سائنسی انقلابات اور دنیا کی نئی شکل
2021 کے آخری مہینے کے آخری ہفتے کا آخری دن آخری سانسیں لے رہا ہے
SYDNEY:
2021 کے آخری مہینے کے آخری ہفتے کا آخری دن آخری سانسیں لے رہا ہے۔ یہ لمحات در اصل ہر دل میں چھپے سسکتے جذبوںاور ادھوری رہ جانے والی خواہشوں کے کیتھارسس کا وقت ہے۔ہر جذبہ اپنے ادھورے پن کو آخر میں یونہی ٹٹولتا ہے۔
یہ لمحات باطنی طور پر ناتمام جذبات کو آخری بار چھو لینے کی چند گھڑیاں ہیں جو اپنے تئیں نئے سال اور نئے چلن کو خوش آمدید کہنے کا حوصلہ دیتی ہیں۔میری دعا ہے کہ میرے سارے ہم وطنوں کے لیے آنے والا سال خوشیوں بھرا ہو اور ہمارے پیارے وطن کی خیر ہو۔
قائینِ کرام سال 2021 میں سائنس کے میدان میں دو بہت اہم پیش رفت ہوئی ہیں۔ صنعتی انقلاب سے شروع ہونے والی ترقی نے پچھلے سو سال میں انسانی زندگی کی کہانی میں گہرے رنگ بھر دیے ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا کہ انسانی زندگی کی کہانی ہی بدل کر رکھ دی ہے۔
آئے دن کوئی نہ کوئی نئی دریافت سامنے آ رہی ہے۔ کائنات کے حوالے سے ہماری معلومات میں ہر گزرے دن اضافہ ہو رہا ہے۔نئی معلومات کی روشنی میں ہماری بہت سی پرانی تھیوریاں ریزہ ریزہ ہو رہی ہیں۔طب کے میدان میں انسانی جسم کو جاننے اور علاج میں حیرت انگیز کامیابیاں ملی ہیں۔اسرائیل کے حیاتیاتی سائنس دانوں نے ایک ایسی تحقیق میں ابتدائی کامیابی حاصل کی ہے جو آگے چل کر انسانوں کی زندگی یکسر بدل سکتی ہے۔تل ابیب یونیورسٹی اور شامیر میڈیکل سینٹر کے اشتراک سے ایک ریسرچ پروجیکٹ پر تیزی سے کام شروع ہو چکا ہے۔
انسان کے دل میں ہمیشہ سے یہ خواہش مچلتی رہی ہے کہ کسی طرح بڑھاپے کو آنے سے روکا جا سکے۔یہ تحقیق اگر کامیاب ہو گئی تو اس سے ہر عمر کے افراد استفادہ کر سکیں گے اور وہ اپنی بڑھتی عمر کے نتیجے میں آنے والی ناپسندیدہ تبدیلیوں سے چھٹکارہ پا سکیں گے۔اس تحقیق کی ابتدا میں ایسے 35 افراد کو شامل کیا گیا جن کی عمریں 64برس سے تجاوز کر چکی تھیں اور انھیں کوئی جان لیوا بیماری لاحق نہیں تھی۔
ان 35 افراد کو 3 ماہ تک ہر ہفتے میں 5 دنوں کے لیے ایک پریشرائزڈ چیمبر میں 90منٹ رکھ کر بالکل خالص آکسیجن اس طرح دی جاتی رہی گویا کہ ان کاجسم آکسیجن میں نہا رہا ہو۔تین مہینے پر محیط اس تحقیق کی وجہ سے ان 35افراد کے اوپر بڑھتی عمر کے اثرات نہ صرف زائل ہو گئے بلکہ وہ سارے افراد 25سالہ نوجوان کی طرح نکھر گئے۔ ان کی جلد انتہائی تازہ ہو گئی اور ان کے چہرے کی جھریاں غائب ہو گئیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ خالص آکسیجن کے پریشرائزاڈ چیمبر نے Reverse Aging کو ممکن کر دکھایا۔اسرائیل کے ایک معروف روزنامے نے یہ رپورٹ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ خالص آکسیجن تھراپی سے محیرالعقول نتائج سامنے آئے ہیں۔ دراصل بڑھاپا کروموسومز Chromosomes کی دم جسے ٹیلی میر کہتے ہیں اس کے سائز کے گھٹنے اور بھر بھراپن پیدا ہونے سے آتا ہے۔
خالص آکسیجن تھراپی سے کروموسومز کا یہ آخری حصہ دوبارہ اپنی تازگی اور لمبائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ کروموسومز کا یہ حصہ اس لیے بہت اہم ہوتا ہے کیونکہ یہ کروموسومز کی حفاظت کرتا ہے اور کروموسومز اپنے آپ کو چوٹوں سے محفوظ رکھ کر Regenerateکر سکتے ہیں۔جب یہ پراسس بند ہو جاتا ہے تو کروموسومز کی Regenerationبند ہو جاتی ہے اور بڑھاپے کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔حیاتیاتی سائنس کی دنیا میں یہ ریسرچ ایک انقلاب لانے والی ہے ۔
قارئینِ کرام 25دسمبر2021کو ناسا نے یورپی خلائی ایجنسی کے اسٹیشن کورو فرنچ گی آنا سے انسانی تاریخ کی سب سے مہنگی اور جدید ترین خلائی دوربین کو مدارOrbitکی طرف روانہ کیا ۔یورپی خلائی ایجنسی کا یہ اسٹیشن جنوبی امریکا کے شمال مشرقی ساحل پر واقع ہے۔ناسا اس خلائی دوربین پر 25سال تک کام کرتا رہا اور آخرکار چند دن پہلے اسے خلا میں بھیجنے کے قابل ہو گیا۔James Webbناسا کے ایڈمسنٹریٹر رہے۔
انھوں نے ناسا کے اپالو پروگرام پر بہت کام کیا اسی لیے ان کے کام اور نام کو عزت دینے کے لیے اس دوربین کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔جیمز ویب خلائی دوربین کو بنانے میں یورپی خلائی ایجنسی اور کینیڈین خلائی ایجنسی نے ناسا کے ساتھ تعاون کیا۔ اس دوربین پر دس ارب ڈالر کی ابتدائی لاگت آئی ہے۔یہ دوربین اتنی طاقتور ہے کہ یہ زمین سے چاند پر ایک مکھی کے جسم سے پیدا ہونے والی حرارت کو بھی نوٹ کر سکتی ہے۔
جیمز ویب دوربین اب تک کی تمام خلائی دوربینوں کے مقابلے میں سب سے بڑی اور عملی لحاظ سے کارکردگی میں بے مثال ہے۔آسٹروفزکس سائنس دان اس سے بڑی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ یہ دوربین ماضی میں جھانکتے ہوئے کوئی 13ارب سال پہلے کی کائنات کو جاننے کی کوشش کرے گی کہ کائنات اس ابتدائی دور میں کیسے تشکیل پا رہی تھی، ستارے اور کہکشائیں کیسی تھیں اور اُن کے پھیلاؤ کی رفتار کیا تھی۔
دراصل اس کی اسی صلاحیت کی وجہ سے اسے ٹائم مشین کا نام دیا جا رہا ہے۔یہ ہمارے نظامِ شمسی سے دور دوسرے ستاروں کے نظاموں جنھیں EXOPLANETSکہا جاتا ہے ان کا بھی مشاہدہ کرے گی۔جیمز ویب دوربین کا مدار زمین سے 15لاکھ کلو میٹر دوری پر ہو گا۔اس دور بین کو اپنے مدار میں پہنچنے کے بعد دو انتہائی ضروری کام کر نے ہیں۔ پہلا کام یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے آئینہMirrorکو کھول سکے۔دوربین کے آئینہ کے اٹھارہ سنہری چھ طرفہ Hexagonalحصے ہیں۔ان سب کے سب اٹھارہ حصوں کو کھل کر اپنے آپ کو ایک مربوط آئینہ کی شکل دینا پہلا بنیادی کام ہو گا۔
دوسرا کام یہ ہو گا کہ وہ ایک ٹینس کورٹ کے برابر لمبائی چوڑائی والا پردہ Shieldتعینات کر سکے ۔یہ پردہShield دوربین کو ٹھنڈا رکھنے اور گرمائش سے بچانے کے لیے بہت ضروری ہے۔جیمز ویب خلائی دوربین بنیادی طور پر ایک انفرا ریڈ Observatoryہے۔انفراریڈ شعاعوں کی ویو لنگتھ،الٹرا وائیلٹ اور عمومی طور پر نظر آنے والی روشنی کی شعاعوں کی ویو لنگتھwave lengthکے مقابلے میں کافی زیادہ ہوتی ہے۔
اس صلاحیت کی بنا پر یہ دوربین کائنات کے اُن حصوں تک ممکنہ طور پر دیکھ سکتی ہے جو اب تک نہیں دیکھے جا سکے۔اس دوربین کو کم درجہ حرارت پر رکھنا بہت ہی ضروری ہے ورنہ گرمائش کی صورت میںیہ اپنا کام کرنے کی صلاحیت کھو دے گی۔منصوبے کے مطابق اس کو مائنس228سلسی ایس یا مائنس 330ڈگری فان ہائیٹ پر رکھنے کی کوشش ہو گی۔ دوربین کو گرمائش سے بچانے والے پردہ یا شیلڈ 5تہوں والی ہے۔
اندازہ لگایا گیا ہے کہ جیمز ویب دوربین تین مہینے بعد اپنی تصاویر زمین پر بھیجنے کے قابل ہو جائے گی۔اپنا کام بہترین انداز میں کرنے کے قابل ہونے کے لیے جیمز ویب خلائی دوربین کو Event Horizon Telescope (EHT)سے بھی مدد لینی ہو گی۔میرے قارئین اگر ذہن پر زور ڈالیں تو یاد آئے گا کہEHTنے 2019میں ہماری دودھیا کہکشاں کے قلب میں واقع بلیک ہول کی انسانی تاریخ میں پہلی تصویریں بھیجی تھیں۔ان تصاویر کی مدد سے بلیک ہول کو سمجھنے میں بڑی مدد ملی ہے۔جیمز ویب دوربین کو اپنے مدار میں پہنچنے کے لیے 29دن درکار ہوں گے۔
اب تک اس نے کوئی 7لاکھ میل کا فاصلہ طے کر لیا ہے۔ چونکہ یہ دوربین پندرہ لاکھ کلومیٹر کی دوری پر محوِ گردش ہو گی اس لیے کسی بھی خرابی کی صورت میں خلائی مشن بھیج کر نقص کو دور کرنے اور پھر خلاباز کو خیریت سے زمین پر واپس لانا ممکن ہی نہیں ،اس لیے دوربین کا ٹھیک ٹھیک کام کرنا بہت اہم ہے۔
جیمز ویب خلائی دوربین کی حالیہ لانچ سے پہلے چار بڑی دوربینیں Hubble,C handra,Spitzerاور Comptonمطالعاتی مشن پر روانہ کی جا چکی ہیں۔یہ چاروں دور بینیں خلاء میں کسی Alienمخلوق یا زندگی کا پتہ لگانے سے قاصر رہی ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ جیمز ویب خلائی دوربین نہ صرف ابتدائی دور کی کائنات کا مطالعہ کر سکے گی بلکہ Exoplanetsکو دیکھنے کے ساتھ ساتھ بلیک ہولز،Dark matterاور Dark energyکا عقدہ بھی حل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔
2021 کے آخری مہینے کے آخری ہفتے کا آخری دن آخری سانسیں لے رہا ہے۔ یہ لمحات در اصل ہر دل میں چھپے سسکتے جذبوںاور ادھوری رہ جانے والی خواہشوں کے کیتھارسس کا وقت ہے۔ہر جذبہ اپنے ادھورے پن کو آخر میں یونہی ٹٹولتا ہے۔
یہ لمحات باطنی طور پر ناتمام جذبات کو آخری بار چھو لینے کی چند گھڑیاں ہیں جو اپنے تئیں نئے سال اور نئے چلن کو خوش آمدید کہنے کا حوصلہ دیتی ہیں۔میری دعا ہے کہ میرے سارے ہم وطنوں کے لیے آنے والا سال خوشیوں بھرا ہو اور ہمارے پیارے وطن کی خیر ہو۔
قائینِ کرام سال 2021 میں سائنس کے میدان میں دو بہت اہم پیش رفت ہوئی ہیں۔ صنعتی انقلاب سے شروع ہونے والی ترقی نے پچھلے سو سال میں انسانی زندگی کی کہانی میں گہرے رنگ بھر دیے ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا کہ انسانی زندگی کی کہانی ہی بدل کر رکھ دی ہے۔
آئے دن کوئی نہ کوئی نئی دریافت سامنے آ رہی ہے۔ کائنات کے حوالے سے ہماری معلومات میں ہر گزرے دن اضافہ ہو رہا ہے۔نئی معلومات کی روشنی میں ہماری بہت سی پرانی تھیوریاں ریزہ ریزہ ہو رہی ہیں۔طب کے میدان میں انسانی جسم کو جاننے اور علاج میں حیرت انگیز کامیابیاں ملی ہیں۔اسرائیل کے حیاتیاتی سائنس دانوں نے ایک ایسی تحقیق میں ابتدائی کامیابی حاصل کی ہے جو آگے چل کر انسانوں کی زندگی یکسر بدل سکتی ہے۔تل ابیب یونیورسٹی اور شامیر میڈیکل سینٹر کے اشتراک سے ایک ریسرچ پروجیکٹ پر تیزی سے کام شروع ہو چکا ہے۔
انسان کے دل میں ہمیشہ سے یہ خواہش مچلتی رہی ہے کہ کسی طرح بڑھاپے کو آنے سے روکا جا سکے۔یہ تحقیق اگر کامیاب ہو گئی تو اس سے ہر عمر کے افراد استفادہ کر سکیں گے اور وہ اپنی بڑھتی عمر کے نتیجے میں آنے والی ناپسندیدہ تبدیلیوں سے چھٹکارہ پا سکیں گے۔اس تحقیق کی ابتدا میں ایسے 35 افراد کو شامل کیا گیا جن کی عمریں 64برس سے تجاوز کر چکی تھیں اور انھیں کوئی جان لیوا بیماری لاحق نہیں تھی۔
ان 35 افراد کو 3 ماہ تک ہر ہفتے میں 5 دنوں کے لیے ایک پریشرائزڈ چیمبر میں 90منٹ رکھ کر بالکل خالص آکسیجن اس طرح دی جاتی رہی گویا کہ ان کاجسم آکسیجن میں نہا رہا ہو۔تین مہینے پر محیط اس تحقیق کی وجہ سے ان 35افراد کے اوپر بڑھتی عمر کے اثرات نہ صرف زائل ہو گئے بلکہ وہ سارے افراد 25سالہ نوجوان کی طرح نکھر گئے۔ ان کی جلد انتہائی تازہ ہو گئی اور ان کے چہرے کی جھریاں غائب ہو گئیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ خالص آکسیجن کے پریشرائزاڈ چیمبر نے Reverse Aging کو ممکن کر دکھایا۔اسرائیل کے ایک معروف روزنامے نے یہ رپورٹ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ خالص آکسیجن تھراپی سے محیرالعقول نتائج سامنے آئے ہیں۔ دراصل بڑھاپا کروموسومز Chromosomes کی دم جسے ٹیلی میر کہتے ہیں اس کے سائز کے گھٹنے اور بھر بھراپن پیدا ہونے سے آتا ہے۔
خالص آکسیجن تھراپی سے کروموسومز کا یہ آخری حصہ دوبارہ اپنی تازگی اور لمبائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ کروموسومز کا یہ حصہ اس لیے بہت اہم ہوتا ہے کیونکہ یہ کروموسومز کی حفاظت کرتا ہے اور کروموسومز اپنے آپ کو چوٹوں سے محفوظ رکھ کر Regenerateکر سکتے ہیں۔جب یہ پراسس بند ہو جاتا ہے تو کروموسومز کی Regenerationبند ہو جاتی ہے اور بڑھاپے کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔حیاتیاتی سائنس کی دنیا میں یہ ریسرچ ایک انقلاب لانے والی ہے ۔
قارئینِ کرام 25دسمبر2021کو ناسا نے یورپی خلائی ایجنسی کے اسٹیشن کورو فرنچ گی آنا سے انسانی تاریخ کی سب سے مہنگی اور جدید ترین خلائی دوربین کو مدارOrbitکی طرف روانہ کیا ۔یورپی خلائی ایجنسی کا یہ اسٹیشن جنوبی امریکا کے شمال مشرقی ساحل پر واقع ہے۔ناسا اس خلائی دوربین پر 25سال تک کام کرتا رہا اور آخرکار چند دن پہلے اسے خلا میں بھیجنے کے قابل ہو گیا۔James Webbناسا کے ایڈمسنٹریٹر رہے۔
انھوں نے ناسا کے اپالو پروگرام پر بہت کام کیا اسی لیے ان کے کام اور نام کو عزت دینے کے لیے اس دوربین کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔جیمز ویب خلائی دوربین کو بنانے میں یورپی خلائی ایجنسی اور کینیڈین خلائی ایجنسی نے ناسا کے ساتھ تعاون کیا۔ اس دوربین پر دس ارب ڈالر کی ابتدائی لاگت آئی ہے۔یہ دوربین اتنی طاقتور ہے کہ یہ زمین سے چاند پر ایک مکھی کے جسم سے پیدا ہونے والی حرارت کو بھی نوٹ کر سکتی ہے۔
جیمز ویب دوربین اب تک کی تمام خلائی دوربینوں کے مقابلے میں سب سے بڑی اور عملی لحاظ سے کارکردگی میں بے مثال ہے۔آسٹروفزکس سائنس دان اس سے بڑی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ یہ دوربین ماضی میں جھانکتے ہوئے کوئی 13ارب سال پہلے کی کائنات کو جاننے کی کوشش کرے گی کہ کائنات اس ابتدائی دور میں کیسے تشکیل پا رہی تھی، ستارے اور کہکشائیں کیسی تھیں اور اُن کے پھیلاؤ کی رفتار کیا تھی۔
دراصل اس کی اسی صلاحیت کی وجہ سے اسے ٹائم مشین کا نام دیا جا رہا ہے۔یہ ہمارے نظامِ شمسی سے دور دوسرے ستاروں کے نظاموں جنھیں EXOPLANETSکہا جاتا ہے ان کا بھی مشاہدہ کرے گی۔جیمز ویب دوربین کا مدار زمین سے 15لاکھ کلو میٹر دوری پر ہو گا۔اس دور بین کو اپنے مدار میں پہنچنے کے بعد دو انتہائی ضروری کام کر نے ہیں۔ پہلا کام یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے آئینہMirrorکو کھول سکے۔دوربین کے آئینہ کے اٹھارہ سنہری چھ طرفہ Hexagonalحصے ہیں۔ان سب کے سب اٹھارہ حصوں کو کھل کر اپنے آپ کو ایک مربوط آئینہ کی شکل دینا پہلا بنیادی کام ہو گا۔
دوسرا کام یہ ہو گا کہ وہ ایک ٹینس کورٹ کے برابر لمبائی چوڑائی والا پردہ Shieldتعینات کر سکے ۔یہ پردہShield دوربین کو ٹھنڈا رکھنے اور گرمائش سے بچانے کے لیے بہت ضروری ہے۔جیمز ویب خلائی دوربین بنیادی طور پر ایک انفرا ریڈ Observatoryہے۔انفراریڈ شعاعوں کی ویو لنگتھ،الٹرا وائیلٹ اور عمومی طور پر نظر آنے والی روشنی کی شعاعوں کی ویو لنگتھwave lengthکے مقابلے میں کافی زیادہ ہوتی ہے۔
اس صلاحیت کی بنا پر یہ دوربین کائنات کے اُن حصوں تک ممکنہ طور پر دیکھ سکتی ہے جو اب تک نہیں دیکھے جا سکے۔اس دوربین کو کم درجہ حرارت پر رکھنا بہت ہی ضروری ہے ورنہ گرمائش کی صورت میںیہ اپنا کام کرنے کی صلاحیت کھو دے گی۔منصوبے کے مطابق اس کو مائنس228سلسی ایس یا مائنس 330ڈگری فان ہائیٹ پر رکھنے کی کوشش ہو گی۔ دوربین کو گرمائش سے بچانے والے پردہ یا شیلڈ 5تہوں والی ہے۔
اندازہ لگایا گیا ہے کہ جیمز ویب دوربین تین مہینے بعد اپنی تصاویر زمین پر بھیجنے کے قابل ہو جائے گی۔اپنا کام بہترین انداز میں کرنے کے قابل ہونے کے لیے جیمز ویب خلائی دوربین کو Event Horizon Telescope (EHT)سے بھی مدد لینی ہو گی۔میرے قارئین اگر ذہن پر زور ڈالیں تو یاد آئے گا کہEHTنے 2019میں ہماری دودھیا کہکشاں کے قلب میں واقع بلیک ہول کی انسانی تاریخ میں پہلی تصویریں بھیجی تھیں۔ان تصاویر کی مدد سے بلیک ہول کو سمجھنے میں بڑی مدد ملی ہے۔جیمز ویب دوربین کو اپنے مدار میں پہنچنے کے لیے 29دن درکار ہوں گے۔
اب تک اس نے کوئی 7لاکھ میل کا فاصلہ طے کر لیا ہے۔ چونکہ یہ دوربین پندرہ لاکھ کلومیٹر کی دوری پر محوِ گردش ہو گی اس لیے کسی بھی خرابی کی صورت میں خلائی مشن بھیج کر نقص کو دور کرنے اور پھر خلاباز کو خیریت سے زمین پر واپس لانا ممکن ہی نہیں ،اس لیے دوربین کا ٹھیک ٹھیک کام کرنا بہت اہم ہے۔
جیمز ویب خلائی دوربین کی حالیہ لانچ سے پہلے چار بڑی دوربینیں Hubble,C handra,Spitzerاور Comptonمطالعاتی مشن پر روانہ کی جا چکی ہیں۔یہ چاروں دور بینیں خلاء میں کسی Alienمخلوق یا زندگی کا پتہ لگانے سے قاصر رہی ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ جیمز ویب خلائی دوربین نہ صرف ابتدائی دور کی کائنات کا مطالعہ کر سکے گی بلکہ Exoplanetsکو دیکھنے کے ساتھ ساتھ بلیک ہولز،Dark matterاور Dark energyکا عقدہ بھی حل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