روشن خیالی اور بنیاد پرستی
ہمارا فرض ہے کہ ہم افغانستان میں ان کی حکومت کو ان کے مزاج افتاد اور عقیدے کے مطابق اقدامات کرنے دیں۔
ایک وفاقی وزیر صاحب پی ٹی آئی حکومت میں شامل ٹیم میں سے ان چند افراد میں سے ایک ہیں جنھوں نے طویل سیاسی زندگی گزاری ہے اور امور مملکت کو سیاسی انداز میں دیکھنے، سوچنے اور اس کا حل نکالنا چاہتے ہیں۔ وہ اسی لیے اقتدار سے پہلے جس انداز کی سیاست کرتے تھے ، اقتدار میں آنے کے بعد ایک دوسرے اندازکی سیاست کر رہے ہیں۔ ان کا لب و لہجہ اب صاحب اختیار لوگوں جیسا ہے۔
مگر وہ ہیں بھی روشن خیال ، ترقی پسند اور لبرل۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے دنوں مرحومہ بے نظیر بھٹو کے یوم شہادت پر پیپلز پارٹی کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے انھوں نے تحریک پاکستان، پاکستان اور پڑوسی ممالک کے واسطے سے بھی چند باتیں کہہ ڈالیں۔
روشن خیال اور آزادانہ فکر کے حامل افراد کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ بنیاد پرستی کے نہ صرف قائل نہیں ہوتے بلکہ وہ کسی بنیاد پر سرے سے یقین نہیں رکھتے اور بنیاد سے ناآشنا ہونے کے جو نقصانات ہیں اس سے بھی یا تو وہ واقف نہیں ہوتے یا اسے خاطر میں نہیں لاتے۔ چنانچہ اپنے مذکورہ بیان میں جہاں انھوں نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو آڑے ہاتھ لیا ، وہیں تحریک پاکستان کے ذیل میں بنیاد پرست عناصر پر بھی برس پڑے۔
ان کا کہنا تھا قائد اعظم پاکستان میں کوئی مذہبی ریاست قائم کرنا نہیں چاہتے تھے ، اگر ایسا ہوتا تو تحریک پاکستان کی رہنمائی مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا مودودی کر رہے ہوتے۔ قائد اعظم کوئی مذہبی ریاست بنانا نہیں چاہتے تھے۔
تحریک پاکستان کے دنوں میں لاتعداد مذہبی علما ، اسکالر، مذہبی جماعتوں کے رہنما اور مسلمانوں کی غالب اکثریت قائد اعظم کی پشت پناہ تھی اور یہ سب قائد اعظم کی رہنمائی میں ایک مذہبی ریاست کے قیام کے لیے کوشاں تھے اور اسی لیے بڑے بڑے دینی رہنما بھی قائد اعظم کی سربراہی کو قبول کیے ہوئے تھے اور ان کی قوت بنے ہوئے تھے۔ یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ رہی یہ بات کہ اگر کوئی مذہبی ریاست بنانا مقصود ہوتا تو اس کی قیادت کوئی مولانا کر رہے ہوتے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کا معاملہ ناقابل فہم ہے۔ قرآن، متعدد دینی کتب کا مصنف، البلاغ اور الہلال کا مدیر آخر کیوں کر متحدہ ہندوستان کی سیکولر ریاست کا وکیل بنا رہا۔ یہ سیاست کے طالب علم کے لیے ہمیشہ استعجاب کا باعث بنا رہے گا۔ مولانا ایک لادینی جمہوری ہندوستان کے لیے برسر عمل رہے یہ انہونی بات ہو کر رہی۔ پھر یہ سمجھنا کہ مولانا آزاد کسی مذہبی ریاست کے قیام کی سربراہی کرتے محض خام خیالی ہے۔
رہے مولانا مودودی تو ان کا قائد اعظم سے صرف یہ اختلاف تھا کہ مولانا کے خیال میں قائد اعظم کی ٹیم ملک میں اسلام کے نفاذ کے اہل نہیں اور ایسے کارکنوں کی موجودگی میں اسلامی نظام کا نفاذ محض خام خیالی ہے۔ مولانا مودودی پاکستان میں نظام اسلام کے نفاذ کے معاملے میں بڑے حساس تھے ، یہی وجہ ہے کہ تقسیم ملک کے فوراً بعد وہ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آگئے کہ انھیں مسلم لیگ کے ارباب حل و عقد پر نفاذ اسلام کے معاملے میں اعتماد نہیں تھا اور پھر وہ زندگی بھر یہاں نظام اسلام ہی کے نفاذ کے لیے کوشاں رہے اور آج بھی ان کی جماعت اپنے اسی موقف پر قائم ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ خود جماعت اسلامی کو وہ لیڈر شپ اور اتنی عوامی مقبولیت حاصل نہ ہو سکی جو نفاذ اسلام کے لیے مطلوب تھی۔
یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ مولانا مودودی نے جو پیش بینی کی تھی کہ مسلم لیگ کی غیر تربیت یافتہ لیڈر شپ ملک میں نفاذ اسلام کا فرض انجام نہ دے سکے گی وہ حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی اور قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے انتقال کے بعد ہمارا حکمران طبقہ یہ بھی بھول گیا کہ اس نے یہ ملک کس غرض سے حاصل کیا تھا اور ہماری جماعت نے اس سلسلے میں عوام سے کیا وعدے کیے تھے اور یہ سبق فراموش کردینے کا نتیجہ ہے کہ ہر کچھ دن بعد کوئی نہ کوئی دانش ور اٹھتا ہے اور فرما دیتا ہے کہ قائد اعظم کوئی مذہبی ریاست نہیں بنانا چاہتے تھے۔ قائد اعظم کیا چاہتے تھے اب یہ ایک متنازعہ مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔
اب تو صورت حال یہ ہے کہ عمران خان صاحب پاکستان کو ریاست مدینہ جیسی ریاست بنانے کا اعلان فرما چکے ہیں۔ اب یہ ریاست مدینہ کیسی ہوگی، ہمیں اپنے روشن خیال دانش وروں سے توقع ہے کہ ریاست مدینہ کی تعبیر و تشریح شروع نہ کردیں۔ تحریک پاکستان کو تو ابھی ایک صدی نہیں گزری ہے کہ ہم نے اس کی تعبیر و تشریح اپنے اپنے طور پرکرکے اس کی ایسی صورت گری کردی ہے کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی۔
ورنہ ہے یوں کہ ریاست مدینہ میں خواتین کے سفر، تنہا سفر کے لیے وہی پابندیاں نافذ تھیں جو فی زمانہ طالبان نے اپنے ملک میں نافذ کی ہیں اور جس کی بنیاد پر فواد چوہدری صاحب نے ان کو بھی انتہا پسند، تنگ نظر اور رجعت کا شکار قرار دیا ہے۔بات میں بات نکل آتی ہے۔ عورتوں کے حقوق کے تعلق سے طالبان کا موقف یہ ہے کہ وہ خواتین کو وہی حقوق دے رہے ہیں جو ریاست مدینہ میں رائج تھے اور جو ان کی معاشرت اور روایات سے ہم آہنگ ہیں۔
افغانستان کے پڑوسی ہونے کی حیثیت سے اس وقت ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم افغانیوں کو تباہی و بربادی سے محفوظ رکھیں۔ پاکستانی حکومت اس سے آگاہ ہے اور اس نے اس سلسلے میں چند قابل تعریف اقدامات بھی کیے ہیں لیکن اقوام یورپ اور خصوصاً امریکا عورتوں کے حقوق کے تعلق سے افغانستان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے اکاؤنٹس منجمد کرکے طالبان حکومت کو مصیبت میں مبتلا کردیا ہے۔
ایسے میں ہمارا فرض ہے کہ ہم افغانستان میں ان کی حکومت کو ان کے مزاج افتاد اور عقیدے کے مطابق اقدامات کرنے دیں اور ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کے بجائے ان کی معاشی بحالی کو ممکن بنائیں جس کے لیے پاکستان پہلے ہی کوشاں ہے۔ افغانی حکومت اپنے ملک میں کیا اقدام کرتی ہے وہ ان کے اور ان کے عوام کا مسئلہ ہے اور ان کے اندرون ملک اقدامات سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
وزیر صاحب نے یہ کہہ کر کہ ہمارے ایک طرف طالبان جیسے رجعت پسند اور انتہا پرست موجود ہیں تو دوسری طرف بھارت جیسا انتہا پسند ہندوتوا کا شکار۔ ہمیں دونوں ہی سے خطرہ ہے افغانستان کو بھارت کی طرح کا ملک قرار دینا اور دونوں سے کشمکش کو برقرار رکھنا دانش مندی نہیں۔ ہمیں اپنی سرحد کے بالائی جانب اپنے افغان بھائیوں سے واسطہ ہے جن سے ہماری جنگ ہرگز نہیں، برادرانہ تعلق ہے اور اگر ہم ان کی کسی بات کو باہمی تعلق کے لیے مضر سمجھیں تو گفت و شنید کے دروازے کھلے ہوئے جب کہ بھارت نے اپنی تمام کھڑکیاں اور دروازے ہمارے لیے بند کر رکھے ہیں۔
