عکسِ خوشبو
2014 سے اس میں فکشن اور 2016 سے ممبرز چوائس ایوارڈ کا اجرا بھی کیا گیا ہے۔
لاہور:
اگرچہ یہ بات سولہ آنے سچ ہے کہ پروین شاکر کو ہم سے بچھڑے 27برس ہوگئے ہیں مگر یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ وہ اپنے دوستوں ، رفیقانِ ادبی سفر اور بے حد و حساب سخن فہم خواتین وحضرات کے دلوں میں آج بھی زندہ ہے۔
1995 سے لے کر اب تک ہر برس اُس کے یومِ وفات کے حوالے سے پروین شاکر ٹرسٹ ایک بے حد منظم ، مرتب اور باوقار اندازمیں ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کرتا ہے جس میں اُس سال چھپنے والے نمبر میں بہترین شعر ی مجموعے پر ''عکسِ خوشبو'' ایوارڈ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
2014 سے اس میں فکشن اور 2016 سے ممبرز چوائس ایوارڈ کا اجرا بھی کیا گیا ہے۔ ٹرسٹ کی چیئر پرسن محترمہ پروین قادر آغا کی نگرانی اور ان کے ٹرسٹی رفقا کے تعاون اور محنت سے ہر برس یہ تقریب پچھلے ایوارڈ سے زیادہ بہتر اندازمیں منعقد کی جاتی ہے جس کا سب سے زیادہ کریڈٹ مشہور افسانہ نگار اور ادبی شخصیت مظہر الاسلام کے سر ہے کہ جس کا حُسنِ ذوق نہ صرف اپنی مثال آپ ہے بلکہ ہر برس وہ اس کا مظاہرہ ایسی خوبصورتی سے کرتا ہے کہ اُس کی طباعی اور پیش کردہ کمالات کی داد واجب ہوجاتی ہے۔
28دسمبر کو اسلام آبادمیں منعقد ہونے والے ایوارڈز فنکشن میں بروشر سے لے کر پورے پروگرام کی ترتیب اور ایوارڈ کے بہت مختلف انداز کے ڈیزائن میں اُس کی تخلیقی صلاحیتیں پورے عروج پر نظر آئیں۔ ٹرسٹ کی چیئرپرسن پروین قادر آغا ، سیکریٹری رعنا سیرت اور انتظامی کمیٹی جس محبت ، محنت اور سلیقے سے اس تقریب کا اہتمام کرتی ہے بلاشبہ وہ پروین شاکر کے شایانِ شان ہے اور یقیناً اس کی رُوح اس سے خوش ہوتی ہوگی۔
گزشتہ برس کووڈ کی وجہ سے اس تقریب کو موخر کردیا گیا تھا یوں اس بار کے ایوارڈز میں 2019کے فاتحین کو بھی شامل کر لیا گیا تھا لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی کہ اس بار نہ صرف ٹرسٹ کی طرف سے ''حُسنِ فن'' کے نام سے ایک خصوصی ایوارڈ کا اضافہ کیا گیا بلکہ کئی ایسے ایوارڈ بھی تقسیم کیے گئے جو بعض معتبر اور ادب دوست افراد نے اپنے کسی عزیز کے نام سے جاری کیے ہیں۔
جیسے ہمارے محترم رضا ربانی نے اپنے والد محترم کے نام سے ''میاں عطاربانی'' ایوارڈ کو سپانسر کیا جس کا عنوان ''سدا بہار کتاب2020'' تھا اور جس کی حق دار ہم سب کے اہم اور مقبول فِکشن رائٹر مستنصر حسین تارڑ کی مشہورِ زمانہ کتاب ''خس و خاشاک زمانے'' ٹھہری، اسی طرح ''منیر ادبی ایوارڈ'' ترکی کے پروفیسر ڈاکٹر داؤد شہباز کو مظہر الاسلام کے بیس افسانوں کے ترکی تراجم پر مشتمل کتاب کے حوالے سے اُن کی خدمت میں پیش کیا گیا جب کہ یونس سیٹھی وفا ادبی ایوارڈ کے نام سے عہد ساز ڈرامہ نگار اور ادبی نقّاد اصغر ندیم سیّد سلطان محمود قاضی ایوارڈ ،عمدہ فِکشن رائٹر طاہرہ اقبال، شیخ عبدالقادر ایوارڈ باکمال شاعر شاہین عباس، بیگم سرفراز اقبال ایوارڈ ڈاکٹر شاہدہ اسرار اور ڈاکٹر محمد امین(ہائکو فیم) اور سنگِ میل پبلی کیشنز کی طرف سے جاری کردہ ایوارڈ سعید احمد کو نیاز احمد ادبی ایوارڈ کے نام سے پیش کیا گیا۔
