میاں نواز شریف واپس آرہے ہیں
نواز شریف نے اپنے لندن قیام میں پہلی مرتبہ اتنا واضح واپسی کا پیغام دیا ہے
لاہور:
چند دن قبل لاہور کے ایک نجی ہوٹل میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے ایک تقریب سے آن لائن خطاب کیا۔ اِس میں انہوں نے کیا اہم فقرہ کہا اور یہ کیسے پاکستان کی مستقبل کی سیاست پر اثر انداز ہوگا، اس پر ہم بعد میں آئیں گے، پہلی بات جو نوٹ کرنے کی ہے کہ اس خطاب کے دوران نہ تو انٹرنیٹ کی اسپیڈ میں کمی ہوئی اور نہ کوئی اور تکنیکی خرابی پیدا ہوئی۔ خطاب کا اہم ترین فقرہ یہ تھا کہ وہ بہت جلد عوام کے درمیان ہوں گے۔
اسی تقریب سے مخاطب ہوتے ہوئے سردار ایاز صادق نے کہا کہ وہ نواز شریف کو لینے جلد لندن جائیں گے۔ نجی ہوٹل کی تقریب خواجہ سعد رفیق کے والد مرحوم کی برسی سے متعلق تھی۔ اس سے قبل مریم نواز نے بھی اپنی ٹویٹ سے ایسا ہی تاثر دیا تھا کہ شاید نواز شریف واپس آرہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نواز شریف کا فقرہ، ایاز صادق کا بیان کوئی محض ہوائی بات نہیں ہے بلکہ پردوں کے پیچھے بہت کچھ طے ہوچکا ہے اور کسی کو نواز شریف کی واپسی سے اب اعتراض نہیں ہے۔
اب حکومت چاہے جو مرضی کرے، نواز شریف کو پاکستان واپس آنا چاہیے۔ کیوں؟ کیونکہ نواز شریف نے اپنے لندن قیام میں پہلی مرتبہ اتنا واضح واپسی کا پیغام دیا ہے۔ اس فقرے نے مسلم لیگ ن کی ٹاپ قیادت سے لے کر مڈ لیول کی قیادت تک میں جوش بھی پیدا کیا ہے اور نواز شریف کا کمیٹڈ کارکن بھی اس اعلان کے بعد خوش ہے اور پارٹی کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ البتہ اِن کی واپسی کی تاریخ کے بارے میں حتمی طور پر کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ لیکن اگر ہم موجودہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ واپسی پنجاب کے بلدیاتی انتخابات کے آس پاس ہی ہوگی۔
نواز شریف کی واپسی جب بھی ہوگی، یہ پاکستانی میڈیا کےلیے ایک بہت بڑا ایونٹ ثابت ہوگا اور مسلم لیگ ن خود بھی اس واپسی کو ایک ایونٹ بنائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ن لیگ کی کوشش ہوگی کہ نواز شریف جب بھی پاکستان واپس آئیں، پارٹی ایک تیر سے دو نہیں بلکہ کئی شکار کرسکے۔
آنے والے دنوں میں خیبرپختونخوا بلدیاتی انتخابات کے فیز ٹو سے بڑا ایونٹ پنجاب کے بلدیاتی انتخابات ہیں۔ یہاں بھی عثمان بزدار کی کارکردگی بد سے بھی زیادہ بدترین رہی ہے اور یوں لگتا ہے کہ کارکردگی میں خیبرپختونخوا اور پنجاب کی سیاسی قیادت میں ایک مقابلہ رہا ہے اور یہ کارکردگی پی ٹی آئی کے گلے میں بالکل ویسا ہی میڈل پہنا سکتی ہے جیسا کہ اُس نے خیبرپختونخوا میں پہنا ہے۔
خیبرپختونخوا بلدیاتی انتخابات کے نتائج ن لیگ کےلیے بہت حوصلہ افزا ہیں اور پنجاب میں ان کی بنیاد پر اُن کی مقامی قیادت اور کارکن بہت چارج ہے، خیبرپختونخوا کے نتائج یہاں پر اُن کی الیکشن کیمپین میں بھی معاون ثابت ہوں گے۔ اگر ن لیگ یہاں پر خیبرپختونخوا طرز کے نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تو تحریک انصاف کا مکمل دھڑن تختہ ہوجائے گا اور پھر اس کے بعد چاہے 10 سالہ پلان کا تعویز بنا لیجئے کیا فرق پڑے گا۔ لیکن اس سب کےلیے نواز شریف کا پاکستان میں ہونا بہت ضروری ہے۔
