میرا جی کا انداز بیاں
میرؔ ملے تھے میرا جی سے باتوں سے ہم جان گئے<br />
فیضؔ کا چشمہ جاری ہے حفظ ان کا دیوان کریں
جدید اردو نظم میں میرا جی کا نام اس ضمن میں اہم ہے کہ انھوں نے اولاً جدید نظم کی تفہیم کے لیے جو کاوشیں کیں ان کی وجہ سے جدید اردو نظم کو نہ صرف ایک شناخت ملی بلکہ انھوں نے اپنے لیے قارئین کو بھی مہمیز کیا، نظم کی موجودہ شکل بلاشبہ میرا جی کی نظم کے لیے چند تجربوں سے عبارت ہے، میرا جی نے جدید اردو نظم کی مصرع سازی کی طرف خاصی توجہ دی اور نئے لکھنے والوں کو سکھایا کہ جدید نظم کا مصرع کہاں توڑنا چاہیے اور کہاں سے نیا مصرع شروع ہونا چاہیے۔ نظم میرے خیال میں ایک خیال کو تسلسل کے ساتھ اس کی توریثlegacy کا خیال رکھتے ہوئے کہی جاتی ہے، میرا جی کی متنوع شخصیت ان کے فن پر کچھ ایسے حاوی ہے کہ ان کی شعریت اور دوسرے جملہ کاموں کی تفہیم و ترسیل میں اسے ہر گز طاق پر نہیں رکھا جا سکتا، کیا یہ اچھنبے کی بات نہیں ہے کہ بظاہر جنس کی شاعری کرنے والا میرا جی جب اپنے قلمی نام سے مضامین لکھتا ہے تو اس کے موضوعات جاپان میں مزدوروں کے مسائل، چین کے کارخانوں میں مزدوروں کے اوقات کار اور سامراج کا ہندوستان ٹوٹنے کا دو طرفہ عمل وغیرہ ہیں، یہ میرا جی، میرا جی شاعر سے کس قدر مختلف ہے۔
میرا جی کا نام محمد ثنا اللہ ڈار تھا، ان کے والد محترم منشی مہتاب الدین ریلوے میں اسسٹنٹ انجینئر تھے، ان کے ایک بھائی محمد اکرام اللہ کامی (لطیفی) کے نام سے بھی مشہور ہوئے ان کا میدان بھی شعر و ادب تھا لیکن وہ سِتم روزگار کی وجہ سے ادب کو خاطر خواہ وقت نہیں دے سکے اور اس کے برعکس میرا جی پیدا ہی تخلیق ادب کے لیے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں ہجرتوں کے غموں سے آدمی ٹوٹ جاتا ہے، لیکن ٹوٹ کر بننے تک کے عمل سے وہی گزر پاتے ہیں، جن کے پاس آیندہ آنے والی زندگی کو گزارنے کے لیے کوئی مثبت لائحہ عمل ہو۔ میرا جی کے آباؤ اجداد ڈوگرہ راج میں کشمیر کے ایک گاؤں کاروٹ سے ہجرت کر کے پنجاب کے گاؤں اٹاوہ ضلع گوجرانوالہ میں آباد ہوئے
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
میرا جی کے والد صاحب کے باپ کا کاروبار اس اثناء میں زبوں حالی کا شکار ہو گیا، ہر دوست ساتھ چھوڑ گیا، حالت کسمپرسی میں گزرنے لگی، میرا جی سے ان کی توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ ادبی زندگی سے جڑے ہونے کی وجہ سے میرا جی کے والد ان سے ناراض رہنے لگے، اور ناراضگی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میرا جی ہر بات سے پہلے لفظ ''اوم'' سے شروع کرتے میرا جی کی تحریروں کی طرح ان کی پوری شخصیت بھی ہم تک نہیں پہنچی۔ میرا جی نے شاعری پر تنقید کی اس نے اردو تنقید کو ایک نئے رویے سے آشنا کیا۔ میرا جی کی تنقید کے چار دائرے ہیں۔ (1)۔ حلقہ ارباب ذوق کے جلسوں میں تنقیدی گفتگو۔ (2)۔نظموں کے تجزیاتی مطالعے۔ (3)۔اردو شاعری کے بارے میں مختلف مضامین میں تنقیدی آرا۔(4)۔مشرق و مغرب کے نامور شعرا کے تراجم کے ساتھ شاعروں اور ان کے عہد پر تنقیدی آرا۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ وہ ایک مریضانہ ذہن کے مجہول شخص تھے جس کا کام سوائے جنس پرستی اور نظمیں کہنے کے اور کچھ نہیں لیکن جب ہم میرا جی کے کلام اور ان کے نثری کام پر نظر ڈالتے ہیں اور ان کے موضوعات کو دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس قدر باخبر اور اپنے عہد کی سیاسی صورتحال کا شعور رکھنے والے یکتا شخص تھے۔
میری ناقص علمی جستجو کے مطابق میرا جی کی فکری اور ادبی پہچان حلقہ ارباب ذوق کے حوالے سے ہی ہوتی ہے۔ تحریک کی سطح پر میرا جی ترقی پسندوں کے مخالف تھے انھیں ترقی پسندوں پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ انھوں نے شعر و ادب کے موضوعات کو محدود اور ایک سیاسی پارٹی کے نظریے کا پابند کر دیا اور زندگی کی وسعتوں کو صرف پیٹ کا دوزخ ٹھنڈا کرنے تک مخصوص کر دیا۔ خود میرا جی کا شعری افق بہت وسیع تھا۔ خصوصاً ان کے مطالعے کی وسعت نے انھیں اردو کے علاوہ دوسری زبانوں کے جس شعری سرمائے سے روشناس کرایا تھا اس نے ان کے شعری ذوق اور شعری دنیا کی سرحدوں کو بہت پھیلا دیا تھا۔ آگے بڑھیے تو ساقی فاروقی کہتے ہیں میرا جی اور راشد نے کرم خوردہ اخلاق کی جھوٹی قدروں والی خستہ دیواروں کو ڈھانا اور نظم والے حالیؔ کے سائے میں پلی ہوئی پود کے چہرے سے چھلکا اتارنا شروع کیا۔ راشد نہ صرف یہ کہ خود نئی شاعری کر رہے تھے بلکہ اس رویے کے بڑے مبلغ بھی تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ ان کے اس سفر میں میرا جی بھی ان کے ہم رکاب ہیں، نئی شاعری کی ضرورت و اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
اس میدان میں سب سے پہلے جو شاعر نظر آتے ہیں ان میں میرا جی، ڈاکٹر خالد اور ن۔م۔راشدؔ خصوصیات کے حامل ہیں، جس کے متعلق یقین کیا جا رہا ہے کہ ان لوگوں نے مختلف انداز میں آج کی اردو شاعری پر ایک نمایاں اور گہرا اثر ڈالا ہے اس جماعت سے الگ اخترؔ شیرانی، جوشؔؔ، فراقؔ اور حفیظؔؔ بھی اپنے اپنے حوالے سے شاعری کی نئی حد بندیوں میں مصروف تھے اور اگرچہ فکری طور پر ان کا تعلق میراؔ جی اور راشدؔ کی فکری صورت حال سے مختلف تھا لیکن اردو کی جدید شاعری کے وسیع تر معنوں میں یہ لوگ بھی ان نئے اسلوب بیان اور نئے موضوعات کی راہ ہموار کر رہے تھے۔
جنھوں نے جدید اردو شاعری کے ایوان کو مستحکم کیا، چنانچہ 20 ویں صدی کے نصف آخر تک جو بڑی شعری روایت وجود میں آئی اور جس نے 1960 کے بعد جدید علامتی اور تجریدی abstract موڑ کاٹا اس کے خالق بلاشبہ یہی لوگ ہیں۔ بیسویں صدی کی پر عیش ادبی روایت نے جنم لیا اور وہ اپنے ارتقا کو پہنچی ان میں سے ایک نام میرا جی کا ہے، مجھے علم ہوا بذریعہ تحقیق کے مطابق (خالد اور راشد) میرا جی نے باقی دونوں کے مقابلے میں بڑے دھڑلے سے اس نئی طرز کو استعمال کیا، میرا جی صرف ایک شاعر ہی نہیں تھا بلکہ اپنی جگہ ایک مکمل ہنگامہ بھی تھا، قدیم ہندو روایات نے یا ثقافت نے میرا جی کو ان کی شاعری کے لیے موضوعات اور ماحول مہیا کیے۔ راشدؔ و فیضؔ کی شاعری کا باقاعدہ سفر بھی اسی زمانے سے شروع ہوتا ہے۔ لیکن موضوع، نئی ہیت اور آزاد نظم کے شعور و تخلیقی سطح پر استعمال کے پیش رو صرف میرا جی ہیں۔
آپ اگر ان تینوں عظیم شاعروں کی انداز بیان یا انداز تحریر دیکھیں جو آپ کو بغیر چوں چراں معلوم ہو جائے گا کہ فیضؔ اور راشدؔ نے اپنی تخلیقات کو اردو، فارسی سے مزین کرتے ہوئے ملتے ہیں جب کہ میرا جی دیوناگری، ہندی شاعری کی روایت سے ناتا جوڑ لیتے ہیں۔ راشدؔ اور میرا جی دونوں جدید نظم کے اہم شاعر ہیں اور جہاں تک راشدؔ کا تعلق ہے وہ اسی جدید روایت کے شاعر ہیں جس کا بنیادی مقصد اردو نظم کو ایک نئی جہت دینا تھا، اس لیے وہ اس معاملے میں میرا جی کے مزید قریب آ جاتے ہیں۔ لیکن دونوں شعرا ہیں کچھ بنیادی تضادات بھی ہیں۔ راشدؔ فارسی روایت کے تسلسل کو آگے تک لے جاتے ہیں اور اس کے برعکس میرا جی ہندی روایات کے زیادہ قریب ہیں میرا جی کی اس مشرقیت کا اظہار گیتوں کی صورت میں ہوا لوک گیت کی موسیقی انھیں کاٹھیاوار لے جاتی ہے، میرا جی کا شعر ملاحظہ فرمائیں:
میرؔ ملے تھے میرا جی سے باتوں سے ہم جان گئے
فیضؔ کا چشمہ جاری ہے حفظ ان کا دیوان کریں
میرا جی کی غزلوں میں میرؔ کی سی ہی سادگی ہے۔ انھوں نے آزاد نظم کا رواج ڈالا۔ میرا جی کی نظموں میں ارتقا، تنہائی، یگانگت، عدم کا خلد، آنگینے کے اس پار کی شام 'خدا' اور صدا بہ صحرا دیکھی جا سکتی ہیں۔ میرا جی نے غزلوں میں بھی خوب خوب داد پائی لیکن میرا جی کا غزل کو نظم کی ہیئت ہی میں لکھنے کا رجحان ہے، وہ نظم کی وحدت کو Running Lines کے ذریعے قائم رکھتے ہیں۔ اس طرح کی ایک اور مثال ''سمندر کا بلاوا'' ہے یہ سرگوشیاں کہہ رہی ہیں اب آؤ کہ برسوں؟ تم کو بلاتے بلاتے مرے' دل پہ گہری تھکن چھا رہی ہے
فی زمانہ غزل کے مقابلے میں آج نظم لکھنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے غالباً اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ سامعین غزل کا کوئی ایک آدھ شعر نہ بھی سنیں تو فوراً ہی ردیف اور قافیے کی فراوانی پھر آ جاتی ہے، اس کے برعکس نظم کو بہت یکسوئی سے سننا پڑتا ہے اگر ایک بھی مصرعہ چُھٹا تو آپ اس کو سمجھ نہیں پائیں گے لیکن فیضؔ، راشدؔ، میراؔ جی اور حسن عابد کی نظمیں بلاشبہ سامعین کو ساکت کر دیتی ہیں۔ میرا جی بلاشبہ جدید اردو نظم کی زنجیروں سے سامعین کو جکڑے رکھنے کا فن جانتے ہیں۔