یہ وطن ہمارا ہے ہم ہیں پاسباں اِس کے

صبر اور شْکر بظاہر دو چھوٹے چھوٹے الفاظ ہیں لیکن ذرا غورکیجیے تو اِن میں معنی کا ایک بحرِ بیکاراں سمٹا ہوا ہے

S_afarooqi@yahoo.com

CANBERRA:
صبر اور شْکر بظاہر دو چھوٹے چھوٹے الفاظ ہیں لیکن ذرا غورکیجیے تو اِن میں معنی کا ایک بحرِ بیکاراں سمٹا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ناصرف ہمیں اشرف المخلوقات کا درجہ عطا فرمایا ہے بلکہ سب سے بڑا احسان یہ فرمایا ہے کہ ہمیں مسلمان گھرانے میں پیدا کرکے بن مانگے ایمان کی دولت سے نوازا ہے۔ سورہ رحمٰن پڑھتے جائیے اور خالقِ حقیقی کی بے شمار نعمتوں اور رحمتوں کی تفصیلات سے بہرور ہوتے جائیے۔

سچ پوچھیے تو صبر اور شْکر سے ہی انسان کو تسکین اور طمانیتِ قلب حاصل ہوتی ہے۔ افسوس کہ ہوسِ زر نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا نہ دین کا نہ دنیا کا ! جس کو بھی دیکھیے ، راتوں رات امیر بننے کے جنون میں مبتلا ہے۔ زر پرستی نے حلال اور حرام کی تمیز ختم کردی ہے ۔

حالت یہ ہے کہ:

نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم

نہ اِدھر کے رہے نہ اْدھر کے رہے

ربِ کریم نے ہمیں یہ زندگی ایک امانت کے طور پر عطا کی ہے جس کا مقصد فرماں برداری اور عبادت گزاری ہے لیکن ہم نے دنیا کے جھمیلوں میں گم ہوکر اِس مقصد کو ہی فراموش کردیا ہے۔ ہمارے سر پر ہوس کا ٹوکرہ رکھا ہوا ہے جسے بھرتے بھرتے ہم نڈھال ہو رہے ہیں اور یہ ٹوکرہ نہ کبھی بھرا تھا اور نہ آیندہ بھرے گا۔ ہم طمع کے اسیر ہوگئے ہیں جس نے رشتوں ناتوں کو کمزور کردیا ہے۔

ہم خود پرستی کا شکار ہو کر خدا پرستی اور خدا ترسی کو بھول بیٹھے ہیں۔ خالقِ حقیقی نے ہمیں حیوانِ ناطق بنا کر بھیجا تھا لیکن ہم نے اپنی حرکتوں سے ناصرف حیواناتِ مطلق کو بلکہ درندوں کو بھی مات کردیا۔ ہم نے اپنے کرتوتوں سے اِس جنتِ ارضی کو جہنم سے بدتر بنا ڈالا ہے۔ سرفروشی ہماری شناخت اور طرہ امتیاز تھی مگر ہم اس سے ترکِ تعلق کرکے ضمیر فروشی اور ایمان فروشی تک پر اْتر آئے،ہم ہمہ وقت طرح طرح کی پریشانیوں اور لاعلاج بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ خوفِ خدا ہمارے دلوں سے نکل چکا ہے اور ہم دینداری ترک کرکے ریاکاری میں لت پت ہو چکے ہیں۔

حالت یہ ہے کہ بقولِ اقبال:

مسجد تو بنا لی شب بھر میں ،ایماں کی حرارت والوں نے

مَن اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں نمازی بن نہ سکا

آیندہ عام انتخابات کا وقت جوں جوں قریب سے قریب تر ہوتا جارہا ہے وطنِ عزیز کے سیاسی اکھاڑے میں نت نئے پہلوان لنگر لنگوٹ کَس کر اْتر رہے ہیں۔ اِن میں پرانے شکاری بھی ہیں جو نئے جال لے کر بہروپیوں کی طرح نئے روپ دھار کر ایک بار پھر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ جہاں تک موجودہ حکمراں جماعت کا تعلق ہے تو اْس کی اب تک کی اہلیت اور کارگزاری اظہر المن الشّمس ہے۔ اْس نے بھولے بھالے عوام الناس کو کیا کیا سنہرے خواب دکھائے تھے اور اْن میں سے کتنے شرمندہ تعبیر ہوئے اورکیے ہوئے وعدوں میں سے کون سے وعدے پورے ہوئے وہ سب کے سامنے ہیں۔ لْبِ لباب یہ ہے کہ بقولِ غالب:

ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا


کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

قارئینِ کرام آپ کو یاد ہوگا کہ عین اْس وقت جب کہ چین کے صدر کا پاکستان کا تاریخ ساز دورہ ہونے والا تھا اْس وقت پی ٹی آئی کی دھرنا تحریک نقطہ عروج پر تھی۔ چینی صدرکا مجوزہ دورہ گیم چینجر ہونا تھا لیکن دھرنے کی وجہ سے یہ دورہ ملتوی کرنا پڑا جو آج تک ممکن نہیں ہوسکا۔ یوں وطنِ عزیز اِس دورہ کے ثمرات سے محروم رہ گیا۔

ملک و قوم نے عمران خان کو نجات دہندہ سمجھ کر اْن پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ کیا تھا اور بہت سی امیدیں اور توقعات وابستہ کی تھیں لیکن افسوس صد افسوس اْن میں سے کوئی بھی پوری نہیں ہوسکی بلکہ حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں۔ مہنگائی بے لگام ہے۔ ہر ادارہ زبوں حالی کا شکار ہے اور نقار خانے میں طوطی کی آواز سننے والا کوئی نہیں ہے۔

خان صاحب نے عوام سے جی ڈی پی میں اضافے کا جو وعدہ کیا تھا اْسے گیس، ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرکے پورا کردیا ہے لہٰذا ان سے گِلے شکوے کی کوئی گنجائش باقی نہیں۔ بعض سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ حکومت کے دن پورے ہو چکے اور قبل از وقت عام انتخابات کے انعقاد کے آثار دکھائی دے رہے ہیں لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ حکومت کو اس کی معیاد مکمل کرنے کا موقع دیا جائے۔

جمہوریت کا تقاضہ بھی یہی ہے اور پھر اْس کے بعد بلا تاخیر وقتِ مقررہ پر نئے انتخابات کرائے جائیں اور ایسے فول پروف انتظامات کیے جائیں کہ کسی کو بھی اْن کے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ نہ ہونے کی شکایت کی گنجائش نہ ہو۔ یاد رہے کہ الیکشن کرانا بچوں کا کھیل نہیں ہے اور اْس کے لیے کافی محنت و مشقت کے علاوہ خطیر رقم بھی درکار ہوتی ہے جو قومی خزانے پر بہت بڑا بوجھ ہے۔

الیکشن کے طریقہ کار پر حکمراں جماعت اور حزبِ اختلاف کے درمیان مدتِ دراز سے چلنے والی بحث اب ختم ہوجانی چاہیے اور از بس ضروری ہے کہ یہ طے کرلیا جائے کہ ای وی ایم کا طریقہ کار استعمال کیا جائے گا یا نہیں۔ جمہوریت کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد کے لیے پْرامن فضا اور سازگار ماحول پیدا کیا جائے ۔ کسی قسم کی غلطی کی ذرا سی بھی گنجائش باقی نہیں ہے اور وطنِ عزیز کسی ناسازگار ماحول کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ محشر بدایونی کے بقول:

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ

جس دیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا

قومی اور ملکی مفاد کا اولین تقاضہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں ذات، برادری اور لسانی مصلحتوں سے بالاتر ہوکر کشادہ دلی اور بالغ النظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عام انتخابات میں حصہ لیں اور خندہ پیشانی سے الیکشن کے نتائج کو قبول کرکے ملک کی تعمیر و ترقی کے کام میں جْت جائیں۔

حزب اختلاف کو اختلاف برائے اختلاف کا طرزِ عمل ترک کرکے مثبت اور تعمیری رویہ اختیار کرنا چاہیے ،گردو پیش کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ہم ہر طرح کی عصبیتوں اور فروعی اختلافات سے بالاتر ہوکر قومی یکجہتی کو فروغ دیں اور فرقہ واریت سے مکمل اجتناب کریں۔ ہوشیار باش! کہ مزید غلطی کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔

لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ ہم آیندہ عام انتخابات میں اِس بات کا پورا پورا خیال رکھیں کہ جس سیاسی جماعت کو ہم اپنا ووٹ دے رہے ہیں وہ ملک و قوم سے مکمل طور پر وفادار اور عوام سے مخلص بھی ہے یا نہیں۔ یاد رہے کہ آپ کا ووٹ ملک و قوم کی امانت ہے اور اِس کے استعمال میں ذرا سی بھی کوتاہی ملک و قوم سے کھْلی غداری ہے۔

یہ وطن ہمارا ہے ہم ہیں پاسباں اِس کے
Load Next Story