مگر وہ ہیں بھی روشن خیال ، ترقی پسند اور لبرل۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے دنوں مرحومہ بے نظیر بھٹو کے یوم شہادت پر پیپلز پارٹی کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے انھوں نے تحریک پاکستان، پاکستان اور پڑوسی ممالک کے واسطے سے بھی چند باتیں کہہ ڈالیں۔
روشن خیال اور آزادانہ فکر کے حامل افراد کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ بنیاد پرستی کے نہ صرف قائل نہیں ہوتے بلکہ وہ کسی بنیاد پر سرے سے یقین نہیں رکھتے اور بنیاد سے ناآشنا ہونے کے جو نقصانات ہیں اس سے بھی یا تو وہ واقف نہیں ہوتے یا اسے خاطر میں نہیں لاتے۔ چنانچہ اپنے مذکورہ بیان میں جہاں انھوں نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو آڑے ہاتھ لیا ، وہیں تحریک پاکستان کے ذیل میں بنیاد پرست عناصر پر بھی برس پڑے۔
ان کا کہنا تھا قائد اعظم پاکستان میں کوئی مذہبی ریاست قائم کرنا نہیں چاہتے تھے ، اگر ایسا ہوتا تو تحریک پاکستان کی رہنمائی مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا مودودی کر رہے ہوتے۔ قائد اعظم کوئی مذہبی ریاست بنانا نہیں چاہتے تھے۔
تحریک پاکستان کے دنوں میں لاتعداد مذہبی علما ، اسکالر، مذہبی جماعتوں کے رہنما اور مسلمانوں کی غالب اکثریت قائد اعظم کی پشت پناہ تھی اور یہ سب قائد اعظم کی رہنمائی میں ایک مذہبی ریاست کے قیام کے لیے کوشاں تھے اور اسی لیے بڑے بڑے دینی رہنما بھی قائد اعظم کی سربراہی کو قبول کیے ہوئے تھے اور ان کی قوت بنے ہوئے تھے۔ یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ رہی یہ بات کہ اگر کوئی مذہبی ریاست بنانا مقصود ہوتا تو اس کی قیادت کوئی مولانا کر رہے ہوتے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کا معاملہ ناقابل فہم ہے۔ قرآن، متعدد دینی کتب کا مصنف، البلاغ اور الہلال کا مدیر آخر کیوں کر متحدہ ہندوستان کی سیکولر ریاست کا وکیل بنا رہا۔ یہ سیاست کے طالب علم کے لیے ہمیشہ استعجاب کا باعث بنا رہے گا۔ مولانا ایک لادینی جمہوری ہندوستان کے لیے برسر عمل رہے یہ انہونی بات ہو کر رہی۔ پھر یہ سمجھنا کہ مولانا آزاد کسی مذہبی ریاست کے قیام کی سربراہی کرتے محض خام خیالی ہے۔
رہے مولانا مودودی تو ان کا قائد اعظم سے صرف یہ اختلاف تھا کہ مولانا کے خیال میں قائد اعظم کی ٹیم ملک میں اسلام کے نفاذ کے اہل نہیں اور ایسے کارکنوں کی موجودگی میں اسلامی نظام کا نفاذ محض خام خیالی ہے۔ مولانا مودودی پاکستان میں نظام اسلام کے نفاذ کے معاملے میں بڑے حساس تھے ، یہی وجہ ہے کہ تقسیم ملک کے فوراً بعد وہ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آگئے کہ انھیں مسلم لیگ کے ارباب حل و عقد پر نفاذ اسلام کے معاملے میں اعتماد نہیں تھا اور پھر وہ زندگی بھر یہاں نظام اسلام ہی کے نفاذ کے لیے کوشاں رہے اور آج بھی ان کی جماعت اپنے اسی موقف پر قائم ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ خود جماعت اسلامی کو وہ لیڈر شپ اور اتنی عوامی مقبولیت حاصل نہ ہو سکی جو نفاذ اسلام کے لیے مطلوب تھی۔
یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ مولانا مودودی نے جو پیش بینی کی تھی کہ مسلم لیگ کی غیر تربیت یافتہ لیڈر شپ ملک میں نفاذ اسلام کا فرض انجام نہ دے سکے گی وہ حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی اور قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے انتقال کے بعد ہمارا حکمران طبقہ یہ بھی بھول گیا کہ اس نے یہ ملک کس غرض سے حاصل کیا تھا اور ہماری جماعت نے اس سلسلے میں عوام سے کیا وعدے کیے تھے اور یہ سبق فراموش کردینے کا نتیجہ ہے کہ ہر کچھ دن بعد کوئی نہ کوئی دانش ور اٹھتا ہے اور فرما دیتا ہے کہ قائد اعظم کوئی مذہبی ریاست نہیں بنانا چاہتے تھے۔ قائد اعظم کیا چاہتے تھے اب یہ ایک متنازعہ مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔
اب تو صورت حال یہ ہے کہ عمران خان صاحب پاکستان کو ریاست مدینہ جیسی ریاست بنانے کا اعلان فرما چکے ہیں۔ اب یہ ریاست مدینہ کیسی ہوگی، ہمیں اپنے روشن خیال دانش وروں سے توقع ہے کہ ریاست مدینہ کی تعبیر و تشریح شروع نہ کردیں۔ تحریک پاکستان کو تو ابھی ایک صدی نہیں گزری ہے کہ ہم نے اس کی تعبیر و تشریح اپنے اپنے طور پرکرکے اس کی ایسی صورت گری کردی ہے کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی۔
ورنہ ہے یوں کہ ریاست مدینہ میں خواتین کے سفر، تنہا سفر کے لیے وہی پابندیاں نافذ تھیں جو فی زمانہ طالبان نے اپنے ملک میں نافذ کی ہیں اور جس کی بنیاد پر فواد چوہدری صاحب نے ان کو بھی انتہا پسند، تنگ نظر اور رجعت کا شکار قرار دیا ہے۔بات میں بات نکل آتی ہے۔ عورتوں کے حقوق کے تعلق سے طالبان کا موقف یہ ہے کہ وہ خواتین کو وہی حقوق دے رہے ہیں جو ریاست مدینہ میں رائج تھے اور جو ان کی معاشرت اور روایات سے ہم آہنگ ہیں۔
افغانستان کے پڑوسی ہونے کی حیثیت سے اس وقت ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم افغانیوں کو تباہی و بربادی سے محفوظ رکھیں۔ پاکستانی حکومت اس سے آگاہ ہے اور اس نے اس سلسلے میں چند قابل تعریف اقدامات بھی کیے ہیں لیکن اقوام یورپ اور خصوصاً امریکا عورتوں کے حقوق کے تعلق سے افغانستان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے اکاؤنٹس منجمد کرکے طالبان حکومت کو مصیبت میں مبتلا کردیا ہے۔
ایسے میں ہمارا فرض ہے کہ ہم افغانستان میں ان کی حکومت کو ان کے مزاج افتاد اور عقیدے کے مطابق اقدامات کرنے دیں اور ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کے بجائے ان کی معاشی بحالی کو ممکن بنائیں جس کے لیے پاکستان پہلے ہی کوشاں ہے۔ افغانی حکومت اپنے ملک میں کیا اقدام کرتی ہے وہ ان کے اور ان کے عوام کا مسئلہ ہے اور ان کے اندرون ملک اقدامات سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
وزیر صاحب نے یہ کہہ کر کہ ہمارے ایک طرف طالبان جیسے رجعت پسند اور انتہا پرست موجود ہیں تو دوسری طرف بھارت جیسا انتہا پسند ہندوتوا کا شکار۔ ہمیں دونوں ہی سے خطرہ ہے افغانستان کو بھارت کی طرح کا ملک قرار دینا اور دونوں سے کشمکش کو برقرار رکھنا دانش مندی نہیں۔ ہمیں اپنی سرحد کے بالائی جانب اپنے افغان بھائیوں سے واسطہ ہے جن سے ہماری جنگ ہرگز نہیں، برادرانہ تعلق ہے اور اگر ہم ان کی کسی بات کو باہمی تعلق کے لیے مضر سمجھیں تو گفت و شنید کے دروازے کھلے ہوئے جب کہ بھارت نے اپنی تمام کھڑکیاں اور دروازے ہمارے لیے بند کر رکھے ہیں۔