ڈاکٹر عبدالقدیر خان دوسرا حصہ
آپ نے دیگر فلاحی کاموں کے علاوہ سیچٹ کے نام سے ایک فلاحی ادارہ بنایا جو تعلیمی اوردیگر فلاحی کاموں میں سرگرم عمل ہے۔
NEW DELHI:
ڈاکٹرعبدالقدیر خان جرمن اور ڈچ زبانیں فراوانی سے بول سکتے تھے اور فرانسیسی زبان میں بھی انھیں خاصی مہارت حاصل تھی،المیلو کے پراجیکٹ میں حساس دشواریوں کو نپٹانے کی ذمے داری آپ کے سپرد کردی گئی اور انھیں اکثر وبیشتر فنی دستاویزات کو جرمن سے ڈچ یا انگریزی اور ڈچ سے انگریزی یا جرمن زبان میں ترجمہ کرنے کے لیے کہا جاتا تھا۔
ادارے کو آپ پر اندھا اعتماد تھااس لیے آپ یہ حساس دستاویزات گھر بھی لے جا سکتے تھے۔ 1974 میں ڈاکٹر خان کوالمیلو میں ایک انتہائی اہم رپورٹ کا ترجمہ کرنے کے لیے بلایا گیا اور انھیں اس کی رازداری کی سخت تاکید کی گئی ،یہ رپورٹ سینٹری فیوج کے ڈیزائن اور اس کے پلانٹ کے علاوہ فنی ترکیب سے متعلق تھی جس پر یورنیم کی افزودگی کا انحصار تھا اور یہ المیلو کی برسوں کی محنت تھی انھوں نے دن رات کام کر کے بہت کم عرصے میں یہ کام کر دکھایا،المیلو کے تمام سائنسدان ان کو داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔
بعدازاں جب ہالینڈ کے حساس اداروں کو معلوم ہواکہ المیلو نے یہ کام ایک پاکستانی سائنسدان سے کروایا ہے تو وہ سخت غصہ میںآگئے مگر ادارے کی انتظامیہ نے اس معاملے کو رفع دفع کرادیا۔1965 کی پاک بھارت جنگ کے حوالے سے ہالینڈ ٹیلی ویژن کے مبصر پروفیسر ڈے پنگ نے ایک پروگرام میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کو غلط قرار دیا تو ڈاکٹر خان کرب میں آگئے اگرچہ وہ ان دنوں زیر تعلیم تھے پھر بھی انھوں نے فورا مذکورہ پروفیسر کو خط لکھا اور مسئلہ کشمیر کا پس منظر اور بھارت کی مکاریوں کو بڑے دلائل کے ساتھ پیش کیا۔
انھوں نے اخبارات میں بھی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مضامین لکھے جس کے نتیجے میں پروفیسر پنگ نے اپنے ٹی وی پروگرام میں مسئلہ کشمیر کا صحیح موقف پیش کیا اور پاکستان کے موقف کو حق بجانب قرار دیا۔1971 کی جنگ کے وقت آپ بلجیم میں تھے،ٹی وی پر سقوط مشرقی پاکستان کا احوال دیکھ کر آپ سخت دکھ میں آگئے اور ایک بار پھرپاکستان آنے کے لیے رابطے شروع کردیے مگر ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی انھیں کوئی تسلی بخش جواب نہ ملا۔
18 مئی 1974کو بھارت نے روس کی حوصلہ افزائی پر ایٹمی دھماکا کر ڈالا جس سے حکمرانوں کا مورال گر چکا تھاجس پرڈاکٹر خان ایک بار پھر پاکستان آنے کے لیے بے تاب ہوگئے وہ ہالینڈ آنے والے ہر پاکستانی کو اپنا حال دل بیان کرتے۔
1974 میں پاکستان ڈیسٹو کا ایک وفد ونڈٹنلز(ہوائی سرنگوں)کی خریداری کے سلسلے میں ہالینڈ پہنچا۔آپ کو معلوم ہوا تووہ ان سے ملنے گئے مگر وفد کے ایک رکن نے ان سے کہا کہ وہ پاکستان نہ جائیں کیونکہ وہاں ان کی صلاحیتوں کی قدر نہیں ہوگی اور وہ روزگار کے لیے پریشان ہوں گے بالاخر انھوں نے تھک ہار کر وزیراعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھنے کا فیصلہ کیاکیونکہ بھٹو صاحب نے بھارت کے ایٹمی دھماکے کے بعد کہا کہ ''اب ہمیں بھی اس اقدام سے بازنہیں رکھا جاسکے گا۔''
یہ خط وسط1974 میں لکھا گیا اس میںڈاکٹر صاحب نے اپنے بارے میں اور پاکستان کے دیگر اداروں کے ذمے داروں کی طرف سے ناقدری کی داستان تفصیل کے ساتھ لکھ دی اورساتھ میں اپنے خط لکھنے کا مقصد بھی بیان کردیاکہ وہ پاکستان کے لیے سستا اورموثرایٹمی توانائی کا پروگرام تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں،آپ نے پاکستان اسٹیل ملزمیں کام کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔
یہ خط آپ کی بے چینی،کرب کے ازالے کا باعث بنااور ذوالفقار علی بھٹو نے ڈاکٹر خان کی المیلوپلانٹ سے وابستگی اور یورنیم کی افزودگی میں مہارت سے وطن عزیز کو استفادہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ 31 مئی 1976 میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پرانجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریزکے پاکستانی ایٹمی پروگرام سے منسلک ہوئے اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے پر کام شروع کیااور بالآخر 1984 میں اٹامک ڈیوائس بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
بعد ازاں اس ادارے کا نام صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق نے یکم مئی1981 کو تبدیل کر کے ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز رکھ دیا۔یہ ادارہ پاکستان میں یورنیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے نومبر 2000 میں ککسٹ نامی درسگاہ کی بنیاد رکھی۔آپ وہ مایہ نازسائنسدان ہیں جنھوں نے آٹھ سال کے انتہائی قلیل عرصے میں انتھک محنت و لگن کے ساتھ ایٹمی پلانٹ نصب کرکے دنیا کے نامور نوبل انعام یافتہ سائنسدانوں کوحیرت میں ڈال دیا اور مئی 1998 کو آپ نے بھارتی ایٹمی تجربوں کے مقابلے میں تجرباتی ایٹمی دھماکے کیے، چاغی کے پہاڑوں میں چھ کامیاب تجربے کیے جس کی نگرانی آپ نے خود کی۔
کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز نے نہ صرف ایٹم بم بنایا بلکہ پاکستان کے لیے ایک ہزار کلومیڑ دور تک مار کرنے والے غوری میزائل سمیت چھوٹی اور درمیانی رینج تک مار کرنے والے متعدد میزائل تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ادارے نے پچیس کلومیڑ تک مار کرنے والے ملٹی بیرل راکٹ لانچرز،جدید دفاعی آلات کے علاوہ ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں کے لیے متعدد آلات بھی بنائے۔
اس موقع پر عبدالقدیر خان نے پورے عالم کو یہ پیغام دیا کہ ہم نے پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنا دیا ہے۔ سعودی مفتی اعظم نے آپ کو اسلامی دنیا کا ہیرو قرار دیااور پاکستان کے لیے خام حالات میں تیل مفت فراہم کرنے کا فرمان جاری کیا۔مغربی دنیا نے پاکستانی ایٹم بم کو اسلامی بم کا نام دیا جس سے آپ نے بخوشی قبول کیا۔
ایک موقع آپ پر ایسا بھی آیا کہ آپ پر ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات چرانے کے الزامات کے تحت مقدمہ دائر کیا لیکن ہالینڈ،بیلجیم،برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسرزنے ان الزامات کا جائزہ لے کر عدالت کو حقائق سے آگاہ کیاجس پر ہالینڈ کی عدالت نے آپ کو باعزت بری کردیا۔
پرویز مشرف کے دور حکومت میں آپ پر الزامات لگائے گئے اور باقی کی زندگی انتہائی تکلیف دہ حالت میں نظر بندی میں گذاری اور یہ ہمارے حکمرانوں نے اپنے محسن کو ان کی خدمات کا صلہ دیا۔ آپ نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین لکھے۔آپ کو تیرہ طلائی تمغے ملے۔
1993 میں جامعہ کراچی نے آپ کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند سے نوازا۔14اگست 1996 میں صدر پاکستان فاروق احمد خان لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز نشان امتیاز دیاجب کہ 1989 میں ہلال امتیازکا تمغہ بھی ان کو عطا کیا گیا۔
آپ نے دیگر فلاحی کاموں کے علاوہ سیچٹ کے نام سے ایک فلاحی ادارہ بنایا جو تعلیمی اوردیگر فلاحی کاموں میں سرگرم عمل ہے۔آپ واحد پاکستانی شہری ہیں جنھیںدو مرتبہ پاکستان کے سب سے بڑے سول اعزاز نشان امتیاز سے نوازا گیا،دوسری مرتبہ یہ اعزازصدر رفیق تارڑ نے1998 میں آپ کو دیا۔
