بیمار کا حال اچھا ہے
جو حکومت عوام سے طاقت حاصل کرتی ہے وہ کمزور ہوتی ہے اور جو حکومت آمر کی ہوتی ہے وہ اپنے آرڈر پر عمل کروا لیتی ہے
ہر قانون کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک تو قانون کو قانون ساز نے قانونی طریقے کار سے بنایا ہو دوسرا یہ کہ وہ قانون عمل میں بھی آ سکے۔ سب کو پتہ ہے وہ کہاں ہے۔ فوج کی منطق کے مطابق ٹرائل فوج کے قانون کے تحت ہو۔ سول حکومت کے مطابق ٹرائل 1977ء کے قانون کے تحت ہو۔ تو پھر سپریم کورٹ سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی۔ اور جب پوچھا تو سپریم کورٹ کی ہر تشریح حرف آخر۔ غلط یا صحیح کورٹ کا فیصلہ صادر ہونا چاہیے۔ ہر ریاست آئین کے آنے کے بعد، آئین کے اندر ہوتی ہے۔ مشرف کی عدالت سے مسلسل غیر حاضری مروج سیاسی نظام کی جڑوں میں بیٹھتی نظر آرہی ہے۔ ایسے حالات میں ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی ہو سکتے ہیں اور توہین عدالت کی ایک اور چارج بھی بن سکتی ہے۔ مگر عدالت نے خندہ پیشانی کے ساتھ اس معاملے کو نپٹایا اور اس طرح ان کو عدالت میں حاضر ہونے کی ایک اور تاریخ دے دی۔ کسی بھی حقیقت کے بظاہر دیکھتے ہوئے نظر آنیوالے واقعات دراصل اس کے بنیادی ڈھانچے کی ماہیت کی ترجمانی کر رہے ہوتے ہیں۔
قانون چاہے مشرف ٹرائل کے حوالے سے عمل میں نہیں آ سکتا ہو یا کوئی جج کسی مقدمے کا فیصلہ سنانے کے بعد اپنے اہل خانہ کے ساتھ ملک چھوڑ چکا ہو، گڑبڑ سیاسی نظام میں ہے۔ جو حکومت عوام سے طاقت حاصل کرتی ہے وہ کمزور ہوتی ہے اور جو حکومت آمر کی ہوتی ہے وہ اپنے آرڈر پر عمل کروا لیتی ہے۔ کم از کم پاکستان کی تاریخ میں تو ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ کل جس طرح عوام کی نمایندہ حکومت کو بار بار عدالت میں بلا کر اور پھر کچھ اینکروں نے اس کا تماشہ بنایا بہت سے لوگوں کی یہ رائے تھی کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے یہ کام اس اصولی روح کو زخمی کرتا ہے کہ ''طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں '' اور اب جب میاں صاحب کے زمانے میں کورٹ ایسا نہیں کرتی تو کوئی اور ایسا نہیں کرتا۔ ہم نے اداروں کو مفاد کی خاطر کمزور کیا تو ادارے بنے ہی نہیں نہ سول حکومت مضبوط ہوسکی، نہ اس کے اوپر سے ''عزیز ہم وطنو'' کے بادل ہٹ سکے۔
نہ عدالت کلی آزاد، نہ قانون کی حکمرانی ہو سکی۔ کسی اور نے کہا خود کورٹ سستا اور تیز انصاف دے سکی نہ حکومت مہنگائی کم کر سکی تا کہ لوگوں کو بھی اس ٹرائل میں دلچسپی ہو، جس کا نتیجہ بھی نکلے، اگر نہیں تو بھی منطق کی بات ہے کہ ایسے کمزور نظام ٹرائل نہیں چلایا کرتے۔ نظریہ ضرورت کے تحت کسی اور نے نہیں بلکہ عدالت نے جب دیکھا کہ Political System اپنے آپ کو جب خود نہیں بچا سکتا تو کورٹ بے چاری کیا کر سکتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ دلائل میں اخلاقی قدریں کم ہیں مگر حقیقت اخلاقی قدروں کی ماتحت نہیں ہوا کرتی۔ وہ تو جو ہوتی ہیں وہی ہوتی ہیں اور ایک تجزیہ نگار کا یہ فرض بنتا ہے ان حقائق کو اپنے انداز نظر سے بالائے طاق رکھ کر سامنے لائے تا کہ مرض تو سامنے آئے اور پھر یوں مرض کی وجہ بھی سامنے آئے گی ، پھر مریض کا علاج بھی ہونا ممکن ہو گا اور اگر ایسا نہیں کیا تو پھر ہم بھی اس غلط فہمی کا شکار ہو جائیں گے جو غالبؔ کی اس شعر میں نظر آتی ہے۔
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
ہم ابھی مکمل حالت جمہوریت میں نہیں ہیں، ہم ہو سکتے ہیں اگر ہماری سیاسی قیادت بصیرت رکھتی ہو وگرنہ اس کے دشمن بہت چالاک ہیں وہ اسے کمزور رکھنے پر تلے ہوئے ہیں لیکن جب جمہوری قوتیں ''گھرکا بھیدی لنکا ڈھائے'' کا خود کام کرتی ہوں تو جمہوریت پروان چڑھنے کے بجائے بیساکھیوں پر آ جاتی ہے، پھر تاریخ یہ نہیں دیکھتی کہ ''عزیز ہم وطنو '' نے کیا کہا۔ وہ تو دیکھتی ہے کہ سیاستدانوں نے کیا شاٹ غلط کھیلا۔ ہر شے گڈ مڈ ہو گئی ہے۔ پاکستان کی الجھی ہوئی لٹ کو سلجھانے کے لیے سلیس قاعدے کی ضرورت نہیں بلکہ گمبھیر کی ضرورت ہے۔وہ یہ بھی تو سمجھیں کہ عوام کو اسکول، اسپتال اور انصاف دیں گے تو ان کا راستہ آسان ہو جائے گا کیوں کہ پھر عدالتوں کے پیچھے لوگ ''طاقت کا سرچشمہ'' بن کے کھڑے ہوئے ہیں۔ Kelsem نے جب نظریہ ضرورت تھیوری دی تھی تو اس کے پاس ہٹلر کی مثال تھی وہ امریکا ہجرت کر کے وہاں کسی یونیورسٹی میں پڑھاتا رہا۔ اس کی تھیوری مغربی ممالک میں کام نہ آ سکی۔ کیونکہ جمہوریت لوگوں کی رگوں میں بس گئی تھی ۔ وہ ہماری طرح آئینی جمہوریت نہیں بلکہ سوشل ڈیموکریسی ہو گئی ہے لہٰذا وہ عمل جب جمہوری نظام لوگوں کی عادت بن جائے وہ جمہوریت بہت حد تک Social Security بھی تو دیتی ہے۔ مارکیٹ اکانومی اگر بے رحم ہے جس کی وجہ سے جاب سیکیورٹی نہیں دی جا سکتی تو بے روزگار کو جینے کے لیے اچھا خاصا الاؤنس دیا جاتا ہے۔ جو تعلیم یہاں کے مہنگے اسکول بچوں کو دیتے ہیں وہ تعلیم تو وہاں ہر ایک کو مفت ملتی ہے۔
آغا خان اسپتال جیسے اسپتال سب کے لیے ہیں، عدالتیں وہاں اتنی دیر سے فیصلے نہیں سنایا کرتیں۔ ہندوستان کے آئینی ماہر ڈاکٹر باسو کہتے ہیں آئینی جمہوریت، سوشل جمہوریت کے ارتقا میں بنتی ہے ایک دن اچانک آئین کے آنے سے نہیں بن جایا کرتی ۔ ہندوستان کی جمہوریت اب بھی وہ منزل نہیں پا سکی۔ 1973ء میں اندرا نے وہاں ایمرجنسی نافذ کر دی، کورٹ میدان میں آ گئی اور ''کپشوندا'' کیس میں آئین کے بنیادی ڈھانچے کو اس طرح واضح کیا جس طرح جان مارشل نے Marbury vs Medison کیس 1818ء میں کیا تھا۔ اب تک صحیح معنوں می ہمارا عدالتی نظام آئین کے بنیادی ڈھانچے کی تشریح نہیں کر پایا ۔ اب بھی آئین کے اندر ایسی متصادم چیزیں موجود ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ ہمارا آئین سائنس کے فطری پہلوؤں کی نفی کرتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مذاکراتی عمل میں اب طالبان نے یہ شرط رکھ دی ہے کہ وہ آئین پر مکمل عمل چاہتے ہیں۔ غرض یہ کہ اگر شریف الدین پیرزادہ اور مشرف کے وکلا اپنے موکل کا دفاع کرتے ہوئے وہ یہ لکیر بھی پار کر لیتے ہیں جو بحیثیت وکیل ان کا فرض بنتا ہے، وہ کہتے ہیں 1973ء کا آئین، مکمل آئین ہی نہیں تو پھر آئین کو مشرف نے کیسے توڑا۔ پہلے طالبان کہتے تھے یہ آئین غیر شرعی ہے۔ اب کہتے ہیں شرعی ہے مگر اس پر عمل نہیں ہو رہا۔میاں صاحب اس بات پر خوش کہ عمران خان کو اپنا ترجمان بنا کر جو اس کے سیاسی کیریئر کو نقصان پہنچایا، اس سے اب وہ پنجاب میں بھی ان کے لیے چیلنج نہیں رہے۔ وہ اس بات پر بھی خوش ہیں کہ طالبان نے اپنے موقف میں تبدیلی لا کے جب یہ کہا کہ طالبان آئین کی بات کرتے ہیں، تو اب ان کے خلاف آواز اٹھانیوالوں کے دلائل کمزور پڑ جائیں گے کہ حکومت کے پاس یہ مینڈیٹ ہی نہیں کہ آئین کے خلاف لوگوں سے مذاکرات کر سکے۔
آج یہ نوبت نہ آتی اگر کورٹ جنرل ضیا الحق کی کی ہوئی ترامیم کو آئین سے باہر نکال دیتی اور سائنسی اعتبار سے بنیادی ڈھانچے کی تشریح کرتی اور یہ کہتی کہ جو چیز آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہو اس کو تو آئین میں ترمیم کر کے بھی آرٹیکل 238 کے ذریعے آئین کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ مگر یہ ہو نہ سکا، وہ کیوں ہو نہ سکا اتنا سچ بولنے کی تو مجھ میں بھی جرأت نہیں۔ جب جنرل مشرف کے 12 اکتوبر کے اقدام کو آرٹیکل 270AA کے بعد ایمیونٹی حاصل نہیں تو پھر ضیا الحق کی ترمیم کو کیوں؟ اس لیے آج جمہوریت کو ضیا الحق کے نظریے کی تکمیل کا حصہ بنانا آئین کو ضیا الحق کے نظریہ تکمیل کے لیے استعمال کرنا اور دوسری طرف جنرل مشرف کا ٹرائل سمجھ سے بالا تر ہے۔