بلاول بھٹو زرداری کی سیاست کا امتحان
پیپلز پارٹی کی قیادت میں ایک سیاسی زعم پایا جاتا ہے کہ وہ کوئی غیر مقبول نہیں ہوئی۔۔۔
سیاسی جماعتوں میں فکری اور انتظامی بحرانوں کا پیدا ہونا فطری امر ہوتا ہے۔ لیکن یہ سیاسی قیادت ہی کا کمال ہوتا ہے کہ وہ نامساعد حالات یا بحرانوں میں بھی اپنے لیے محفوظ راستہ کی تلاش کا عمل جاری رکھتی ہیں، کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کر سکیں تو پھر ان کی قیادت کی اہمیت بے معنی ہو جاتی ہے ۔ سیاسی قیادتوں سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کا ادارک کر کے مستقبل کی سیاست میں اپنا رنگ بھرتی ہیں۔ لیکن ہماری سیاست میں اپنی سیاسی ناکامیوں کو تسلیم کرنے کا رجحان کافی کمزور ہے۔ بیشتر سیاسی جماعتیں اپنی داخلی کمزوریوں کو خارجی مسائل کے ساتھ جوڑ کر اپنا دامن بچانے کی کوشیش کرتی ہیں ، جو کارگر نہیں ہوتا۔
پاکستان پیپلز پارٹی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے، اس کی سیاسی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ لیکن پارٹی اپنے تنظیمی اور سیاسی مسائل میں الجھی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ اپنے اندر موجود مسائل کی قبولیت سے انکاری کا بھی ہے۔ عملًا پیپلز پارٹی کو اپنی اصل سیاست کی بحالی کے لیے کچھ نیا کر کے دکھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ جس انداز میں پارٹی معاملات کو چلایا جا رہا ہے اس کا ردعمل پارٹی کے اصل نظریاتی کارکنو ں میں بھی نظر آتا ہے۔ پارٹی کے نظریاتی اور پرانے ساتھیوں میں ایک بڑی امید بلاول بھٹو زرداری بھی ہیں۔ ان کے بارے میں یہ رائے موجود ہے کہ وہ ایک نئی طرز کی سیاست سے پارٹی کے نظریاتی تشخص کو بحال کرنے کے خواہش مند ہیں۔ یہ رائے اس لیے بھی قائم ہوئی ہے کہ بلاول بھٹو روائتی سیاست سے نکل کر کچھ انقلابی طرز کی سیاست کرنے کی کوششوں میں مگن نظر آتے ہیں۔ کچھ لوگ ان میں ایک نیا بھٹو دیکھتے ہیں اور ان کے بقول ان کی سیاست آصف علی زرداری کی سیاست سے مختلف ہو گی ۔
لیکن کیا ایسا ممکن ہو سکے گا کہ بلاول بھٹو آصف زرداری کی سیاست سے مختلف انداز اختیار کر سکیں گے، مشکل نظر آتا ہے۔ ایک واضح وجہ تو یہ ہی ہے کہ ابھی بھی پارٹی کی کمانڈ آصف علی زرداری ہی کے ہاتھوں میں ہے۔ اس لیے بلاول بھٹو کے لیے مشکل ہو گا کہ وہ فوری طور پر آصف علی زرداری کی سیاسی حکمت عملیوں اور ان کی سیاسی چھتری سے باہر نکل سکیں گے۔ اس کا احساس خود بلاول بھٹو کو بھی ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ وہ فوری طور پر کوئی بڑا فعال کردار ادا کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ وہ اس وقت پارٹی کی عملی سیاست میں کم ا ور ٹوئٹر کی سیاست پر زیادہ بالا دست نظر آتے ہیں۔ بلاول بھٹو کے ٹوئٹر پر بیانات یا سندھ کی سیاست میں کی جانے والی تقریروں اور آج کی پیپلز پارٹی او راس کی پارلیمانی پارٹی کی سیاست اور پالیسیوں میں ایک واضح تضاد نظر آتا ہے۔
بلاول بھٹو اس وقت وہ ٹوئٹر پر طالبان سے مذاکرات کی بجائے فوجی آپریشن کی حمایت کرتے ہوئے پر جوش نظر آتے ہیں۔ وہ حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہیں کہ وہ طالبان سے مذاکرات کیوں کر رہی ہے۔ لیکن بلاول بھٹو کو یہ بات تو اپنی ہی پارٹی کی بڑی قیادت سے پوچھنی چاہیے کہ انھوں نے اے پی سی میں کیونکر مذاکرات کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ ابھی بھی جب مذاکراتی عمل شروع ہوا تو پیپلز پارٹی کے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بھی حکومتی کمیٹی کی تشکیل اور مذاکراتی عمل کی حمایت کی۔ اس لیے جو موقف بلاول بھٹو نے فوجی آپریشن کا لیا ہے اس پر انھیں پہلے اپنی ہی پارٹی سے مشورہ کرنا چاہیے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی نے اپنے دور اقتدار میں اس دہشت گردی کے خلاف جنگ کے خاتمہ میں کیا کردار کیا اس پر بھی بلاول بھٹو کو اپنی رائے ضرور دینی چاہیے۔
بلاول بھٹو زرداری کو سب سے زیادہ فکر پارٹی کے اصل تشخص کی بحالی پر مرکوز کرنی چاہیے۔ کیونکہ پارٹی عملی طور پر اس وقت اپنی فعالیت اور سیاسی ساکھ کی بحالی کے لیے اپنے ہی لوگوں میں سوالیہ نشان کے طور پر کھڑی زمانے میں پیپلز پارٹی شہری مڈل اور لوئر مڈل کلاس سمیت غریب طبقہ میں اہم سمجھی جاتی تھی۔ طلبہ، مزدور، کسان، وکلا، عورتوں، اقلیتوں اور نوجوان میں بھی پیپلز پارٹی کو بہت زیادہ پزیرائی حاصل تھی۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ پارٹی سماج اور نظام کی تبدیلی کی بات شد و مد سے کرتی تھی، لیکن اب اس کی ترجیحات میں تبدیلی اس کے اپنے ووٹر اور کارکن بھی محسوس کرتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اب پیپلز پارٹی کی اصل طاقت کے فریق پارٹی کی موجودہ پالیسیوں سے نالاں نظر آتے ہیں یا وہ پارٹی کی موجودہ قیادت سے فاصلے پر کھڑے ہیں۔ ان ناراض لوگوں کو منانے کے لیے بلاول بھٹو کیا واقعی پارٹی میں انقلابی تبدیلیاں لا سکیں گے، اس کا جواب مبہم نظر آتا ہے۔ پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کا نہ ہونا، اہم عہدوں پر نظریاتی لوگوں کو نظر انداز کر کے غیر سیاسی لوگوں کی تقرریاں، سابقہ حکومت میں شامل کرپٹ لوگوں کی پشت پناہی، نئے لوگوں کی پارٹی میں عدم شمولیت جیسے اہم مسائل پر بلاول بھٹو کو ضرور غور کرنا چاہیے۔
لیکن اگر بلاول بھٹو واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو انھیں عام لوگوں کے مسائل اور ان کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑنا ہوگا ، لیکن یہ اچھی نظریاتی اور سیاسی کمٹیڈ ٹیم کے بغیر ممکن نہیں ہو گا۔ اس کے لیے پارٹی کو اپنے اندر ایک بڑے آپریشن کی مدد سے ایسے لوگوں کو سامنے لانا ہو گا جو پارٹی کا اصل چہرہ ہیں۔ کیونکہ پارٹی کے اصل جیالے ان لوگوں کو کبھی قبول نہیں کرتے جو محض اقتدار کی سیاست کے لیے پارٹی کا حصہ بنتے ہیں اور مشکل وقت میں کسی اور کی سیاست کا حصہ ہوتے ہیں ۔
پیپلز پارٹی کی قیادت میں ایک سیاسی زعم پایا جاتا ہے کہ وہ کوئی غیر مقبول نہیں ہوئی۔ وہ اس سوچ کو پارٹی کے سیاسی مخالفین اور اسٹیبلشمنٹ کی بڑی سازش سے جوڑتے ہیں ۔ یہ مفروضہ مکمل طور پر غلط نہیں۔ کیونکہ ہماری اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتوں کے اندر اس طرز کی توڑ پھوڑ کرتی رہی ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی کو یہ سمجھنا ہو گا کہ ان کا ووٹ بینک اور بالخصوص شہری علاقوں میں تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ نوجوان طبقہ میں بھی ان کی مقبولیت وہ نہیں جو کبھی پارٹی کی اصل طاقت ہوا کرتی تھی۔ اس کے لیے ہم اگر1988ء کے بعد کے انتخابات اور ان کے نتائج یا اعداد و شمار دیکھیں جن میں2013ء، 1990, 1993, 1997, ء 2002, 2008 شامل ہیں تو اس سے صورتحال کو سمجھنے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔ لیکن اگر پارٹی کی قیادت ان حقایق کا ادراک کرنے کے لیے تیار نہیں تو سوائے ماتم کے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
