نیا سال نئی سونامی
یہ ایسے خطرات ہیں جس سے روہنگیا جیسی ہجرتیں ہوسکتی ہیں۔
کراچی:
حادثے اچانک جنم نہیں لیتے۔ زورآور کہاں مانتا آئی ایم ایف کو، لاچار بے بس، مجبور مانتے ہیں، ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا تھا،اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ، نہ جاتے تو دنیا میں ہمیں یہ کہا جاتا کہ اب ہم solvent نہیں ہیں اور اگر گئے ہیں تو آئی ایم ایف کہتا ہے یا اپنے اخراجات کم کرو یا اپنی آمدنی بڑھائو۔ اخراجات ہم کر نہیں سکتے، باقی رہی آمدنی سو حاضر مگر یہ آمدنی کوئی چیز زیادہ بیچ کے منافع کما کے نہیں پائی جاتی۔
ریاست کو آمدنی بڑھانے کے لیے ٹیکس لگانے پڑتے ہیں مگر ٹیکس لگائیں تو کس پر لگائیں؟ امیروں پر لگائیں یا غریبوں پر؟ آئی ایم ایف کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ اسے سروکار وصولیوں سے ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے کا تخمینہ ہے کہ پاکستان لگ بھگ کوئی دو سو ہزار ارب سالانہ مراعات یافتہ طبقے کو ٹیکسز کی مد میں چھوٹ دیتا ہے۔ نہیں دیتا کوئی چھوٹ تو وہ غریبوں کو نہیں دیتا۔ کبھی چینی غائب، کبھی آٹا غائب، کبھی کبھی پٹرول بھی غائب ہوا تھا، گیس اور بجلی الگ۔ اب کے جو بجلی کے بل آتے ہیں اس میں ہمیں فیول ایڈجسٹمنٹ پر کٹوتی کروانی پڑتی ہے اور اس کا صحیح اندازہ حکومت لگا بھی نہیں سکتی، بجلی پیداوار کرنیوالوں سے آپ نے معاہدے جو ایسے کیے ہوئے تھے اور اگر آپ نے ان معاہدوں کی پاسداری نہیں کرینگے ،یہ آپ کو انٹرنیشنل آربیٹریشن کورٹ میں لا کھڑا کردیں گی اور پھر آپ پر وہ جرمانہ لگائیں گے۔
حکومت اخلاقی حیثیت گنوا چکی ہے مگر حزب اختلاف متحد نہیں ہے اور اگر یہ چلے بھی جاتے ہیں تو کسی کے پاس کوئی ایسا پروگرام نہیں ہے کہ ملک کو واپس معاشی پٹری پر واپس لے آئے۔ جب خان صاحب آئے تھے تو ملک پر چوبیس ہزار ارب کے قرضے تھے ، جو پچھلے ستر سالوں میں لیے گئے تھے۔ ان کے تین سالہ دور حکومت میں چھبیس ہزار ارب کے قرضے لیے گئے، سب ریکارڈ توڑ دیے گئے۔ اب تو آئی ایم ایف نے ہم سے اسٹیٹ بینک بھی چھین لیا۔
زرداری صاحب کے پاس کوئی نسخہ ہے نہ نواز شریف کے پاس ، یہ جو سی پیک تھا ،وہ بھی قرضوں کا پہاڑ تھا جو ہم پر ٹوٹ پڑا۔ ہمیں اس انفرااسٹرکچر کی اتنی ضرورت بھی نہیں تھی۔ ہمیں ان بجلی گھروں کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ اتنی مہنگی بجلی جو ہمیں ملتی ہے دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے۔ دوایاں مہنگی، ہر چیز مہنگی جب کہ ریاست کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں، اسکول ہیں نہ اسپتال۔
اوپر سے انتہا پرست الگ جو ہم نے افغانستان کی وکالت کی ہے اس سے تو اب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی بھاگ گئے، ہم عالمی تنہائی کا شکار ہیں۔ اس کا ذمے دار کون ہے؟ اس سارے بحران سے نکلا کیسے جائے؟ یہ خود ایک گھمبیر سوال ہے۔ یہ ملک اب کسی حکیم کے علاج سے بہتر نہیں ہوگا۔ کاش عدالتوں نے ایسے فیصلے سنائے ہوتے جس سے آمریتوں کا محاسبہ کیا جاتا۔ نہ ایوب خان کو سزا ہوئی نہ کسی اور آمر کو۔ جنھوں نے آمریت کا نعم البدل ہائبرڈ جمہوریت سے نکالا ، یہ آمریت سے بھی بدتر ثابت ہوئی۔
