پاکستانی سرزمین پر امریکی آپریشن پر غور
اوباما انتظامیہ میں پاکستان میں مشتبہ امریکی شہری کو میزائل حملے سے نشانہ بنانے کی بحث جاری ہے
اخباری اطلاعات کے مطابق ایبٹ آباد آپریشن کے بعد اوباما انتظامیہ کی جانب سے پاکستانی سرزمین پر ایک اور آپریشن کا امکان ہے۔ امریکی ذرایع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان میں اتحادی افواج کی تنصیبات کو نشانہ بنانے والا شدت پسند پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود ہے جس کو مارنے کے لیے اوباما انتظامیہ نے پاکستان میں ڈرون حملے پر غور شروع کر دیا ہے۔ اس سے قبل امریکی انتظامیہ نے اس ملک کی نشاندہی نہیں کی تھی جہاں القاعدہ سے تعلق رکھنے والا امریکی شہری موجود ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جاری طالبان اور حکومت کے مابین مذاکرات کی وجہ سے ڈرون پالیسی میں تبدیلی نہیں کی۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یہ پہلا موقع ہے جب پاکستان میں ڈرون حملہ کرنے کے بارے میں غور کیا جا رہا ہے جب کہ اس سے قبل اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی تنقید کے بعد اوباما انتظامیہ ڈرون حملے ختم کرنے کا عندیہ دے چکی ہے۔ پاکستانی حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے گزشتہ مذاکرات بھی حکیم اﷲ محسود پر ڈرون حملے کے باعث سبوتاژ ہوئے تھے اور اس بار بھی طالبان نے مذاکرات کی شرائط میں اولین ترجیح ڈرون حملوں کے یکسر خاتمے کو دی ہے، ایسے میں اگر یہ شر انگیز اطلاعات درست ثابت ہوتی ہیں تو پاک/ طالبان مذاکرات کو ایک بار پھر دھچکا لگنے کا امکان ہے۔
اطلاعات ہیں کہ اوباما انتظامیہ پاکستان میں موجود مبینہ امریکی دہشت گرد کو نشانہ بنانے کے لیے فوجی کارروائی کی تیاری کر رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکی دہشت گرد قبائلی علاقوں میں چھپا ہے اور حکومت ٹارگٹ کو نشانہ بنانے کے لیے سی آئی اے کو باقاعدہ اجازت دینے پر غور کر رہی ہے۔ امریکی شہری کو ممکنہ طور پر ڈرون فضائی حملے یا فوجی کارروائی کے ذریعے نشانہ بنایا جا سکتا ہے، امریکی حکام کی جانب سے اس مبینہ ہدایت کی نشاندہی نہیں کی گئی۔ حملہ ہوا تو بارک اوباما کی جانب سے ڈرون حملوں میں کمی کے اعلان کے بعد یہ پہلا حملہ ہو گا۔ امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر اس مرحلے پر اس طر ح کی کارروائی کی گئی تو حکومت پاکستان اور طالبان کے مابین جاری مذاکرات کا عمل ڈی ریل ہو سکتا ہے جس سے نہ صرف پاکستان میں بدامنی بڑھے گی بلکہ اس سے افغانستان میں اتحادی افواج پر بھی حملوں میں تیزی آئے گی، اس طرح امریکا میں حملے کی منصوبہ بندی کر نے والے مشتبہ شخص کی پاکستان میں موجودگی کو جواز بنا کر امریکا نے پاکستان میں ایک اور میزائل حملے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ دوسری جانب اوباما انتظامیہ میں پاکستان میں مشتبہ امریکی شہری کو میزائل حملے سے نشانہ بنانے کی بحث جاری ہے۔
اس حوالے سے سفارتی حلقوں میں سخت تشویش پائی جا رہی ہے، سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس مرحلے پر امریکا کا یہ اقدام امن کے لیے تباہ کن ثابت ہو گا اور بالخصوص ایسے مرحلے پر جب حکومت پاکستان اور طالبان کے درمیان ابتدائی مرحلوں میں رابطے ہوئے ہیں، یہ اقدام کسی صورت بھی قابل برداشت نہیں ہوگا اور اس سے امریکا کے خلاف نفرت مزید بڑھے گی۔ سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ امریکا کے پاس اگر امریکی دہشت گرد کی یہاں موجودگی کے کوئی ٹھوس شواہد موجود ہیں تو اس معاملے کو حکومت پاکستان کے سامنے اٹھایا جائے اور کسی بھی طرح کی یکطرفہ کارروائی سے گریز کیا جائے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق سی آئی اے ڈرون حملہ نہیں کر سکتا کیونکہ اس کو امریکی شہری کو ہلاک کرنے کی اجازت نہیں، دوسری جانب وزارت دفاع ڈرون حملہ اس لیے نہیں کر سکتا کہ یہ امریکی شہری دوسرے ملک میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ اس علاقے میں امریکی یکطرفہ کارروائی خطرے سے خالی نہیں ہے اور سیاسی طور پر میزائل حملے کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔ پاکستانی حکومت کو اس جانب توجہ مبذول کرنے کی اشد ضرورت ہے، ساتھ ہی امریکی دفتر خارجہ کو اس حوالے سے وضاحت کرنی چاہیے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکا کا اتحادی ہے اور اس طرح کے اقدامات پاکستان کو مشکل میں ڈالنے کے مترادف ہیں۔
اطلاعات ہیں کہ اوباما انتظامیہ پاکستان میں موجود مبینہ امریکی دہشت گرد کو نشانہ بنانے کے لیے فوجی کارروائی کی تیاری کر رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکی دہشت گرد قبائلی علاقوں میں چھپا ہے اور حکومت ٹارگٹ کو نشانہ بنانے کے لیے سی آئی اے کو باقاعدہ اجازت دینے پر غور کر رہی ہے۔ امریکی شہری کو ممکنہ طور پر ڈرون فضائی حملے یا فوجی کارروائی کے ذریعے نشانہ بنایا جا سکتا ہے، امریکی حکام کی جانب سے اس مبینہ ہدایت کی نشاندہی نہیں کی گئی۔ حملہ ہوا تو بارک اوباما کی جانب سے ڈرون حملوں میں کمی کے اعلان کے بعد یہ پہلا حملہ ہو گا۔ امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر اس مرحلے پر اس طر ح کی کارروائی کی گئی تو حکومت پاکستان اور طالبان کے مابین جاری مذاکرات کا عمل ڈی ریل ہو سکتا ہے جس سے نہ صرف پاکستان میں بدامنی بڑھے گی بلکہ اس سے افغانستان میں اتحادی افواج پر بھی حملوں میں تیزی آئے گی، اس طرح امریکا میں حملے کی منصوبہ بندی کر نے والے مشتبہ شخص کی پاکستان میں موجودگی کو جواز بنا کر امریکا نے پاکستان میں ایک اور میزائل حملے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ دوسری جانب اوباما انتظامیہ میں پاکستان میں مشتبہ امریکی شہری کو میزائل حملے سے نشانہ بنانے کی بحث جاری ہے۔
اس حوالے سے سفارتی حلقوں میں سخت تشویش پائی جا رہی ہے، سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس مرحلے پر امریکا کا یہ اقدام امن کے لیے تباہ کن ثابت ہو گا اور بالخصوص ایسے مرحلے پر جب حکومت پاکستان اور طالبان کے درمیان ابتدائی مرحلوں میں رابطے ہوئے ہیں، یہ اقدام کسی صورت بھی قابل برداشت نہیں ہوگا اور اس سے امریکا کے خلاف نفرت مزید بڑھے گی۔ سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ امریکا کے پاس اگر امریکی دہشت گرد کی یہاں موجودگی کے کوئی ٹھوس شواہد موجود ہیں تو اس معاملے کو حکومت پاکستان کے سامنے اٹھایا جائے اور کسی بھی طرح کی یکطرفہ کارروائی سے گریز کیا جائے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق سی آئی اے ڈرون حملہ نہیں کر سکتا کیونکہ اس کو امریکی شہری کو ہلاک کرنے کی اجازت نہیں، دوسری جانب وزارت دفاع ڈرون حملہ اس لیے نہیں کر سکتا کہ یہ امریکی شہری دوسرے ملک میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ اس علاقے میں امریکی یکطرفہ کارروائی خطرے سے خالی نہیں ہے اور سیاسی طور پر میزائل حملے کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔ پاکستانی حکومت کو اس جانب توجہ مبذول کرنے کی اشد ضرورت ہے، ساتھ ہی امریکی دفتر خارجہ کو اس حوالے سے وضاحت کرنی چاہیے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکا کا اتحادی ہے اور اس طرح کے اقدامات پاکستان کو مشکل میں ڈالنے کے مترادف ہیں۔