کتھا چار جنموں کی
ستیہ پال آنند کا وجود محبتوں سے بھرا ہے، انکسار اور عاجزی ان کے بڑے پن کا ثبوت ہیں۔۔۔
کتابوں کی شیلف میں بالکل سامنے رکھی ہوئی ''چار جنموں کی کتھا'' نے کہا ''مجھے کب یاد کروگی،کیا اپنا وعدہ بھول گئیں؟'' نہیں ایسا تو ہرگز نہیں ہے۔۔۔۔میں نے جلدی سے کہا۔۔۔۔ اور پھر ایک جنم میں چار جنم جینے والے ستیہ پال آنند کی یہ نہایت دلچسپ جنم کتھا یوں مجھ سے ہم کلام ہوتی گئی، کہ جب شام سیاہ قبا نے چاندی کے تمام گہنے اتار کر اپنے آنے کی خبر دی۔۔۔۔قاری کو اپنے سحر میں جکڑنے والی آپ بیتیاں کم کم ہی پائی جاتی ہیں۔
ستیہ پال آنند کا نام ادب کے قارئین کے لیے قطعی اجنبی نہیں۔۔۔۔میرا تعارف بھی، بیسویں صدی شمع دہلی، اوراق اور دیگر ادبی رسائل میں شایع ہونیوالے افسانوں سے ہوا لیکن براہ راست ملاقات کراچی میں دسمبر 2012 میں ہوئی۔ جہاں وہ جمیل الدین عالی کی دعوت پر آئے تھے۔ کہنے کو تو صرف تین ملاقاتیں تھیں لیکن معنوی اعتبار سے کسی حد تک بھرپور ہونے کے باوجود تشنہ ہی رہیں البتہ یہ کمی کافی حد تک ان کی خود نوشت نے پوری کردی۔ ستیہ پال جی بہت مختصر مدت کے لیے کراچی آئے تھے۔ وہ انجمن ترقی اردو کی دعوت پر پہلے بھی کراچی آچکے ہیں لیکن نہ جانے کیوں ہماری ملاقات پہلے نہ ہوسکی۔ جس کا مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا۔ بدقسمتی سے اندرون ملک اور بیرون ملک سے آنیوالی ادبی و علمی شخصیات کو کچھ ادارے یا لوگ ہمیشہ ہائی جیک کرلیتے ہیں بہت سے لوگ چاہنے کے باوجود ان شخصیات سے بھرپور طریقے سے نجی طور پر مل نہیں پاتے، خواہ وہ کوئی کتب میلہ ہو یا ادبی کانفرنسیں، ہر تقریب میں چند شہہ بالے انھیں اپنے حصار سے نکلنے نہیں دیتے۔ انھیں کب کس سے ملنا ہے (ملنا بھی ہے کہ نہیں) کس تقریب کی صدارت کرنی ہے، کس ٹیلی ویژن یا اخبار کو انٹرویو دینا ہے۔ یہ سب وہ شہہ بالے طے کرتے ہیں جو اپنی مشہوری اور بیرون و اندرون ملک اپنی جگہ مختص کروانے کی جدوجہد میں، ان شخصیات کو ہائی جیک کیے رہتے ہیں۔ اس صورتحال کو مشفق خواجہ ستیہ پال جی سے (صفحہ نمبر 470) یوں بیان کرتے ہیں۔ ''اصل میں، آنند جی، یہ چھٹ بھیوں کا دور ہے۔ بلند قامتی کے دن ختم ہوگئے۔''
اپنی جنم کتھا 10 دسمبر 2013 کو ستیہ پال آنند جی نے اپنے دستخط کے ساتھ مجھے دی تھی لیکن اس کے تعارف میں دیر ہونے کی وجہ یہ تھی کہ یہ کتاب سرسری مطالعے کی اہل ہرگز نہیں تھی ۔ یہ کتھا 24 اپریل 1931 میں غیر منقسم ہندوستان کے شہر راولپنڈی کے کوٹ سارنگ میں جنم لینے والے اس بچے کی ہے جس کی ماں ہندو، باپ دادا سکھ اور پھوپھی بخت بی بی مسلمان۔۔۔۔کہ اس بچے نے محبتوں کی اس دھرتی پہ جنم لیا تھا۔ جہاں لوگ مذہب کے حوالوں سے نہیں بلکہ امن اور آشتی کے رشتوں سے گندھے تھے۔ باپ اکلوتے تھے اس لیے بخت بی بی سے راکھی بندھوا کر اسے منہ بولی بہن بنالیا۔ ایک رنگین دھاگے نے دو مختلف مذہب کے انسانوں کو بھائی بہن کے ایسے مضبوط رشتے میں باندھ دیا، جو حقیقی رشتوں پہ بھاری تھا۔ محبتوں اور امن کا یہ وہ خزانہ تھا جو تقسیم ہند سے پہلے جنم لینے والے بچوں کی میراث تھی، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے جڑا ہو لیکن وہ محبت کے آفاقی مذہب پہ یقین رکھتے تھے۔
''کتھا چار جنموں کی'' اس پہلے دکھ سے شروع ہوتی ہے جس میں ستیہ پال آنند کے بچپن سے جڑی انمول یادوں کے ساتھ ساتھ ہجرت کا وہ دکھ بھی ہے۔ جو انھیں سولہ سال کی کچی عمر میں سہنا پڑا، کوٹ سارنگ جہاں اس نے جنم لیا، جہاں اس کی آنکھوں نے پہلی بار نیلا آسمان دیکھا، اب وہ گھر اس کے لیے اجنبی تھا، جس کی دیواروں سے لگ کے کئی بار وہ خود سے باتیں کرتا تھا، وہ گھر کہتا تھا کہ مجھے چھوڑ کر نہ جاؤ، تم تو میری ہی چھت کے نیچے پلے بڑھے ہو۔ مجھے یوں الوداع نہ کہو کہ یہیں کی مٹی میں تمہارے پرکھوں کی ارتھیاں جلائی گئی ہیں۔ وہ بھی اسی مٹی کے بیٹے تھے جس کے تم ہو۔۔۔۔تب پہلی بار انھیں محسوس ہوا کہ یہ تقسیم ہجرتوں کے ایک لمبے سفر کی ابتدا ہے۔ اب انھیں اپنی جنم بھومی آنے کے لیے ویزا اور پاسپورٹ کی ضرورت پڑے گی۔ سرحدوں کی تقسیم زمین کی تقسیم سے بڑھ کر دلوں کی تقسیم بن گئی۔ پنڈی سے لدھیانہ جاتے جاتے راستے میں والد کا انتقال ہوجاتا ہے اور پھر ایک نئے لفظ سے تعارف ہوتا ہے وہ ہے ''شرنارتھی'' یعنی مہاجر۔۔۔۔ایسے لوگ جو اپنی زمین، اور اپنا آبائی وطن چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے کہیں اور آباد ہوگئے۔۔۔۔اب دوسرا وطن ہی ان کا دوسرا جنم تھا۔ اب یہی اجنبی دیس ان سب بدنصیبوں کے لیے جنھیں تاریخ کے جبر نے صلیب پر چڑھا دیا تھا، مندر ، مسجد اور گردوارہ تھا۔ تیرتھ تھا ۔ لیکن محبت اب کہیں نہیں تھی، کرپانیں، بندوقیں اور تلواریں نکل آئی تھیں، جن کے مکروہ چہروں نے پیار کے پھولوں کی جگہ ایٹم بم بو دیے تھے۔
یہ جنم کتھا بے شمار لوگوں سے ملاقات کرواتی ہے۔ زندگی میں ہندوستان، پاکستان، امریکا، کینیڈا اور برطانیہ میں جہاں جہاں لوگ ان سے ملے ان سب کا تذکرہ اگر کرنے بیٹھوں تو صرف ایک پورا کالم تو صرف ان ہی کے لیے درکار ہوگا۔ لیکن پاکستانی شاعرات کے حوالے سے بعض اختلافات موجود ہیں۔
ایک اور بات جو اس خود نوشت کو ممتاز کرتی ہے وہ اس کی سچائی اور صاف گوئی ہے یہ صرف سچ کی کتھا ہے۔انھوں نے زندگی گزارنے کے لیے کیسی جدوجہد کی، قلم کی مزدوری کی۔ ایک ایک صفحہ دلچسپ واقعات سے بھرا پڑا ہے۔ خاص کر اوپندر ناتھ اشک کا بیٹا جس نوجوان کے سر پر کتابوں سے بھرا صندوق رکھواکر لایا تھا اس کا نام تھا رمیش کپلا جو انگریزی، روسی، اردو اور ہندی ادب حافظ تھا۔ یہ نوجوان نوکری کی تلاش میں تھا۔ آنند جی نے اس کی مدد کی۔ لیکن زندگی کی کمرشل اکانومی میں کامیابی سے اپنی جگہ بنانے کے بعد وہ آنند جی کو یوں بھول گیا جیسے پیچھے کی شیلفوں پر رکھی پرانی کتاب، جس سے جتنا استفادہ کرنا تھا کر لیا اور سامنے کی شیلف تعلقات کی نئی کتابوں کے لیے خالی کردی گئی۔
ستیہ پال آنند کا وجود محبتوں سے بھرا ہے، انکسار اور عاجزی ان کے بڑے پن کا ثبوت ہیں، گھنے پھل دار درخت کی طرح جو اپنے ہی پھلوں کے وزن سے زمین کی طرف جھک جاتا ہے۔ اردو، انگریزی اور ہندی میں ان کی 40 مطبوعات ہیں جن میں اردو میں پانچ افسانوی مجموعے تین ناول ایک شعری مجموعہ، دس مجموعے نظموں کے، ہندی اور پنجابی میں مختلف تراجم اور انگریزی میں چودہ تصانیف ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس ہے۔ spanand786@hotmail.com
یہ ایک چھوٹا سا تعارف تھا ایک ایسی کتاب کا جس کے لکھنے والا اردو، ہندی، پنجابی اور انگریزی پہ یکساں قدرت رکھنے والا ایک بہت بڑا انسان ہے جو دونوں ملکوں یعنی پاکستان اور بھارت کے مابین دوستی دیکھنا چاہتا ہے اور بس۔۔۔!
ستیہ پال آنند کا نام ادب کے قارئین کے لیے قطعی اجنبی نہیں۔۔۔۔میرا تعارف بھی، بیسویں صدی شمع دہلی، اوراق اور دیگر ادبی رسائل میں شایع ہونیوالے افسانوں سے ہوا لیکن براہ راست ملاقات کراچی میں دسمبر 2012 میں ہوئی۔ جہاں وہ جمیل الدین عالی کی دعوت پر آئے تھے۔ کہنے کو تو صرف تین ملاقاتیں تھیں لیکن معنوی اعتبار سے کسی حد تک بھرپور ہونے کے باوجود تشنہ ہی رہیں البتہ یہ کمی کافی حد تک ان کی خود نوشت نے پوری کردی۔ ستیہ پال جی بہت مختصر مدت کے لیے کراچی آئے تھے۔ وہ انجمن ترقی اردو کی دعوت پر پہلے بھی کراچی آچکے ہیں لیکن نہ جانے کیوں ہماری ملاقات پہلے نہ ہوسکی۔ جس کا مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا۔ بدقسمتی سے اندرون ملک اور بیرون ملک سے آنیوالی ادبی و علمی شخصیات کو کچھ ادارے یا لوگ ہمیشہ ہائی جیک کرلیتے ہیں بہت سے لوگ چاہنے کے باوجود ان شخصیات سے بھرپور طریقے سے نجی طور پر مل نہیں پاتے، خواہ وہ کوئی کتب میلہ ہو یا ادبی کانفرنسیں، ہر تقریب میں چند شہہ بالے انھیں اپنے حصار سے نکلنے نہیں دیتے۔ انھیں کب کس سے ملنا ہے (ملنا بھی ہے کہ نہیں) کس تقریب کی صدارت کرنی ہے، کس ٹیلی ویژن یا اخبار کو انٹرویو دینا ہے۔ یہ سب وہ شہہ بالے طے کرتے ہیں جو اپنی مشہوری اور بیرون و اندرون ملک اپنی جگہ مختص کروانے کی جدوجہد میں، ان شخصیات کو ہائی جیک کیے رہتے ہیں۔ اس صورتحال کو مشفق خواجہ ستیہ پال جی سے (صفحہ نمبر 470) یوں بیان کرتے ہیں۔ ''اصل میں، آنند جی، یہ چھٹ بھیوں کا دور ہے۔ بلند قامتی کے دن ختم ہوگئے۔''
اپنی جنم کتھا 10 دسمبر 2013 کو ستیہ پال آنند جی نے اپنے دستخط کے ساتھ مجھے دی تھی لیکن اس کے تعارف میں دیر ہونے کی وجہ یہ تھی کہ یہ کتاب سرسری مطالعے کی اہل ہرگز نہیں تھی ۔ یہ کتھا 24 اپریل 1931 میں غیر منقسم ہندوستان کے شہر راولپنڈی کے کوٹ سارنگ میں جنم لینے والے اس بچے کی ہے جس کی ماں ہندو، باپ دادا سکھ اور پھوپھی بخت بی بی مسلمان۔۔۔۔کہ اس بچے نے محبتوں کی اس دھرتی پہ جنم لیا تھا۔ جہاں لوگ مذہب کے حوالوں سے نہیں بلکہ امن اور آشتی کے رشتوں سے گندھے تھے۔ باپ اکلوتے تھے اس لیے بخت بی بی سے راکھی بندھوا کر اسے منہ بولی بہن بنالیا۔ ایک رنگین دھاگے نے دو مختلف مذہب کے انسانوں کو بھائی بہن کے ایسے مضبوط رشتے میں باندھ دیا، جو حقیقی رشتوں پہ بھاری تھا۔ محبتوں اور امن کا یہ وہ خزانہ تھا جو تقسیم ہند سے پہلے جنم لینے والے بچوں کی میراث تھی، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے جڑا ہو لیکن وہ محبت کے آفاقی مذہب پہ یقین رکھتے تھے۔
''کتھا چار جنموں کی'' اس پہلے دکھ سے شروع ہوتی ہے جس میں ستیہ پال آنند کے بچپن سے جڑی انمول یادوں کے ساتھ ساتھ ہجرت کا وہ دکھ بھی ہے۔ جو انھیں سولہ سال کی کچی عمر میں سہنا پڑا، کوٹ سارنگ جہاں اس نے جنم لیا، جہاں اس کی آنکھوں نے پہلی بار نیلا آسمان دیکھا، اب وہ گھر اس کے لیے اجنبی تھا، جس کی دیواروں سے لگ کے کئی بار وہ خود سے باتیں کرتا تھا، وہ گھر کہتا تھا کہ مجھے چھوڑ کر نہ جاؤ، تم تو میری ہی چھت کے نیچے پلے بڑھے ہو۔ مجھے یوں الوداع نہ کہو کہ یہیں کی مٹی میں تمہارے پرکھوں کی ارتھیاں جلائی گئی ہیں۔ وہ بھی اسی مٹی کے بیٹے تھے جس کے تم ہو۔۔۔۔تب پہلی بار انھیں محسوس ہوا کہ یہ تقسیم ہجرتوں کے ایک لمبے سفر کی ابتدا ہے۔ اب انھیں اپنی جنم بھومی آنے کے لیے ویزا اور پاسپورٹ کی ضرورت پڑے گی۔ سرحدوں کی تقسیم زمین کی تقسیم سے بڑھ کر دلوں کی تقسیم بن گئی۔ پنڈی سے لدھیانہ جاتے جاتے راستے میں والد کا انتقال ہوجاتا ہے اور پھر ایک نئے لفظ سے تعارف ہوتا ہے وہ ہے ''شرنارتھی'' یعنی مہاجر۔۔۔۔ایسے لوگ جو اپنی زمین، اور اپنا آبائی وطن چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے کہیں اور آباد ہوگئے۔۔۔۔اب دوسرا وطن ہی ان کا دوسرا جنم تھا۔ اب یہی اجنبی دیس ان سب بدنصیبوں کے لیے جنھیں تاریخ کے جبر نے صلیب پر چڑھا دیا تھا، مندر ، مسجد اور گردوارہ تھا۔ تیرتھ تھا ۔ لیکن محبت اب کہیں نہیں تھی، کرپانیں، بندوقیں اور تلواریں نکل آئی تھیں، جن کے مکروہ چہروں نے پیار کے پھولوں کی جگہ ایٹم بم بو دیے تھے۔
یہ جنم کتھا بے شمار لوگوں سے ملاقات کرواتی ہے۔ زندگی میں ہندوستان، پاکستان، امریکا، کینیڈا اور برطانیہ میں جہاں جہاں لوگ ان سے ملے ان سب کا تذکرہ اگر کرنے بیٹھوں تو صرف ایک پورا کالم تو صرف ان ہی کے لیے درکار ہوگا۔ لیکن پاکستانی شاعرات کے حوالے سے بعض اختلافات موجود ہیں۔
ایک اور بات جو اس خود نوشت کو ممتاز کرتی ہے وہ اس کی سچائی اور صاف گوئی ہے یہ صرف سچ کی کتھا ہے۔انھوں نے زندگی گزارنے کے لیے کیسی جدوجہد کی، قلم کی مزدوری کی۔ ایک ایک صفحہ دلچسپ واقعات سے بھرا پڑا ہے۔ خاص کر اوپندر ناتھ اشک کا بیٹا جس نوجوان کے سر پر کتابوں سے بھرا صندوق رکھواکر لایا تھا اس کا نام تھا رمیش کپلا جو انگریزی، روسی، اردو اور ہندی ادب حافظ تھا۔ یہ نوجوان نوکری کی تلاش میں تھا۔ آنند جی نے اس کی مدد کی۔ لیکن زندگی کی کمرشل اکانومی میں کامیابی سے اپنی جگہ بنانے کے بعد وہ آنند جی کو یوں بھول گیا جیسے پیچھے کی شیلفوں پر رکھی پرانی کتاب، جس سے جتنا استفادہ کرنا تھا کر لیا اور سامنے کی شیلف تعلقات کی نئی کتابوں کے لیے خالی کردی گئی۔
ستیہ پال آنند کا وجود محبتوں سے بھرا ہے، انکسار اور عاجزی ان کے بڑے پن کا ثبوت ہیں، گھنے پھل دار درخت کی طرح جو اپنے ہی پھلوں کے وزن سے زمین کی طرف جھک جاتا ہے۔ اردو، انگریزی اور ہندی میں ان کی 40 مطبوعات ہیں جن میں اردو میں پانچ افسانوی مجموعے تین ناول ایک شعری مجموعہ، دس مجموعے نظموں کے، ہندی اور پنجابی میں مختلف تراجم اور انگریزی میں چودہ تصانیف ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس ہے۔ spanand786@hotmail.com
یہ ایک چھوٹا سا تعارف تھا ایک ایسی کتاب کا جس کے لکھنے والا اردو، ہندی، پنجابی اور انگریزی پہ یکساں قدرت رکھنے والا ایک بہت بڑا انسان ہے جو دونوں ملکوں یعنی پاکستان اور بھارت کے مابین دوستی دیکھنا چاہتا ہے اور بس۔۔۔!