قاصد کا عہدہ بھی پشاور کے ایک امیدوار کو دیا گیا۔
ذرائع کے مطابق بھرتیاں کچھ سیاسی عہدیداران کے پریشر پر کی گئیں جس پر متاثرین نے کئی جگہوں پر درخواستیں بھی جمع کرائی ہیں تاہم ابھی تک کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ اس کے خلاف خیبر پختونخوا اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (ACE) نے ستمبر سے دسمبر 2020 اور مئی تا اپریل 2021 کے درمیان دو مرتبہ ڈائریکٹوریٹ سے چند بھرتیوں کی تفصیلات طلب کی ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل ہیومن رائیٹس ڈائیریکٹریٹ اسد علی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ان تمام الزامات کو مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا اشتہارکے بغیر کسی کو بھرتی نہیں کیا جا سکتا اور ٹیسٹ پاس کرنے میں ناکامی پر اکثر افراد کی جانب سے قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چترال میں ڈرائیور اسامیوں کے لیے تین ڈرائیوروں نے درخواستیں دی لیکن ٹیسٹ میں ناکام ہوئے جبکہ پورے ضلع چترال میں ایک بھی کمپیوٹر آپریٹر ٹیسٹ پاس نہیں کر سکا۔
ڈائریکٹوریٹ جنرل نے مبینہ طور پر انسانی حقوق ونگ کے لئے 14 اضلاع میں تقرریاں کی جن میں ہوم ڈسٹرکٹ کے لوگوں کو نظر انداز کیا گیا اور نشستوں کو پُر کرنے کے لیے دوسرے اضلاع کے افراد کو بھرتی کیا گیا۔
ضلع چترال میں ایک بھی چوکیدار نہیں ملا اور پوسٹ ضلع صوابی کے امیدوار کو دی گئی ۔ حیران کن طور پر چترال کا ایک بھی ڈرائیور پورے ضلع میں ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس نہیں کر سکا۔ ضلع چترال کے رہائشی جنہوں نے کمپیوٹر آپریٹر اور جونیئر کلرک کے لیے درخواستیں دی تھیں، وہ بھی ٹیسٹ میں ناکام ہوئے اور پشاور و نوشہرہ کے لوگوں کو تعینات کیا گیا۔ چترال سے نائب قاصد کا عہدہ بھی پشاور کے ایک امیدوار کو دیا گیا۔
ذرائع کے مطابق بھرتیاں کچھ سیاسی عہدیداران کے پریشر پر کی گئیں جس پر متاثرین نے کئی جگہوں پر درخواستیں بھی جمع کرائی ہیں تاہم ابھی تک کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ اس کے خلاف خیبر پختونخوا اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (ACE) نے ستمبر سے دسمبر 2020 اور مئی تا اپریل 2021 کے درمیان دو مرتبہ ڈائریکٹوریٹ سے چند بھرتیوں کی تفصیلات طلب کی ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل ہیومن رائیٹس ڈائیریکٹریٹ اسد علی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ان تمام الزامات کو مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا اشتہارکے بغیر کسی کو بھرتی نہیں کیا جا سکتا اور ٹیسٹ پاس کرنے میں ناکامی پر اکثر افراد کی جانب سے قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چترال میں ڈرائیور اسامیوں کے لیے تین ڈرائیوروں نے درخواستیں دی لیکن ٹیسٹ میں ناکام ہوئے جبکہ پورے ضلع چترال میں ایک بھی کمپیوٹر آپریٹر ٹیسٹ پاس نہیں کر سکا۔