مثبت تبدیلی ناگزیر
لوگ خیرات، صدقات، گرانٹ، سرکاری سہولت اور پلاٹ کے بہانے کسی رفاہی ادارہ کا حوالہ دے کر اپنا مقصد نکال لیتے ہیں۔
ISLAMABAD:
نئے سال کی آمد کے ساتھ سیاسی مبصرین اور محققین نے سال رفتہ میں ہونے والے واقعات کا حالات کے تناظر میں جائزہ لینا شروع کر دیا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے تقریباً چار سالہ دورانیے اور مجموعی بیانیے کا جو نتیجہ برآمد ہوتا ہے، اسے اقتصادی اور معاشی طور پر ترقی معکوس کے پیمانہ سے دیکھا جا رہا ہے۔
مبصرین اس استدلال کو بنیاد بناتے ہیں کہ حکومت اس پورے عرصہ میں ایک مستحکم اقتصادی حکمت عملی پر ثابت قدمی سے قائم نہیں رہی، اس کے بے شمار اقدامات عارضی اور وقتی نتائج کے ساتھ ہی تبدیل ہوئے، کوئی سنگ میل قوم کو نظر نہیں آیا، حکومت نے پہلے 100 دن کا ٹارگٹ دیا اور پھر گنتی جاری رہی لیکن معاشی اوراقتصادی اشاریے کسی بریک تھرو کی نوید نہیں لائے، ٹاسک فورسز اور کمیٹیاں ناکام رہیں۔
عوام کسی نتیجہ خیز تبدیلی کے منتظر ہی رہے لیکن اس تبدیلی نے آخر کار کلاسیکی ادب کے اس مشہور مصرع کی شکل اختیار کرلی کہ ''ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں'' ماہرین نے اس مصرع کی تفہیم میں تبدیلی کے مختلف دورانیوں کا جائزہ لیا اور تغیر و تبدل کا ایک اصول تلاش کر لیا کہ حکومتی اقدامات، حکمت عملی اور فارمولے کسی دانش مند کے ذہن اور عملی کوشش کا نتیجہ ہوں گے تب لازماً عوام کو ملک کے اقتصادی اور معاشی نظام میں کوئی تبدیلی نظر آئے گی۔
مگریہ المیہ ہے کہ وزیراعظم صاحب نے چار سالہ دورانیے میں متعدد معاشی فارمولوں کے حوالے دیے، مختلف دوست ملکوں کے اقتصادی اور معاشی نظاموں کا جائزہ پیش کیا، ان کے رول ماڈل چین، ترکی، ملائیشیا کے سیاسی رہنما تھے، جن میں طیب اردوان، شی جن پنگ اورڈاکٹر مہاتیر محمد نمایاں ہیں مگر پاکستان کے معاشی چارہ گر کسی وزیر اعظم یا صدر کے معاشی فلسفہ سے استفادہ میں کامیاب نہیں ہوئے، حیرت ہے کہ انھیں ڈاکٹر محبوب الحق کبھی یاد نہیں آئے۔
اس طرح چار سال میں حکومت کو بہت سارے کام کرنے کو ملے اور وہ ہوئے بھی، لیکن عوام کو کوئی پائیدار سماجی و سیاسی نظام نہیں ملا جس کی بنیاد پر پاکستان خود کفیل بنتا اور اسے اقتصادی خود مختاری حاصل ہوتی، ملک میں صنعتی ترقی ہوتی، ملک کے فہمیدہ عناصر آخر اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ حکومت فیصلہ کی طاقت اور ارادہ سے تہی دامن ہے، حکومت نے انڈسٹریلائزیشن کا کوئی ٹارگٹ حاصل نہیں کیا جب کہ
یاران تیز گام نے منزل کو پا لیا
ہم محو نالۂ جرس کارواں رہے
ایک معاصر اخبار نے نئے سال کی ابتدا دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ کے حوالہ سے کی ہے جس کے مطابق پاکستان میں 6 سال تک دہشتگردی کے واقعات میں تسلسل سے کمی کے بعد 2021 میں ایک بار پھر جنگجو حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