جہاں تک ٹرسٹ کے اپنے یعنی ''عکسِ خوشبو'' ایوارڈز کا تعلق ہے تو یہ شعیب خالق کو اُن کی کتاب ''چھتری نما کہانیاں''، شازیہ اکبر کو اُن کے شعری مجموعے''چاک پر رہنے دو مجھ کو''اور عزیزی رحمن فارس کو اُس کے اولین شعری مجموعے ''عشق بخیر''پر ملاجب کہ فکشن میں یہ ایوارڈ محمد جمیل اختر کی کتاب ''ہندسوں میں بٹی زندگی'' اورممبرز چوائس ایوارڈ کینیڈا میں مقیم شاعر اسد نصیر کی کتاب ''مجھے تم سے محبت ہے'' کے حصے میں آیا۔''حُسنِ فن'' ایوارڈ چونکہ خود مجھے دیا گیا ہے اس لیے میں اس کا ذکر سب سے آخر میں کر رہا ہوں اور اس تجویز کے ساتھ کہ اگلے برس اس فہرست میں شاعر اور فکشن رائٹر دونوں کو شامل کر لیا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔
کورونا سے صحت یابی کے بعد یہ میرا لاہور سے باہر پہلا سفر تھا ایک تو یہ کم بخت وائرس ہے ہی بڑا زہریلا اور پھر میری عمر کے لوگوں کو تو یہ کم کم ہی معاف کرتا ہے لیکن معافی کے بعد بھی یہ اپنی یادیں اتنی گہری چھوڑ جاتا ہے کہ انسانی بدن کو انھیں بھلانے کے لیے کئی کئی مہینے کمزوری کے عفریت سے لڑنا پڑتا ہے، مختلف حوالوں سے مجھے کئی بار اسٹیج پر چڑھنا اُترنا پڑا جس کی وجہ سے تھکن اس قدر غالب آگئی کہ مجبوراً مجھے لنچ کے بعد کے لیے معذرت کرنا پڑی کہ ساڑھے نو سے اڑھائی بجے تک کے پانچ گھنٹوں کے بعد ٹانگیں اور ہمت دونوں بہت مشکل میں آچکے تھے۔
دو تین برس قبل ٹورانٹومیں پروین کے بیٹے مراد عرف گیتو سے ملاقات ہوئی تو اُس کی کامیابیاں دیکھ کر ایک بار پھر میرے دل سے پروین قادر آغا کے لیے دُعا نکلی کہ انھوں نے اسی ٹرسٹ کی معرفت ہمارے اس پیارے بھانجے کو زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے کے قابل بنایا اور پروین شاکر سے اپنے نام کی مناسبت سے قطعِ نظر ایک ماں کی طرح اُس کی تربیت کی۔ پروگرام کے شروع میں اپنے خطاب کے دوران انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اب ماشا ء اللہ مراد خود اس ٹرسٹ کے لیے بہت معقول مالی معاونت کرتا ہے۔
ملاقات کے دوران اس نے مجھے یاد دلایا کہ جب وہ چھ سات برس کا تھا تو میں نے اُسے زبردستی چائنیز سُوپ پلوایا تھا اور پھر بہت پیار اور لاڈ سے بولا کہ اب میں جب بھی پاکستان آؤں گا آپ مجھے ضرور اُس ہوٹل میں لے کر جانا وہاں ہم مل کر اُس کی ماں پروین شاکر کے بارے میں اس طرح باتیں کریں گے جیسے وہ بذاتِ خود اُس محفل میں شریک ہو۔ پروین شاکر کی یاد کو زندہ رکھنے میں اس ٹرسٹ کی خدمات ہم سب کے لیے ایک خوبصورت پیغام بھی ہے کہ اپنے بچھڑ جانے والے پیاروںکو یاد رکھنے اور یاد کرنے سے دنیا کے بوجھ کی ماری ہوئی روح کھل کر رو لینے کے بعد والی آنکھوں کی طرح شفاف اور ہلکی ہوجاتی ہے یقین نہ آئے تو تجربہ کرکے دیکھ لیجیے۔
