بلوچ وومن
ویسے تو ہم ملک کی ساری خواتین کے حالات سے باخبر رہنا چاہتے ہیں
ISLAMABAD:
میرا جامۂ حیات اور آپ کی شمشیر کی برہنگی۔ ویسے تو ہم ملک کی ساری خواتین کے حالات سے باخبر رہنا چاہتے ہیں لیکن کراچی سے تعلق رکھنے کی وجہ سے بلوچوں سے ہماری جان پہچان لیاری کی وجہ سے زیادہ ہوئی۔
جب ہم روزنامہ مساوات میں کام کرتے تھے تو اپنے کولیگ نادر شاہ عادل کے ساتھ جا کے لیاری کی خواتین پر ایک فیچر بھی بنایا تھا۔ تب پیپلز پارٹی لیاری کی مقبول ترین پارٹی تھی اور خواتین کی بڑی تعداد پارٹی کے لیے کام کرتی تھی۔
نادر شاہ عادل کی بلوچ والدہ لیاری کی مشہور شاعرہ تھیں۔نام تو ان کا سیدہ ناز بی بی تھا مگر بانل دشتیاری کے تخلص سے مشہور تھیں،اسکول کبھی نہیں گئیں،گھر پر ہی تعلیم حاصل کی۔شاہ جو رسالو، دیوان غالب کے علاوہ گل خان نصیر، اور ماہر لسانیات سید ظہور شاہ ہاشمی کو پڑھا۔سید فصیح اقبال کے بلوچی رسالے کے لیے لکھا کرتی تھیں۔
اسی رسالے میں بچوں کے لیے بلو کپوت کے نام سے کہانیاں لکھیں۔ ایک مرتبہ انھوں نے اپنے شوہر اسرار عارفی کو بلوچی میں لکھا ہوا ایک گیت سنایا تو انھوں نے گلوکار محمد جاڑک کو بھجوایا،یہ گیت'' حاترا تء گا دلے دردان دلا داران، غگووں غماں دلگوشا نوں مان چہ کجا نارا'' بہت مقبول ہوا لیکن لوگ سمجھے کہ نادر شاہ عادل نے لکھا ہے۔ان کی والدہ کبھی گھر سے باہر نہیں نکلیں لیکن ان کے پاس بے شمار لوگ آتے تھے۔
ریسرچرز بھی اور اپنے مسائل سنانے اور ان سے دم درود کرانے والی عورتیں بھی۔صبا دشتیاری سے بھی گفتگو رہتی تھی۔پروفیسر صبا دشتیاری تو ان کے شاگرد حقیقی تھے، ان کی بلوچی زبان ،شاعری کی تربیت بانل دشتیاری نے کی تھی، مشہور دانشور اور ممتاز بلوچ شاعرعطاشاد بھی ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ایک بار عطا شاد سے کسی پوچھا کہ'' بانل دشتیاری آپ کو کیا پیغام دے گئی ہے، کہنے لگے میںانھیں صرف لیاری نہیں بلکہ ام بلوچستان سمجھتا ہوں،ان کا کلام مشکل سے 60 یا 70 غزلوں پر مشتمل ہے اور میر کے کلام کی طرح '' آہ اور واہ''پر مشتمل ہے۔وہ انقلابی ذہن کی خاتون تھیں اور اپنے صحافی بیٹے سے صحافت کے معیار کے بارے میں بھی گفتگو کرتی تھیںاور لڑکیوں کو خرد افروزی کی طرف لے جاتی تھیں۔
انھیں صداقت کا پرچم سر بلند رکھنے کی تلقین کرتی تھیں۔محلے کے بچوں کے لیے انھوں نے گھر میں مدرسہ کھولا ہوا تھا لیکن وہ ایک لبرل مدرسہ تھا۔وہ لڑکیوں کو شاہ کی کافیاں پڑھاتی تھیں اور انھیں مطالعے کی اہمیت کا احساس دلاتی تھیں۔وہ سمجھتی تھیں کہ سماجی صورتحال کو بدلنے کے لیے تعلیم ضروری ہے۔لیاری میں منشیات عام ہیں، منشیات فروش اور منشیات کی عادی عورتیں بھی ان کے پاس آتی تھیں اور وہ انھیں سمجھاتی تھیں۔ان کے ایک بلوچی شعر کا ترجمہ کچھ یوں ہے ''میں نے اپنا جامہ حیات آپ کی نذر کر دیا،کیونکہ مجھ سے آپ کی شمشیر کی برہنگی دیکھی نہیں گئی۔
