بلدیاتی شکست کی حقیقی ذمے داری

بلدیاتی انتخابات میں شکست کی ذمے داری وزیراعظم پرعائد ہوتی ہے جواتنا کچھ ہوجانے کے باوجود حقائق تسلیم کرنے کوتیارنہیں۔

m_saeedarain@hotmail.com

لاہور:
وزیر اعظم عمران خان نے کے پی میں بلدیاتی انتخابات میں شکست کے ذمے داروں کے خلاف ایکشن کی ہدایت کردی ہے۔ انھوں نے وزیر اعلیٰ کے پی محمود خان کی طرف سے شکست کی وجوہات بعض ارکان اسمبلی کی مخالفین کو سپورٹ سے متعلق آگاہ ہونے کے بعد ہدایت کی کہ ذمے دار افراد کو شوکاز نوٹس جاری کیے جائیں۔

واضح رہے کہ وزیر اعظم اس سے قبل بھی سینیٹ کے الیکشن کے موقع پر اپنے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے خلاف کارروائی کا اعلان کرچکے ہیں اور اس کارروائی کا کیا بنا کچھ پتا نہیں نہ کسی کے خلاف کسی ایکشن لیے جانے کی خبر منظر عام پر آئی اور بات آئی گئی ہوگئی اور لگتا ہے رات گئی بات گئی معاملہ ختم۔

کے پی میں حکمران پی ٹی آئی کو جو بلدیاتی شکست ہوئی ہے اس کا تصور تو اپوزیشن کو بھی نہیں تھا اور حکمران اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ انھیں کے پی میں کوئی شکست نہیں دے سکتا کیونکہ انھوں نے کے پی کے لیے بہت کچھ کیا ہے اور عوام کی قسمت بدل دی ہے مگر حقیقت کے پی کے عوام نے بتا دی ہے اور حکمرانوں کے دعوؤں پر پانی پھیر کر ثابت کردیا کہ اب انھیں پی ٹی آئی حکومت پر اعتماد باقی نہیں رہا ہے اور اپوزیشن پارٹیوں کو اکثریت سے ووٹ دے کر ثابت کردیا ہے کہ کے پی میں سوا آٹھ سال اور وفاق میں اپنے اقتدار کے چالیس ماہ مکمل کرنے والی حکومتوں، وزیر اعظم کی پالیسی اور پی ٹی آئی رہنماؤں کی کارکردگی، اقربا پروری، سفارشی کلچر اور ختم نہ ہونے والی کرپشن نے ان پر سے عوامی اعتماد ختم کردیا ہے اور عوام پی ٹی آئی کو مسترد کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

وزیر اعظم پی ٹی آئی کی شکست کی حقیقی وجوہات جاننے کے بجائے یہ سمجھ چکے ہیں کہ غلط امیدواروں کا چناؤ شکست کی وجہ ہے۔ کے پی میں بلدیاتی انتخابات میں پارٹی نے غلطیاں کیں اور خمیازہ بھگتا۔ آیندہ الیکشن حکمت عملی کی خود نگرانی کروں گا اور پی ٹی آئی مضبوط ہوکر سامنے آئے گی۔ کے پی کے ہوم گراؤنڈ پر اپ سیٹ شکست، کئی تحصیلوں میں حکمران جماعت کے سوائے، چار بڑے شہروں میں میئر کی سیٹیں حاصل نہ کرسکنے اور پشاور کی میئر شپ جے یو آئی کے ہاتھ چلے جانے پر وفاق اور کے پی کے وزیروں، پارٹی رہنماؤں کا خیال ہے کہ شکست کی اہم وجہ مہنگائی و بے روزگاری کے علاوہ امیدواروں کے غلط چناؤ ، پارٹی رہنماؤں کے عدم تعاون، امیدواروں کی حمایت نہ کرنا اور پی ٹی آئی کا باہمی اختلاف تھا۔


حکمران اپنے رہنماؤں سے مکمل طور اتفاق کرنے کو تیار نہیں اور وہ مہنگائی کو شکست کی اہم وجہ تسلیم نہیں کر رہے اور صرف امیدواروں کے غلط چناؤ کو حقیقی وجہ سمجھ رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے بیانات کے مطابق پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے جہاں دوسرے ملکوں کے مقابلے میں مہنگائی بہت کم ہے۔ وزیر اعظم جب ملک میں مہنگائی کو تسلیم ہی نہیں کر رہے تو وہ مہنگائی کو شکست کی اصل وجہ کیوں مانیں گے اور وہ امیدواروں کے غلط چناؤ کو ہی شکست کی وجہ سمجھ رہے ہیں اور اپنے ذاتی موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ کے پی کے بلدیاتی انتخابات میں امیدواروں کا چناؤ پارٹی کے ان ہی بڑے رہنماؤں نے کیا جو ماضی میں بھی کیا کرتے تھے اور عمران خان کے سحر کی وجہ سے وہ کامیاب ہوجاتے تھے۔

کے پی کے میں عمران خان کا سحر تو 2018 کے ضمنی انتخابات ہی میں ختم ہو گیا تھا جہاں ان کی اپنی حکومت ہوتے ہوئے ان کی چھوڑی ہوئی پشاور اور لاہور سے قومی اسمبلی کی دو اہم نشستیں پی ٹی آئی ہار گئی تھی۔ اقتدار میں آ کر وزیر اعظم کے اقدامات اور مہنگائی کے باعث حکومت کی ختم ہوتی ہوئی مقبولیت کے حقائق تسلیم نہیں کیے جا رہے اور وزیر اعظم اپنے ہی موقف پر قائم ہیں کہ ملک میں ناقابل برداشت مہنگائی ہے ہی نہیں۔ عوام حکومت سے خوش ہیں اور وزیر اعظم اپنے پشاور کے جلسے کو اپنی مقبولیت سمجھ رہے ہیں جب کہ ان سے بڑا جلسہ پیپلز پارٹی نے پشاور میں اپنے یوم تاسیس پر کیا تھا جب کہ سرکاری جلسے کیسے کامیاب کرائے جاتے ہیں یہ حقائق عوام اور وزیر اعظم بھی جانتے ہیں۔

کے پی میں بلدیاتی انتخابات میں شکست کی ذمے داری وزیر اعظم پر عائد ہوتی ہے جو اتنا کچھ ہو جانے کے باوجود حقائق تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور اپنے ہر اقدام کو درست اور وہ خود کو عقل کل سمجھتے ہیں۔ ماضی کے اپنے ہر اعلان سے یوٹرن لینے والے حکمران اگر اپنی کابینہ ہی درست بنا لیتے اور خوشامدیوں، غیر ذمے داروں اورعام اہلیت بھی نہ رکھنے والوں کو اہم عہدے نہ دیتے تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔

بقول شیخ رشید کہ وہ واحد وزیر ہیں جو وزیر اعظم کو حقائق سے آگاہ کرتے ہیں۔ دیگر وزیروں کی ڈیوٹی عوام کو گمراہ کرنا، بے سروپا بیانات دینا اور صرف وزیر اعظم کو خوش کرنے کا فرض ادا کرنا رہ گیا ہے۔ جس کی وجہ سے کے پی کے میں پی ٹی آئی کو اتنی بری شکست ہوئی جس نے وزیر اعظم کو بھی پریشان کردیا اور وہ پارٹی کی تمام تنظیمیں تحلیل کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
Load Next Story