استاد بندو خاںشخصیت و فن
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔۔۔
برصغیر پاک و ہند نے بڑے بڑے نامور استادان فن اور یکتائے روزگار موسیقار پیدا کیے ہیں جن کے نام دنیائے موسیقی میں تا قیامت روشن و درخشاں رہیں گے۔ فخر موسیقی سارنگی نواز استاد بندو خاں کا نام بھی امتیازی شان کے ساتھ اس طویل فہرست میں شامل ہے۔ وہ اس دلی گھرانے کے چشم و چراغ تھے جس نے استاد ممن خاں نامی عظیم موسیقار پیدا کیا، جس نے '' سر ساگر'' نامی سارنگی ایجاد کی تھی۔ ممن خاں محض ایک بے مثل موسیقار ہی نہیں بلکہ ایک درویش صفت پرہیز گار اور عبادت گزار مسلمان بھی تھے۔
استاد بندو خاں کے گھرانے کے ڈانڈے دلی کے آخری تاج دار بہادر شاہ ظفر کے مغلیہ دربار سے جا کر ملتے ہیں جہاں ان کے دادا علی بخش خاں کو ایک بلند مقام حاصل تھا اور ان کی سارنگی سے شاہی در و دیوار گونجتے تھے۔ ان کے بعد ان کے صاحبزادے علی جان خاں نے اپنے خاندان کے پرچم کو بلند رکھا جو نہ صرف استاد بندو خاں کے والد گرامی بلکہ ان کے استاد بھی تھے۔ بندو خاں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم ان ہی سے حاصل کی۔
بندو خاں نے 1880ء میں اپنے نامی گرامی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ چناں چہ سارنگی ان کے وجود میں رچی بسی ہوئی تھی۔ صرف سات برس کی عمر میں جو کہ کھیل کود کی عمر کہلاتی ہے انھوں نے سارنگی کے تاروں کو جھنجھانا شروع کر دیا تھا۔ ان کی محنت اور ریاض کئی کئی گھنٹوں کے دورانیے پر محیط تھا۔ ''پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آ جاتے ہیں'' پرانی کہاوت بندو خاں پر حرف بہ حرف صادق آئی۔ ان کے جوہر شناس دادا نے بہت جلد اپنے ہونہار پوتے کی غیر معمولی صلاحیت اور شدت شوق کو اچھی طرح سے بھانپ لیا۔ بس پھر کیا تھا انھوں نے اپنا ورثہ اس بچے کو منتقل کرنا شروع کر دیا۔ ان کی کوشش تھی کہ ان کا لائق پوتا سارنگی کے تمام نشیب و فراز سے کم سے کم وقت میں واقف ہو جائے۔ بندو خاں کا ذہن شروع ہی سے بہت زرخیز اور بڑا تخلیقی تھا۔ وہ پیدائشی طور پر ایک Creative ذہن کے مالک تھے۔ وہ اکثر یہی سوچا کرتے تھے کہ دوسرے سازوں کے باج کو سارنگی میں کس طرح ڈھالا جا سکتا ہے۔ اس کٹھن کام کو سر انجام دینے کے لیے انھوں نے موسیقی کے ایک ایک ساز کے باج پر غور و فکر کرنا شروع کر دیا۔ آخرکار وہ وقت آ ہی گیا جب وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہو گئے۔ انھوں نے اس تجربے میں جن سازوں کو شامل کیا ان میں رباب، الغوزہ، دل ربا اور ستار شامل ہیں۔ ان کی اس کاوش نے سارنگی کو ایک نئی جہت سے ہم آہنگ کر کے عملاً ''سو رنگی'' بنا دیا۔
انگلیوں کی ضرب جس طرح ہارمونیم میں لگائی جاتی ہے بندو خاں نے ویسی ہی ضرب سارنگی میں بھی لگانا شروع کر دی۔ انھوں نے اس جدت طرازی سے بڑے بڑوں کو حیران کر دیا۔ انھوں نے مینڈسوت کی سرگم کا انداز بھی بدل دیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے سارنگی کی ساخت کے حوالے سے بھی کامیاب تجربے کیے۔ انھوں نے مختلف قسم کے بانس پر ایک نئی طرح کی سارنگی وضع کی اور اس پر تانت کے تار چڑھائے۔ مگر جب سارنگی نہیں بولی تو انھوں نے فولاد کے تار آزمائے جس سے بڑی پیاری اور مسحور کن آواز پیدا ہوئی۔ جس طرح خاکستر گل سے خوشبو کا خمیر اٹھتا ہے بالکل اسی طرح موسیقی کی جدت طرازی ان کے خون میں شامل تھی۔ بس یوں کہہ لیجیے کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔
ان کی شہرت کی خوشبو دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف پھیلتی چلی گئی۔ بلاشبہ ان کی اس پذیرائی میں ان کی خداداد صلاحیت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم بھی برابر شامل تھا۔ بہ قول شاعر:
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
اس زمانے میں راجے اور مہاراجے فنکاروں کی بڑی قدر اور حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ چنانچہ استاد بندو خاں کے ساتھ بھی یہی کچھ پیش آیا۔ خوش قسمتی سے انھیں اندور کے مہاراجہ کی سرپرستی میسر آ گئی جس کے طفیل انھوں نے پورے ستائیس سال راجہ کے دربار کی ملازمت میں عزت و وقار کے ساتھ گزارے۔ یہ ان کی فنکارانہ زندگی کا سنہری دور تھا۔ وہ مہاراجہ کی آنکھ کا تارا تھے۔ اس کے بعد جب مہاراجہ نے راج پاٹ سے علیحدگی اختیار کر کے امریکا کا رخ کیا تو انھوں نے استاد کو بھی ہمراہ چلنے کی پیشکش کی جسے انھوں نے قبول نہیں کیا۔ تاہم اس کے باوجود انھیں عرصہ دراز تک باقاعدہ پنشن ملتی رہی۔ بالآخر انھوں نے پھر دلی ہی کا رخ کیا اور سنگیت سیوا شروع کر دی۔
ان کی شاگردی اختیار کرنے والے سنگیت پریمیوں کی تعداد میں بہت تیزی کے ساتھ اضافہ ہونا شروع ہو گیا جن میں اگرچہ ہندو اور مسلمان دونوں ہی شامل تھے تاہم ان کے چیلوں کی اکثریت ہندوؤں پر مشتمل تھی۔ پھر جب پاکستان معرض وجود میں آ گیا تو استاد بندو خاں نے بھی مملکت خدا داد ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔ حکومت ہند نے بڑی کوشش کی کہ وہ یہ ارادہ ترک کر دیں۔ شنید ہے کہ اس سلسلے میں انھیں بڑی پرکشش پیشکشیں بھی کی گئیں لیکن ان کے سر پر تو پاکستان کی محبت سوار تھی جس کے نتیجے میں وہ قیام پاکستان کے محض چند ماہ بعد ہی بذریعہ ہوائی جہاز لاہور آ گئے جو تقسیم ہند سے قبل سے ہی فلم و موسیقی کا مرکز تھا۔ لاہور میں کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد انھوں نے کراچی کا رخ کیا جہاں ہندوستان سے آنیوالے مہاجرین کی غالب اکثریت آ کر آباد ہوئی۔ ان کے علاوہ شاہد احمد دہلوی سمیت کئی نامور ہستیوں نے بھی کراچی میں ہی سکونت اختیار کی اور اس شہر کو اپنا آخری مسکن بنایا۔کراچی آنے کے بعد استاد بندو خاں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہو گئے جہاں بابائے نشریات زیڈ اے بخاری نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ریڈیو پاکستان کے ساتھ ان کی وابستگی مسلسل جاری رہی تا آں کہ 1955ء میں ان کا انتقال ہو گیا اور وہ یہیں پر سپرد خاک ہو ئے گویا:
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
وہ ان خوش نصیب فنکاروں میں شامل ہیں جن کی نہ صرف ان کی زندگی میں پذیرائی ہوئی بلکہ بعد از وفات بھی بڑی قدر و منزلت ہوئی۔ حکومت پاکستان کی جانب سے ان کی اعلیٰ خدمات کے صلے میں 1956ء میں انھیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس میں شک نہیں کہ قیام پاکستان کے بعد ملک میں ریڈیو پاکستان ہی وہ ادارہ تھا جس نے شاعروں، ادیبوں، گلوکاروں، موسیقاروں اور دیگر فنکاروں کی حوصلہ افزائی اور پرورش کا فریضہ انجام دیا۔ اس کے بعد پاکستان ٹیلی ویژن نے اس سلسلے میں اپنے حصے کی ذمے داری سنبھالی اور فنکاروں کی سرپرستی کے سائبان کو وسیع تر کرایا۔استاد بندو خاں کی وفات کے بعد ان کے لائق فرزندوں امراؤ بندوخاں اور بلند اقبال نے اپنے بزرگوں کی روایت کو برقرار رکھنے کا حق ادا کر دیا بلکہ بلند اقبال نے تو پاکستان کی فلمی دنیا میں بھی اپنے بزرگوں کا نام روشن کر دیا۔ استاد بندو خاں اس اعتبار سے بھی بڑے خوش نصیب ہیں کہ بھارت اور پاکستان میں ان کے فن کے بارے میں نہ صرف کئی کتابیں شایع ہو کر منظر عام پر آ چکی ہیں بلکہ بھارت میں تو ان کے فن پر ریسرچ بھی کی جا رہی ہے۔ اپنے درخشاں عہد میں انھیں استاد اللہ بندے خاں، استاد ذاکر الدین، استاد عبدالکریم خاں، استاد رجب علی خاں، استاد عبدالوحید خاں، استاد چاند خاں اور استاد بڑے غلام علی خاں جیسے نابغہ روزگار فنکاروں کی سنگت کا شرف بھی حاصل ہے۔ بھارت میں تو کلاسیکی موسیقی کو آج بھی وہی مقام حاصل ہے مگر ادھر پاکستان میں جب سے مغربی موسیقی کی یلغار شروع ہوئی ہے کلاسیکل گائیکی اور موسیقی کا مستقبل محفوظ نظر نہیں آتا۔ ان حالات میں بے چاری سارنگی کب تک زندہ رہے گی اس سوال کا جواب دینا بڑا مشکل ہے؟