(جاری ہے۔)
ڈاکٹرعبدالقدیر خان جرمن اور ڈچ زبانیں فراوانی سے بول سکتے تھے اور فرانسیسی زبان میں بھی انھیں خاصی مہارت حاصل تھی،المیلو کے پراجیکٹ میں حساس دشواریوں کو نپٹانے کی ذمے داری آپ کے سپرد کردی گئی اور انھیں اکثر وبیشتر فنی دستاویزات کو جرمن سے ڈچ یا انگریزی اور ڈچ سے انگریزی یا جرمن زبان میں ترجمہ کرنے کے لیے کہا جاتا تھا۔
ادارے کو آپ پر اندھا اعتماد تھااس لیے آپ یہ حساس دستاویزات گھر بھی لے جا سکتے تھے۔ 1974 میں ڈاکٹر خان کوالمیلو میں ایک انتہائی اہم رپورٹ کا ترجمہ کرنے کے لیے بلایا گیا اور انھیں اس کی رازداری کی سخت تاکید کی گئی ،یہ رپورٹ سینٹری فیوج کے ڈیزائن اور اس کے پلانٹ کے علاوہ فنی ترکیب سے متعلق تھی جس پر یورنیم کی افزودگی کا انحصار تھا اور یہ المیلو کی برسوں کی محنت تھی انھوں نے دن رات کام کر کے بہت کم عرصے میں یہ کام کر دکھایا،المیلو کے تمام سائنسدان ان کو داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔
بعدازاں جب ہالینڈ کے حساس اداروں کو معلوم ہواکہ المیلو نے یہ کام ایک پاکستانی سائنسدان سے کروایا ہے تو وہ سخت غصہ میںآگئے مگر ادارے کی انتظامیہ نے اس معاملے کو رفع دفع کرادیا۔1965 کی پاک بھارت جنگ کے حوالے سے ہالینڈ ٹیلی ویژن کے مبصر پروفیسر ڈے پنگ نے ایک پروگرام میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کو غلط قرار دیا تو ڈاکٹر خان کرب میں آگئے اگرچہ وہ ان دنوں زیر تعلیم تھے پھر بھی انھوں نے فورا مذکورہ پروفیسر کو خط لکھا اور مسئلہ کشمیر کا پس منظر اور بھارت کی مکاریوں کو بڑے دلائل کے ساتھ پیش کیا۔
انھوں نے اخبارات میں بھی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مضامین لکھے جس کے نتیجے میں پروفیسر پنگ نے اپنے ٹی وی پروگرام میں مسئلہ کشمیر کا صحیح موقف پیش کیا اور پاکستان کے موقف کو حق بجانب قرار دیا۔1971 کی جنگ کے وقت آپ بلجیم میں تھے،ٹی وی پر سقوط مشرقی پاکستان کا احوال دیکھ کر آپ سخت دکھ میں آگئے اور ایک بار پھرپاکستان آنے کے لیے رابطے شروع کردیے مگر ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی انھیں کوئی تسلی بخش جواب نہ ملا۔
18 مئی 1974کو بھارت نے روس کی حوصلہ افزائی پر ایٹمی دھماکا کر ڈالا جس سے حکمرانوں کا مورال گر چکا تھاجس پرڈاکٹر خان ایک بار پھر پاکستان آنے کے لیے بے تاب ہوگئے وہ ہالینڈ آنے والے ہر پاکستانی کو اپنا حال دل بیان کرتے۔
1974 میں پاکستان ڈیسٹو کا ایک وفد ونڈٹنلز(ہوائی سرنگوں)کی خریداری کے سلسلے میں ہالینڈ پہنچا۔آپ کو معلوم ہوا تووہ ان سے ملنے گئے مگر وفد کے ایک رکن نے ان سے کہا کہ وہ پاکستان نہ جائیں کیونکہ وہاں ان کی صلاحیتوں کی قدر نہیں ہوگی اور وہ روزگار کے لیے پریشان ہوں گے بالاخر انھوں نے تھک ہار کر وزیراعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھنے کا فیصلہ کیاکیونکہ بھٹو صاحب نے بھارت کے ایٹمی دھماکے کے بعد کہا کہ ''اب ہمیں بھی اس اقدام سے بازنہیں رکھا جاسکے گا۔''
یہ خط وسط1974 میں لکھا گیا اس میںڈاکٹر صاحب نے اپنے بارے میں اور پاکستان کے دیگر اداروں کے ذمے داروں کی طرف سے ناقدری کی داستان تفصیل کے ساتھ لکھ دی اورساتھ میں اپنے خط لکھنے کا مقصد بھی بیان کردیاکہ وہ پاکستان کے لیے سستا اورموثرایٹمی توانائی کا پروگرام تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں،آپ نے پاکستان اسٹیل ملزمیں کام کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔
یہ خط آپ کی بے چینی،کرب کے ازالے کا باعث بنااور ذوالفقار علی بھٹو نے ڈاکٹر خان کی المیلوپلانٹ سے وابستگی اور یورنیم کی افزودگی میں مہارت سے وطن عزیز کو استفادہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ 31 مئی 1976 میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پرانجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریزکے پاکستانی ایٹمی پروگرام سے منسلک ہوئے اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے پر کام شروع کیااور بالآخر 1984 میں اٹامک ڈیوائس بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
بعد ازاں اس ادارے کا نام صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق نے یکم مئی1981 کو تبدیل کر کے ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز رکھ دیا۔یہ ادارہ پاکستان میں یورنیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے نومبر 2000 میں ککسٹ نامی درسگاہ کی بنیاد رکھی۔آپ وہ مایہ نازسائنسدان ہیں جنھوں نے آٹھ سال کے انتہائی قلیل عرصے میں انتھک محنت و لگن کے ساتھ ایٹمی پلانٹ نصب کرکے دنیا کے نامور نوبل انعام یافتہ سائنسدانوں کوحیرت میں ڈال دیا اور مئی 1998 کو آپ نے بھارتی ایٹمی تجربوں کے مقابلے میں تجرباتی ایٹمی دھماکے کیے، چاغی کے پہاڑوں میں چھ کامیاب تجربے کیے جس کی نگرانی آپ نے خود کی۔
کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز نے نہ صرف ایٹم بم بنایا بلکہ پاکستان کے لیے ایک ہزار کلومیڑ دور تک مار کرنے والے غوری میزائل سمیت چھوٹی اور درمیانی رینج تک مار کرنے والے متعدد میزائل تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ادارے نے پچیس کلومیڑ تک مار کرنے والے ملٹی بیرل راکٹ لانچرز،جدید دفاعی آلات کے علاوہ ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں کے لیے متعدد آلات بھی بنائے۔
اس موقع پر عبدالقدیر خان نے پورے عالم کو یہ پیغام دیا کہ ہم نے پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنا دیا ہے۔ سعودی مفتی اعظم نے آپ کو اسلامی دنیا کا ہیرو قرار دیااور پاکستان کے لیے خام حالات میں تیل مفت فراہم کرنے کا فرمان جاری کیا۔مغربی دنیا نے پاکستانی ایٹم بم کو اسلامی بم کا نام دیا جس سے آپ نے بخوشی قبول کیا۔
ایک موقع آپ پر ایسا بھی آیا کہ آپ پر ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات چرانے کے الزامات کے تحت مقدمہ دائر کیا لیکن ہالینڈ،بیلجیم،برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسرزنے ان الزامات کا جائزہ لے کر عدالت کو حقائق سے آگاہ کیاجس پر ہالینڈ کی عدالت نے آپ کو باعزت بری کردیا۔
پرویز مشرف کے دور حکومت میں آپ پر الزامات لگائے گئے اور باقی کی زندگی انتہائی تکلیف دہ حالت میں نظر بندی میں گذاری اور یہ ہمارے حکمرانوں نے اپنے محسن کو ان کی خدمات کا صلہ دیا۔ آپ نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین لکھے۔آپ کو تیرہ طلائی تمغے ملے۔
1993 میں جامعہ کراچی نے آپ کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند سے نوازا۔14اگست 1996 میں صدر پاکستان فاروق احمد خان لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز نشان امتیاز دیاجب کہ 1989 میں ہلال امتیازکا تمغہ بھی ان کو عطا کیا گیا۔
آپ نے دیگر فلاحی کاموں کے علاوہ سیچٹ کے نام سے ایک فلاحی ادارہ بنایا جو تعلیمی اوردیگر فلاحی کاموں میں سرگرم عمل ہے۔آپ واحد پاکستانی شہری ہیں جنھیںدو مرتبہ پاکستان کے سب سے بڑے سول اعزاز نشان امتیاز سے نوازا گیا،دوسری مرتبہ یہ اعزازصدر رفیق تارڑ نے1998 میں آپ کو دیا۔
(جاری ہے۔)