ہمارے داخلی بحران الگ، ماحولیاتی تبدیلیاں الگ، دریا سوکھ رہے ہیں۔ بین الاقوامی ادارے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کا شماردنیا کے ان پانچ vulnerable ملکوں میں ہوتا ہے جنھیں ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید تر خطرات لاحق ہیں۔ یہ ایسے خطرات ہیں جس سے روہنگیا جیسی ہجرتیں ہوسکتی ہیں۔ شام کا کیا ہوا ، عراق میں کیا ہوا، ہماری اس حوالے سے کوئی تیاری نہیں۔ سیاسی قیاد ت کو پھلنے پھولنے نہیں دیا گیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا، بینظیر تاریک راہوںپر ماری گئی ، نواز شریف جلا وطن ہے۔
کسی بھی پاپولر وزیر اعظم کو پانچ سال پورے نہیں کرنے دیے گئے۔ اب ہماری سیکیورٹی پالیسی کا مرکز جیواکنامکس ہے تو کیا سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ۔ اس پالیسی پر پہلے پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہیے تھی۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ ہر ادارہ اپنے حدود میں رہ کر کام کرے۔آپ کو حالات 1971 سے بھی بدتر ہونے کا خدشات کا احساس ہو یا نہ ہو۔آپ سمجھتے اب کو شیخ مجیب پروان نہیں چڑھ سکتا، یہ بالکل درست ہے،مگر آپ کو شاید یہ ادراک نہیں ہے کہ سویت یونین جیسی بڑی امپائر کو معاشی تباہی لے ڈوبی تھی۔
ہمیں صرف ایک مخصوص سوچ و فکر رکھنے لیڈر اور طبقہ ا چاہیے، اگر نہیں ہے تو غدار ہے۔ وہ اینکر ہو، وہ صحافی ہو، سیاستدان ہو ، سرمایہ دار ہو، جاگیردار ہو۔ وہ حکمران اشرافیہ جو گزشتہ ستر سالوں میں سرکار کی مراعات لے کر جوان ہوئی یا جو اشرافیہ انگریزوں سے اس ملک کو جہیز میں ملی تھی، آج بھی یہ اشرافیہ پاکستانیوں کی گردن پر سوار ہے لیکن اب اس وزن و حجم بہت بڑھ گیا کہ ملکی خزانہ اس کا بوجھ نہیں اٹھا پا رہا، قیام پاکستان کے بعد سے ہی مفت خور اشرافیہ زمینوں کی بندر بانٹ میں ملوث ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ سب قبضہ گیر ہائوسنگ اسکیموں میں پڑ گئے ہیں، یہ کسی اور کے نہیں بلکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ریمارکس ہیں۔
ہم نے آپنے آپ کو بہت مشکل میں ڈال دیا۔ ایک ایسی مشکل میں جو ہمارے کرنٹ اکائونٹ کے خطرناک حد تک منفی ہونے کی صورت میں یا کہیے کہ بیلنس آف پے منٹ کے بحران کی شکل میں پکڑتا ہے یہ مت جانیں کہ اس بحران میں ہمارے میاں صاحب کا قرضوں پر ترقیاتی انفرااسٹرکچر ڈلوانا اور اس میں over invoicing کروانا، اس کا بھی منفی کردار نہیں ہے۔ سب نے مل جل کر ہمیں یہاں پہنچایا۔ آمریتوں، جمہوریتوں کی کمزوری نے مگر پھر بھی راستہ جمہوریت کی ارتقا کا ہے۔sustainble development کے طریقے کار یا ڈاکٹر محبوب الحق والے پیمانے تھے، مانیں نہ مانیں ذوالفقار علی بھٹو کے پاس ایک وزن تھا، بینظیرے بھٹو کے پاس بھی۔
بدنصیبی سے ان دونوں صاحبان کے پاس پنجاب کا شناختی کارڈ نہ تھا لیکن یہ بھی صحیح کے آج جو ہڈی گلے میں اٹک گئی ہے وہ نواز شریف ہی ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ پنجاب کے شناختی کارڈ رکھتا ہے اور اب سارا پنجاب جاگ پڑا ہے۔جو بھی ہے اقتدار سو یلین کے حوالے کیا جائے ایک منتخب حکومت کے حوالے کیا جائے اور انتخابات میں انجینئرنگ کرنیوالے عمل بند ہونے چاہئیں، ہم نے اسی سیاسی انجینئر نگ سے انتخابی انجینئرنگ سے کم از کم ایک کروڑ لوگوںکو فاقوں پے مجبور کیا ہے۔
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے
حادثے اچانک جنم نہیں لیتے۔ زورآور کہاں مانتا آئی ایم ایف کو، لاچار بے بس، مجبور مانتے ہیں، ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا تھا،اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ، نہ جاتے تو دنیا میں ہمیں یہ کہا جاتا کہ اب ہم solvent نہیں ہیں اور اگر گئے ہیں تو آئی ایم ایف کہتا ہے یا اپنے اخراجات کم کرو یا اپنی آمدنی بڑھائو۔ اخراجات ہم کر نہیں سکتے، باقی رہی آمدنی سو حاضر مگر یہ آمدنی کوئی چیز زیادہ بیچ کے منافع کما کے نہیں پائی جاتی۔
ریاست کو آمدنی بڑھانے کے لیے ٹیکس لگانے پڑتے ہیں مگر ٹیکس لگائیں تو کس پر لگائیں؟ امیروں پر لگائیں یا غریبوں پر؟ آئی ایم ایف کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ اسے سروکار وصولیوں سے ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے کا تخمینہ ہے کہ پاکستان لگ بھگ کوئی دو سو ہزار ارب سالانہ مراعات یافتہ طبقے کو ٹیکسز کی مد میں چھوٹ دیتا ہے۔ نہیں دیتا کوئی چھوٹ تو وہ غریبوں کو نہیں دیتا۔ کبھی چینی غائب، کبھی آٹا غائب، کبھی کبھی پٹرول بھی غائب ہوا تھا، گیس اور بجلی الگ۔ اب کے جو بجلی کے بل آتے ہیں اس میں ہمیں فیول ایڈجسٹمنٹ پر کٹوتی کروانی پڑتی ہے اور اس کا صحیح اندازہ حکومت لگا بھی نہیں سکتی، بجلی پیداوار کرنیوالوں سے آپ نے معاہدے جو ایسے کیے ہوئے تھے اور اگر آپ نے ان معاہدوں کی پاسداری نہیں کرینگے ،یہ آپ کو انٹرنیشنل آربیٹریشن کورٹ میں لا کھڑا کردیں گی اور پھر آپ پر وہ جرمانہ لگائیں گے۔
حکومت اخلاقی حیثیت گنوا چکی ہے مگر حزب اختلاف متحد نہیں ہے اور اگر یہ چلے بھی جاتے ہیں تو کسی کے پاس کوئی ایسا پروگرام نہیں ہے کہ ملک کو واپس معاشی پٹری پر واپس لے آئے۔ جب خان صاحب آئے تھے تو ملک پر چوبیس ہزار ارب کے قرضے تھے ، جو پچھلے ستر سالوں میں لیے گئے تھے۔ ان کے تین سالہ دور حکومت میں چھبیس ہزار ارب کے قرضے لیے گئے، سب ریکارڈ توڑ دیے گئے۔ اب تو آئی ایم ایف نے ہم سے اسٹیٹ بینک بھی چھین لیا۔
زرداری صاحب کے پاس کوئی نسخہ ہے نہ نواز شریف کے پاس ، یہ جو سی پیک تھا ،وہ بھی قرضوں کا پہاڑ تھا جو ہم پر ٹوٹ پڑا۔ ہمیں اس انفرااسٹرکچر کی اتنی ضرورت بھی نہیں تھی۔ ہمیں ان بجلی گھروں کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ اتنی مہنگی بجلی جو ہمیں ملتی ہے دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے۔ دوایاں مہنگی، ہر چیز مہنگی جب کہ ریاست کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں، اسکول ہیں نہ اسپتال۔
اوپر سے انتہا پرست الگ جو ہم نے افغانستان کی وکالت کی ہے اس سے تو اب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی بھاگ گئے، ہم عالمی تنہائی کا شکار ہیں۔ اس کا ذمے دار کون ہے؟ اس سارے بحران سے نکلا کیسے جائے؟ یہ خود ایک گھمبیر سوال ہے۔ یہ ملک اب کسی حکیم کے علاج سے بہتر نہیں ہوگا۔ کاش عدالتوں نے ایسے فیصلے سنائے ہوتے جس سے آمریتوں کا محاسبہ کیا جاتا۔ نہ ایوب خان کو سزا ہوئی نہ کسی اور آمر کو۔ جنھوں نے آمریت کا نعم البدل ہائبرڈ جمہوریت سے نکالا ، یہ آمریت سے بھی بدتر ثابت ہوئی۔
