NEW DELHI:
خوشبووٴں کی شاعرہ پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے 27 برس بیت گئے، مگر ان کی شاعری آج بھی خوشبو کی طرح کو بہ کو پھیلتی محسوس ہوتی ہے۔
نامور شاعرہ کی زندگی اور شاعری پر ایک نظر
محبتوں اور خوشبوؤں کی شاعرہ پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے 27 سال بیت گئے ہیں لیکن اردو زبان و ادب سے محبت کرنے والے آج بھی انہیں نہیں بھولے۔
انکی شاعری کی خوشبو نے کئی عشروں بعد بھی گلشن ادب کو مہکا رکھا ہے۔ اردو ادب کے منفرد لہجے کی حامل پروین شاکر 24 نومبر 1952 کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔
انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری لینے کے بعد انہوں نے سی سی ایس کیا اور اعلیٰ عہدے پر فائز رہیں، انہوں نے کچھ عرصہ جامعہ کراچی میں تدریس کے فرائض بھی سر انجام دئیے۔
پروین شاکر کی شاعری اردو ادب میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا تھا ان کی منفرد شاعری کا موضوع عورت اور محبت رہا، ان کے مجموعہ کلام میں 'خوشبو'، 'صد برگ'، 'خود کلامی'، 'انکار' اور 'ماہ تمام' قابل ذکر ہیں۔
منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی بنیاد پر بہت کم عرصے میں انہوں نے اندرون اور بیرون ملک بے پناہ شہرت حاصل کرلی تھی، انہیں پرائڈ آف پرفارمنس اور آدم جی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔
اردوادب کومہکانے اور ادبی محفلوں میں اشعار کی خوشبو بکھیرنے والی پروین شاکر 26 دسمبر 1994 کو اسلام آباد میں ایک ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوگئیں۔ وفاقی دارالحکومت کے سکیٹر ایچ ایٹ میں پروین شاکرکی آخری آ رامگاہ پہ شائقین ادب بڑی تعداد میں آکر انہیں سلامی پیش کرتے ہیں۔
یاد کیا آئیں گے وہ لوگ جو آئے نہ گئے
کیا پذیرائی ہو اُن کی جو بُلائے نہ گئے
اب وہ نیندوں کا اُجڑنا تو نہیں دیکھیں گئے
وہی اچھّے تھے جنھیں خواب دکھائے نہ گئے
رات بھر میں نے کھُلی آنکھوں سے سپنا دیکھا
رنگ وہ پھیلے کہ نیندوں سے چُرائے نہ گئے
بارشیں رقص میں تھیں اور زمیں ساکت تھی
عام تھا فیض مگر رنگ کمائے نہ گئے
پَر سمیٹے ہوئے شاخوں میں پرندے آ کر
ایسے سوئے کہ ہَوا سے بھی جگائے نہ گئے
تیز بارش ہو ، گھنا پیڑ ہو ، اِک لڑکی ہو
ایسے منظر کبھی شہروں میں تو پائے نہ گئے
روشنی آنکھ نے پی اور سرِ مژگانِ خیال
چاند وہ چمکے کہ سُورج سے بجھائے نہ گئے