اس نازک موقع پر اگر حکومت بم کو لات مارتے ہوئے نواز شریف کو جیل بھیجے گی تو اُس کو ٹھیک ٹھاک نقصان ہوگا اور نواز شریف کو ووٹ کی صورت میں زیادہ فائدہ ہوگا، جس کو ''مینیج'' کرنا مشکل ہوجائے گا۔
خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کسی نہ کسی وجہ سے ملتوی ہوسکتے ہیں۔ ایسی صورت میں پنجاب کے بلدیاتی انتخابات مزید اہمیت کے حامل ہوجائیں گے۔ ن لیگ ان انتخابات میں کامیابی کی صورت میں دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت کی بہتر پوزیشن میں آجائے گی۔ نواز شریف کے یہ الفاظ کہ آپ مجھے جلد اپنے درمیان دیکھیں گے، یہ ایک جانب کارکن اور مقامی قیادت کےلیے باعث حوصلہ ہیں تو دوسری جانب دیگر عوامل سے جوڑ توڑ کرنے کےلیے بھی اہم ہیں۔ ن لیگ کو اس فقرے کی وجہ سے ایک محدود مدت کےلیے کمک مل چکی ہے۔
دوسری جانب حکومت کا خیال ہے کہ چونکہ معاشی طور پر پاکستان کی حالت انتہائی خراب ہے تو ایسی صورت میں ن لیگ پاکستان کو لیڈ کرنے کا رسک نہیں لے گی۔ حکومت کا یہ بھی خیال ہے کہ آصف زرداری نے صرف بیان داغا ہے تاکہ اُس کے کارکن اور لیڈر شپ میں حوصلہ رہے ورنہ انہیں بھی معلوم ہے کہ اُن کی 80 فیصد ٹیم اس وقت موجودہ حکومت کا حصہ ہے اور پاکستان کو اس مقام تک لانے میں اپنا حصہ رکھتی ہے، لہٰذا پیپلز پارٹی بھی اس وقت لیڈ کرنے کا رسک نہیں لے گی۔ ایسی صورت میں کوئی بھی ڈیل زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہے گی اور اپوزیشن صرف حکومت کو پریشرائز کرکے اپنے فوائد سمیٹے گی۔
حکومت کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر کوئی ڈیل بن جاتی ہے جس کی صورت میں کسی بھی طرح سے پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے تو ایسی صورت میں عمران خان زیادہ قوت کے ساتھ اپوزیشن میں سامنے آئیں گے اور وہ عمران خان موجودہ خان سے زیادہ خطرناک ہوگا اور ویسا خان فی الوقت طاقت کے کسی بھی مرکز کو قبول نہیں ہے۔
اصل میں جنگ سے متعلق ساری پلاننگ پہلی گولی چلنے کی حد تک ہی ہوتی ہے اور جیسے ہی پہلی گولی فائر ہوتی ہے تو اس کے بعد صورتحال کو دیکھتے ہوئے پلاننگ بدلتی رہتی ہے۔ پاکستان کی سیاست میں بھی آنے والے دنوں میں ایسا ہی ہوگا اور سیاسی صورتحال کس رُخ جائے گی اس بات کا پتہ تب چلنا شروع ہوگا جب نوازشریف لندن سے پاکستان کا سفر شروع کرے گا۔
نواز شریف کےلیے واپسی کے حالات سازگار ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری اور معاشرتی بے چینی اس وقت عروج پر ہے۔ ن لیگ ڈیلز کرنے کی بھی ماہر ہے اور حکومت وقت کا یہ بیانیہ کہ سب کرپٹ ہیں بُری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ اب عوام بھی ہنس دیتے ہیں کہ اگر کرپٹ ہیں تو سزائیں کیوں نہیں ہوتی ہیں۔ اگر ایسے حالات میں بھی نواز شریف واپس نہیں آتے ہیں، اگر ایسے حالات میں بھی پارٹی کو ریمورٹ کنٹرول سے سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں تو ن لیگ نہ صرف پنجاب سے بلدیاتی انتخاب ہار سکتی ہے بلکہ نواز شریف کی سیاست بھی ختم ہوجائے گی۔ لہٰذا، حالیہ اعلان کے بعد نواز شریف کو واپس آنا ہوگا اور پاکستان کی سیاسی صورتحال کس جانب جائے گی، اس کا فیصلہ اُس دن ہوگا جس دن نواز شریف پاکستان میں لینڈ کریں گے۔ ہر دو صورت میں پاکستان کی سیاست میں اب تبدیلی ضرور ہوگی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