بلوچستان سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ رہا، حقیقت یہ ہے کہ ملکی سالمیت اور دہشتگردی کی روک تھام کے سلسلہ میں پاک فوج نے سیاسی قیادت کے ساتھ مشترکہ بریفنگز میں قوم کو یقین دلایا کہ ملکی سالمیت کے لیے پاک فوج جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے تیار ہے، تاہم خطے کی شعلہ بار جدلیات کا تقاضا ہے کہ ملکی سیاست، معیشت، سفارت اور سیاحت داخلی انتشار سے محفوظ رہے، عوام سیاست دانوں اور حکومت میں لفظوں کی جنگ سے بے زار ہو چکے ہیں۔
مثلاً چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر محمد اشفاق احمد نے کہا ہے کہ منی بجٹ میں حکومت کو جی ایس ٹی پر چھوٹ واپس لینے کی سیاسی قیمت چکانا پڑے گی۔ 74 برسوں سے جو بھی مفاد پرست ٹولے آئے انھوں نے من پسند ٹیکس استثنیٰ دیا اور اپنی مرضی سے ایف بی آر کے قوانین میں ترامیم کرتے رہے وہ ٹیکس استثنیٰ جو کسی با اثر ایلیٹ گروپ سے متعلقہ تھا ان پر کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا کیوں کہ یہ سیاسی طور پر غیر مقبول فیصلے ہیں۔ ٹیکس پالیسی اصلاحات بہت پہلے سے کرنے کی ضرورت تھی، موجودہ حکومت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے سیاسی لحاظ سے یہ غیر مقبول فیصلے کیے جس کی سیاسی قیمت بھی ہو سکتی ہے، ان ٹیکس استثنیٰ سے عام آدمی کو نہیں بلکہ ایلیٹ کلاس کو فائدہ تھا۔
مختلف مفاد پرست گروپوں کو 70 برس سے حاصل 343 ارب روپے کا ٹیکس استثنیٰ ختم کیا گیا اس سے ٹیکس نظام میں بہتری آئے گی، بتدریج مزید ٹیکس استثنیٰ بھی ختم کیے جائیں گے، جی ایس ٹی کی 17 فیصد کی شرح کو بھی کم کرنے پر کام ہو رہا ہے، 90 فیصد کے قریب ٹیکس استثنیٰ کو ختم کر دیا گیا ہے ماضی میں جب بھی آئی ایم ایف کا مطالبہ آتا ہم نئے ٹیکس لگا دیتے ہیں مگر پالیسی سطح کی تبدیلیوں پر کسی نے توجہ نہ دی ،کسی نے ایلیٹ کلاس کا ٹیکس استثنیٰ ختم نہیں کیا کیوں کہ یہ غیر مقبول فیصلے تھے لیکن ہم نے فی الحال صرف جی ایس ٹی پر استثنیٰ ختم کیا ہے اور غریب آدمی اور پیداواری شعبے کو تحفظ دیا گیا ہے، لیکن دوسری طرف ایف بی آر کو این جی اوز کے معاملات میں شفافیت کے لیے بھی فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
ٹیکس کلیکشن اور ٹیکس اصلاحات میں بنیادی تضادات کو دور کرنا ہے، مثلاً وزیر اعظم یہ بات لاشعوری طور پر کہہ چکے ہیں کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے، جب کہ ان قوموں کی مثال دیتے ہوئے وزیر اعظم نے اس استدلال کا سہارا لیا کہ جو قومیں پیسے نہیں دیتیں، ان کی اکنامی کبھی ترقی نہیں کر سکتی، پھر وہ اس بنیادی سوال پر آتے ہیں کہ ٹیکس دینے والی اقوام کی معیشت اس لیے مستحکم ہوتی ہے کہ وہ امور ریاست کے معاملات میں حصہ لیتے ہیں، اپنی ذمے داریاں پوری کرتے ہیں، لیکن عوام کو جو ٹیکس سسٹم سے شکایات ہیں اس کی طرف ریاست یا حکومت کوئی توجہ نہیں دیتی، سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے، عوام ٹیکس کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔
ملازمت پیشہ شخص ٹیکس بھی دیتا ہے لیکن اس پر الزام ہے کہ ''لوگ ٹیکس نہیں دیتے'' اس انداز نظر کو ختم کرنا ہوگا، ٹیکس اصلاحات ناگزیر ہیں ٹیکس کے بغیر معاملات حکومت نہیں چل سکتے، یہ سب جانتے ہیں مگر عوام ٹیکس سسٹم میں مضمر خرابیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں، تاجر برادری کو ان لازمات کا زیادہ اثر لینا پڑتا ہے، ان پر ٹیکس سے گریز پائی کا بیشتر ملبہ گرایا جاتا ہے، برس ہا برس سے ٹیکس سسٹم اور تاجروں میں ٹھنی ہوئی ہے، حکومت کہتی ہے کہ تاجر ٹیکس سے کتراتے ہیں۔
تاجر برادری کا کہنا یہ ہے کہ ٹیکس جائز اور منصفانہ ہو تو ہم تیار ہیں، معاملہ بے اعتمادی کا ہے، سب ایک دوسرے کے بارے میں بد اعتمادی کا شکار ہیں، جب کہ ایک جمہوری حکومت کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ ٹیکس نظام کو شفاف بنائے، عوام اور کاروباری لوگ ٹیکس ضرور دیں۔
ان دنوں انٹرٹینمنٹ میں ایسے عناصر در آئے ہیں جو فن کی اقدار سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، ان کے ٹارگٹ کچھ اور ہیں، وہ کسی جوڑ کلچر سے وابستگی اختیار کرتے اور حکومت اور دیگر اداروں سے فنکاروں کے نام پر مفادات حاصل کرتے ہیں، ان کی فن سے کوئی کمٹمنٹ نہیں ہوتی، وہ لٹریچر سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، ان کا انداز نظر کسی فلم یا ڈرامہ سیریز سے شہرت حاصل کرکے خود کو ایک مشہور سماجی شخصیت منوانے کی دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں، اس کے بعد ان پر این جی اوز کے دروازے کھلتے ہیں، وہ سماجی، فنی، طبی اور خیراتی مقصد کے لیے کوئی ٹرسٹ یا فاؤنڈیشن بنا لیتے ہیں۔
حکومت سے رابطہ کرنا اور اپنے مقاصد کے بارے میں متعلقہ شخصیات سے ڈیل کرنا ان کے لیے مشکل نہیں ہوتا، لیکن یہی وہ مقام ہے جب ایف بی آر کو ایک لکیر لگانی چاہیے، کھلاڑی، آرٹ اور فنکار کے درمیان مقصد اور آدرش کے بیچ کوئی مستند مقصد ہونا چاہیے، کمٹمنٹ ناگزیر ہے، وہ ہزاروں کھلاڑی اور فنکار ہیں کوئی ان کی داد رسی نہیں کرتا، سیکڑوں فنکاروں،گلوکاروں، فٹبالرز اور باکمال لوگوں کی قدر افزائی نہیں ہوتی، وہ گمنامی میں مر جاتے ہیں لیکن جعل سازوں کو خوب سپورٹ ملتی ہے، یہ راہیں بند ہونی چاہئیں، شائستگی اور فنون ادب کی خدمت کے لیے زندگیاں وقف کرنے والوں کی پذیرائی ہونا شرط ہے۔
فی زمانہ رفاہی کاموں میں مختلف النوع عناصر کی دلچسپی بڑھ گئی ہے، لوگ خیرات، صدقات، گرانٹ، سرکاری سہولت اور پلاٹ کے بہانے کسی رفاہی ادارہ کا حوالہ دے کر اپنا مقصد نکال لیتے ہیں ایسی جعلسازی یا ٹارگٹڈ مقاصد کی حوصلہ شکنی ناگزیر ہے، مشاہدے میں آیا ہے کہ شہرت اور سیلیبریٹی کو این جی او یا تعلیمی اور فلاحی ٹرسٹ کے قیام اور حکومت سے معاونت کا فیشن عروج پر ہے، یہ معاملہ بھی ایف بی آر کے ایجنڈے پر آنا چاہیے۔ خدمت خلق کے لیے جو نیک اور بے لوث تنظیمیں اور شخصیات دکھی انسانیت کے لیے سرگرم عمل ہیں، ان کا کردار داغدار کرنے والی مفاد پرست سماجی تنظیمیں پیچھے ہٹ جائیں۔
نئے سال کی آمد کے ساتھ سیاسی مبصرین اور محققین نے سال رفتہ میں ہونے والے واقعات کا حالات کے تناظر میں جائزہ لینا شروع کر دیا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے تقریباً چار سالہ دورانیے اور مجموعی بیانیے کا جو نتیجہ برآمد ہوتا ہے، اسے اقتصادی اور معاشی طور پر ترقی معکوس کے پیمانہ سے دیکھا جا رہا ہے۔
مبصرین اس استدلال کو بنیاد بناتے ہیں کہ حکومت اس پورے عرصہ میں ایک مستحکم اقتصادی حکمت عملی پر ثابت قدمی سے قائم نہیں رہی، اس کے بے شمار اقدامات عارضی اور وقتی نتائج کے ساتھ ہی تبدیل ہوئے، کوئی سنگ میل قوم کو نظر نہیں آیا، حکومت نے پہلے 100 دن کا ٹارگٹ دیا اور پھر گنتی جاری رہی لیکن معاشی اوراقتصادی اشاریے کسی بریک تھرو کی نوید نہیں لائے، ٹاسک فورسز اور کمیٹیاں ناکام رہیں۔
عوام کسی نتیجہ خیز تبدیلی کے منتظر ہی رہے لیکن اس تبدیلی نے آخر کار کلاسیکی ادب کے اس مشہور مصرع کی شکل اختیار کرلی کہ ''ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں'' ماہرین نے اس مصرع کی تفہیم میں تبدیلی کے مختلف دورانیوں کا جائزہ لیا اور تغیر و تبدل کا ایک اصول تلاش کر لیا کہ حکومتی اقدامات، حکمت عملی اور فارمولے کسی دانش مند کے ذہن اور عملی کوشش کا نتیجہ ہوں گے تب لازماً عوام کو ملک کے اقتصادی اور معاشی نظام میں کوئی تبدیلی نظر آئے گی۔
مگریہ المیہ ہے کہ وزیراعظم صاحب نے چار سالہ دورانیے میں متعدد معاشی فارمولوں کے حوالے دیے، مختلف دوست ملکوں کے اقتصادی اور معاشی نظاموں کا جائزہ پیش کیا، ان کے رول ماڈل چین، ترکی، ملائیشیا کے سیاسی رہنما تھے، جن میں طیب اردوان، شی جن پنگ اورڈاکٹر مہاتیر محمد نمایاں ہیں مگر پاکستان کے معاشی چارہ گر کسی وزیر اعظم یا صدر کے معاشی فلسفہ سے استفادہ میں کامیاب نہیں ہوئے، حیرت ہے کہ انھیں ڈاکٹر محبوب الحق کبھی یاد نہیں آئے۔
اس طرح چار سال میں حکومت کو بہت سارے کام کرنے کو ملے اور وہ ہوئے بھی، لیکن عوام کو کوئی پائیدار سماجی و سیاسی نظام نہیں ملا جس کی بنیاد پر پاکستان خود کفیل بنتا اور اسے اقتصادی خود مختاری حاصل ہوتی، ملک میں صنعتی ترقی ہوتی، ملک کے فہمیدہ عناصر آخر اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ حکومت فیصلہ کی طاقت اور ارادہ سے تہی دامن ہے، حکومت نے انڈسٹریلائزیشن کا کوئی ٹارگٹ حاصل نہیں کیا جب کہ
یاران تیز گام نے منزل کو پا لیا
ہم محو نالۂ جرس کارواں رہے
ایک معاصر اخبار نے نئے سال کی ابتدا دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ کے حوالہ سے کی ہے جس کے مطابق پاکستان میں 6 سال تک دہشتگردی کے واقعات میں تسلسل سے کمی کے بعد 2021 میں ایک بار پھر جنگجو حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
