مادری زبانوں کے ادب کو فروغ دیا جائے

ماہرین کے مطابق انسان لاشعوری طور پر جب خود سے مخاطب ہوتا ہے ، تو ہمیشہ اپنی مادری زبان میں ہی بات کرتا ہے


جبار قریشی December 26, 2021
[email protected]

ماہرین کے مطابق انسان لاشعوری طور پر جب خود سے مخاطب ہوتا ہے ، تو ہمیشہ اپنی مادری زبان میں ہی بات کرتا ہے ، وہ نہ صرف خواب اپنی مادری زبان میں دیکھتا ہے بلکہ جب وہ خدا تعالیٰ سے دعا بھی کرتا ہے تو اپنی مادری زبان میں ہی کرتا ہے۔وہ اپنی خواہشات کا اظہار بھی اپنی مادری زبان ہی میں کرتا ہے۔ خوشی اور غمی کو بھی الفاظ اپنی مادری زبان ہی کے دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مادری زبان کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں تقریباً سات ہزار سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اب زبانوں کے حوالے سے یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ مادری زبانوں کو ان کا حقیقی مقام دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں مادری زبان میں تعلیم بالخصوص بنیادی تعلیم دینے کے نظام کو یقینی بنایا جا رہا ہے تاکہ بچے بنیادی تعلیم میں لکھنا پڑھنا اپنی مادری زبان میں سیکھیں ، سائنسی مشاہدات اور نتائج سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ مادری زبان میں بنیادی تعلیم دینا زیادہ مفید ہے۔

پاکستان میں بھی بعض عناصرکی جانب سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ بچوں کو ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں دی جائے۔ ان کا یہ مطالبہ بالکل درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ ان عناصر کا نقطہ نظر یہ ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا حقیقی و وفاقی ملک ایسا نہیں ہے جو معاشرتی، ثقافتی، لسانی یا تاریخی معنوں میں ایک قوم ہونے کا دعویٰ کرسکے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں لسانی، ثقافتی یا قومیتی تنوع (فرق) پایا جاتا ہے۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اس ثقافتی تنوع کا نہ صرف احترام کیا جاتا ہے بلکہ وسیع تناظر میں اس کو فروغ بھی دیا جاتا ہے ، اس کے نتیجے میں وہاں متنوع آبادیوں میں ثقافتی اور لسانی تنازعات نہ صرف کم ہوتے ہیں بلکہ اس عمل کے نتیجے میں ان کے مابین رشتے بھی مضبوط ہوتے ہیں لیکن اگر اس کے برعکس رویہ اختیارکیا جائے تو ان کے درمیان ہم آہنگی کے عمل کو نقصان ہوتا ہے۔

مختلف قوموں کو ایک زبان اور ایک ثقافت کے ہاتھوں سرکاری حکم کے ذریعے زبردستی جوڑنے سے متحد نہیں کیا جاسکتا۔مختلف قوموں اور زبانوں کا احترام نہ کرنے کے باعث ان میں ایک دوسرے خلاف غصے اور نفرت کے جذبات جنم لیتے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ مختلف مادری زبانوں کو نہ صرف احترام دیا جائے بلکہ اس کے فروغ کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں تاکہ وطن عزیز میں مختلف گروہوں کے مختلف افراد کے درمیان رشتے مضبوط ہوسکیں۔

اس نقطہ نظر کے برعکس بعض عناصر بھی اپنا ایک نقطہ نظر رکھتے ہیں ان کے نزدیک پاکستان ایک کثیر اللسانی ملک ہے اس کا ہر صوبہ کثیر اللسانی اکائی ہے اگر پاکستان میں مختلف مادری زبانوں میں ابتدائی تعلیم دینے کے عمل کو جاری کیا گیا تو یہ عمل قومی یک جہتی کے لیے نقصان دہ ہوگا اور اگر ایک سے زائد زبانوں کو آئینی طور پر قومی زبانوں کا درجہ دیا گیا تو یہ عمل ملک کی وحدانیت کو پارہ پارہ کرنے کے مترادف ہوگا۔ اس عمل سے علیحدگی پسندوں کی سوچ کو تقویت ملے گی اور ملک کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔

کس کا نقطہ نظر درست ہے ، اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کرسکتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں زبانوں کے حوالے سے پاکستان ایک گلدستے کی مانند ہے جس میں کئی رنگوں کے چھوٹے اور بڑے پھول سجے ہیں ہمیں یہ گلدستہ اسی صورت میں خوبصورت دکھائی دے گا ، جب کسی بھی پھول کو تعصب اور عصبیت کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے۔ دراصل ہماری قوم ، قوس قزح کئی رنگوں سے بنی ہے اس قوس و قزح میں کسی کو دوسرے سے برتر یا کسی کو دوسرے سے کم تر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمیں زبان کی بنیاد پر مسائل کھڑے کرنے کے بجائے اس کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہیے۔

پاکستان میں انتہا پسندی اپنے عروج پر ہے ایسے میں مختلف زبانوں کا ادب ہماری دستگیری کرسکتا ہے ، بالخصوص ان ادیبوں اور صوفیائے کرام کا پیغام جنھوں نے یہ پیغام کئی صدیوں پہلے اپنی مادری زبان میں دیا۔ یہ پیغام چاہے بابا بلھے شاہ کا ہو یا سلطان باہو کا، خواجہ غلام فرید کا ہو یا رحمن بابا کا، شاہ عبداللطیف بھٹائی کا ہو یا سچل سرمست کا ، انسال بگتی کا ہو یا مست توکلی کا ہر ذرہ جس جگہ ہے آفتاب ہے یہ ادبی سرمایہ اور ان کا کلام ہماری دھرتی کے زخموں کا مرہم بن سکتا ہے۔ ہمیں اس پیغام کو عوام الناس کے دلوں میں اتارنے کی ضرورت ہے۔

ادب کسی بھی زبان کا ہو زندگی کا حسن ہے لاکھوں پاکستانیوں کی مادری زبان جن کو عمومی طور پر مقامی زبانوں کا نام بھی دیا جاتا ہے ، اپنے اندر علم و دانش اور تخلیق کے بے بہا اور بے مثل خزانے رکھتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان زبانوں کے ادبی سرمایہ کا تحفظ کیسے ہو۔

میری ذاتی رائے میں ان علاقوں کے ادب کو پاکستان کے سارے علاقوں تک پہنچانے کے لیے اسے اردو میں منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں یہ بات ذہن میں رہے کہ ایک ثقافت دوسری ثقافت سے ملتی ہے تو وہ ایک دوسرے کی مٹی کو زرخیز کرتی ہے یہ عمل دریاؤں کے سمندر میں ملنے کے انداز میں ہونا چاہیے۔ یہ عمل سیلاب کی طرح نہیں ،کیونکہ سیلاب زمین کو زرخیز نہیں کرتا بلکہ مزید برباد کردیتا ہے۔

بدقسمتی سے حقائق سے انکار ہمارا قومی رویہ رہا ہے ، اس رویے نے ہمیں تاریخ سے سیکھنے کے عمل سے محروم رکھا ہے جس کے نتیجے میں ہم ماضی کی غلطیاں دہراتے ہیں ، اس عمل کے نتیجے میں سزا پاتے ہیں۔ کاش ہمیں اس حقیقت کا ادراک ہو سکے۔

پاکستان کے عوام الناس ایک دوسرے کی مادری زبان کے لیے نہ صرف محبت کے جذبات رکھتے ہیں بلکہ ان میں اپنائیت کا جذبہ بھی پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجموعی لحاظ سے پاکستان کی قومی اور رابطے کی زبان اردو ہے ، یہ وہ زبان ہے جس کو ان تخلیق کاروں نے بھی ادبی شہ پاروں کے لیے منتخب کیا جن کی مادری زبان اردو نہیں تھی۔ ان میں علامہ اقبال، حفیظ جالندھری جیسے بے شمار نام ور لوگ شامل ہیں۔

پاکستان میں جو لوگ زبان کی بنیاد پر نفرتوں کا پرچار کرتے ہیں انھیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ زبان کوئی بھی ہو رابطے کا ذریعہ ہوتی ہے یہ نہ صرف ایک دوسرے سے تعلق پیدا کرتی ہے بلکہ محبتوں کو بھی بڑھاتی ہے۔ اس لیے ان عناصر کو چاہیے کہ وہ زبان کے ذریعے نفرتوں کا پرچار کرنے کے بجائے محبت کی زبان کو فروغ دیں اسی میں ہماری خوشحالی اور بقا کا راز پوشیدہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں