طعن اغیار ہے رسوائی ہے …
اس حقیقت کو مان کر سوچنا اور آگے بڑھنا ہوگا کہ ہم اپنی تاریخ کے ایک بڑے مشکل دور سے گزر رہے ہیں
اس حقیقت کو مان کر سوچنا اور آگے بڑھنا ہوگا کہ ہم اپنی تاریخ کے ایک بڑے مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ تلخ حقائق پر اس لیے پردہ نہیں ڈالنا چاہیے کہ ایسا کرنے سے مایوسی اور ناامیدی پیدا ہوگی۔ یہ ایک بڑا خطرناک رویہ ہے جس سے مشکلا ت کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جاتی ہیں۔
جب مسائل سے متعلق حقائق اجاگر کیے جاتے ہیں تو ان پر بحث اور مکالمہ کا آغاز ہوتا ہے اور حالات کو بہتر بنانے اور کسی امکانی بحران سے بچنے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔
ہم جس مشکل صورتحال سے دوچار ہیں، اس کا بنیادی سبب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ آزادی کے فوراً بعد سے ہم نے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش نہیں کی بلکہ مالی مدد اور رہنمائی کے لیے امریکا اور مغرب کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔ خطے میں اس دور کے سوویت یونین کو آنے اور اپنا اثرو رسوخ بڑھانے سے روکنے کے لیے امریکا کی قیادت میں مغربی بلاک نے ہمیں ایک طرح سے ''گود'' لے لیا۔ بس پھر کیا تھا، ہماری حکمران اشرافیہ اور ان کے حامی طبقات کے دن بدل گئے۔ رفتہ رفتہ ہماری معیشت مغرب کی منڈی میں تبدیل ہوگئی اور معاشی خود انحصاری کی امید رکھنے والوں کے خواب چکنا چور ہوگئے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی، اس وقت کے حکمرانوں نے امریکا سے فوجی معاہدے کرلیے یوں ملک معاشی اور سیاسی طور پر مغربی بلاک کا غلام بن کر رہ گیا۔
سرد جنگ طویل عرصے تک جاری رہی لہٰذا ہم مغرب کی ناگزیر ضرورت بنے رہے لیکن یہ سلسلہ تو بہرحال ایک دن ختم ہونا تھا۔ 1990 کی دہائی میں عالمی سیاست کا پورا منظر نامہ بدل گیا۔سوویت یونین جو دنیا کی دوسری بڑی عالمی طاقت تھا اور آدھی دنیا پر گہرا اثر رکھتا تھا وہ شکست و ریخت کے عمل سے دوچار ہوا اور دنیا کے نقشے سے غائب ہوگیا۔
یہی وہ وقت تھا جب ہماری مشکلات کا آغاز ہوا۔ ضرورت کم ہوئی تو امداد بھی کم ہونے لگی، پہلے ہمارے ناز اٹھائے جاتے تھے اب جائز شکایتیں سننے کے لیے بھی کوئی تیار نہیں تھا۔ دن گزرتے رہے اور ہماری مشکلات بڑھتی رہیں۔ ہم تقریباً مکمل طور پر تنہا ہونیوالے تھے کہ 2001میں 9/11 کا سانحہ رونما ہوا۔ اس المناک واقعے کے بعد خطے میں امریکا اور مغرب کو ہماری دوبارہ ضرورت پڑ گئی۔ دو سال قبل صدر کلنٹن کو بہ مشکل اس امر پر آمادہ کیا گیا تھا کہ ہندوستان کے دورے سے واپسی پر وہ پاکستان آکر ہمیں اپنے درشن کرادیں، وہ چند گھنٹوں کے لیے ٹھہرنے پر تیار ہوگئے لیکن نہ ہمارا کھانا چکھا اور نہ کوئی مشترکہ پریس کانفرنس کی بلکہ پی ٹی وی کے ذریعے پاکستانی عوام سے براہ راست مخاطب ہوئے۔
9/11 کے بعد یہ دوریاں ایک رات میں اس وقت ختم ہوگئیں جب امریکی صدر نے اس وقت کے ہمارے فوجی حکمران پرویز مشرف صاحب کو فون کرکے صر ف ایک انتخاب ان کے سامنے رکھا کہ ''بتائیں آپ ہمارے ساتھ ہیں یا نہیں'' لوگوں کا اعتراض ہے کہ جنرل مشرف امریکا سے اس وقت بہت کچھ لے سکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے غیر مشروط حمایت کا اعلان کردیا۔ سچ تو یہ ہے کہ موصوف کے پاس ایسا کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ اندرونی اور بیرونی دونوں سطحوں پر بدترین تنہائی کا شکار تھے اور ہر قیمت پر اس سے باہر نکلنا چاہتے تھے۔
9/11 کے بعد ہماری امداد کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا۔ ہرسال اربوں ڈالر آنے لگے۔معیشت کی صحت ان ڈالروں کی وجہ سے عارضی طور پر مستحکم ہونے لگی۔ جب اربوں ڈالرروپوں میں بدل کر منڈی میں آئے تو یوں لگا جیسے خوشحالی کا وہ دور آگیا ہے جس کی ہم آرزو کیا کرتے تھے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے رفتہ رفتہ شدت پسند تنظیموں پر غلبہ پانا شروع کردیا جس کے لیے انھوں نے افغانستان میں فوجی کارروائی شروع کی تھی۔
جس رفتار سے امریکا کامیاب ہونے لگا اسی رفتار سے اس نے ہمیں نظر انداز کرنا شروع کردیا۔ کون سی دوستی اور کہاں کا تعلق۔ ریاستوں کے رشتے ضرورت اور مفاد کے تابع ہوتے ہیں، یہ بات ہم بھی اچھی طرح جانتے ہیں لیکن ہماری مجبوری یہ بن گئی کہ ہم نے 1947 کے بعد سے ہمیشہ امریکا کی فوجی، معاشی اور سیاسی امداد پر انحصار کیا ہے اور اب ہمارے اندر اتنی ہمت اور طاقت باقی نہیں رہی کہ ہم اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا تصور بھی کرسکیں۔
حالات نے اس وقت انقلابی کروٹ لی جب امریکا نے پاکستان کے اندر ایک اچانک فوجی آپریشن کے ذریعے القاعدہ کے سربراہ کو ختم کردیا۔ درحقیقت یہی وہ مرحلہ تھا جب امریکا اور یورپ کے لیے ہماری ضرورت دوبارہ ختم ہوگئی۔ بڑی طاقتوں کو جب ہمارے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہم پر مہربان ہوجاتی ہیں۔ ہم ان کی ''مہربانیوں'' سے خوب فیضیاب ہوتے ہیں۔ پھر وہ وقت آتا ہے کہ جب ہماری ضرورت ختم ہو جاتی ہے اور مہربان نظریں پھیر لیتے ہیں ۔
ہم اس سے کوئی سبق سیکھنے کے بجائے گلے اور شکوے کرنے لگتے ہیں۔ دُہائیاں دے کر کہتے ہیں ہم نے آپ کے لیے کیا نہیں کیا؟ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں آپ کا ساتھ دے کر خود اپنے ملک کو دہشت گردی کے جہنم میں جھونک دیا۔ آپ اور آپ کے اتحادیوں کے ڈھائی تین ہزار فوجیوں نے اپنی جانیں گنوائیں جب کہ پاکستان میں پچاس ہزار سے زیادہ لوگ اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔
ہم نے آپ کی محبت میں خطے کے تمام ملکوں سے دوری اختیار کرلی۔ بعض سے تعلقات تک خراب ہوگئے، اب آپ ان ملکوں سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں اورہم سے بات تک کرنا گوارہ نہیں کرتے۔ ہم نے آپ کے لیے اپنی معیشت تباہ کی، اب ہم پر ہی پابندیاں لگائی جارہی ہیں۔
ہم نے سوچا تھا کہ آپ کی آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا گیا ہے لہٰذا ہم نے ملک میں سیاسی و جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، نہ ہی آپ نے اس جانب ہماری توجہ مبذول کرائی۔ اب آپ ہر وقت ہمارے ملک میں انسانی و جمہوری حقوق اور صحافت کی آزادی کا تقاضہ کرتے ہیں، پہلے تو آپ کو ان معاملات کی کوئی فکر نہیں تھی۔ ہم ماضی کے مہربانوں سے شکوہ کرتے ہیں کہ پہلے اربوں ڈالر دیے اورکبھی حساب نہیں مانگا ، اب کہتے ہیں حساب دو ہمارا پیسہ کہاں خرچ کیا۔ ہم نے اپنا کیا خوب تماشا بنا رکھا ہے۔ اقبال کے اس شعر میں ہماری اس ذہنی کیفیت کی کیا کمال عکاسی ہوتی ہے۔
طعن اغیار ہے، رسوائی ہے ناداری ہے
کیاترے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے؟
شکوے شکایت پر وقت ضایع کرنے کے بجائے جس مشکل دور کا سامنا ہے اس سے نکلنے کی راہیں تلاش کی جائیں۔ نئی راہیں اس وقت کھلیں گی جب نئی سوچ پیدا ہوگی۔ ایسا اس وقت ہوگا جب ماضی کے خود ساختہ مفروضوں کو ترک کرکے ہم حقائق کی دنیا میں واپس آنے پر خود کو آمادہ کرلیں گے۔ یہ عمل اجتماعی سطح پر کرنا ہو گا جس کے لیے آزاد اور کھلے ماحول میں بحث اور مکالمے کی شدید ضرورت ہے۔ انفرادی سوچ اور محدود مفادات سے باہر ہوکرہی ایسا ماحول تخلیق کیاجاسکتا ہے۔