چند دن قبل لاہور کے ایک نجی ہوٹل میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے ایک تقریب سے آن لائن خطاب کیا۔ اِس میں انہوں نے کیا اہم فقرہ کہا اور یہ کیسے پاکستان کی مستقبل کی سیاست پر اثر انداز ہوگا، اس پر ہم بعد میں آئیں گے، پہلی بات جو نوٹ کرنے کی ہے کہ اس خطاب کے دوران نہ تو انٹرنیٹ کی اسپیڈ میں کمی ہوئی اور نہ کوئی اور تکنیکی خرابی پیدا ہوئی۔ خطاب کا اہم ترین فقرہ یہ تھا کہ وہ بہت جلد عوام کے درمیان ہوں گے۔
اسی تقریب سے مخاطب ہوتے ہوئے سردار ایاز صادق نے کہا کہ وہ نواز شریف کو لینے جلد لندن جائیں گے۔ نجی ہوٹل کی تقریب خواجہ سعد رفیق کے والد مرحوم کی برسی سے متعلق تھی۔ اس سے قبل مریم نواز نے بھی اپنی ٹویٹ سے ایسا ہی تاثر دیا تھا کہ شاید نواز شریف واپس آرہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نواز شریف کا فقرہ، ایاز صادق کا بیان کوئی محض ہوائی بات نہیں ہے بلکہ پردوں کے پیچھے بہت کچھ طے ہوچکا ہے اور کسی کو نواز شریف کی واپسی سے اب اعتراض نہیں ہے۔
اب حکومت چاہے جو مرضی کرے، نواز شریف کو پاکستان واپس آنا چاہیے۔ کیوں؟ کیونکہ نواز شریف نے اپنے لندن قیام میں پہلی مرتبہ اتنا واضح واپسی کا پیغام دیا ہے۔ اس فقرے نے مسلم لیگ ن کی ٹاپ قیادت سے لے کر مڈ لیول کی قیادت تک میں جوش بھی پیدا کیا ہے اور نواز شریف کا کمیٹڈ کارکن بھی اس اعلان کے بعد خوش ہے اور پارٹی کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ البتہ اِن کی واپسی کی تاریخ کے بارے میں حتمی طور پر کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ لیکن اگر ہم موجودہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ واپسی پنجاب کے بلدیاتی انتخابات کے آس پاس ہی ہوگی۔
نواز شریف کی واپسی جب بھی ہوگی، یہ پاکستانی میڈیا کےلیے ایک بہت بڑا ایونٹ ثابت ہوگا اور مسلم لیگ ن خود بھی اس واپسی کو ایک ایونٹ بنائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ن لیگ کی کوشش ہوگی کہ نواز شریف جب بھی پاکستان واپس آئیں، پارٹی ایک تیر سے دو نہیں بلکہ کئی شکار کرسکے۔
آنے والے دنوں میں خیبرپختونخوا بلدیاتی انتخابات کے فیز ٹو سے بڑا ایونٹ پنجاب کے بلدیاتی انتخابات ہیں۔ یہاں بھی عثمان بزدار کی کارکردگی بد سے بھی زیادہ بدترین رہی ہے اور یوں لگتا ہے کہ کارکردگی میں خیبرپختونخوا اور پنجاب کی سیاسی قیادت میں ایک مقابلہ رہا ہے اور یہ کارکردگی پی ٹی آئی کے گلے میں بالکل ویسا ہی میڈل پہنا سکتی ہے جیسا کہ اُس نے خیبرپختونخوا میں پہنا ہے۔
خیبرپختونخوا بلدیاتی انتخابات کے نتائج ن لیگ کےلیے بہت حوصلہ افزا ہیں اور پنجاب میں ان کی بنیاد پر اُن کی مقامی قیادت اور کارکن بہت چارج ہے، خیبرپختونخوا کے نتائج یہاں پر اُن کی الیکشن کیمپین میں بھی معاون ثابت ہوں گے۔ اگر ن لیگ یہاں پر خیبرپختونخوا طرز کے نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تو تحریک انصاف کا مکمل دھڑن تختہ ہوجائے گا اور پھر اس کے بعد چاہے 10 سالہ پلان کا تعویز بنا لیجئے کیا فرق پڑے گا۔ لیکن اس سب کےلیے نواز شریف کا پاکستان میں ہونا بہت ضروری ہے۔
