انقلاب ایران کے 35 سال
مغربی پنڈتوں نے اسلامی انقلا ب کے رونما ہونے سے قبل ہی اسلامی انقلاب کے انتقال کی خبریں دینا شروع کر دی تھیں۔۔۔
پاکستان کے پڑوسی ملک اسلامی جمہوریہ ایران میں آج سے ٹھیک 35 برس قبل اسلامی انقلاب1979ء میں عالم اسلام اور بیسویں صدی کے عظیم اسلامی رہنما حضرت آیت اللہ سید روح اللہ موسوی الخمینی (امام خمینیؒ) کی سربراہی میں قیام پذیر ہوا اور خطے سے شیطانی و طاغوتی قوتوں کے سامنے بر سر پیکار ہو گیا اور آج 35 برس مکمل ہونے کے بعد بھی انقلاب اسلامی اسی آب و تاب کے ساتھ اپنی منزلوں کو طے کرتا ہوں آگے بڑھ رہا ہے۔
آج اسلامی انقلاب دن میں ایک روشن خورشید کی مانند اور رات کے اندھیروں میں مہتاب کی مانند چمک دمک رہا ہے اور فرزندان اسلام کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں مظلوموں کی حمایت کے لیے نہ صرف آواز اٹھا رہا ہے بلکہ عملی طور پر دنیا کے مظلوموں اور دنیا میں مظلوم بنا دی جانے والی اقوام کی مدد و نصرت کو اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہوئے اس کی ادائیگی میں مصروف عمل ہے، جس کی ایک روشن مثال فلسطین کے عوام کی مدد کرنا اور فلسطینی مجاہدین کی جد و جہد آزادی کی عالمی سطح پر نہ صرف حمایت بلکہ مالی معاونت کے ساتھ ساتھ مسلح معاونت بھی ہے، یہ انقلاب اسلامی ایران ہی ہے کہ جس نے اپنے قیام کے بنیادی مقاصد میں اولین مقصد کو فلسطینی عوام کی مدد و نصرت قرار دیا اور دنیا کے مظلومین کی حمایت کو اپنا بنیادی اصول قرار دیا۔
انقلاب اسلامی ایران کی سب سے عظیم الشان فتح جو تاریخ میں رقم ہے وہ یہ ہے کہ جب انقلاب اسلامی کے فوری بعد امریکی ایماء پر عراق کے صدام حسین نے ایران پر حملہ کیا تو اس وقت مغربی ممالک عراقی افواج کو جدید اسلحے سے لیس کر رہے تھے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح اسلامی انقلاب کا خاتمہ کر دیا جائے لیکن یہ اسلامی انقلاب کی برکات میں سے تھا کہ اسلامی انقلاب کے فرزندوں نے آٹھ سال تک اس یک طرفہ جنگ کا سامنا کیا اور اپنی سر زمین کا ایک انچ بھی دشمن کے ہاتھوں نہ جانے دیا اور انقلاب اسلامی کی بھی حفاظت کی یہاں تک کہ عراق سمیت مغربی پشت پناہوں نے اقوام متحدہ کی مدد لے کر اس جنگ کو بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
اسلامی انقلاب کے ثمرات فلسطین میں بھی مشاہدہ کیے گئے کہ جہاں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے چند جوانوں نے2008ء میں اسرائیلی حملے کے جواب میں مزاحمت کا فیصلہ کیا اور پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ بائیس روزہ جنگ کے بعد بالآخر مشرق وسطیٰ کا سرطان اسرائیل ذلت و رسوائی کا شکار ہوا اور اللہ کے مجاہدین کو فتح و نصرت حاصل ہوئی، دنیا اس بات کو جانتی ہے کہ یہ بھی انقلاب اسلامی ایران کے ثمرات میں سے ایک تھا۔ اس بات کا اعتراف خود اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اپنی تقریر میں کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم ہر گز یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ فلسطین جو ایران کی مدد و نصرت کے ساتھ خطے میں موجود ہے ایک مضبوط فلسطین بن سکے۔
انقلاب اسلامی ایران سے قبل دنیا کے بہت سے بڑے نامور تجزیہ نگار کہا کرتے تھے کہ ایران میں آنے والا انقلاب دیر پا نہیں ہو سکتا، کیونکہ اس وقت کے تجزیہ نگاروں کے مطابق ایران میں رونما ہونے والا اسلامی انقلاب شاید کمزور انقلاب تھا جو وقت کے خطرناک سامراجی ممالک کے سامنے سینہ سپر رہنے کے قابل نہیں تھا، لیکن ان تمام تجزیہ نگاروں اور مبصرین کی تمام باتیں آج رد ہو چکی ہیں اور آج سے قبل اس وقت بھی رد ہوئی تھیں جن انقلاب اسلامی ایران نے سب سے پہلے ایران سے اسرائیلی سفارتخانے کا خاتمہ کیا اور اس جگہ کو فلسطینی سفارت خانے میں تبدیل کیا، اسی طرح یہ تجزیئے اس وقت بھی دم توڑتے ہوئے نظر آئے کہ جب یونیورسٹی کے چند طلباء نے امریکی سفارتخانے کا گھیراؤ کر نے کے بعد امریکی سفارت خانے میں موجود جاسوسی کے آلات برآمد کیے اور اس واقعے کو ایران میں انقلاب دوئم کا نام دیا گیا تھا، اس دن کے بعد سے آج تک ایران میں دوبارہ امریکی سفارتخانہ قائم نہیں کیا جا سکا۔
مغربی پنڈتوں نے اسلامی انقلا ب کے رونما ہونے سے قبل ہی اسلامی انقلاب کے انتقال کی خبریں دینا شروع کر دی تھیں اسی طرح کی خبر ایک مغربی پنڈت مشہور امریکی مصنف Mark Twain نے بھی دی اور کہا کہ ایرا ن کا انقلاب بہت جلد ختم ہو جائے گا لیکن آج اگر ہم پینتیس سالہ تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی انقلاب ترقی کی راہوں پر گامزن ہے اور عالمی سامراجی طاقتوں کے سامنے تن و تنہا سینہ سپر بھی ہے۔
ایران کا ایک مصنف ابراہمیان لکھتا ہے کہ1979ء میں کہ جب انقلاب اسلامی ایران بپا بھی نہیں ہوئے تھا تاہم ایک اسلامی انقلاب کے آثار نظر آ رہے تھے اس وقت بین الاقوامی مشاہدہ کار، صحافی، تجزیہ نگار اور مبصرین اور دیگر حلقوں کے لوگ یہ باتیں کر رہے تھے کہ اسلامی انقلاب کی جد و جہد بہت جلد انتقال پذیر ہو جائے گی لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اسلامی انقلاب رونما ہوا اور پھر کامیابی کے ساتھ اپنے سفر پر گامزن ہے۔
ایرا ن کے ایک سابق وزیر جہانگیر آموز گر نہ 1993ء میں لکھا ہے کہ 1979ء میں انقلاب اسلامی ایران کے بعد کوئی سال ایسا نہیں گزرا ہے کہ جب اسلامی انقلاب کے دشمنوں نے انقلاب اسلامی ایران کے خلاف سازشیں نہ کی ہو ں اور یہ کوشش نہ کی ہو کہ اسلامی انقلاب کو ختم کر دیا جائے لیکن ان تمام مشکلات اور سازشوں کے باوجود اور مصائب و آلام کے باوجود اسلامی انقلاب اپنی چمک دمک کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔
انقلاب اسلامی ایران کے خلاف امریکی حکمرانوں اور مغربی پنڈتوں کے خدشات ان کے مطابق اس لیے بھی درست ہیں کیونکہ مغرب میں اس طرح کی کئی ایک مثالیں دیکھنے میں آئی ہیں۔ جیسا کہ انقلاب فرانس 1794ء میں دیکھا گیا، اور خود امریکی اور مغربی جمہوریت کا ہی مشاہدہ کیا جائے تو طاقت کا اختیار ایک دو سے زیادہ افراد کے ہاتھوں میں نہیں ہوتا جس کے باعث امریکی اور مغربی پنڈتوں کے ایران کے متعلق خدشات درست تسلیم کیے جا سکتے ہیں لیکن در اصل امریکی یہ بات نہیں جانتے کہ اسلامی انقلاب کے بنیادی اصولوں اور نظام کے مطابق اختیار ات کا مرکز اسلامی انقلاب کی مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) استعمال کر تی ہے نہ کی کسی ایک یا دو افراد تک محدود ہے، اور یہ بہترین اصول انقلاب اسلامی ایران کے بانی حضرت امام خمینی ؒ کے مر ہون منت ہے۔
آج پینتیس برس کا عرصہ بیت جانے کے بعد دنیا اس بات پر شاہد ہے کہ اسلامی انقلاب ترقی کرتا ہوا منزلوں کو طے کر رہا ہے اور عملاً دنیا کے مظلوموں بالخصوص فلسطینیوں اور دیگر مظلوم قوموں کی حمایت میں سر فہرست خطے میں موجود ہے اور دنیا کے عالمی سامراجوں اور طاغوتی طاقتو ں کے سامنے سینہ سپر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وقت کی عالمی طاقتیں بالخصوص امریکا اس بات پر مجبور ہوا ہے اور اسلامی انقلاب ایران کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے مذاکراتی میز پر ایرانی شرائط کے ساتھ بیٹھا ہے، مذاکرات کا کرنا ہی درا صل اس بات کی دلیل ہے کہ عالمی طاقتوں نے اسلامی ایران کو ایک اسلامی طاقت کے طور پر تسلیم کیا ہے اور مذاکرات کی پیش کش کی ہے تاہم اس سے قبل عالمی سامراجی قوتوں نے اپنے سے کمزور ممالک پر ہمیشہ فوجی چڑھائی کے ذریعے اپنے مطالبات تسلیم کروائے ہیں، اس حوالے سے افغانستان، عراق، اور شمالی افریقی ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ 1979ء میں جو اسلامی انقلاب سر زمین ایران پر امام خمینی کی قیادت میں وقوع پذیر ہو آج پینتیس برس گزر جانے کے بعد بھی مزید طاقتور ہو رہا ہے اور صرف طاقتور ہی نہیں بلکہ اسی اسلامی انقلاب کی بہاریں دنیا کے دیگر ممالک میں تیزی سے پھیل رہی ہیں اور خطے میں تین سال قبل شروع ہونے والی اسلامی بیداری کی لہر بھی انقلاب اسلامی ایران کی مرہون منت رہی ہے۔
آج اسلامی انقلاب دن میں ایک روشن خورشید کی مانند اور رات کے اندھیروں میں مہتاب کی مانند چمک دمک رہا ہے اور فرزندان اسلام کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں مظلوموں کی حمایت کے لیے نہ صرف آواز اٹھا رہا ہے بلکہ عملی طور پر دنیا کے مظلوموں اور دنیا میں مظلوم بنا دی جانے والی اقوام کی مدد و نصرت کو اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہوئے اس کی ادائیگی میں مصروف عمل ہے، جس کی ایک روشن مثال فلسطین کے عوام کی مدد کرنا اور فلسطینی مجاہدین کی جد و جہد آزادی کی عالمی سطح پر نہ صرف حمایت بلکہ مالی معاونت کے ساتھ ساتھ مسلح معاونت بھی ہے، یہ انقلاب اسلامی ایران ہی ہے کہ جس نے اپنے قیام کے بنیادی مقاصد میں اولین مقصد کو فلسطینی عوام کی مدد و نصرت قرار دیا اور دنیا کے مظلومین کی حمایت کو اپنا بنیادی اصول قرار دیا۔
انقلاب اسلامی ایران کی سب سے عظیم الشان فتح جو تاریخ میں رقم ہے وہ یہ ہے کہ جب انقلاب اسلامی کے فوری بعد امریکی ایماء پر عراق کے صدام حسین نے ایران پر حملہ کیا تو اس وقت مغربی ممالک عراقی افواج کو جدید اسلحے سے لیس کر رہے تھے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح اسلامی انقلاب کا خاتمہ کر دیا جائے لیکن یہ اسلامی انقلاب کی برکات میں سے تھا کہ اسلامی انقلاب کے فرزندوں نے آٹھ سال تک اس یک طرفہ جنگ کا سامنا کیا اور اپنی سر زمین کا ایک انچ بھی دشمن کے ہاتھوں نہ جانے دیا اور انقلاب اسلامی کی بھی حفاظت کی یہاں تک کہ عراق سمیت مغربی پشت پناہوں نے اقوام متحدہ کی مدد لے کر اس جنگ کو بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
اسلامی انقلاب کے ثمرات فلسطین میں بھی مشاہدہ کیے گئے کہ جہاں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے چند جوانوں نے2008ء میں اسرائیلی حملے کے جواب میں مزاحمت کا فیصلہ کیا اور پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ بائیس روزہ جنگ کے بعد بالآخر مشرق وسطیٰ کا سرطان اسرائیل ذلت و رسوائی کا شکار ہوا اور اللہ کے مجاہدین کو فتح و نصرت حاصل ہوئی، دنیا اس بات کو جانتی ہے کہ یہ بھی انقلاب اسلامی ایران کے ثمرات میں سے ایک تھا۔ اس بات کا اعتراف خود اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اپنی تقریر میں کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم ہر گز یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ فلسطین جو ایران کی مدد و نصرت کے ساتھ خطے میں موجود ہے ایک مضبوط فلسطین بن سکے۔
انقلاب اسلامی ایران سے قبل دنیا کے بہت سے بڑے نامور تجزیہ نگار کہا کرتے تھے کہ ایران میں آنے والا انقلاب دیر پا نہیں ہو سکتا، کیونکہ اس وقت کے تجزیہ نگاروں کے مطابق ایران میں رونما ہونے والا اسلامی انقلاب شاید کمزور انقلاب تھا جو وقت کے خطرناک سامراجی ممالک کے سامنے سینہ سپر رہنے کے قابل نہیں تھا، لیکن ان تمام تجزیہ نگاروں اور مبصرین کی تمام باتیں آج رد ہو چکی ہیں اور آج سے قبل اس وقت بھی رد ہوئی تھیں جن انقلاب اسلامی ایران نے سب سے پہلے ایران سے اسرائیلی سفارتخانے کا خاتمہ کیا اور اس جگہ کو فلسطینی سفارت خانے میں تبدیل کیا، اسی طرح یہ تجزیئے اس وقت بھی دم توڑتے ہوئے نظر آئے کہ جب یونیورسٹی کے چند طلباء نے امریکی سفارتخانے کا گھیراؤ کر نے کے بعد امریکی سفارت خانے میں موجود جاسوسی کے آلات برآمد کیے اور اس واقعے کو ایران میں انقلاب دوئم کا نام دیا گیا تھا، اس دن کے بعد سے آج تک ایران میں دوبارہ امریکی سفارتخانہ قائم نہیں کیا جا سکا۔
مغربی پنڈتوں نے اسلامی انقلا ب کے رونما ہونے سے قبل ہی اسلامی انقلاب کے انتقال کی خبریں دینا شروع کر دی تھیں اسی طرح کی خبر ایک مغربی پنڈت مشہور امریکی مصنف Mark Twain نے بھی دی اور کہا کہ ایرا ن کا انقلاب بہت جلد ختم ہو جائے گا لیکن آج اگر ہم پینتیس سالہ تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی انقلاب ترقی کی راہوں پر گامزن ہے اور عالمی سامراجی طاقتوں کے سامنے تن و تنہا سینہ سپر بھی ہے۔
ایران کا ایک مصنف ابراہمیان لکھتا ہے کہ1979ء میں کہ جب انقلاب اسلامی ایران بپا بھی نہیں ہوئے تھا تاہم ایک اسلامی انقلاب کے آثار نظر آ رہے تھے اس وقت بین الاقوامی مشاہدہ کار، صحافی، تجزیہ نگار اور مبصرین اور دیگر حلقوں کے لوگ یہ باتیں کر رہے تھے کہ اسلامی انقلاب کی جد و جہد بہت جلد انتقال پذیر ہو جائے گی لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اسلامی انقلاب رونما ہوا اور پھر کامیابی کے ساتھ اپنے سفر پر گامزن ہے۔
ایرا ن کے ایک سابق وزیر جہانگیر آموز گر نہ 1993ء میں لکھا ہے کہ 1979ء میں انقلاب اسلامی ایران کے بعد کوئی سال ایسا نہیں گزرا ہے کہ جب اسلامی انقلاب کے دشمنوں نے انقلاب اسلامی ایران کے خلاف سازشیں نہ کی ہو ں اور یہ کوشش نہ کی ہو کہ اسلامی انقلاب کو ختم کر دیا جائے لیکن ان تمام مشکلات اور سازشوں کے باوجود اور مصائب و آلام کے باوجود اسلامی انقلاب اپنی چمک دمک کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔
انقلاب اسلامی ایران کے خلاف امریکی حکمرانوں اور مغربی پنڈتوں کے خدشات ان کے مطابق اس لیے بھی درست ہیں کیونکہ مغرب میں اس طرح کی کئی ایک مثالیں دیکھنے میں آئی ہیں۔ جیسا کہ انقلاب فرانس 1794ء میں دیکھا گیا، اور خود امریکی اور مغربی جمہوریت کا ہی مشاہدہ کیا جائے تو طاقت کا اختیار ایک دو سے زیادہ افراد کے ہاتھوں میں نہیں ہوتا جس کے باعث امریکی اور مغربی پنڈتوں کے ایران کے متعلق خدشات درست تسلیم کیے جا سکتے ہیں لیکن در اصل امریکی یہ بات نہیں جانتے کہ اسلامی انقلاب کے بنیادی اصولوں اور نظام کے مطابق اختیار ات کا مرکز اسلامی انقلاب کی مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) استعمال کر تی ہے نہ کی کسی ایک یا دو افراد تک محدود ہے، اور یہ بہترین اصول انقلاب اسلامی ایران کے بانی حضرت امام خمینی ؒ کے مر ہون منت ہے۔
آج پینتیس برس کا عرصہ بیت جانے کے بعد دنیا اس بات پر شاہد ہے کہ اسلامی انقلاب ترقی کرتا ہوا منزلوں کو طے کر رہا ہے اور عملاً دنیا کے مظلوموں بالخصوص فلسطینیوں اور دیگر مظلوم قوموں کی حمایت میں سر فہرست خطے میں موجود ہے اور دنیا کے عالمی سامراجوں اور طاغوتی طاقتو ں کے سامنے سینہ سپر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وقت کی عالمی طاقتیں بالخصوص امریکا اس بات پر مجبور ہوا ہے اور اسلامی انقلاب ایران کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے مذاکراتی میز پر ایرانی شرائط کے ساتھ بیٹھا ہے، مذاکرات کا کرنا ہی درا صل اس بات کی دلیل ہے کہ عالمی طاقتوں نے اسلامی ایران کو ایک اسلامی طاقت کے طور پر تسلیم کیا ہے اور مذاکرات کی پیش کش کی ہے تاہم اس سے قبل عالمی سامراجی قوتوں نے اپنے سے کمزور ممالک پر ہمیشہ فوجی چڑھائی کے ذریعے اپنے مطالبات تسلیم کروائے ہیں، اس حوالے سے افغانستان، عراق، اور شمالی افریقی ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ 1979ء میں جو اسلامی انقلاب سر زمین ایران پر امام خمینی کی قیادت میں وقوع پذیر ہو آج پینتیس برس گزر جانے کے بعد بھی مزید طاقتور ہو رہا ہے اور صرف طاقتور ہی نہیں بلکہ اسی اسلامی انقلاب کی بہاریں دنیا کے دیگر ممالک میں تیزی سے پھیل رہی ہیں اور خطے میں تین سال قبل شروع ہونے والی اسلامی بیداری کی لہر بھی انقلاب اسلامی ایران کی مرہون منت رہی ہے۔