بلوچستان سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ رہا، حقیقت یہ ہے کہ ملکی سالمیت اور دہشتگردی کی روک تھام کے سلسلہ میں پاک فوج نے سیاسی قیادت کے ساتھ مشترکہ بریفنگز میں قوم کو یقین دلایا کہ ملکی سالمیت کے لیے پاک فوج جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے تیار ہے، تاہم خطے کی شعلہ بار جدلیات کا تقاضا ہے کہ ملکی سیاست، معیشت، سفارت اور سیاحت داخلی انتشار سے محفوظ رہے، عوام سیاست دانوں اور حکومت میں لفظوں کی جنگ سے بے زار ہو چکے ہیں۔
مثلاً چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر محمد اشفاق احمد نے کہا ہے کہ منی بجٹ میں حکومت کو جی ایس ٹی پر چھوٹ واپس لینے کی سیاسی قیمت چکانا پڑے گی۔ 74 برسوں سے جو بھی مفاد پرست ٹولے آئے انھوں نے من پسند ٹیکس استثنیٰ دیا اور اپنی مرضی سے ایف بی آر کے قوانین میں ترامیم کرتے رہے وہ ٹیکس استثنیٰ جو کسی با اثر ایلیٹ گروپ سے متعلقہ تھا ان پر کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا کیوں کہ یہ سیاسی طور پر غیر مقبول فیصلے ہیں۔ ٹیکس پالیسی اصلاحات بہت پہلے سے کرنے کی ضرورت تھی، موجودہ حکومت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے سیاسی لحاظ سے یہ غیر مقبول فیصلے کیے جس کی سیاسی قیمت بھی ہو سکتی ہے، ان ٹیکس استثنیٰ سے عام آدمی کو نہیں بلکہ ایلیٹ کلاس کو فائدہ تھا۔
مختلف مفاد پرست گروپوں کو 70 برس سے حاصل 343 ارب روپے کا ٹیکس استثنیٰ ختم کیا گیا اس سے ٹیکس نظام میں بہتری آئے گی، بتدریج مزید ٹیکس استثنیٰ بھی ختم کیے جائیں گے، جی ایس ٹی کی 17 فیصد کی شرح کو بھی کم کرنے پر کام ہو رہا ہے، 90 فیصد کے قریب ٹیکس استثنیٰ کو ختم کر دیا گیا ہے ماضی میں جب بھی آئی ایم ایف کا مطالبہ آتا ہم نئے ٹیکس لگا دیتے ہیں مگر پالیسی سطح کی تبدیلیوں پر کسی نے توجہ نہ دی ،کسی نے ایلیٹ کلاس کا ٹیکس استثنیٰ ختم نہیں کیا کیوں کہ یہ غیر مقبول فیصلے تھے لیکن ہم نے فی الحال صرف جی ایس ٹی پر استثنیٰ ختم کیا ہے اور غریب آدمی اور پیداواری شعبے کو تحفظ دیا گیا ہے، لیکن دوسری طرف ایف بی آر کو این جی اوز کے معاملات میں شفافیت کے لیے بھی فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
ٹیکس کلیکشن اور ٹیکس اصلاحات میں بنیادی تضادات کو دور کرنا ہے، مثلاً وزیر اعظم یہ بات لاشعوری طور پر کہہ چکے ہیں کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے، جب کہ ان قوموں کی مثال دیتے ہوئے وزیر اعظم نے اس استدلال کا سہارا لیا کہ جو قومیں پیسے نہیں دیتیں، ان کی اکنامی کبھی ترقی نہیں کر سکتی، پھر وہ اس بنیادی سوال پر آتے ہیں کہ ٹیکس دینے والی اقوام کی معیشت اس لیے مستحکم ہوتی ہے کہ وہ امور ریاست کے معاملات میں حصہ لیتے ہیں، اپنی ذمے داریاں پوری کرتے ہیں، لیکن عوام کو جو ٹیکس سسٹم سے شکایات ہیں اس کی طرف ریاست یا حکومت کوئی توجہ نہیں دیتی، سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے، عوام ٹیکس کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔
ملازمت پیشہ شخص ٹیکس بھی دیتا ہے لیکن اس پر الزام ہے کہ ''لوگ ٹیکس نہیں دیتے'' اس انداز نظر کو ختم کرنا ہوگا، ٹیکس اصلاحات ناگزیر ہیں ٹیکس کے بغیر معاملات حکومت نہیں چل سکتے، یہ سب جانتے ہیں مگر عوام ٹیکس سسٹم میں مضمر خرابیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں، تاجر برادری کو ان لازمات کا زیادہ اثر لینا پڑتا ہے، ان پر ٹیکس سے گریز پائی کا بیشتر ملبہ گرایا جاتا ہے، برس ہا برس سے ٹیکس سسٹم اور تاجروں میں ٹھنی ہوئی ہے، حکومت کہتی ہے کہ تاجر ٹیکس سے کتراتے ہیں۔
تاجر برادری کا کہنا یہ ہے کہ ٹیکس جائز اور منصفانہ ہو تو ہم تیار ہیں، معاملہ بے اعتمادی کا ہے، سب ایک دوسرے کے بارے میں بد اعتمادی کا شکار ہیں، جب کہ ایک جمہوری حکومت کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ ٹیکس نظام کو شفاف بنائے، عوام اور کاروباری لوگ ٹیکس ضرور دیں۔
ان دنوں انٹرٹینمنٹ میں ایسے عناصر در آئے ہیں جو فن کی اقدار سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، ان کے ٹارگٹ کچھ اور ہیں، وہ کسی جوڑ کلچر سے وابستگی اختیار کرتے اور حکومت اور دیگر اداروں سے فنکاروں کے نام پر مفادات حاصل کرتے ہیں، ان کی فن سے کوئی کمٹمنٹ نہیں ہوتی، وہ لٹریچر سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، ان کا انداز نظر کسی فلم یا ڈرامہ سیریز سے شہرت حاصل کرکے خود کو ایک مشہور سماجی شخصیت منوانے کی دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں، اس کے بعد ان پر این جی اوز کے دروازے کھلتے ہیں، وہ سماجی، فنی، طبی اور خیراتی مقصد کے لیے کوئی ٹرسٹ یا فاؤنڈیشن بنا لیتے ہیں۔
حکومت سے رابطہ کرنا اور اپنے مقاصد کے بارے میں متعلقہ شخصیات سے ڈیل کرنا ان کے لیے مشکل نہیں ہوتا، لیکن یہی وہ مقام ہے جب ایف بی آر کو ایک لکیر لگانی چاہیے، کھلاڑی، آرٹ اور فنکار کے درمیان مقصد اور آدرش کے بیچ کوئی مستند مقصد ہونا چاہیے، کمٹمنٹ ناگزیر ہے، وہ ہزاروں کھلاڑی اور فنکار ہیں کوئی ان کی داد رسی نہیں کرتا، سیکڑوں فنکاروں،گلوکاروں، فٹبالرز اور باکمال لوگوں کی قدر افزائی نہیں ہوتی، وہ گمنامی میں مر جاتے ہیں لیکن جعل سازوں کو خوب سپورٹ ملتی ہے، یہ راہیں بند ہونی چاہئیں، شائستگی اور فنون ادب کی خدمت کے لیے زندگیاں وقف کرنے والوں کی پذیرائی ہونا شرط ہے۔
فی زمانہ رفاہی کاموں میں مختلف النوع عناصر کی دلچسپی بڑھ گئی ہے، لوگ خیرات، صدقات، گرانٹ، سرکاری سہولت اور پلاٹ کے بہانے کسی رفاہی ادارہ کا حوالہ دے کر اپنا مقصد نکال لیتے ہیں ایسی جعلسازی یا ٹارگٹڈ مقاصد کی حوصلہ شکنی ناگزیر ہے، مشاہدے میں آیا ہے کہ شہرت اور سیلیبریٹی کو این جی او یا تعلیمی اور فلاحی ٹرسٹ کے قیام اور حکومت سے معاونت کا فیشن عروج پر ہے، یہ معاملہ بھی ایف بی آر کے ایجنڈے پر آنا چاہیے۔ خدمت خلق کے لیے جو نیک اور بے لوث تنظیمیں اور شخصیات دکھی انسانیت کے لیے سرگرم عمل ہیں، ان کا کردار داغدار کرنے والی مفاد پرست سماجی تنظیمیں پیچھے ہٹ جائیں۔