اندھیر نگری
گزشتہ دنوں کراچی کے علاقے شیرشاہ میں نالے پر بنی ایک نجی بینک کی عمارت اچانک دھماکے سے ڈھیر ہوگئی
گزشتہ دنوں کراچی کے علاقے شیرشاہ میں نالے پر بنی ایک نجی بینک کی عمارت اچانک دھماکے سے ڈھیر ہوگئی، اس عمارت کا زیادہ تر ملبہ نالے کے اندر گرا۔ اس سانحے میں 17 افراد جاں بحق ہوگئے اور درجن سے زیادہ زخمی ہوئے جن میں کئی کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔
دھماکے کے سلسلے میں پہلے یہ تاثر دیا گیا کہ نالے کے نیچے سے جانے والی گیس پائپ لائن کے پھٹنے کی وجہ سے بینک کی عمارت گری ہے مگر سوئی سدرن گیس کمپنی کے ترجمان نے فوراً ہی وضاحت کردی تھی کہ دھماکے کے مقام پر کوئی گیس لائن موجود نہیں ہے۔ سندھ حکومت کے سیکریٹری داخلہ کا کہنا ہے کہ یہاں نالے پر بنی تمام عمارتیں غیر قانونی طریقے سے بنائی گئی ہیں۔
انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ نالے پر یہ غیر قانونی عمارات تعمیر کرنے کی اجازت کس نے دی ظاہر ہے کہ یہ کام حکومت سندھ کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی جو پہلے کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کہلاتی تھی حکومت سندھ کا ایک اہم ادارہ ہے۔ کیا یہ عمارت اس ادارے سے نقشہ پاس کرائے بغیر ہی تعمیر کرلی گئی تھی؟ لگتا ہے ایسا ہی ہوا ہوگا، تو پھر انکروچمنٹ کو ختم کرنے والا ادارہ بھی موجود ہے۔
اس نے ان عمارات کی تعمیر کو کیوں نہیں روکا؟ بہرحال ایسی غیر قانونی عمارات کی تعمیر نے سندھ حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ یہ عمارات تو ظاہر ہے کہ کئی سال قبل تعمیر ہوئی ہوں گی مگر یہاں تو اب بھی ناجائز عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کی مثال نسلہ ٹاور اور تجوری پراجیکٹس کی تعمیر سے دی جا سکتی ہے۔
جنھیں سراسر غیر رہائشی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے۔ ان کی تعمیر کی ساری ذمے داری سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پر عائد ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں پراجیکٹس کی تعمیر میں مدد کرنے والے اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے اور متاثرین کو پورا پورا معاوضہ ملنا چاہیے۔
جہاں تک کراچی میں نالوں پر بنائی گئیں عمارات کا معاملہ ہے یہ بہت سنگین ہے۔ شیرشاہ کے نالے پر قائم بینک کی برانچ کی تباہی سے مجاز اداروں کو سبق لینا چاہیے مگر ہمارے ہاں سبق لینے والی بات صرف زبانی جمع خرچ تک ہی محدود ہوتی ہے۔ تحریک انصاف کراچی کے صدر خرم شیر زمان کا کہنا ہے کہ سندھ میں انسانی جانوں کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کے ایم سی کو رفاہی پلاٹس، سرکاری زمینوں اور کھیل کے میدانوں سمیت نالوں پر تجاوزات کے خاتمے کے لیے واضح احکامات دیے ہوئے ہیں۔
اس وقت بھی کراچی میں 70 فیصد نالوں پر تجاوزات قائم ہیں مگر سندھ حکومت کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ غیر قانونی تعمیرات کے سلسلے میں سندھ ہائی کورٹ میں ایک حیران کن انکشاف ہوا ہے۔ گزشتہ پیر کو لیاری میں غیر قانونی تعمیرات میں ملوث بلڈرز عدالت میں پیش ہوئے۔ معزز جج صاحب کے ایک سوال کے جواب میں بلڈرز کی جانب سے بتایا گیا کہ لیاری میں سب نے ایسے ہی گھر بنا لیے ہیں۔ کسی بھی عمارت کی تعمیر کے لیے وہاں نقشہ پاس کرانا ضروری نہیں ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ وہاں تمام عمارتیں غیر قانونی طور پر بنائی گئی ہیں۔ ایسے حالات میں سندھ حکومت کی کارکردگی سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے۔
شہر میں مکانوں کا نقشہ پاس کرنے والا محکمہ کیا کر رہا ہے؟ کراچی میں چند سال قبل لیاقت آباد اور گولی مار کے علاقوں میں کئی عمارات جو پانچ اور چھ منزلہ بنائی گئی تھیں اچانک زمین بوس ہوگئیں جن میں دب کر وہاں رہائش پذیر کئی کئی خاندان پورے کے پورے جاں بحق ہوگئے تھے وہاں اکثر 60 اور 80 گز کے پلاٹس ہیں جن پر پانچ اور چھ منزلہ عمارات کیسے تعمیر ہوگئیں۔ اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی یا کے ایم سی اپنی ذمے داریاں ادا کرنے کے بجائے غیر قانونی عمارات کے بلڈرز کی ہمت افزائی کر رہے ہیں اور ان سے ملی بھگت کے نتیجے میں ایسی غیر قانونی عمارات پہلے بھی تعمیر ہو چکی ہیں اور اب بھی تعمیر ہو رہی ہیں
۔ اس وقت ان علاقوں میں جو کئی کئی منزلہ عمارتیں موجود ہیں وہ اس حد تک خطرناک ہو چکی ہیں کہ کسی بھی وقت منہدم ہو سکتی ہیں مگر مجاز سرکاری ادارے خاموش ہیں۔ کراچی میں چھوٹے پلاٹوں پر پورشن بنانے کا عام رواج ہے۔ سندھ ہائی کورٹ میں چل رہے محمودآباد میں ایک چھوٹے رہائشی پلاٹ پر پورشن بنانے سے متعلق مقدمے میں مالک مکان کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ وہ وہاں پورشن بنانے والا اکیلا یا پہلا فرد نہیں ہے، محمود آباد میں سیکڑوں پورشن پہلے ہی بنائے جا چکے ہیں جن کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی ہے۔
سندھ حکومت کے بارے میں اگر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے مزید بڑھا رہی ہے تو یہ بات بالکل درست معلوم ہوتی ہے۔ اس نے کراچی کے بلدیاتی نظام کو نئے نئے قوانین نافذ کرکے بالکل مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ حال ہی میں سندھ اسمبلی میں ایک نیا بلدیاتی بل پاس کیا گیا ہے جس سے بلدیاتی نظام کا گلا ہی گھونٹ دیا گیا ہے۔ بلدیہ کے نوے فیصد شعبوں کو حکومت سندھ نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔
میئر کے اختیارات کو اتنا محدود کردیا ہے کہ اسے صرف صفائی اور پانی کے محکمے دیے گئے ہیں۔ کراچی کی تمام سیاسی پارٹیاں اس متنازعہ بل کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں مگر سندھ حکومت اس کا کوئی نوٹس نہیں لے رہی ہے۔ ایسے ماحول میں اگر کراچی کے سابق میئر مصطفیٰ کمال سندھ حکومت کے خلاف مسلسل آواز اٹھا رہے ہیں اور انھوں نے کراچی کے عوام کو حقوق دلانے کے لیے سندھ حکومت کے خلاف جہاد کرنے کا اعلان کیا ہے تو اس میں وہ حق بجانب ہیں اس لیے کہ کراچی کے عوام کو ان کے حقوق سے محروم کرنا آئین پاکستان کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ان کی میئری کے دور میں کراچی کے مسائل اس لیے حل ہوئے تھے کہ انھیں بحیثیت میئر مکمل اختیارات حاصل تھے۔
دھماکے کے سلسلے میں پہلے یہ تاثر دیا گیا کہ نالے کے نیچے سے جانے والی گیس پائپ لائن کے پھٹنے کی وجہ سے بینک کی عمارت گری ہے مگر سوئی سدرن گیس کمپنی کے ترجمان نے فوراً ہی وضاحت کردی تھی کہ دھماکے کے مقام پر کوئی گیس لائن موجود نہیں ہے۔ سندھ حکومت کے سیکریٹری داخلہ کا کہنا ہے کہ یہاں نالے پر بنی تمام عمارتیں غیر قانونی طریقے سے بنائی گئی ہیں۔
انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ نالے پر یہ غیر قانونی عمارات تعمیر کرنے کی اجازت کس نے دی ظاہر ہے کہ یہ کام حکومت سندھ کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی جو پہلے کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کہلاتی تھی حکومت سندھ کا ایک اہم ادارہ ہے۔ کیا یہ عمارت اس ادارے سے نقشہ پاس کرائے بغیر ہی تعمیر کرلی گئی تھی؟ لگتا ہے ایسا ہی ہوا ہوگا، تو پھر انکروچمنٹ کو ختم کرنے والا ادارہ بھی موجود ہے۔
اس نے ان عمارات کی تعمیر کو کیوں نہیں روکا؟ بہرحال ایسی غیر قانونی عمارات کی تعمیر نے سندھ حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ یہ عمارات تو ظاہر ہے کہ کئی سال قبل تعمیر ہوئی ہوں گی مگر یہاں تو اب بھی ناجائز عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کی مثال نسلہ ٹاور اور تجوری پراجیکٹس کی تعمیر سے دی جا سکتی ہے۔
جنھیں سراسر غیر رہائشی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے۔ ان کی تعمیر کی ساری ذمے داری سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پر عائد ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں پراجیکٹس کی تعمیر میں مدد کرنے والے اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے اور متاثرین کو پورا پورا معاوضہ ملنا چاہیے۔
جہاں تک کراچی میں نالوں پر بنائی گئیں عمارات کا معاملہ ہے یہ بہت سنگین ہے۔ شیرشاہ کے نالے پر قائم بینک کی برانچ کی تباہی سے مجاز اداروں کو سبق لینا چاہیے مگر ہمارے ہاں سبق لینے والی بات صرف زبانی جمع خرچ تک ہی محدود ہوتی ہے۔ تحریک انصاف کراچی کے صدر خرم شیر زمان کا کہنا ہے کہ سندھ میں انسانی جانوں کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کے ایم سی کو رفاہی پلاٹس، سرکاری زمینوں اور کھیل کے میدانوں سمیت نالوں پر تجاوزات کے خاتمے کے لیے واضح احکامات دیے ہوئے ہیں۔
اس وقت بھی کراچی میں 70 فیصد نالوں پر تجاوزات قائم ہیں مگر سندھ حکومت کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ غیر قانونی تعمیرات کے سلسلے میں سندھ ہائی کورٹ میں ایک حیران کن انکشاف ہوا ہے۔ گزشتہ پیر کو لیاری میں غیر قانونی تعمیرات میں ملوث بلڈرز عدالت میں پیش ہوئے۔ معزز جج صاحب کے ایک سوال کے جواب میں بلڈرز کی جانب سے بتایا گیا کہ لیاری میں سب نے ایسے ہی گھر بنا لیے ہیں۔ کسی بھی عمارت کی تعمیر کے لیے وہاں نقشہ پاس کرانا ضروری نہیں ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ وہاں تمام عمارتیں غیر قانونی طور پر بنائی گئی ہیں۔ ایسے حالات میں سندھ حکومت کی کارکردگی سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے۔
شہر میں مکانوں کا نقشہ پاس کرنے والا محکمہ کیا کر رہا ہے؟ کراچی میں چند سال قبل لیاقت آباد اور گولی مار کے علاقوں میں کئی عمارات جو پانچ اور چھ منزلہ بنائی گئی تھیں اچانک زمین بوس ہوگئیں جن میں دب کر وہاں رہائش پذیر کئی کئی خاندان پورے کے پورے جاں بحق ہوگئے تھے وہاں اکثر 60 اور 80 گز کے پلاٹس ہیں جن پر پانچ اور چھ منزلہ عمارات کیسے تعمیر ہوگئیں۔ اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی یا کے ایم سی اپنی ذمے داریاں ادا کرنے کے بجائے غیر قانونی عمارات کے بلڈرز کی ہمت افزائی کر رہے ہیں اور ان سے ملی بھگت کے نتیجے میں ایسی غیر قانونی عمارات پہلے بھی تعمیر ہو چکی ہیں اور اب بھی تعمیر ہو رہی ہیں
۔ اس وقت ان علاقوں میں جو کئی کئی منزلہ عمارتیں موجود ہیں وہ اس حد تک خطرناک ہو چکی ہیں کہ کسی بھی وقت منہدم ہو سکتی ہیں مگر مجاز سرکاری ادارے خاموش ہیں۔ کراچی میں چھوٹے پلاٹوں پر پورشن بنانے کا عام رواج ہے۔ سندھ ہائی کورٹ میں چل رہے محمودآباد میں ایک چھوٹے رہائشی پلاٹ پر پورشن بنانے سے متعلق مقدمے میں مالک مکان کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ وہ وہاں پورشن بنانے والا اکیلا یا پہلا فرد نہیں ہے، محمود آباد میں سیکڑوں پورشن پہلے ہی بنائے جا چکے ہیں جن کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی ہے۔
سندھ حکومت کے بارے میں اگر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے مزید بڑھا رہی ہے تو یہ بات بالکل درست معلوم ہوتی ہے۔ اس نے کراچی کے بلدیاتی نظام کو نئے نئے قوانین نافذ کرکے بالکل مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ حال ہی میں سندھ اسمبلی میں ایک نیا بلدیاتی بل پاس کیا گیا ہے جس سے بلدیاتی نظام کا گلا ہی گھونٹ دیا گیا ہے۔ بلدیہ کے نوے فیصد شعبوں کو حکومت سندھ نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔
میئر کے اختیارات کو اتنا محدود کردیا ہے کہ اسے صرف صفائی اور پانی کے محکمے دیے گئے ہیں۔ کراچی کی تمام سیاسی پارٹیاں اس متنازعہ بل کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں مگر سندھ حکومت اس کا کوئی نوٹس نہیں لے رہی ہے۔ ایسے ماحول میں اگر کراچی کے سابق میئر مصطفیٰ کمال سندھ حکومت کے خلاف مسلسل آواز اٹھا رہے ہیں اور انھوں نے کراچی کے عوام کو حقوق دلانے کے لیے سندھ حکومت کے خلاف جہاد کرنے کا اعلان کیا ہے تو اس میں وہ حق بجانب ہیں اس لیے کہ کراچی کے عوام کو ان کے حقوق سے محروم کرنا آئین پاکستان کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ان کی میئری کے دور میں کراچی کے مسائل اس لیے حل ہوئے تھے کہ انھیں بحیثیت میئر مکمل اختیارات حاصل تھے۔