تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
اگر کسی معاشرے میں جب علم کی قدرومنزلت ختم ہوجائے تو انفرادی اور اجتماعی سطح پر لوگ بے جا انا پرستی کا شکار ہو جائیں۔۔
پاکستانی معاشرہ اس وقت مختلف نوعیت کے تضادات میں مبتلا ہونے کے باعث تقسیم درتقسیم (Fragmentation)کا شکار ہوچکا ہے ۔سماجی ماہرین کے مطابق اس تقسیم کے کئی اسباب ہیں۔اول،ریاست کے منطقی جواز کے بارے میں ریاستی اشرافیہ اور منصوبہ سازوںکا غیر واضح موقف۔دوئم،نظم حکمرانی کا غیر واضح اور مبہم ہونا۔سوئم، معاشرے کے مختلف طبقات کی نفسیات پرصدیوں کے نسلی اورطبقاتی استحصال کے گہرے اثرات ہوتے ہیں،جس کی وجہ سے ان میں حق و انصاف کے لیے جدوجہد کرنے کا جذبہ ختم ہوجاتا ہے اور وہ اندرونی اور بیرونی حملہ آوروں کو اپنا نجات دہندہ سمجھنے لگتے ہیں۔ایسے طبقات کو اگرکبھی آزادی میسر آتی ہے،تو ان میں کئی نسلوں تک وہ اعتماد پیدا نہیں ہوتا،جوکسی آزاد انسان کا خاصا ہوا کرتا ہے۔آج شاید ہمارا بھی یہی کچھ حال ہے۔
تاریخ عالم کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ جن اقوام نے اپنی محرومیوں پر قابو پانے کے لیے بالادست اقوام سے جنگ وجدل کے بجائے حصول علم پر توجہ دی ، وہ اپنے قومی تشخص، ثقافتی ورثہ اور ماں بولی کو زمانے کی تند وتیز ہواؤں کی یلغار سے بچا کر انھیں امر کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ اس کے برعکس وہ تمام اقوام ،جنہوں نے تاریخ کے کسی مخصوص دور میں ایک نئی تہذیب کی بنیاد رکھی ہو اور دنیا کے بیشتر حصوں پر حکمرانی کی ہو، وہ جب عزم وحوصلہ سے عاری ہوجاتی ہیں، تو انھیں دنیا میں ذلت و رسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ایسی اقوام حقیقت پسندی کی جگہ تہذیبی نرگسیت میں مبتلاہوکرجب تحقیق کے بجائے تقلید اور تدبیرکی جگہ تقدیر پر بھروسہ کر لیتی ہیں، تو تباہی وبربادی ان کا مقدر ٹھہرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ جو کل معتبر ومعروف تھے،وہ آج بدنام و رسوا ہیں۔جب کہ وہ جوکل دردرکی ٹھوکریں کھا رہے تھے، آج با اثر وبااختیار ہیں۔یعنی اگر چشم بینا سے حوادثِ زمانہ کے اقوام عام پر مرتب ہونے والے اثرات کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات صاف طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ جن اقوام نے بنا کسی امتیاز علم کو اوڑھنا بچھونا بنایا ، وہ تاریخ کے ہر بدترین دور سے سرخرو و شادماں گذرگئیں اور جنہوں نے علم کا راستہ ترک کیا وہ جہل کی تاریک وادیوں میں کھوکر اپنا تشخص بھی گنوا بیٹھیں۔
تاریخ دان اس بات پر متفق ہیں کہ جن قوموں نے علم وآگہی اور تحقیق وتجربے کی راہ اپنائی،انھوں نے دنیاکو ایک نئی تہذیب بھی دی۔مگر جب انھوں نے علم وآگہی کا راستہ چھوڑا تو ان کی تہذیب جمود کا شکارہوکر تاریخ کے صفحات کا حصہ بن گئی۔ دنیا میں کسی تہذیب کے قائم رہنے کا انحصار دو باتوں پر ہوتا ہے۔اول، اس تہذیب میں عوامی قبولیت کا کتنا پوٹینشیل ہے۔دوئم، حملہ آورقوتوں سے تحفظ کی کیا حکمت عملی وضع کی گئی ہے۔اس سلسلے میں کیمبرج یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق وہی تہذیبیں طویل عمر پاتی ہیں، جن کو جنم دینے والی قوموں میں تاریخ کے ارتقاء کو سمجھنے کی اہلیت ہوتی ہے اور وہ دنیاکے بدلتے رجحانات کے مطابق اپنی ترجیحات تبدیل کرنے کی صلاحیت اور لچک رکھتی ہیں۔ معروف تاریخ دان پروفیسر ٹوائن بی کا کہنا ہے کہ دنیا کی معلوم تاریخ میں28 تہذیبوں نے جنم لیا، جن میں سے20وقت کی گرد تلے دب کر فنا ہوچکی ہیں۔صرف8تہذیبوں کے اثرات باقی ہیں۔ لیکن ان سب میں نمایاںصنعتی انقلاب کے نتیجے میں جنم لینے والی تہذیب ہے، جس میں اتنا پوٹینشیل ہے کہ وہ صدیوں تک نہ صرف زندہ رہ سکے گی،بلکہ نسل انسانی کی مقبول تہذیب کے طورپر پہچانی جائے گی۔
اب ذرا چند مثالوں سے ان حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔2 ہزار برس قبل جب بخت نصر نے فلسطین پر حملہ کیا تو نسل کشی کی حد تک یہودیوں کا قتل عام ہوا۔کئی ہزاروں نوجوان قتل ہوئے۔ ایک رات میں ہزاروں لڑکیوں کی آبروریزی ہوئی اور قوم بنی اسرائیل پر دنیا میں زندگی جہنم بن گئی۔ اس لیے جسے جہاں موقع ملا، اس نے وہاں نکل جانے میں عافیت جانی۔ایک بہت بڑی تعداد یورپی ممالک کی طرف گئی، جب کہ سیکڑوں خاندانوں نے حجازکے بعض شہروں کو اپنا مسکن بنایا۔خاص طور پر یثرب (مدینہ) اور اس کے اطراف میں اپنی بستیاں قائم کیں۔ تتربتر ہوجانے کے بعد قومِ بنی اسرائیل نے چند فیصلے کیے، جس نے انھیں زندہ رکھنے اور عالمی سطح پر ہر لحاظ سے ممتاز بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اول،انھوں نے علم وآگہی کے حصول کو اپنی زندگیوں کے لیے اولین ترجیح بنالیا۔ دوئم، اپنے عقیدے،ثقافت اور ماں بولی(عبرانی) کو ہر حال میں تحفظ دینے کا عہدکیا۔ سوئم،کاروبار کو روز گارکا ذریعہ بنایا۔چہارم، آبائی وطن کا حصول مطمع نظر ٹھہرا۔
ان دوہزار برسوں کے دوران ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے مختلف خطوں میں بکھرے یہودیوں نے ان اہداف کے حصول کو اولین ترجیح بنائے رکھا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ ایک ہزار برس کے دوران جن فلسفیوں، سائنسدانوں اور سوشل انجینئروں نے دنیا میں دھوم مچائی،ان کی اکثریت کا تعلق یہودی کمیونٹی سے تھا۔ جدیددنیا میں قائم ہونے والی بڑی کاروباری فرمیں اور کارپوریشنز یہودی سرمایہ کاروں کی ملکیت ہیں۔دنیا کے بڑے میڈیا ہاؤسز پر ان کا غلبہ ہے۔حالانکہ کرہ ارض پریہودیوں کی کل آبادی کا 13.46ملین (تقریباًایک کروڑ 34لاکھ 60ہزار)ہے۔جوکرہ ارض پر انسانی آبادی کے تناظر میں بہت مختصر تعداد ہے۔لیکن اپنی علمی قابلیت،پیشہ ورانہ اہلیت اورکاروباری بصیرت کے باعث دنیا کے سیاسی اور معاشی نظام میں فیصلہ کن حیثیت کے حامل ہیں۔یہ مقام انھوں نے علم کو اولین ترجیح اورتحقیق و تخلیق کو مطمع نظر بنانے کی وجہ سے حاصل کیا ہے۔
اب دوسری طرف آئیے۔مسلمانوں نے آٹھویں صدی سے تیزرفتار پرواز کا آغاز کیا ۔طب سے ریاضی کے کلیوں تک، فلسفہ سے فلکیات کی گھتیوں تک اور ادب سے مذہب کی تفاسیر تک کوئی ایسا علم نہیں تھا جس کے حصول اور اسے بامِ عروج تک پہنچانے میں اپنا حصہ نہ ڈالاہو۔ اپنے اسی علم وفضل کی بنیاد پر ایک نئی تہذیب و تمدن کی بنیادڈالی۔ اغلب گمان تھا کہ اگر ریاست کی سرپرستی جاری رہتی اور اہل علم یونہی تحقیق وتخلیق میں جتے رہتے تو تبدیلی کا ایک نیا سورج وسط ایشیاء سے طلوع ہوتا۔ مگر یہ ہونہ سکا، کیونکہ ریاست اور قدامت پسندوں کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں اہل علم پر عرصہ حیات تنگ ہونے لگا۔تحقیق و تخلیق پر قدغن لگنے لگے۔ یوں علم وفضل کے سوتے سوکھنے لگے، جہل کی جھاڑیاں پھلنے پھولنے لگیں۔ نتیجتاً تحقیق کی جگہ تقلید ،تدبیر کی جگہ تقدیر اور تفکر کی جگہ لاپرواہی پروان چڑھنے لگی۔1258ء میں تاتاریوں کا بغداد پر حملہ مسلمانوں کی دانش کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ اس کے بعد مسلمان پھر سنبھل نہ سکے اور جہل اور پسماندگی کے اندھیری گھپاؤں میں گم ہوتے چلے گئے۔ ان میں کوئی ایسا ذی ہوش اور دور اندیش بھی پیدا نہ ہوسکا، جوانھیں باور کراتا کہ مصائب کی اس دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ علم وآگہی ہے۔بالکل اسی طرح جیسے بخت نصر کے حملہ کے بعد تتربتر ہوتے یہودیوں کو ان کے علماء نے سمجھایا تھا اور جسے انھوں نے پلو سے باندھ لیا تھا۔ علم وآگہی کو اپنی اولین ترجیح بنانے کا نتیجہ ہے کہ آج پوری دنیا کی نفرتوں کے باوجود یہودی عالمی منظر نامے پر فیصلہ کن حیثیت میں چھائے ہوئے ہیں۔
اس تجزیے سے یہ ثابت ہوا کہ اگر کسی معاشرے میں جب علم کی قدرومنزلت ختم ہوجائے، اہل علم و دانش نظرانداز کیے جائیں اور اہل زر معتبر ٹھہریں۔کج بحثی و کج کلامی عام ہو جائے۔ ذاتی مفاد اجتماعی مفاد پر حاوی آجائے۔ تحمل ، برداشت اور رواداری دم توڑ جائے اور اس کی جگہ فرقہ واریت، لسانیت ، قبیلہ اور خاندان پرستی لے لے ۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر لوگ بے جا انا پرستی (Super ego) کا شکار ہو جائیں۔ جھوٹ اور دروغ گوئی زندگی کا معمول بن جائے۔اداروں کی جگہ فرد مقدم ہوجائیں تو بقول شیخ سعدیؒ سمجھ لو کہ ایسا معاشرہ آمادہ زوال ہے۔ اگرایسے معاشروں کی درستگی کے اقدامات پرفوری توجہ نہ دی جائے تو وہ مزید انتشار میں مبتلاہوکر بدترین تباہی سے دوچار ہوجاتے ہیں۔اس حوالے سے پاکستانی معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو یہ خامیاں اور کمزوریاں نہ صرف بدرجہ اتم موجود ملیں گی، بلکہ تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی بھی نظر آئیں گی ۔ عالم یہ ہے کہ کیا عوام اورکیاخواص سبھی ان میں مبتلا ہیں۔چونکہ کسی بھی سطح پر ان خامیوں اور کمزوریوں کو سماجی خرابیاں نہیں سمجھا جا رہا،اس لیے ان سے چھٹکارا پانے کی کوئی عملی کوشش بھی نہیں کی جا رہی۔جس کے باعث یہ خرابیاں مزید گہری ہورہی ہیں۔
غلط اور ناقابل عمل مفروضوں پر قائم پالیسیوں اور حکمت عملیوں نے نہ صرف ملک کو عالمی تنہائی کا شکار کیا،بلکہ ملک کے اندر بھی انتشار اور افراتفری کو پروان چڑھنے کا موقع فراہم کیا۔کرپشن، بدعنوانی اور بدانتظامی نے لوٹ کھسوٹ کا ایسا بازار گرم کیا ہے،جس میں جسے جہاں موقع مل رہا ہے، مستفید ہو رہا ہے۔آمریت نے صرف نظم حکمرانی ہی میں بگاڑ پیدا نہیں کیا، بلکہ پورے معاشرے کی ذہنیت آمرانہ کردی ہے۔دولت وطاقت کابیجا استعمال قوت وطاقت کی علامت بن گیا۔اداروں کی اہمیت و افادیت ختم ہوگئی اور فرد اور اس کی طاقت مقدم و محترم ٹھہرے ہیں۔ ایک ایسی صورتحال میں مؤدبانہ عرض ہے کہ روزِ اول سے دروغ گوئی اور جھوٹ پر مبنی جن پالیسیوں کے سبب ہم نہ قوم بن سکے اور نہ ریاست کی سمت کا تعین کرسکے ہیں،اب ان سے چھٹکارا پانے کا وقت آگیا ہے۔