نئی سوچ اور فکر کی ضرورت

ہمارا بنیادی کام ریاست کے نظام کو شفاف بنانا ہوتا ہے، ایسا نظام جو عام لوگوں کی توقعات کے مطابق ہو۔

salmanabidpk@gmail.com

لاہور:
پاکستان کی سیاست کا ایک خاصا منفی سیاست کا کھیل ہے۔ اس کھیل نے ہماری سیاست ، جمہوریت اور معاشرتی اقدار کو تماشہ بنا دیا ہے ۔ سیاسی ، سماجی ، مذہبی یا معاشرتی فورمز یا مباحث کے مراکز ہوں، سب جگہ منفی پہلو نمایاں نظر آئیں گے۔

تنقید کرنا ہر کسی کا بنیادی حق ہے اور یہ عمل معاشرے کی اصلاح میں معاونت کرتا ہے۔مگر یہاں تنقید کم اورتضحیک کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے ۔ ہم ایک دوسرے کی تضحیک کرکے خوش ہوتے ہیں ۔ہم اپنے سچ کو ہی مکمل سچ اور دوسروں کے سچ کو جھوٹ سمجھتے ہیں ۔ اپنی رائے کو دوسروں پر مسلط کرنا بھی ہماری فکر کا حصہ بن گیا ہے ۔ یہ ماحول انتشار، نفرت اورحسد کے جذبات کو تقویت دے رہا ہے۔

اس وقت ہم قومی سیاست کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ ہم نے منفی سیاست کو اپنے سیاسی مخالفین کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پارلیمانی مباحث کو دیکھیں تو واقعی شرم آتی ہے کہ کس طرح ہمارے ارکان اسمبلی نے پارلیمنٹ کو محاذ آرائی کا مرکز بنادیا ہے ۔کچھ پارلیمنٹ میں ہوااور جو ہاتھا پائی دیکھنے کو ملی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی ماضی کی سیاسی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے ان ہی غلطیوں کو دہرا کر اپنے ہی سیاسی نظام کو خراب کرنے کے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت محاذ آرائی کی سیاست کو اپنی سیاسی طاقت سمجھتی ہے۔ کیونکہ محاذآرائی سیاسی قیادت کے مفاد میں ہوتی ہے اور وہ عوام کو غیر حقیقی یا غیراہم ایشوزمیں الجھائے رکھنے کو ہی اپنی سیاسی حکمت عملی سمجھتی ہے ۔اس لیے ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گاسیاسی جماعتیں یا ان کی قیادت اپنے اندر اصلاحات لانے کے لیے تیار نہیں ۔کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ اگر ہم سیاسی اصلاحات کو بنیاد بنا کر آگے بڑھیں گے تو ان کی اپنی سیاسی طاقت کمزور ہوگی ۔

سیاسی جماعتوں او رقیاد ت کا کام قوم میں امید پیدا کرنا ، بہترمستقبل کا خاکہ پیش کرنا ، خرابیوں پر اپنا متبادل نظام پیش کرنا ،لوگوں کو متحرک، منظم اور تنظیم میں تبدیل کرنا ، لوگوں کو مسئلہ کے حل میں مسئلہ بنانے کے بجائے مسئلہ کے حل کی طرف لانا یا جوابدہی ، شفاف نظام کو پیش کرنا ہوتا ہے ۔لیکن یہاں سیاسی قیادت چاہے وہ حکومت میں ہو یا حزب اختلاف کی سیاست کاحصہ ہوں لگتا ہے کہ وہ مسئلہ کے حل کے بجائے بگاڑ پیدا کرنے کے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔


ہمارے ٹی وی ٹاک شوز ہوں یا اخبارات کی اہم سرخیاں دیکھیں یا علمی و فکری مباحث کو دیکھیں تو ہمیں تین پہلو نمایاں نظر آتے ہیں ۔ اول ، امید کے پہلو کم اور مایوسی کا بیانیہ زیادہ ہوتا ہے۔ دوئم تنقید کے بجائے ہماری گفتگو میں عملی طور پر دوسروں کے بارے میں تضحیک کا پہلو نمایاں ہوتا ہے او ریہ ایک منظم ایجنڈے کا حصہ بھی ہوتا ہے ۔سوئم متبادل بیانیہ دینے کے بجائے ماضی یا حال کا ماتم کرتے ہیں او رمستقبل پر ان کی نظر کم ہوتی ہے ۔چہارم ہم طاقت کے مراکز کو دائرہ کار میں رکھنے کی جدوجہد کے بجائے خود کو اس کا حصہ بنا کر طاقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

ایک اہم فکری نقطہ ہے کہ اگر آپ کا علم ، تجربہ، صلاحیت یا سوچ وفکر دوسروں میں امید یا روشنی پید ا کرنے کے بجائے اندھیرا یا مایوسی پیدا کرتا ہے تو یہ ریاست کے لیے بے فائدہ ہے ۔اسی طرح ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ میڈیا کے محاذ پر جس خوفناک انداز میں شخصیت پرستی کی حمایت اورمخالفت میں بٹ گیا ہے، ٹی اینکرز اور شو کے شرکاء جس طرح کی سطحی نوعیت کی گفتگو کررہے ہیں ، اس سے بھی معاشرے میں جہالت کو علم یا معلومات میں اضافے کا روپ دے دیا ہے جو ملک و معاشرے میں دولے شاہ کے چوہوں کی تعداد میں دن دوگنی اور رات چوگنی اضافہ کررہا ہے، بدقسمتی سے یہ عمل پڑھے لکھے طبقے میں زیادہ تیز ہے۔

یہی وجہ کہ ملک سیاسی ، سماجی ، معاشی ، قانونی ، معاشرتی معاملات پیچھے چلا گیاہے اور اس کے نتیجے میں ہماری مجموعی ترقی کا عمل بھی متاثر ہورہا ہے ۔یہ نہیں کہ معاشرے میں ذہانت یا مثبت سوچ رکھنے والے لوگ موجود نہیں ہے لیکن ایسے لوگ فیصلہ ساز سرکل کا حصہ نہیں ہیں یا اگر حصہ ہے تو بہت کمزور ہے ۔ ان لوگوں کو ریاستی اور ادارہ جاتی سطح پرآگے لانے کے بجائے پیچھے دکھیل دیا جاتا ہے اور اس ملک کا اصل بحران یہی ہے ۔ اختیارات کے منابع پر قابض طبقہ اور اشرافیہ ایسے لوگوں کی پزیرائی کرتے ہیں جو ایک مخصوص طبقے کی سوچ وفکر اور اس کے مفادات کے تابع ہوتا ہے ۔

ہمارا بنیادی کام ریاست کے نظام کو شفاف بنانا ہوتا ہے۔ ایسا نظام جو عام لوگوں کی توقعات کے مطابق ہو او ران کے بنیادی حقوق کا ضامن ہو۔اس وقت مختلف نوعیت کے سنجیدہ چیلنجز موجود ہیں ۔ ان چیلنجز سے ہمیں کیسے نمٹنا ہے او رکیسے ایک متبادل بیانیہ دے کر نظام کی نئے انداز سے تشکیل نو کرنی ہے یہ ہی ہماری ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔ یہ عمل روائتی یا فرسودہ طور طریقوں سے نہیں بلکہ جدیدیت کی بنیاد پر کرنا ہوگا۔ جس انداز سے ہم اپنے نظام کو چلانے کی کوشش کررہے ہیں وہ مسائل کا حل نہیں ۔ ہمیں دنیا کے تجربات سے سیکھنا ہوگا کہ کیسے وہ ترقی کے دھارے میں شامل ہوئے ۔

یہ کام سیاسی جماعتوں سے زیادہ معاشرے میں رائے عامہ بنانے والے طبقات جن میں سول سوسائٹی او رمیڈیا سرفہرست ہیں کو کرنا ہے اور ان کو موجودہ ریاستی یا حکومتی یا طرز حکمرانی کی خامیوں کی نہ صرف نشاندہی کرنی ہے بلکہ ان کا معقول حل بھی پیش کرنا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا رائے عامہ بنانے والے افراد یا ادارے ایک متبادل ایجنڈے کے لیے تیار ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اگر یہ لوگ تیار نہیں تو ہمیں ان کے مقابلے میں نئی قیادت ، افراد اور اداروں کو سامنے لانا ہوگا ۔کیونکہ ہم ایسی جگہ پر کھڑے ہیں جہاں ہمیں بحران کے حل کے لیے ایک نیا متبادل نظام درکار ہے ۔
Load Next Story