زیادہ ٹیکس زیادہ مہنگائی

موجودہ حکومت غربت کے خاتمے کے بجائے غریب کو ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے


منی بجٹ میں زیادہ ٹیکسز کا نتیجہ مزید مہنگائی کی صورت سامنے آئے گا۔ (فوٹو: فائل)

لاہو ر: غربت کے خاتمے کی سر توڑ کوشش کے بعد اب بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ حکومت نادانستہ طور پر مجبور ہوکر غریب کے خاتمے کی کوشش کررہی ہے۔ تازہ ترین منی بجٹ اس کا عکاس ہے۔ اس بجٹ کے بعد مہنگائی کا طوفان آئے گا، غریب پر عرصۂ حیات مزید تنگ ہوگا، لوگ زندہ رہنے کےلیے چور بازاری پر مجبور ہوجائیں گے۔ اور یہ چور بازاری، درمیانی راستے غریب کو اسپتال کے راستے قبرستان لے جائیں گے اور یوں غربت کے بجائے غریب کا خاتمہ ہوجائے گا۔

دو واقعات پیش خدمت ہیں:

گزشتہ ہفتے پاکستان کے سفر کے دوران ایک ہول سیلر مہربان نے بتایا کہ وہ اپنے چار سال پرانے خراب گھی کی چند بالٹیوں کے حوالے سے پریشان تھے۔ انہوں نے اپنی اس مشکل کا اظہار ایک جاننے والے مٹھائی کے دکاندار سے کیا تو وہ بخوشی نصف قیمت پر اسے خریدنے کےلیے راضی ہوگیا۔

ایک اور دوست جو پیزا اور برگر کا معروف مقامی برانڈ چلاتے ہیں کچھ یوں گویا ہوئے کہ ہمارے فرائر کا تیل جب کالا ہوجاتا ہے، یعنی ایکسپائر ہوجاتا ہے تو ہم اسے نصف قیمت پر فروخت کردیتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں برطانوی نشریاتی ادارے کی شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اسمگل شدہ ایرانی تیل کی کھلے عام فروخت کی جارہی ہے۔ یہ کھانے کا تیل مضر صحت ہے، مگر یہ 190 روپے فی لیٹر کے حساب سے غریب کو باآسانی دستیاب ہے۔ آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ جو شخص سستے، غیر معیاری اور ایکسپائرڈ تیل سے تیار شدہ مٹھائیاں اور کھانے کھائے گا وہ یقینی طور پر گھر سے اسپتال جائے گا، جہاں پر ڈاکٹر ہڑتال پر ہوں گے یا پھر وہ ایسی دوائیں تجویز کریں گے جو انتہائی مہنگی ہونے کی وجہ سے غریب کی پہنچ سے باہر ہوں گی۔ کیونکہ یہ ایک کھلا راز ہے کہ پاکستانی ڈاکٹر مریض کی حالت کی بنیاد پر نہیں بلکہ کمیشن دیکھ کر دوائیں لکھتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں غریب اسپتال سے باہر ہوگا اور بغیرعلاج کے اسپتال سے باہر آنے والے مریض کا ٹھکانہ عام طور پر قبرستان ہی ہوتا ہے۔

غور طلب امر یہ ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ ماہرین کے مطابق غربت انسان کو غلط کام پر مجبور کردیتی ہے۔ وہ انسان سے حیوان اور حیوان سے درندہ بن کر اپنی ذات تک محدود ہوجاتا ہے۔ اپنی ذات کی بقا کےلیے غلط، درست کی پرواہ کیے بغیر ہر کام کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ وطن عزیز سے غربت اور بیماریوں کے خاتمے کےلیے ہم سب کوشش کریں۔ کچھ بھی کھاتے وقت احتیاط کا دامن نہ چھوڑیں۔ نہ صرف خود معیار پر سمجھوتا نہ کریں بلکہ اگر کوئی کچھ کھلائے تو بھی تحقیق کرلیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تھوڑے فائدے کےلیے بڑا نقصان کرلیں۔ اور یاد رکھیے کہ غسل میں تین، نماز میں 13 اور کھانے میں صرف ایک فرض ہے تحقیق کرنا۔ کھانا کھانا فرض نہیں ہے لیکن حرام سے بچنا فرض ہے۔

حالات، واقعات، مشاہدات اور حکومتی مجبوریوں سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم حالات کی بہتری کی امید چھوڑ کر خود میدان عمل میں نکلیں۔ اپنے اخراجات کو کم کریں، ذرائع آمدن کو بڑھاتے ہوئے اپنی خواہشات کو لگام دیں۔ بازاری کھانوں کا بائیکاٹ کریں۔ سادگی اور کفایت شعاری اپنائیں۔ اللہ کی ذات پر توکل بڑھائیں۔ نہ حرام کھائیں اور نہ کھلائیں۔ بصورت دیگر یاد رکھیں زیادہ ٹیکس آئیں گے تو زیادہ مہنگائی آئے گی اور زیادہ مہنگائی غریب کو قبرستان لے جائے گی، جس کےلیے وطن عزیز میں امیر ہو یا غریب کوئی بھی تیار نہیں ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں