ریڈیو کے عالمی دن پر

ہمارے ملک میں تعلیمی اداروں کو غیرتجارتی بنیاد اور محدود فریکوئنسی پر لائسنس کا اجراء کیا جاتا ہے۔۔۔

sana_ghori@live.com

HONG KONG:
مختلف اقسام کے ذرایع ابلاغ وقت اور حالات بدلنے کے ساتھ اکیسویں صدی میں سامنے آتے جا رہے ہیں اور اس شعبے میں مزید ترقی کے روشن اور قوی امکانات موجود ہیں، لیکن ابلاغ کا کوئی بھی ذریعہ چاہے کتنا پُرانا ہو گیا ہو اس کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہی کچھ ریڈیو کا بھی احوال ہے۔ میرے پاس آج ابلاغ کی جدید ترین سہولیات موجود ہیں، اس کے باوجود میں ریڈیو سنتی ہوں۔ میرے اس شوق ہی نے مجھے ایک انٹرنیٹ ریڈیو چینل سے وابستہ کر دیا اور پھر اس شعبے کے راز میرے سامنے کُھلتے چلے گئے۔

پاکستان میں جب لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایک بار پھر ریڈیو کی طرف مائل ہوئی تو لائسنس ایشو کرنے والے اداروں کو بھی اس کی فیس بڑھانے کا خیال آیا۔ یوں وہ لائسنس جو بنا کسی قابلیت کے چند لاکھ روپے میں دست یاب تھے، ان کی مالیت کروڑوں تک جا پہنچی۔ اصول یہ مرتب کیے گئے کہ ''میٹرو سٹی'' یعنی وہ شہر جس کی آبادی ایک ملین سے زیادہ ہو، وہاں لائسنس کی بولی لگ بھگ پچاس لاکھ سے ، جب کہ ایک ملین سے کم آبادی والے شہر جو ''جنرل'' کے زمرے میں آتے ہیں، وہاں یہ شروعات ایک لاکھ روپے سے ہو گی۔

کہا جاتا ہے کہ ریڈیو ابلاغ کا سستا ترین اور آسان ذریعہ ہے۔ ایک تو ٹیلی ویژن کے مقابلے میں ریڈیو چینل قائم کرنے پر بہت کم رقم خرچ ہوتی ہے۔ دوسرے اس کی رسائی زیادہ سے زیادہ لوگوں تک ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ایک اور پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ ایک شخص انفرادی طور پر بنا کسی خرچ کے ریڈیو کی نشریات سن سکتا ہے۔ یعنی ایک ایسا میڈیم جسے ہم سامعین کے لیے مکمل طور پر مفت کہہ سکتے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس کی لائسنس فیس اتنی زیادہ کیوں ہے۔

المیہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر ریڈیو نشریات جو پہلے ''اینالوگ'' تھیں اب جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ڈیجیٹل کر دی گئیں، جس کی بدولت آواز کا معیار بہتر ہوا۔ پاکستان میں لائسنس فیس تو آسمان تک پہنچا دی گئی لیکن نشریات کا معیار بہتر بنانے کے لیے ہم جدید ٹیکنالوجی اب تک نا اپنا سکے۔ ہمارے یہاں نشریات اب بھی ـاینالوگ ہے، ساتھ ہی ''کونیٹینٹ منیجمینٹ'' پر بھی خاطر خواہ توجہ نا دی گئی۔ لائسنس فیس اب اتنی زیادہ ہے کہ اس شعبے کی قابلیت رکھنے والے پروفیشنلز میدان سے باہر ہو گئے اور اناڑی کھیل کھیلتے نظر آتے ہیں۔


یہ وہی ریڈیو ہے جو عشروں تک ہماری ذہنی تربیت کرتا رہا ہے۔ یہ وہی ریڈیو ہے جس نے بڑے بڑے فن کار پیدا کیے۔ یہ وہی ریڈیو ہے جو زیڈاے بخاری کی قیادت میں ایک اعلیٰ درجے کا ادارہ بن کر ابھرا۔ مگر ایف ایم چینلوں کی فصل اگنے کے بعد اس ذریعۂ ابلاغ پر اشتہارات کی بھر مار ہو گئی۔ ریڈیو پروگرام کے لیے حکومتی اور نجی سطح پر تربیت کا کوئی ادارہ نا تو قائم کیا گیا اور نا ہی اس سلسلے میں کوئی منصوبہ بندی کی گئی۔ جب پیسہ ہی سب کچھ ٹھہرا تو ریڈیو کی دنیا میں پروفیشلنز پیچھے رہ گئے اور سیلز، مارکیٹنگ کے لوگ آگے آ گئے۔ کیسا اور کس معیار کا پروگرام چل رہا ہے؟ اس پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ ٹی وی چینلز کے کسی نازیبا پروگرام پر ایکشن لے بھی لیا جاتا ہے، مگر ریڈیو کی طرف کوئی دھیان ہی نہیں دیتا۔ اس وقت پورے پاکستان میں 150کے قریب ایف ایم چینل قائم ہیں۔ صرف کراچی میں 13ریڈیو چینل کام کر رہے ہیں۔ تاہم ان میں سے کوئی چینل دوسرے سے مختلف نہیں۔ ایک بھیڑ چال ہے اور سب اسی میں مگن۔ کوئی سا بھی چینل لگا لیجیے، ایک طرح کے مکالمے، ایک جیسے پروگرام آپ کی سماعتوں سے ٹکرائیں گے۔ کسی قسم کی کوئی اسکرپٹنگ نہیں۔ رات کے شوز میں بے ہودگی عروج پر ہے۔ اس بہتی گنگا میں سب ہاتھ دھو رہے ہیں، کہ جہاں مقصد کمرشل ازم ہی قرار پایا وہاں اخلاقی اور ثقافتی اقدار کی کیا حیثیت۔ مستقبل کی پرواہ سے بے نیاز ہو کر ہم رفتہ رفتہ اپنی روایات کو دفن کر رہے ہیں۔ لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ وہ کیسی نسل ہو گی جو ہمارے بعد آ رہی ہے اسے ہم کیا دے رہے ہیں۔

فقط لائسنس فیس کم کر کے، اداروں کی اجارہ داری ختم کر کے اور باقاعدہ ضابطۂ اخلاق بنا کر اور اس پر سختی سے عمل پیرا ہوتے ہوئے اس صنعت کو پورے ملک میں مزید فعال کیا جا سکتا ہے۔ اب بھی اس میں بہت کھپت کی گنجائش ہے۔ حکومت کے لیے آمدنی کے ذرایع کھلے ہیں۔ فقط نظر ثانی کی ضرورت ہے۔اصول بنائے بھی جاتے ہیں تو اس طرح کے کہ ریڈیو پاکستان کے علاوہ کوئی چینل کرنٹ افیئرز اور نیوز کے پروگرام نہیں چلا سکتا۔ فقط نیوز بلیٹن دینے کی اجازت ہے، اس اصول کا کوئی منطقی جواز موجود نہیں۔ ریڈیو کی ایک اور نوع جس نے گزشتہ سالوں میں اپنا مقام بنایا ہے انٹرنیٹ ریڈیو ہے۔ انٹرنیٹ ریڈیو ساری دنیا میں اداروں اور انفرادی سطح پر چلائے جا رہے ہیں۔ انٹرنیٹ ریڈیو شروع کرنے کے لیے ''اسٹیمنگ'' اور ''سرور'' ورلڈ وائڈ ویب سے نہایت کم نرخوں پر خریدا جا سکتا ہے اور پھر سالانہ فیس ادا کرنا ہوتی ہے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ ریڈیو کا حال بھی یوٹیوب کی طرح ہے۔ یعنی جس طرح بہ ظاہر بند ہونے والی یوٹیوب تک بہ آسانی رسائی حاصل کی جا سکتی ہے، اسی طرح انٹرنیٹ ریڈیو کسی لائسنس اور اجازت کے بغیر ہمارے یہاں دست یاب ہیں۔ لیکن چوںکہ انٹرنیٹ کی سہولت پاکستان میں نسبتاً کم لوگوں کو میسر ہے، لہٰذا انٹرنیٹ ریڈیو کے سامعین بھی محدود ہیں۔

اس طرز پر کام کرنے والے ریڈیوچینلز کا معاہدہ عالمی سطح پر انٹرنیٹ کی سب سے بڑی کمپنی سے ہے، لہٰذا حکومت اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتی۔ البتہ اگر ایسے کسی چینل سے ہمارے ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہو یا اس کی نشریات ہماری اخلاقی اقدار سے متصادم ہوں تو انٹرنیٹ پروٹوکول سے اس جگہ کی نشان دہی ہو سکتی ہے جہاں سے یہ چینل چلایا جا رہا ہے اور اس کے خلاف ایکشن لیا جا سکتا ہے۔

ایسے قابل ذہین اور ریڈیو کے سچے خیر خوا جنھیں اپنی روایات سے پیار ہے، پاکستان سے پیار ہے، لیکن لائسنس فیس زیادہ ہونے کے باعث ایسے سچے لوگ پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہمارے ملک میں تعلیمی اداروں کو غیرتجارتی بنیاد اور محدود فریکوئنسی پر لائسنس کا اجراء کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ تو سوچا جائے کہ اس قسم کا لائسنس جاری کر بھی دیا جائے تو اشتہار کے بغیر کوئی ادارہ کیسے چلایا جا سکتا ہے۔پوری دنیا میں ''شارٹ ٹرم لائسنسز'' جاری کیے جاتے ہیں۔ چند ماہ ریڈیو چینل کی کارکردگی کو دیکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد باقاعدہ لائسنس کا اجراء کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں تو یہ اصول ہے کہ اگر کوئی پیسے کے بل پر کسی میٹرو سٹی کا لائسنس لے لیتا ہے تو چھوٹے شہروں کے لیے لائسنس لینا اس کے لیے مشکل نہیں رہتا۔ مدعا فقط یہ ہے کہ جو پیشہ ورانہ مہارت کی بنا پر لائسنس کا صحیح حق دار ہے وہ کہاں جائے؟آج 13 فروری کو عالمی سطح پر ''ریڈیو کا دن'' منایا جا رہا ہے۔ یہ دن اس تصور کی بنیاد پر منایا جاتا ہے کہ ریڈیو وہ ذریعۂ ابلاغ ہے جو فرد کے اندر شعور پیدا کرنے کے ساتھ عالمی سطح پر قوموں کے درمیان رابطے کا وسیلہ ہے اور ایک ایسا ذریعہ ہے جو بیک وقت زیادہ سے زیادہ لوگوں تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ آواز کی اس دنیا میں ہوا میں رقصاں الفاظ ہماری سماعتوں سے ٹکراتے ہیں اور جاوداں ہو جاتے، دائمی اثر چھوڑ جاتے ہیں۔ اتنا اہم میڈیم، جس کی آواز گھر گھر گونجتی ہے، ہمارے یہاں بری طرح نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ میں حکومت اور پاکستان میں کام کرنیوالے تمام ریڈیو چینل مالکان سے ریڈیو انڈسٹری کے حوالے سے قوانین مرتب کرنے اور مرتب شدہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد کی درخواست کرتی ہوں۔
Load Next Story