اس نازک موقع پر اگر حکومت بم کو لات مارتے ہوئے نواز شریف کو جیل بھیجے گی تو اُس کو ٹھیک ٹھاک نقصان ہوگا اور نواز شریف کو ووٹ کی صورت میں زیادہ فائدہ ہوگا، جس کو ''مینیج'' کرنا مشکل ہوجائے گا۔
خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کسی نہ کسی وجہ سے ملتوی ہوسکتے ہیں۔ ایسی صورت میں پنجاب کے بلدیاتی انتخابات مزید اہمیت کے حامل ہوجائیں گے۔ ن لیگ ان انتخابات میں کامیابی کی صورت میں دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت کی بہتر پوزیشن میں آجائے گی۔ نواز شریف کے یہ الفاظ کہ آپ مجھے جلد اپنے درمیان دیکھیں گے، یہ ایک جانب کارکن اور مقامی قیادت کےلیے باعث حوصلہ ہیں تو دوسری جانب دیگر عوامل سے جوڑ توڑ کرنے کےلیے بھی اہم ہیں۔ ن لیگ کو اس فقرے کی وجہ سے ایک محدود مدت کےلیے کمک مل چکی ہے۔
دوسری جانب حکومت کا خیال ہے کہ چونکہ معاشی طور پر پاکستان کی حالت انتہائی خراب ہے تو ایسی صورت میں ن لیگ پاکستان کو لیڈ کرنے کا رسک نہیں لے گی۔ حکومت کا یہ بھی خیال ہے کہ آصف زرداری نے صرف بیان داغا ہے تاکہ اُس کے کارکن اور لیڈر شپ میں حوصلہ رہے ورنہ انہیں بھی معلوم ہے کہ اُن کی 80 فیصد ٹیم اس وقت موجودہ حکومت کا حصہ ہے اور پاکستان کو اس مقام تک لانے میں اپنا حصہ رکھتی ہے، لہٰذا پیپلز پارٹی بھی اس وقت لیڈ کرنے کا رسک نہیں لے گی۔ ایسی صورت میں کوئی بھی ڈیل زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہے گی اور اپوزیشن صرف حکومت کو پریشرائز کرکے اپنے فوائد سمیٹے گی۔
حکومت کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر کوئی ڈیل بن جاتی ہے جس کی صورت میں کسی بھی طرح سے پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے تو ایسی صورت میں عمران خان زیادہ قوت کے ساتھ اپوزیشن میں سامنے آئیں گے اور وہ عمران خان موجودہ خان سے زیادہ خطرناک ہوگا اور ویسا خان فی الوقت طاقت کے کسی بھی مرکز کو قبول نہیں ہے۔
اصل میں جنگ سے متعلق ساری پلاننگ پہلی گولی چلنے کی حد تک ہی ہوتی ہے اور جیسے ہی پہلی گولی فائر ہوتی ہے تو اس کے بعد صورتحال کو دیکھتے ہوئے پلاننگ بدلتی رہتی ہے۔ پاکستان کی سیاست میں بھی آنے والے دنوں میں ایسا ہی ہوگا اور سیاسی صورتحال کس رُخ جائے گی اس بات کا پتہ تب چلنا شروع ہوگا جب نوازشریف لندن سے پاکستان کا سفر شروع کرے گا۔
نواز شریف کےلیے واپسی کے حالات سازگار ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری اور معاشرتی بے چینی اس وقت عروج پر ہے۔ ن لیگ ڈیلز کرنے کی بھی ماہر ہے اور حکومت وقت کا یہ بیانیہ کہ سب کرپٹ ہیں بُری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ اب عوام بھی ہنس دیتے ہیں کہ اگر کرپٹ ہیں تو سزائیں کیوں نہیں ہوتی ہیں۔ اگر ایسے حالات میں بھی نواز شریف واپس نہیں آتے ہیں، اگر ایسے حالات میں بھی پارٹی کو ریمورٹ کنٹرول سے سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں تو ن لیگ نہ صرف پنجاب سے بلدیاتی انتخاب ہار سکتی ہے بلکہ نواز شریف کی سیاست بھی ختم ہوجائے گی۔ لہٰذا، حالیہ اعلان کے بعد نواز شریف کو واپس آنا ہوگا اور پاکستان کی سیاسی صورتحال کس جانب جائے گی، اس کا فیصلہ اُس دن ہوگا جس دن نواز شریف پاکستان میں لینڈ کریں گے۔ ہر دو صورت میں پاکستان کی سیاست میں اب تبدیلی ضرور ہوگی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