اگرچہ یہ بات سولہ آنے سچ ہے کہ پروین شاکر کو ہم سے بچھڑے 27برس ہوگئے ہیں مگر یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ وہ اپنے دوستوں ، رفیقانِ ادبی سفر اور بے حد و حساب سخن فہم خواتین وحضرات کے دلوں میں آج بھی زندہ ہے۔
1995 سے لے کر اب تک ہر برس اُس کے یومِ وفات کے حوالے سے پروین شاکر ٹرسٹ ایک بے حد منظم ، مرتب اور باوقار اندازمیں ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کرتا ہے جس میں اُس سال چھپنے والے نمبر میں بہترین شعر ی مجموعے پر ''عکسِ خوشبو'' ایوارڈ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
2014 سے اس میں فکشن اور 2016 سے ممبرز چوائس ایوارڈ کا اجرا بھی کیا گیا ہے۔ ٹرسٹ کی چیئر پرسن محترمہ پروین قادر آغا کی نگرانی اور ان کے ٹرسٹی رفقا کے تعاون اور محنت سے ہر برس یہ تقریب پچھلے ایوارڈ سے زیادہ بہتر اندازمیں منعقد کی جاتی ہے جس کا سب سے زیادہ کریڈٹ مشہور افسانہ نگار اور ادبی شخصیت مظہر الاسلام کے سر ہے کہ جس کا حُسنِ ذوق نہ صرف اپنی مثال آپ ہے بلکہ ہر برس وہ اس کا مظاہرہ ایسی خوبصورتی سے کرتا ہے کہ اُس کی طباعی اور پیش کردہ کمالات کی داد واجب ہوجاتی ہے۔
28دسمبر کو اسلام آبادمیں منعقد ہونے والے ایوارڈز فنکشن میں بروشر سے لے کر پورے پروگرام کی ترتیب اور ایوارڈ کے بہت مختلف انداز کے ڈیزائن میں اُس کی تخلیقی صلاحیتیں پورے عروج پر نظر آئیں۔ ٹرسٹ کی چیئرپرسن پروین قادر آغا ، سیکریٹری رعنا سیرت اور انتظامی کمیٹی جس محبت ، محنت اور سلیقے سے اس تقریب کا اہتمام کرتی ہے بلاشبہ وہ پروین شاکر کے شایانِ شان ہے اور یقیناً اس کی رُوح اس سے خوش ہوتی ہوگی۔
گزشتہ برس کووڈ کی وجہ سے اس تقریب کو موخر کردیا گیا تھا یوں اس بار کے ایوارڈز میں 2019کے فاتحین کو بھی شامل کر لیا گیا تھا لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی کہ اس بار نہ صرف ٹرسٹ کی طرف سے ''حُسنِ فن'' کے نام سے ایک خصوصی ایوارڈ کا اضافہ کیا گیا بلکہ کئی ایسے ایوارڈ بھی تقسیم کیے گئے جو بعض معتبر اور ادب دوست افراد نے اپنے کسی عزیز کے نام سے جاری کیے ہیں۔
جیسے ہمارے محترم رضا ربانی نے اپنے والد محترم کے نام سے ''میاں عطاربانی'' ایوارڈ کو سپانسر کیا جس کا عنوان ''سدا بہار کتاب2020'' تھا اور جس کی حق دار ہم سب کے اہم اور مقبول فِکشن رائٹر مستنصر حسین تارڑ کی مشہورِ زمانہ کتاب ''خس و خاشاک زمانے'' ٹھہری، اسی طرح ''منیر ادبی ایوارڈ'' ترکی کے پروفیسر ڈاکٹر داؤد شہباز کو مظہر الاسلام کے بیس افسانوں کے ترکی تراجم پر مشتمل کتاب کے حوالے سے اُن کی خدمت میں پیش کیا گیا جب کہ یونس سیٹھی وفا ادبی ایوارڈ کے نام سے عہد ساز ڈرامہ نگار اور ادبی نقّاد اصغر ندیم سیّد سلطان محمود قاضی ایوارڈ ،عمدہ فِکشن رائٹر طاہرہ اقبال، شیخ عبدالقادر ایوارڈ باکمال شاعر شاہین عباس، بیگم سرفراز اقبال ایوارڈ ڈاکٹر شاہدہ اسرار اور ڈاکٹر محمد امین(ہائکو فیم) اور سنگِ میل پبلی کیشنز کی طرف سے جاری کردہ ایوارڈ سعید احمد کو نیاز احمد ادبی ایوارڈ کے نام سے پیش کیا گیا۔
