سندھ کے نئے بلدیاتی ایکٹ کے خلاف قانون اور عدلیہ کا سہارا لیں گے اسد عمر
خودمختار بلدیاتی نظام پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے ضروری ہے، وفاقی وزیر منصوبہ بندی
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے جنر ل سیکریٹری و وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ خودمختار بلدیاتی نظام پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے ضروری ہے، ہم سندھ کے نئے بلدیاتی ایکٹ کے خلاف قانون اور عدلیہ کا سہارا لیں گے۔
انصاف ہاؤس میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور ارکان اسمبلی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو زیادہ اختیار دیا گیا، ضروری ہے کہ سارا پاکستان اسلام آباد سے نہ چلایا جائے۔
مزیدپڑھیں: کورونا کی نئی لہر کے آغاز کے واضح ثبوت سامنے آنے لگے ہیں، اسد عمر
انہوں نے کہا کہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی نہ ہوئے تو کہیں نہ کہیں بے چینی رہے گی، پاکستان کی سالمیت اور جمہوریت کے استحکام کے لیے آئین کے مطابق بااختیار بلدیاتی نظام ضروری ہے۔
وفاقی وزیر نے عندیہ دیا کہ نئے قانون کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کریں گے پٹیشن تیار کررہے ہیں، ہم سندھ کے نئے بلدیاتی ایکٹ کے خلاف قانون اور عدلیہ کا سہارا لیں گے اور سندھ کے عوام کے حق کے لیے پر ممکن اقدامات کریں گے۔
'کون سا قانون سندھ کو ویکسین خریدنے سے روکتا ہے؟'
علاوہ ازیں اسد عمر نے پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں آٹا پنجاب سے 300 سے 350 روپے فی 20 کلو مہنگا ہے، نیب کی تحقیقات کے مطابق 20 ارب روپے کی گندم چوری ہوئی، نہیں معلوم یہ کون سے چوہے تھے جنہوں نے گندم کھالی، ہم اس جواب کے منتظر ہیں کہ وہ چوہے کون تھے۔
انہوں نے کہا کہ کورونا کے معاملے کوسیاست نہیں لانا چاہتا، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہمشیرہ نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ صوبہ کو ویکسین خریدنے کی بندش ہے۔
اسد عمر نے کہا کہ کون سا قانون سندھ کو ویکسین خریدنے سے روکتا ہے؟ ایسا کون سا قانون ہے جس کے بارے میں قانونی ماہرین کو بھی نہیں معلوم، اگر ایسا کوئی قانون ہے تو اسے ختم کرادیں گے۔
'اومی کرون کی پانچویں لہر شروع ہونے جارہی ہے'
اسد عمر نے کہا کہ واضح نشانات ہیں کہ اومی کرون کی پانچویں لہر شروع ہونے جارہی ہے، تمام شہری ماسک پہنیں اور سختی سے ایس او پی پر عملدرآمد کرے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی کہا کہ 30 سال سے پاکستان آئی ایم ایف پروگرام پر چل رہا ہے، وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف سے طویل مذاکرات کیے، 262 ارب روپے کے ٹیکسوں ریفنڈ ہوں گے یا پھر ایڈجسٹ ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ 71 ارب روپے کے براہ راست ٹیکس میں کوشش ہے کہ عوام کی روز مرہ استعمال کی چیزوں پر نہ ہوں۔
انصاف ہاؤس میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور ارکان اسمبلی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو زیادہ اختیار دیا گیا، ضروری ہے کہ سارا پاکستان اسلام آباد سے نہ چلایا جائے۔
مزیدپڑھیں: کورونا کی نئی لہر کے آغاز کے واضح ثبوت سامنے آنے لگے ہیں، اسد عمر
انہوں نے کہا کہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی نہ ہوئے تو کہیں نہ کہیں بے چینی رہے گی، پاکستان کی سالمیت اور جمہوریت کے استحکام کے لیے آئین کے مطابق بااختیار بلدیاتی نظام ضروری ہے۔
وفاقی وزیر نے عندیہ دیا کہ نئے قانون کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کریں گے پٹیشن تیار کررہے ہیں، ہم سندھ کے نئے بلدیاتی ایکٹ کے خلاف قانون اور عدلیہ کا سہارا لیں گے اور سندھ کے عوام کے حق کے لیے پر ممکن اقدامات کریں گے۔
'کون سا قانون سندھ کو ویکسین خریدنے سے روکتا ہے؟'
علاوہ ازیں اسد عمر نے پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں آٹا پنجاب سے 300 سے 350 روپے فی 20 کلو مہنگا ہے، نیب کی تحقیقات کے مطابق 20 ارب روپے کی گندم چوری ہوئی، نہیں معلوم یہ کون سے چوہے تھے جنہوں نے گندم کھالی، ہم اس جواب کے منتظر ہیں کہ وہ چوہے کون تھے۔
انہوں نے کہا کہ کورونا کے معاملے کوسیاست نہیں لانا چاہتا، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہمشیرہ نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ صوبہ کو ویکسین خریدنے کی بندش ہے۔
اسد عمر نے کہا کہ کون سا قانون سندھ کو ویکسین خریدنے سے روکتا ہے؟ ایسا کون سا قانون ہے جس کے بارے میں قانونی ماہرین کو بھی نہیں معلوم، اگر ایسا کوئی قانون ہے تو اسے ختم کرادیں گے۔
'اومی کرون کی پانچویں لہر شروع ہونے جارہی ہے'
اسد عمر نے کہا کہ واضح نشانات ہیں کہ اومی کرون کی پانچویں لہر شروع ہونے جارہی ہے، تمام شہری ماسک پہنیں اور سختی سے ایس او پی پر عملدرآمد کرے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی کہا کہ 30 سال سے پاکستان آئی ایم ایف پروگرام پر چل رہا ہے، وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف سے طویل مذاکرات کیے، 262 ارب روپے کے ٹیکسوں ریفنڈ ہوں گے یا پھر ایڈجسٹ ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ 71 ارب روپے کے براہ راست ٹیکس میں کوشش ہے کہ عوام کی روز مرہ استعمال کی چیزوں پر نہ ہوں۔