ہمارے داخلی بحران الگ، ماحولیاتی تبدیلیاں الگ، دریا سوکھ رہے ہیں۔ بین الاقوامی ادارے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کا شماردنیا کے ان پانچ vulnerable ملکوں میں ہوتا ہے جنھیں ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید تر خطرات لاحق ہیں۔ یہ ایسے خطرات ہیں جس سے روہنگیا جیسی ہجرتیں ہوسکتی ہیں۔ شام کا کیا ہوا ، عراق میں کیا ہوا، ہماری اس حوالے سے کوئی تیاری نہیں۔ سیاسی قیاد ت کو پھلنے پھولنے نہیں دیا گیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا، بینظیر تاریک راہوںپر ماری گئی ، نواز شریف جلا وطن ہے۔
کسی بھی پاپولر وزیر اعظم کو پانچ سال پورے نہیں کرنے دیے گئے۔ اب ہماری سیکیورٹی پالیسی کا مرکز جیواکنامکس ہے تو کیا سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ۔ اس پالیسی پر پہلے پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہیے تھی۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ ہر ادارہ اپنے حدود میں رہ کر کام کرے۔آپ کو حالات 1971 سے بھی بدتر ہونے کا خدشات کا احساس ہو یا نہ ہو۔آپ سمجھتے اب کو شیخ مجیب پروان نہیں چڑھ سکتا، یہ بالکل درست ہے،مگر آپ کو شاید یہ ادراک نہیں ہے کہ سویت یونین جیسی بڑی امپائر کو معاشی تباہی لے ڈوبی تھی۔
ہمیں صرف ایک مخصوص سوچ و فکر رکھنے لیڈر اور طبقہ ا چاہیے، اگر نہیں ہے تو غدار ہے۔ وہ اینکر ہو، وہ صحافی ہو، سیاستدان ہو ، سرمایہ دار ہو، جاگیردار ہو۔ وہ حکمران اشرافیہ جو گزشتہ ستر سالوں میں سرکار کی مراعات لے کر جوان ہوئی یا جو اشرافیہ انگریزوں سے اس ملک کو جہیز میں ملی تھی، آج بھی یہ اشرافیہ پاکستانیوں کی گردن پر سوار ہے لیکن اب اس وزن و حجم بہت بڑھ گیا کہ ملکی خزانہ اس کا بوجھ نہیں اٹھا پا رہا، قیام پاکستان کے بعد سے ہی مفت خور اشرافیہ زمینوں کی بندر بانٹ میں ملوث ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ سب قبضہ گیر ہائوسنگ اسکیموں میں پڑ گئے ہیں، یہ کسی اور کے نہیں بلکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ریمارکس ہیں۔
ہم نے آپنے آپ کو بہت مشکل میں ڈال دیا۔ ایک ایسی مشکل میں جو ہمارے کرنٹ اکائونٹ کے خطرناک حد تک منفی ہونے کی صورت میں یا کہیے کہ بیلنس آف پے منٹ کے بحران کی شکل میں پکڑتا ہے یہ مت جانیں کہ اس بحران میں ہمارے میاں صاحب کا قرضوں پر ترقیاتی انفرااسٹرکچر ڈلوانا اور اس میں over invoicing کروانا، اس کا بھی منفی کردار نہیں ہے۔ سب نے مل جل کر ہمیں یہاں پہنچایا۔ آمریتوں، جمہوریتوں کی کمزوری نے مگر پھر بھی راستہ جمہوریت کی ارتقا کا ہے۔sustainble development کے طریقے کار یا ڈاکٹر محبوب الحق والے پیمانے تھے، مانیں نہ مانیں ذوالفقار علی بھٹو کے پاس ایک وزن تھا، بینظیرے بھٹو کے پاس بھی۔
بدنصیبی سے ان دونوں صاحبان کے پاس پنجاب کا شناختی کارڈ نہ تھا لیکن یہ بھی صحیح کے آج جو ہڈی گلے میں اٹک گئی ہے وہ نواز شریف ہی ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ پنجاب کے شناختی کارڈ رکھتا ہے اور اب سارا پنجاب جاگ پڑا ہے۔جو بھی ہے اقتدار سو یلین کے حوالے کیا جائے ایک منتخب حکومت کے حوالے کیا جائے اور انتخابات میں انجینئرنگ کرنیوالے عمل بند ہونے چاہئیں، ہم نے اسی سیاسی انجینئر نگ سے انتخابی انجینئرنگ سے کم از کم ایک کروڑ لوگوںکو فاقوں پے مجبور کیا ہے۔
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے