کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
اسلام آباد میں قائم نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سانپ کے زہر کے خلاف ویکسین کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔
ISLAMABAD:
ہماری دنیا میں بے شمار جانور موجود ہیں۔ ان میں بعض انسانوں کی خوراک کا ذریعہ ہیں اور بعض دیگر کاموں کے لیے استعمال میں آتے ہیں لیکن ان جانوروں میں بھی دو اقسام ہیں، ایک خونخوار اور دوسری قسم رینگنے والے جانوروں کی ہے جس میں سانپ سب سے خطرناک اور ہلاکت خیز ہیں۔ بچھو بھی اسی قبیل کا ایک رینگنے والا جانور ہے، کاٹتے تو دونوں ہی ہیں لیکن اس کی نوعیت میں نمایاں فرق ہے۔
کہاوت مشہور ہے کہ بچھو کا کاٹا روئے اور سانپ کا کاٹا سوئے۔ سانپ کو سنسکرت زبان میں '' سَرپ '' اور فارسی میں ''مار'' کہا جاتا ہے۔ '' مارے آستین '' کی اصطلاح بھی فارسی سے ہی مستعار ہے جس کا سلیس اردو ترجمہ ہے ''آستین کا سانپ'' جس سے مراد وہ خطرناک انسان ہے جو آپ کی جان کا دشمن ہے لیکن اس کی اصلیت ظاہر نہیں ہے۔
سانپ کا خیال آتے ہی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن اشرف المخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے اتنی ذہانت عطا فرمائی ہے کہ وہ سانپ کو پکڑکر اس سے روزی کماتا ہے بلکہ بعض ممالک میں تو اسے مزے سے کھا بھی لیتا ہے۔ ہمیں اپنے بچپن کا زمانہ یاد آتا ہے کہ جب ہمارے بزرگ ہمیں رات کے وقت سانپ کا نام تک لینے سے منع کرتے تھے اور یہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ سانپ کا نام مت لو بلکہ صرف رسی کہنے پر اکتفا کرو۔
ہندو مت کے ماننے والے سانپ سے گہری عقیدت رکھتے ہیں کیونکہ یہ ان کے بڑے دیوتا شوجی مہاراج کے گلے کا ہار مانا جاتا ہے۔ اس کے بالکل برعکس دین اسلام کی ہدایت کے مطابق سانپ کو دیکھتے ہی ہلاک کر دینا ایک کار ثواب ہے۔ بعض سانپ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا ڈسا ہوا انسان زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتا ہے۔ کہاوت مشہور ہے کہ جتنے میں عراق سے تریاق آئے گا، سانپ کا کاٹا ہوا مر جائے گا مطلب یہ ہے کہ سانپ کے کاٹے ہوئے کا علاج بلا تاخیر فوراً کیا جانا ضروری ہے۔
لیکن ہمارے ملک میں سانپ کے کاٹے کی دوا کا بروقت میسر آنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ سانپ اتنا خطرناک موذی جانور ہے کہ جس کا کوئی ثانی نہیں۔ سانپ کے بارے میں مشہور ہے کہ اسے خواہ کتنا بھی دودھ پلا لیجیے لیکن یہ اپنا زہر ہرگز ترک نہیں کرتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بدخو انسان سے آپ خواہ کتنا بھی اچھا سلوک کرلیں وہ آپ کو گزند پہنچانے سے کبھی باز نہیں آئے گا۔
پاکستان میں ایسے شہریوں کی سالانہ تعداد تقریباً پینتیس ہزار بنتی ہے، جنھیں کوئی نہ کوئی سانپ کاٹ لیتا ہے۔ ان میں سے ہزاروں سانپ کے زہر کے خلاف ویکسین بروقت دستیاب نہ ہونے کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں ہر سال لگ بھگ 55 لاکھ افراد کو مختلف مقامات پر سانپ ڈستے ہیں۔ ان میں سے 2.7 ملین افراد کو زہریلے سانپ ڈستے ہیں، جن میں سے کئی ہلاک ہو جاتے ہیں تو کچھ کو معذوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ماہرین حیوانات کے مطابق دنیا بھر میں سانپوں کی مجموعی طور پر 2800 اقسام پائی جاتی ہیں، جن میں سے صرف 280 اقسام کے جانور زہریلے ہوتے ہیں۔ انٹارکٹیکا کے علاوہ ، دنیا کے کونے کونے میں سانپ پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ، اس گروپ کا ایک بھی رینگنے والا جانور آئر لینڈ ، آئس لینڈ اور نیوزی لینڈ (انٹارکٹیکا کے بارے میں حقائق) میں نہیں ہے۔ پاکستان میں پائے جائے والے 73 اقسام کے سانپوں میں سے صرف آٹھ زہریلے ہوتے ہیں۔ جن میں سے چار سنگچور، کھیپرا، لنڈی یا جلیبی، کوبرا یا ناگ اور کرا پاکستان بھر میں پائے جاتے ہیں جب کہ باقی کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
زہریلے سانپ شکار کے دوران شکار کو مارنے کے لیے بنیادی طور پر زہر کا استعمال کرتے ہیں ، نہ کہ اپنے دفاع کے لیے۔ بارباڈوس جزیرے پر زمین پر سب سے کم سانپ رہتے ہیں۔ سانپوں کی ٹانگیں ، کندھے ، سینے ، کان ، لیمف نوڈس ، مثانے اور پلکیں نہیں ہوتی ہیں جو بند ہوجاتے ہیں اور کھل جاتے ہیں۔ وہ آنکھیں کھول کر سوتے ہیں۔ چونکہ سانپوں کے ہاتھ پیر نہیں ہوتے اور وہ رینگ کر آگے بڑھتے ہیں اس لیے ان کو اتنی مضبوط کھال کی ضرورت ہے جو زمین پر مسلسل رگڑے جانے کے باوجود خراب نہ ہو۔
سانپوں کے دانت ساری زندگی بڑھتے ہیں۔ شیڈنگ بھی زندگی بھر ہوتی ہے۔ کچھ سانپ مکمل محسوس نہیں کرسکتے ہیں، لہٰذا وہ زیادہ کھانے سے ہلاک ہوسکتے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کے لیے ، سانپ حقیقی خوف کا باعث ہیں۔ یہ اس حقیقت کی وجہ سے ہے کہ بہت ساری نسلیں زہریلی ہیں اور انسانی جان اور صحت کے لیے خطرہ ہیں، لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ مفید ہیں، کیونکہ ایسی دواؤں کو بنانے کے لیے بہت سی قسم کا زہر استعمال ہوتا ہے جس سے کسی کی جان بچ جاتی ہے۔
سانپ اور دیگر رینگنے والے جانور انسانوں سے دور بھاگتے ہیں۔ سانپ کو اگر یہ محسوس ہوگا کہ اسے نقصان پہنچ سکتا ہے تو وہ اپنے دفاع میں حملہ کرتا ہے۔ سانپ سے بچاؤ کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اسے بالکل بھی نہ چھیڑا جائے۔ اگر راہ چلتے یا کسی بھی مقام پر سانپ دیکھیں تو کسی قسم کے خوف اور ردعمل کا اظہار نہ کریں اسے اس کے راستے پر جانے دیں وہ کبھی بھی پلٹ کر حملہ نہیں کرے گا۔ سانپوں کی مرغوب غذا چوہے ہیں۔
یہ چوہوں کی تعداد کو کنٹرول میں رکھتے ہیں اور زرعی زمین کو چوہوں کی جانب سے پہنچنے والے نقصان سے بچاتے ہیں۔ مشرق بعید میں سانپوں کی نشوونما کے لیے فارم بنائے گئے تھے جہاں کم زہریلے سانپ پالے جاتے ہیں اور پھر انھیں کھیتوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ چوہے فصلوں اور زمین کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ اکثر سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے لیے انھیں مشینوں پر لگے بیلٹ پر رکھا جاتا ہے جو مسلسل گھومتا رہتا ہے۔ اگر اس بیلٹ کو ایسے مواد سے تیار کیا جائے جس میں سانپ کی کھال جیسی خاصیت ہو تو آلودگی پھیلانے والے تیل کے زیادہ استعمال سے بچا جا سکتا ہے۔
سانپ کے کاٹے کے علاج کے لیے تریاق یا دوائی اسی سانپ کے زہر سے بنائی جاتی ہے۔ کسی بھی تریاق کی تیاری کا عمل خاصا طویل اور انتہائی پیچیدہ ہوتا ہے۔ طبی زبان میں سانپ کے زہر کے خلاف ایسی ادویات کو اینٹی وینم کہا جاتا ہے۔ ان کی تیاری کے لیے ماہرین ''معاون'' جانوروں کے طور پر زیادہ تر بھیڑوں یا گھوڑوں پر انحصار کرتے ہیں، جنھیں ڈونرز کہا جاتا ہے۔ ان ڈونرز کو ماہرین پہلے ایک یا ایک سے زیادہ قسموں کے سانپوں کا زہر دیتے ہیں اور پھر ان کی مدد سے تیار کی جانے والی اینٹی وینم ادویات مختلف زہریلے سانپوں کے کاٹنے سے بیمار ہو جانے والے افراد کے علاج کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
اپنے اثرات میں یہ تریاق اتنے اعلیٰ معیار کا ہوتا ہے کہ ایک بین الاقوامی طبی جریدے نے حال ہی میں اسے سراہتے ہوئے لکھا کہ یہ اپنے نتائج میں پاکستان کے ہمسایہ ملک بھارت میں بنائے گئے اینٹی وینم سے کہیں بہتر ہے۔ پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سانپ کے زہر کے خلاف ویکسین کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔
اب سنیے نثار خان کی بپتا جسے سانپ نے تین جگہ سے ڈسا تھا۔ اس بیچارے کی جان تو بچ گئی لیکن زندگی اجیرن ہو گئی اور یوں یہ بیچارہ زندہ درگور ہوگیا۔ سانپ کے کاٹنے کی وجہ سے اس کا جسم ناکارہ ہوگیا اور آنکھوں کی بینائی بھی تیزی سے کمزور ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ یہ ذیابیطس کا بھی مریض ہے اور اب سرطان کی علامات بھی ظاہر ہو رہی ہیں۔
میاں بیوی کے علاوہ یہ بدقسمت خاندان میں چھ بچے بھی شامل ہیں جب کہ علاج معالجہ کے اخراجات بھی وہ تقریباً چار ہزار روپے فی ہفتہ کے لگ بھگ ہیں۔ ستم بالائے ستم اس کا نہ کوئی رشتہ دار ہے اور نہ کوئی یارو مددگار۔ اس بیچارے کا واحد سہارا اللہ کے سوا کوئی نہیں۔ مخیر اور درد مند افراد سے اپیل ہے کہ انسانیت کے ناتے اس بے سہارا کی مدد فرمائیں اور ثواب دارین حاصل کریں۔ کرو مہربانی تم اہل زمیں پر خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر!