دائمی سچ

جسم کی دنیا تیزی سے رنگ بدلتی ہے۔ کوئی کیفیت مستقل نہیں رہتی۔ لفظوں اور رویوں میں ٹکراؤ ناگزیر ہے


Shabnam Gul February 13, 2014
[email protected]

انگریزی کے شعرا میں جان ڈن محبت کی باریک بینیوں سے واقف ہیں۔ ایلزبیتھ دور سے تعلق رکھنے والے انگلینڈ کے شاعر جان ڈن کی ذہنی سطح ہم عصر شعرا سے مختلف ہے۔ جان ڈن مابعد الطبیعاتی شاعری کے مکتبہ فکر سے وابستہ تھے۔ اپنی مشہور نظم The Ecstasy میں محبت کی کیفیت کو بیان کرتے ہیں جس کا محور جسم ہے جس سے روح کے سلسلے قائم ہیں۔

گو کہ پیار کے اسرار
روح میں پھلتے پھولتے ہیں
مگر پھر بھی جسم ان تمام تر
جذبوں کا محور ہے

جان ڈن کا کہنا ہے کہ جسم ایک دروازے کی طرح ہے جو انسان کو روح کی دنیا تک لے کر جاتا ہے۔

جسم کی دنیا تیزی سے رنگ بدلتی ہے۔ کوئی کیفیت مستقل نہیں رہتی۔ لفظوں اور رویوں میں ٹکراؤ ناگزیر ہے۔ انفرادیت جہاں بہت جلد یکسانیت اور بے زاری میں بدل جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عارضی محبت اور عارضی جذبوں کی بات نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک جسم کی خواہشیں بے اثر ہیں۔ مگر وہ روح کے سیراب ہونے کی بات کرتے ہیں۔ روح سیراب ہوکے خالی نہیں ہوتی۔ یہ وہ پیمانہ ہے جو کبھی کم نہیں ہوتا۔ جو سدا لبریز ہو کر چھلکتا رہتا ہے۔ وہ محبت کے حوالے سے انسانی نفسیات کو گہرائی میں سمجھتے ہیں۔ جو چیز انسان کو حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ فائدہ اور نقصان کاروبار کا حصہ ہے۔ محبت کے راستوں کے وہ ہمسفر نہیں بن سکتے جو فقط اپنی ذات کو اہمیت دیتے ہیں۔ فقط فائدے کی بات سوچتے ہیں۔ اور مشکلات سے دور بھاگتے ہیں، بقول شاہ لطیف بھٹائی:

عاشق عادی زہر کے' زہر سے ہیں مسرور
کڑوا قاتل زہر جو دیکھیں' مستی سے ہوں چور
لطیف کہ عشق یار میں مٹ کر ہیں مسرور
زخموں سے رنجور بھی نہ زخم دکھائیں

جدید دور تک آتے محبت کے زاویے بدل کر رہ گئے ہیں۔ یہ محبت محض لفاظی اور ویلنٹائن دن کے دکھاوے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ جتنے خوبصورت الفاظ ہوتے ہیں وہ عمل کی تاثیر سے جلد ہی خالی ہو جاتے ہیں۔ جدیدیت نے جذبوں سے گہرائی اور خالص پن چھین لیا ہے۔ جس میں رشتے، ناتے اور محبتیں محض دنیا داری نبھانے کا ذریعہ بن کے رہ گئے ہیں۔ جہاں فقط خوبیاں اور خوبصورتی قابل قبول ہے۔ محبت تفریق نہیں کرتی اور نہ ہی اس کے پاس کسی معیار کا پیمانہ ہے۔ اور نہ ہی وہ اظہار کی محتاج ہے۔ یہ وقت کے تابع نہیں ہے۔ بدلتا ہوا وقت محبت کی اہمیت سے انحراف نہیں کر سکتا۔ بلکہ انسان کی سوچ بدل جاتی ہے۔ جہاں مفاد متاثر ہو، وہاں وضاحت کی ایک نئی تشریح سامنے آ جاتی ہے۔ لیکن جان ڈن بھی محبت کو ایک دائمی سچ سمجھتا ہے۔

محبت دائمی احساس کی طرح ہے۔ جو موسم اور ماحول کے تابع نہیں ہے جہاں گھنٹے، دن، ماہ و سال وقت کے بوسیدہ پیرہن ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ محبت کی گہرائی کے سامنے وقت ایک پر فریب خیال ہے۔ انسان کی سوچ کا انداز محبت کو واہمہ، قیاس آرائی اور عارض رویہ بنا دیتا ہے۔ وقت محبت کو نہیں مٹا سکتا مگر انسان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ محبت انسان کی حقیقت کو دریافت کرتی ہے مگر انسان کی اپنی سوچ کا جال محبت کو گمان کا حصہ بنا دیتا ہے۔ یہ سب سمجھ کا فریب ہے۔
شاہ صاحب فرماتے ہیں:
ایک صدا ایک گونج' سننے میں ہیں دو
غور سے گر سن لو' مخرج ان کا ایک ہے

دھوکا انسان کو اس کی اپنی توقعات دیتی ہیں اور وہ سارا قصور محبت پر ڈال دیتا ہے۔ محبت خیال کی یکسوئی سے جنم لیتی ہے جب تک خیال منتشر نہیں ہوتا، محبت قائم رہتی ہے۔ انتشار سے سوچ کا زاویہ بدل جاتا ہے۔ محبت سمت نہیں بدلتی۔ وہ ایک ہی رخ پر سفر کرتی ہے۔ یہ وہ صدا ہے جسے فاصلہ اور خلا بازگشت بنا دیتا ہے۔ غور سے اگر سنا جائے تو ایک ہی گونج سے مغالطے کی مختلف صورتیں دکھائی دینے لگتی ہیں۔ دہرا معیار انسان کی اپنی سوچ کا اختراع ہے۔ جو محبت کرتے ہیں ان کے لیے فاصلے بے معنی ہو جاتے ہیں۔ وقت کا خلا یقین کی روشنی سے بھر جاتا ہے۔ محبت احساس کی ترتیب کا ہنر ہے۔ اس کا ایک ہی محور ہوتا ہے۔ لیکن تسلسل کے زاویے بے شمار ہوتے ہیں۔ انسان کی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ وہ بار بار اپنے محور سے ہٹ جاتی ہے۔ شاہ لطیف کی طرح جان ڈن بھی محبت کی اکائی کی بات کرتا ہے۔

پانی کے تحرک سے دیکھو کیسے
ایک دائرے سے بہت سے
دائرے بنتے چلے جاتے ہیں
محبت کا تسلسل بھی
مرکز سے وسعت پاتا ہے

جیسے عمارت کی بنیاد کمزور ہو تو وہ ڈھے جاتی ہے بالکل اسی طرح انسان کی بنیاد میں محبت کا یقین شامل نہ ہو تو محض ریت کے پتلے بن کر رہ جاتے ہیں ہواؤں سے خوف کھانے والے۔ جب کہ خوف محبت کی شکست ہے۔ جہاں خوف کے نقش پختہ ہوں، وہاں محبت قصہ پارینہ بن جاتی ہے۔ محبت کا راستہ روکنے والے اپنی نسلوں کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں۔ انھیں پیاس کا صحرا بنادیتے ہیں۔

بقول شاہ لطیف کے:
رات پڑی جو میخانے پر شبنم قطرہ قطرہ
موکھی قطرہ قطرہ چن کر' راہ روں پر برسا
نگر نگر میں بات چلے اور دھوم مچے ہر ہر جا
صبح پئیں گے مدرا' متوالے میخانے میں

انسان کی انا صدا کو دوئی میں بدل دیتی ہے۔ انسان کو اس کی سمجھ اس کی حس دھوکا دیتی ہے۔ جن سے وہ زندگی کو محسوس کرتا ہے۔ محبت میں نفاق ضد اور ہٹ دھرمی ڈال دیتے ہیں جو انا کی صورتیں ہیں۔ انا، بنجر زمین کی طرح ہے، جہاں کتنی ہی کوشش کیوں نہ کی جائے مگر بیج بے ثمر ہی رہتا ہے۔ محبت بہتے دریا کی مانند ہے۔ جو ذہن کے منفی رویے دھو ڈالتا ہے۔ دریا ایک سمت کی طرف بہتا ہے۔ یہ نہیں دیکھتا کہ میل کم ہے یا زیادہ کیونکہ اس کا جوہر ہے چیزوں کو شفاف بنانا اور زندگی عطا کرنا اور زرخیزی کو بانٹتے رہنا۔ ربط باہمی فطرت کا مزاج ہے۔ مل جل رک رہنا، ایک دوسرے کو سہارا اور راستہ دیتے رہنا۔ سمندر کا راستہ بادلوں کی طرف جاتا ہے۔ بادل، ہریالی کی نوید ہیں۔ ہریالی سے زندگی کی تازگی قائم ہے۔ فروری کے مہینے سے بہار کا آغاز ہو چکا ہے۔ درختوں کی خالی ٹہنیاں سبز پتوں سے لد گئی ہیں۔ شگوفے لہلہا رہے ہیں۔ پھولوں کی نرماہٹ اور خوشبو سے تھکے احساس مہک رہے ہیں۔ بہار فطرت کا عشق ہے۔ پوری دنیا میں جشن بہاراں منایا جا رہا ہے۔ بہار اور محبت میں ایک گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔ محبت بھی ذہن کو بہار جیسی زرخیزی عطا کرتی ہے۔

جن کی سنگت روح کی راحت' دل کا اترے رنگ
وہ ایسوں کے سنگ' جیون بھر اے دل

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں