فلسطینی صحافیوں کا اسرائیلی مظالم سے متعلق مواد ہٹانے پر فیس بک کیخلاف مظاہرہ
ہیومن رائٹس واچ نے بھی اسرائیل کی جانبداری پر فیس بک کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی
LONDON:
فلسطین سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے فیس بک کی اسرائیلی مظالم سے متعلق مواد سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے ہٹانے اور جانبداری کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق فلسطینی صحافیوں کی بڑی تعداد نے فیس بک کی جانبداری اور اسرائیل کے لیے نرم رویہ رکھنے پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ فیس بک اسرائیلی مظالم کو آشکار کرنے والی ہماری مصدقہ خبروں اور ویڈیوز کو ہٹا دیتا ہے۔ یہ عمل اسرائیلی مظالم پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔
فیس بک پر 4 لاکھ فالوروز رکھنے والی خاتون صحافی کرسٹائن رنوائی نے بتایا کہ 4 دسمبر کو ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں اسرائیلی فوجی کو ایک فلسطینی نوجوان کو گولی مار کر قتل کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
خاتون صحافی کا کہنا تھا کہ مقتول فلسطینی نوجوان کا قصور یہ تھا کہ اس نے ایک اسرائیلی کو چھری مار کر زخمی کردیا تھا تاہم فوجی نے فلسطینی نوجوان کو گرفتار کرنے کے بجائے قتل کردیا۔
صحافی رنوائی نے مزید بتایا کہ فیس بک یہ ویڈیو ہٹادی اور مجھ پر پوسٹیں کرنے پر پابندی بھی عائد کردی۔
ہیومن رائٹس واچ نے بھی اکتوبر میں کہا تھا کہ فیس بک فلسطینی شہریوں کی جانب سے اسرائیلی مظالم سے متعلق حقائق پر مبنی پوسٹوں اور ویڈیوز کو حذف کردیتا ہے۔
دوسری جانب فیس بک انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہمارے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والی تصاویر اور ویڈیوز کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ یہ نسلی امتیاز یا جانبداری نہیں۔
فلسطین سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے فیس بک کی اسرائیلی مظالم سے متعلق مواد سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے ہٹانے اور جانبداری کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق فلسطینی صحافیوں کی بڑی تعداد نے فیس بک کی جانبداری اور اسرائیل کے لیے نرم رویہ رکھنے پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ فیس بک اسرائیلی مظالم کو آشکار کرنے والی ہماری مصدقہ خبروں اور ویڈیوز کو ہٹا دیتا ہے۔ یہ عمل اسرائیلی مظالم پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔
فیس بک پر 4 لاکھ فالوروز رکھنے والی خاتون صحافی کرسٹائن رنوائی نے بتایا کہ 4 دسمبر کو ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں اسرائیلی فوجی کو ایک فلسطینی نوجوان کو گولی مار کر قتل کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
خاتون صحافی کا کہنا تھا کہ مقتول فلسطینی نوجوان کا قصور یہ تھا کہ اس نے ایک اسرائیلی کو چھری مار کر زخمی کردیا تھا تاہم فوجی نے فلسطینی نوجوان کو گرفتار کرنے کے بجائے قتل کردیا۔
صحافی رنوائی نے مزید بتایا کہ فیس بک یہ ویڈیو ہٹادی اور مجھ پر پوسٹیں کرنے پر پابندی بھی عائد کردی۔
ہیومن رائٹس واچ نے بھی اکتوبر میں کہا تھا کہ فیس بک فلسطینی شہریوں کی جانب سے اسرائیلی مظالم سے متعلق حقائق پر مبنی پوسٹوں اور ویڈیوز کو حذف کردیتا ہے۔
دوسری جانب فیس بک انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہمارے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والی تصاویر اور ویڈیوز کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ یہ نسلی امتیاز یا جانبداری نہیں۔