جہاں تک ٹرسٹ کے اپنے یعنی ''عکسِ خوشبو'' ایوارڈز کا تعلق ہے تو یہ شعیب خالق کو اُن کی کتاب ''چھتری نما کہانیاں''، شازیہ اکبر کو اُن کے شعری مجموعے''چاک پر رہنے دو مجھ کو''اور عزیزی رحمن فارس کو اُس کے اولین شعری مجموعے ''عشق بخیر''پر ملاجب کہ فکشن میں یہ ایوارڈ محمد جمیل اختر کی کتاب ''ہندسوں میں بٹی زندگی'' اورممبرز چوائس ایوارڈ کینیڈا میں مقیم شاعر اسد نصیر کی کتاب ''مجھے تم سے محبت ہے'' کے حصے میں آیا۔''حُسنِ فن'' ایوارڈ چونکہ خود مجھے دیا گیا ہے اس لیے میں اس کا ذکر سب سے آخر میں کر رہا ہوں اور اس تجویز کے ساتھ کہ اگلے برس اس فہرست میں شاعر اور فکشن رائٹر دونوں کو شامل کر لیا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔
کورونا سے صحت یابی کے بعد یہ میرا لاہور سے باہر پہلا سفر تھا ایک تو یہ کم بخت وائرس ہے ہی بڑا زہریلا اور پھر میری عمر کے لوگوں کو تو یہ کم کم ہی معاف کرتا ہے لیکن معافی کے بعد بھی یہ اپنی یادیں اتنی گہری چھوڑ جاتا ہے کہ انسانی بدن کو انھیں بھلانے کے لیے کئی کئی مہینے کمزوری کے عفریت سے لڑنا پڑتا ہے، مختلف حوالوں سے مجھے کئی بار اسٹیج پر چڑھنا اُترنا پڑا جس کی وجہ سے تھکن اس قدر غالب آگئی کہ مجبوراً مجھے لنچ کے بعد کے لیے معذرت کرنا پڑی کہ ساڑھے نو سے اڑھائی بجے تک کے پانچ گھنٹوں کے بعد ٹانگیں اور ہمت دونوں بہت مشکل میں آچکے تھے۔
دو تین برس قبل ٹورانٹومیں پروین کے بیٹے مراد عرف گیتو سے ملاقات ہوئی تو اُس کی کامیابیاں دیکھ کر ایک بار پھر میرے دل سے پروین قادر آغا کے لیے دُعا نکلی کہ انھوں نے اسی ٹرسٹ کی معرفت ہمارے اس پیارے بھانجے کو زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے کے قابل بنایا اور پروین شاکر سے اپنے نام کی مناسبت سے قطعِ نظر ایک ماں کی طرح اُس کی تربیت کی۔ پروگرام کے شروع میں اپنے خطاب کے دوران انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اب ماشا ء اللہ مراد خود اس ٹرسٹ کے لیے بہت معقول مالی معاونت کرتا ہے۔
ملاقات کے دوران اس نے مجھے یاد دلایا کہ جب وہ چھ سات برس کا تھا تو میں نے اُسے زبردستی چائنیز سُوپ پلوایا تھا اور پھر بہت پیار اور لاڈ سے بولا کہ اب میں جب بھی پاکستان آؤں گا آپ مجھے ضرور اُس ہوٹل میں لے کر جانا وہاں ہم مل کر اُس کی ماں پروین شاکر کے بارے میں اس طرح باتیں کریں گے جیسے وہ بذاتِ خود اُس محفل میں شریک ہو۔ پروین شاکر کی یاد کو زندہ رکھنے میں اس ٹرسٹ کی خدمات ہم سب کے لیے ایک خوبصورت پیغام بھی ہے کہ اپنے بچھڑ جانے والے پیاروںکو یاد رکھنے اور یاد کرنے سے دنیا کے بوجھ کی ماری ہوئی روح کھل کر رو لینے کے بعد والی آنکھوں کی طرح شفاف اور ہلکی ہوجاتی ہے یقین نہ آئے تو تجربہ کرکے دیکھ لیجیے۔