مجھے بلوچ خواتین کے بارے میں لکھنے کا خیال اس لیے آیا کہ آج کریمہ بلوچ کی پہلی برسی ہے اور صبح ان کی ایک دوست نور مریم نے فیس بک پر ایک نظم ڈالی تھی '' محبت ہی کی گرمی ہے جو کبھی ولولہ کبھی آتش بن کے تمہارے خون میں جھلکتی ہے۔تمہاری آنکھوں سے جھلکتی ہے،تب کریمہ نہ جھکنے والی، نہ ڈرنے والی للکار بن جاتی ہے اور اپنے سامنے آنے والی ہر یلغار کو دھتکار دیتی ہے۔
2016 میں بی بی سی نے کریمہ کو دنیا کی سو(100) سب سے زیادہ با اثر عورتوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔وہ 2015 سے کینیڈا میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہی تھی۔ 2020 دسمبر میں ہمیں اس کی موت کی خبر ملی۔اس کی برسی کے موقع پر ہم نے بلوچستان کی تاریخ میں عورتوں کے کردار کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ بہت سی بلوچ عورتوں نے جنگوں میں حصہ لیا، بٹالینوں کی قیادت کی۔مائی چھاگلی نے تو لسبیلہ پر حکومت کی۔ دور کیوں جائیں حالیہ گوادر دھرنے میں عورتوں نے بھرپور شرکت کی اور ایک ستر سالہ بوڑھی عورت نے اس عرصے میں دھرنے کے شرکا کے لیے کھانا فراہم کرنے کی ذمے داری نبھائی،بلوچوں کی تاریخ اس طرح کی خواتین کے تذکروں سے بھری ہوئی ہے۔
ان میں سے ایک گل بی بی بھی تھی جس نے جنرل ڈائر سے مذاکرات کر کے اپنے شوہر اور دیگر قیدیوں کو رہا کرایا تھا۔اس سنہری تاریخ کے باوجود آج بھی بلوچ عورت گھریلو تشدد اور کاروکاری کا نشانہ بنتی ہے۔بلوچ عورت کو تعلیم اور صحت کی سہولتیں ، سیاست میں شراکت اور اقتصادی طور پر خود مختار بنانا ضروری ہے۔آج کل بلوچ عورتوں کے لیے ایک اور جدوجہد اور ایک اور جنگ کا آغاز ہو چکا ہے،وہ ہے اپنے گمشدہ بیٹوں، باپوں، بھائیوں اور شوہروں کی تلاش جو اغوا ہو جاتے ہیں یا غائب کر دیے جاتے ہیں اور یہ عورتیں انھیں ڈھونڈتی پھرتی ہیں۔سول سوسائٹی کا مطالبہ ہے کہ ان لوگوں کو بازیاب کیا جائے اور اگر انھوں نے کوئی جرم کیا ہے تو عدالت میں پیش کر کے آئین اور قانون کے مطابق سزا دی جائے۔بانل دشتیاری کے چند مقبول اشعار حسب ذیل ہیں۔
منی حاکے مکان جستا منی دوست
غمان گرانینان دل درشتان منی دوست
......
مردم رنگ گون چماں کدی گندگ بوتگ
دیم در دیم کہچیرنت نقابانی تہا
......
ظالم ،رہزن ،زدیں پلدار
یم و زرمب و گوز وسیاہ مار گرک ،گورپٹو ، گژنگیں ہپتارنگیں
......
اوھے مے قوم و واجہ و سردار
عبرت انگیز یا اولی االا بصاع
......
من مہر راہا نہ چارت کدی بلبلند نہ پست
وسوں من جہد کتگ ہو بلے کہ دست نہ رست
مننی اے جہد ففایانی شر تو قیمت بست
بہار عمر گرامی بہ جستجو بہ گزشت