آئی پی پیز کا فرنس آئل ذخیرہ کرنے سے احتراز آئل ریفائنریاں خطرے میں پڑ گئیں

گنجائش ختم ہونے سے ریفائنریوں میں آپریشن معطل، IPPs کو ایک ماہ کی قانونی مدت کا ایندھن اسٹاک کرنے کا پابند کیا جائے۔

اس طرح ریفائنریز کی اسٹوریج خالی ہو گی اور وہ پیداوار بحال کر سکیں گی، ریفائنریاں عالمی معیار پر پورا اترتی ہیں، محمد وصی خان۔ فوٹو: سوشل میڈیا

ISLAMABAD:
انرجی سیکٹر سے متعلق غیرمتوازن پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان میں ریفائنریز کی شکل میں 5 ارب ڈالر کے قومی اثاثہ جات خطرے میں پڑگئے۔

انڈی پینڈنٹ پاور پلانٹس (آئی پی پیز) کی جانب سے ایک ماہ کی ضرورت کا فرنس آئل کا اسٹاک نہ رکھنے اور فرنس آئل کی درآمدات کی وجہ سے پاکستان کا ریفائنری سیکٹر بحرانی کیفیت کا شکار ہو گیا ہے۔ پاکستان کی تینوں ریفائنریز میں انوینٹری اسٹاک کی گنجائش ختم ہونے کی وجہ سے آپریشنز معطل ہوچکے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت ایک جانب ریفائنری پالیسی کے ذریعے نئے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے ساتھ موجودہ پاکستان کے ریفائنری سیکٹر کو پائیدار بنیادوں پر ترقی دینے کی خواہش مند ہے تاہم موجودہ بحرانی کیفیت میں پہلے سے چلنے والی ریفائنریز کے لیے اپ گریڈیشن کے لیے مالی وسائل کا بندوبست کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

ریفائنری سیکٹر کے ماہر اور Cnergyico پاکستان لمیٹڈ (سابقہ بائیکو)کے چیئرمین محمد وصی خان کے مطابق پاکستان کی ریفائنریز کو درپیش بحرانی کیفیت پاکستان کی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کرے گی۔ قانونی اور اصولی طور پر فرنس آئل کا اسٹاک ریفائنریز کے بجائے پاور کمپنیوں کو رکھنا چاہیے لیکن ریفائنریز کے پاس فرنس آئل کا اتنا اسٹاک ہے کہ پیداوار جاری رکھنا مشکل ہوگیا۔

اس صورتحال کا حل یہی ہے کہ حکومت مداخلت کرے اور آئی پی پیز کو پابند کیا جائے کہ وہ ایک ماہ کی قانونی مدت کا ایندھن کا اسٹاک اپنے پاس رکھیں اس طرح ریفائنریز کی اسٹوریج خالی ہو گی اور وہ پیداوار بحال کرسکیں گی۔


محمد وصی خان نے کہا کہ حکومت کی نئی ریفائنری پالیسی کا مقصد نئے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے ساتھ موجودہ ریفائنریز کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنا ہے۔ پاکستان کی تین ریفائنریز بشمول سنرجی کو، پاکستان ریفائنری اور نیشنل ریفائنری کی مجموعی پیداواری گنجائش پونے 3 لاکھ بیرل یومیہ ہے۔ اگر ان ریفائنریز کو سازگار ماحول نہ ملا تو اتنی گنجائش کی ریفائنری لگانے کے لیے 10سے 12 ارب ڈالر کا سرمایہ درکار ہوگا اور اتنی گنجائش کی ریفائنری لگنے میں 6 سے 7 سال کا عرصہ لگے اور اس دوران ایندھن اور پیٹرولیم مصنوعات کے لیے مکمل طور پر درآمدات پر انحصار کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت اس صورتحال کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اس کے مقابلے میں موجودہ تینوں ریفائنریز چلتی رہیں تو انھیں اپ گریڈ کرنے میں 3سے 4ارب ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہوگی اور پاکستان کی موجودہ ریفائنریز ہی جدید ریفائنریز کے ہم پلہ ہوجائیں گی اور پاکستان کا خطیر زرمبادلہ بھی بچے گا اور درآمدات پر انحصار نہیں ہوگا۔

محمد وصی خان نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ پاکستان میں لگی ہوئی ریفائنریز اپنی مدت پوری کرچکی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اوگرا کے تھرڈ پارٹی آڈیٹرز جو بین الاقوامی ساکھ کی حامل کنسلٹنٹ کمپنیاں ہوتی ہیں باقاعدگی سے ریفائنریز کا معائنہ کرتی ہیں۔ معائنہ میں ریفائنریز کے ہارڈویئر، سسٹمز اور ٹیکنالوجیز کو جانچا جاتا ہے اور ان کمپنیوں کی رپورٹ کی بنیاد پر اوگرا اگلی مدت کے لیے لائسنس کی تجدید کرتی ہے۔

اسی طرح ہر ریفائنری کو بین الاقوامی معیارات پر بھی پورا اترنا پڑتا ہے جس کے لیے انھیں ٹیکنالوجی لائسنس حاصل کرنا پڑتے ہیں ۔ یہ لائسنس انٹرنیشنل راسیس لائسنسنگ کمپنیاں جاری کرتی ہیں۔ پاکستان کی تمام ریفائنریز انٹرنیشنل پراسیس لائسنس کے تحت چل رہی ہیں جس سے ثابت ہوتا کہ کہ ریفائنریز عالمی معیارات اور سیفٹی کے اصولوں پر پورا اترتی ہیں۔ پاکستانی ریفائنریز انٹرنیشنل ریفائننگ جنرل میں درج ہیں اور اسی O&G ریفائنری جنرل نمبر کی بنیاد پر کسی ریفائنری کو انٹرنیشنل مارکیٹ سے خام تیل فروخت کیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ نئی ریفائنری پالیسی کے مقاصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ ریفائنریز کو مالی گنجائش پیدا کرنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا جائے۔ ریفائنریز کے لیے پرائسنگ کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، موجودہ پرائسنگ مسابقت کے لیے ناکافی ہے اس کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ پہلے ٹیریف پروٹیکشن زیادہ تھا جو کم کردیا گیا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹیریف پروٹیکشن بڑھائی جائے تاکہ ریفائنریز نئی پالیسی کے مطابق خود کو اپ گریڈ کرنے کے لیے بیلنس شیٹ کو بہتر بناسکیں اور اپ گریڈیشن پراجیکٹس کے لیے فنانسنگ حاصل کر سکیں۔

 
Load Next Story