چراغ کی ہیئت الگ روشنی ایک
سوچتا ہوں انسان، چرند پرند سب کا خالق ایک، کائنات اُس کی صفات کا مظہرمگر اسکے جہان میں اتنی تفریق، اتنا اختلاف؟
وہ بنارس کا تھا۔ بنارس، ہندوستان کا مقدس ترین مقام۔ جیون سارا وہیں بیتا۔ عام عقیدہ تھا کہ جو بنارس میں آخری سانس لے، اُس کی مُکتی (نجات) یقینی ہے۔ مگر اوروں کے برعکس مرتے سمے اس نے عجیب فیصلہ کیا۔ بنارس تج دیا۔ ایک ایسے شہر کی سمت چل پڑا، جہاں مرنے والے کی بابت عقیدہ تھا کہ اگلے جنم میں وہ جانور کی صورت پیدا ہو گا۔
تو اُس نے مگہر (ضلع گورکھپور) کا رخ کیا۔ اور وہیں آخری سانس لیا۔
یہ پندرہویں صدی کا قصّہ ہے۔ پندرہویں صدی، جو کبیر کی صدی ہے۔ بھگت کبیر، جو کہا کرتا تھا: ''جسم مٹی کا مندر، اُس میں گیان دھیان کا چراغ جلتا ہے، سانس کا اُجالا ہے، سارا جگ دکھائی دیتا ہے۔''
عجیب شخص تھا وہ۔ محبت سے سرشار ایک دیوانہ۔ ایک مصلح۔ ذات پات کا مخالف۔ برابری کا قائل۔ شہروں کے مانند انسانوں میں بھی تفریق کے خلاف، جب ہی تو اُس نے بنارس کو خیرباد کہہ دیا۔
کبیر کو گزرے صدیاں بیت گئیں، مگر اُس کے گیتوں کی بازگشت آج بھی فضاؤں میں گردش کرتی ہے۔ ایک پیغام اردگرد ہے، جسے سمجھنے کی ہمیں اشد ضرورت ہے کہ جس مرض کا وہ معالج تھا، ہم آج اُسی میں مبتلا ہیں۔ مرض جو ہمیں چاٹ رہا، ہمیں بانٹ رہا ہے۔بچپن میں سُنا کرتے تھے؛ ذات پات، اونچ نیچ فقط ہندوؤں میں ہے۔ اسکول میں پڑھا کہ ہندو بڑے پاجی تھے۔ متکبر و متعصب۔ جب ہی تو ہم نے اپنا دیس الگ کر لیا۔ ان ہی خیالات کی انگلی تھامے شعور کی دہلیز عبور کی۔ اور جب حقیقت کی دنیا میں قدم رکھا، تو حیرت منتظر تھی کہ چاروں طرف دیواریں تھیں۔ تفریق کے گارے سے بنی غلیظ دیواریں۔ اندازہ ہوا کہ الگ ملک تو بنا لیا، مگر ہم اونچ نیچ کے مرض سے نجات حاصل نہیں کر سکے۔ ذات برادری، تفریق اور تعصب کی عینک اتارنا بھول گئے۔ اور اب یہ عینک ہمارے وجود کا جزو بن گئی ہے۔
عجیب نرگسیت ہے۔ کوئی احساس تفاخر کے ساتھ خود کو سورماؤں کا خون قرار دیتا ہے۔ اور کوئی رعونت سے اپنی نسل کو داناؤں کا نور ٹھہراتا ہے۔ کوئی بادشاہوں کی اولاد ہے، کوئی ولیوں کا وارث۔ الغرض ہر ایک افضل النسل ہونے کا دعوے دار۔ اپنی نسل، اپنے خاندان پر فخر دل بہلا لینے کی حد تک تو ٹھیک ہے کہ یہ تفاخر خالصتاً انفرادی معاملہ ہے۔ نقصان کے آپ خود ذمے دار ہیں، مگر صورت حال اُس وقت گمبھیر ہو جاتی ہے، جب آپ نرگسیت کی انگلی تھامے اس بنجر زمین پر پہنچ جائیں، جہاں آپ اوروں کو حقیر جاننے لگیں۔ اپنے خون کو افضل قرار دیں، دوسرے کے خون کو کم تر۔ برادری اور سماجی حیثیت کی بنیاد پر اپنے جیسے انسانوں کو رد اور قبول کرنے لگیں۔صاحبو، خون تو سب کا ایک سا ہے۔ ایک سا رنگ، ایک سی بُو۔ جسم سے جدا ہونے کے بعد خاموشی سے جم جاتا ہے۔ہم بدبخت وہ عالم گیر پیغام بھلا بیٹھے، جو عہد قدیم کی رسموں کو رد کرتا تھا۔ عربی کی عجمی اور عجمی کی عربی پر فضیلت سے انکار کرتا تھا۔ہم کتنے بدبخت ہیں کہ بھول گئے، ہماری رنگت ہمارے افضل ہونے کی علامت نہیں۔ نہ ہی سماجی رتبہ تکبر کا جواز فراہم کرتا ہے۔ خود کو برتر، اوروں کو کم تر جاننے کا رویہ معاشرے میں سرایت کر چکا ہے۔ اپنی نسل پر، تکبر کو چھوتے فخر کے مرض سے اگر آپ بچ بھی گئے، تو طبقاتی تفریق کی بیماری حملہ کر دے گی۔ ایک سے ایک گل کھلائے گی۔ عقیدہ کوئی بھی ہو، دولت مند، غریب کو خود سے کم تر ہی جانتا ہے۔ آپ کی تعلیم، اخلاص، تہذیب کام نہیں آئیں گے، اگر آپ بد حال ہوں۔ کرایے دار ہیں، تو مالک آپ کو کم تر خیال کرے گا۔ غریب گھرانے سے تعلق بھی آپ کی خامیوں میں سے ایک بڑی خامی گردانی جائے گی۔ اگر آپ کے پاس گاڑی نہیں، تو آپ ایک عدد ''بے چارے'' ہیں۔ سرکاری اسپتال میں زیر علاج ہیں، تو بہتر ہے، خاموشی سے مر جائیں۔ ضرور آپ نے بے حد گناہ کیے ہیں، جب ہی تو اِس مقام پر پہنچے۔
پیشوں کی تقسیم بھی کیا غضب ڈھاتی ہے۔ تیلی، دھوبی، نائی، لوہار، جلاہا؛ سب معاشرے کے رد کردہ۔ دھتکارے ہوئے۔ کبیر بھی تو جلاہا تھا۔ رد کردہ انسانوں میں سے ایک۔
علامہ اقبالؔ کی خواہش تھی: ''ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے!''
یہ نیک آرزو پوری ہوتی دِکھائی نہیں دیتی کہ ہم خود کو ایک تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ شجرہ نسب، سماجی رتبے، لسانی فرق اور فرقہ ورانہ تفریق کی دیواریں ہمارے درمیان ہیں۔ اور ہم پر قہقہے لگاتی ہیں۔ ہم بھی جواباً خوش دلی سے مسکرا دیتے ہیں۔
سوچتا ہوں؛ انسان، پہاڑ، دریا، آسمان، چرند پرند سب کا خالق ایک۔ کائنات اُس کی صفات کا مظہر۔ مگر اس کے جہان میں اتنی تفریق، اتنا اختلاف؟
''میری ہی راہ دُرست ہے، میری ہی فکر حقیقی، میری ہی نسل افضل، میری ہی روح لافانی۔ میرا عقیدہ اٹل۔''
یہی وہ سوچ ہے، کبیر نے جس کے خلاف آواز بلند کی۔ جدوجہد کی۔ اُس اجلی محبت کا پیغام عام کیا، جو ہر قسم کی تفریق اور اونچ نیچ کے جھگڑے سے پاک ہے۔
کچھ محققین کبیر کو ایسے مسلم دُرویش کے روپ میں دیکھتے ہیں، جس نے ہندو بھگتی کی زبان میں کلام کیا۔ دونوں ہی مذہب کے پیروکاروں کے لیے وہ قابل احترام ٹھہرا۔
روایت ہے، کبیر کی موت کے بعد مسلمانوں نے قبر کا انتظام کیا، ہندوؤں نے چتا تیار کی۔ صورت حال اتنی کشیدہ ہو گئی کہ دونوں گروہوں نے تلواریں سونت لیں۔ قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ لاش پھولوں کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئی۔ آدھے مسلمانوں نے دفنائے۔ آدھے شعلوں میں اُتر گئے۔ مگہر میں املی کے پیڑ تلے آج کبیر کا مزار ہے۔ اور بنارس میں ایک مٹھ، جو اُس سے موسوم ہے۔ جب کبیر سے پوچھا جاتا کہ اُس کی ذات کیا ہے، تو وہ روشن مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے جواب دیتا۔ ''نادانو، سنتوں کی ذات کیا پوچھتے ہو!''
وہ یقین رکھتا تھا کہ تمام برتن ایک ہی مٹی سے بنے ہیں۔ جیسے رومی نے چراغ کی تمثیل برتی: ''اگر ایک مکان میں دس چراغ رکھے جائیں، تو اُن کی ہیئت ضرور الگ ہوگی، مگر اُن کی روشنی ایک سی ہو گی۔''
برادریوں، فرقوں، گروہوں میں بٹے اِس معاشرے میں آج بھی کبیر کے گیتوں کی بازگشت ہے۔ گیت، جن کی ہمیں ضرورت ہے۔ کبیر کے لافانی گیتوں کو سردار جعفری نے بڑے ڈھب سے کتاب ''کبیر بانی'' کے لیے اردو روپ دیا، جسے کراچی سے اجمل کمال نے شایع کیا۔ اِسی قابل مطالعہ کتاب سے ایک گیت:
''اے کریم، تیری حکمت پر قربان جاؤں
خاک ایک، لیکن صورتیں ہزار
تو نے وسط آسمان میں پانی کو قائم کیا
اور طرح طرح کے نور پھیلائے
اولیا، پیر، مولوی سب تیری صفات بیان کرتے دیوانے ہو گئے
کبیر کہتا ہے کہ ہمیں تو بس یہ نکتہ سُوجھا
کہ یارب ہمارا یار ہے''