ہیلیئم بھرے غبارے فضائی تصویر لینے کے لیے سیٹلائٹ کا بہترین متبادل
ڈھائی میٹر جسامت کے ہیلیئم غبارے کو 18 ہزارفٹ کی بلندی پر پہنچاکر ارضی تصاویر لی جاسکتی ہیں
جب بھی زمین کے وسیع رقبے کی تصاویر کی بات ہو تو ہمارا ذہن سیٹلائٹ، ہوائی جہاز یا مہنگے ڈرون کی طرف جاتا ہے۔ لیکن اب یہی کام بہت کم خرچ ہیلیئم غباروں سے بھی ممکن ہے۔
اب کولاراڈو میں واقع اربن اسکائی نامی کمپنی نے ہیلیئم بھرے ایسے خردغبارے (مائیکروبلون) بنائے ہیں جو سیٹلائٹ کا بہت سستا متبادل ثابت ہوسکتے ہیں اور ان سے ایک وسیع علاقے کو بہت اچھی طرح دیکھا جاسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہیں ایک مقام پر روکا بھی جاسکتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ غبارے کو بار بار استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے نیچے جدید کیمروں پر مشتمل پے لوڈ رکھ کر اس کا رخ زمین کی طرف کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اعلیٰ تصاویر لینے والے کیمرے، انفراریڈ اور دیگر اقسام کے کیمرے اور سینسر لگائے جاسکتے ہیں۔
ہر غبارے کی زیادہ سے زیادہ بلندی ڈھائی میٹر ہے جس میں ہیلیئم گیس بھری جاسکتی ہے۔ زمین سے بلندی کے دوران غبارہ دھیرے دھیرے پھیلے گا اور 60 ہزار فٹ یا 18 ہزارمیٹر سے کچھ زائد بلندی پر غبارہ پھیل کر ساڑھے پانچ میٹر یا پھر 18 فٹ کا ہوجائے گا۔
اس بلندی پر خاص سوراخوں سے اضافی ہیلیئم خارج ہوجائے گی اور گیس کا حجم (والیم) برقرار رہے گا اور اس طرح غبارہ ایک طویل عرصے تک ایک ہی جگہ پر موجود رہے گا۔
اس پر لگا کیمرہ لینس بدل بدل کر زمین کی مختلف تصاویر اتار سکتا ہے۔ غبارے کی افقی حرکت سے ایک کیمرہ وسیع علاقے کی تصویر لے سکتا ہے۔ آخرمیں تمام تصاویر کو جمع کرکے ایک وسیع رقبے کی بڑی تصویر حاصل کی جاسکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک گھنٹے میں 1000 مربع کلومیٹر کی تصاویر حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اس طرح یہ نسخہ مہنگے ترین سیٹلائٹ کے مقابلے میں بہت ہی کم خرچ اور مؤثر ہے۔
اس سال موسمِ بہار میں اس کی باقاعدہ آزمائش شروع ہوجائے گی۔ اس طرح جنگلات کی آگ، حادثات، زمینی نقشہ کشی اور برفباری کا مکمل احوال لیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کی نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کی جانب سے خصوصی گرانت بھی دی گئی ہے۔
اب کولاراڈو میں واقع اربن اسکائی نامی کمپنی نے ہیلیئم بھرے ایسے خردغبارے (مائیکروبلون) بنائے ہیں جو سیٹلائٹ کا بہت سستا متبادل ثابت ہوسکتے ہیں اور ان سے ایک وسیع علاقے کو بہت اچھی طرح دیکھا جاسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہیں ایک مقام پر روکا بھی جاسکتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ غبارے کو بار بار استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے نیچے جدید کیمروں پر مشتمل پے لوڈ رکھ کر اس کا رخ زمین کی طرف کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اعلیٰ تصاویر لینے والے کیمرے، انفراریڈ اور دیگر اقسام کے کیمرے اور سینسر لگائے جاسکتے ہیں۔
ہر غبارے کی زیادہ سے زیادہ بلندی ڈھائی میٹر ہے جس میں ہیلیئم گیس بھری جاسکتی ہے۔ زمین سے بلندی کے دوران غبارہ دھیرے دھیرے پھیلے گا اور 60 ہزار فٹ یا 18 ہزارمیٹر سے کچھ زائد بلندی پر غبارہ پھیل کر ساڑھے پانچ میٹر یا پھر 18 فٹ کا ہوجائے گا۔
اس بلندی پر خاص سوراخوں سے اضافی ہیلیئم خارج ہوجائے گی اور گیس کا حجم (والیم) برقرار رہے گا اور اس طرح غبارہ ایک طویل عرصے تک ایک ہی جگہ پر موجود رہے گا۔
اس پر لگا کیمرہ لینس بدل بدل کر زمین کی مختلف تصاویر اتار سکتا ہے۔ غبارے کی افقی حرکت سے ایک کیمرہ وسیع علاقے کی تصویر لے سکتا ہے۔ آخرمیں تمام تصاویر کو جمع کرکے ایک وسیع رقبے کی بڑی تصویر حاصل کی جاسکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک گھنٹے میں 1000 مربع کلومیٹر کی تصاویر حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اس طرح یہ نسخہ مہنگے ترین سیٹلائٹ کے مقابلے میں بہت ہی کم خرچ اور مؤثر ہے۔
اس سال موسمِ بہار میں اس کی باقاعدہ آزمائش شروع ہوجائے گی۔ اس طرح جنگلات کی آگ، حادثات، زمینی نقشہ کشی اور برفباری کا مکمل احوال لیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کی نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کی جانب سے خصوصی گرانت بھی دی گئی ہے۔