بلاول بھٹو زرداری نوجوان ہیں اور واقعی کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں۔ ان کے خیالات میں جوش بھی ہے، لیکن اگر وہ اس جوش میں کچھ معاملات پر سیاسی حقائق کا ادراک کر کے اپنے سفر کو آگے بڑھائیں تو یہ واقعی پارٹی کی اہم خدمت ہو گی۔ بلاول بھٹو کواپنے نانا، نانی، والدہ اور والد کی سیاست میں سے اسی سیاست کو اپنی سیاست کی بنیاد بنانا ہو گا جو کارکنوں اور ان کے ووٹروں کے درمیان ایک نیا سیاسی ٹانک فراہم کر کے انھیں دوبارہ متحرک اور فعال کردار ادا کرنے میں مجبور کرے۔ وگرنہ آصف علی زرداری کی مفاہمتی، انتظامی اور محض اقتدار کی سیاست انھیں طاقت کے مراکز میں طاقت تو دے سکتی ہے، لیکن پارٹی کا بحران اور اس کی مقبولیت پر سوالیہ نشان موجود رہے گا۔ مفاہمت کی سیاست اہم ہے۔ کیونکہ جو مسائل پاکستان کو درپیش ہیں اس میں سب کو مفاہمت کی سیاست کے ساتھ ہی آگے بڑھنا چاہیے۔ لیکن مفاہمت اگر محض اقتدار کو برقرار رکھنے یا طاقت کے حصول میں تبادلہ کی صورت میں ہو گی تو اس سے پارٹی کی ساکھ متاثر ہو گی۔ مسلم لیگ)ن ( کے ساتھ پیپلز پارٹی کی پس پردہ مفاہمتی سیاسی پینگیں بھی کسی ڈھکی چھپی نہیں، اس عمل نے بھی پیپلز پارٹی اور اس کے ورکروں کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے ۔ پیپلز پارٹی کا سیاسی ورکرز مزاحمت کے لیے تیار ہے ، لیکن قیادت کی حکمت عملی سیاسی کارکن سے مختلف نظر آتی ہے ۔
پیپلز پارٹی کو وفاق کی اہم علامت سمجھا جاتا ہے، لیکن اب پیپلزپارٹی کی قیادت کا اصل مرکز سندھ کی سیاست تک محدود ہو گیا ہے۔ پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں قیادت کا منظر سے غائب ہونا توجہ طلب مسئلہ ہے ۔ جب تک وہ چاروں صوبوں اور بالخصوص پنجاب میں مزاحمتی اور فعال کردار جس میں وہ یہاں نظر بھی آئیں نہیں کریں گے، کامیابی کے امکانات محدود ہونگے۔ اگر ان کا خیال ہے کہ وہ ٹوئٹر پریا دبئی یا لاڑکانہ میں بیٹھ کر پارٹی کو اس کی اصل حالت میں لا سکیں گے ، تو یہ محض خوش فہمی ہو گی۔ بلاول بھٹو عملی طور ایک امتحان گاہ سے گزر رہے ہیں۔ انھیں عملی طور پر اپنے اندر ٹھہراو بھی پیدا کرنا ہو گا اور پارٹی پر اپنی گرفت بھی، جو اس وقت کافی کمزور ہے ۔
پاکستان پیپلز پارٹی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے، اس کی سیاسی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ لیکن پارٹی اپنے تنظیمی اور سیاسی مسائل میں الجھی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ اپنے اندر موجود مسائل کی قبولیت سے انکاری کا بھی ہے۔ عملًا پیپلز پارٹی کو اپنی اصل سیاست کی بحالی کے لیے کچھ نیا کر کے دکھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ جس انداز میں پارٹی معاملات کو چلایا جا رہا ہے اس کا ردعمل پارٹی کے اصل نظریاتی کارکنو ں میں بھی نظر آتا ہے۔ پارٹی کے نظریاتی اور پرانے ساتھیوں میں ایک بڑی امید بلاول بھٹو زرداری بھی ہیں۔ ان کے بارے میں یہ رائے موجود ہے کہ وہ ایک نئی طرز کی سیاست سے پارٹی کے نظریاتی تشخص کو بحال کرنے کے خواہش مند ہیں۔ یہ رائے اس لیے بھی قائم ہوئی ہے کہ بلاول بھٹو روائتی سیاست سے نکل کر کچھ انقلابی طرز کی سیاست کرنے کی کوششوں میں مگن نظر آتے ہیں۔ کچھ لوگ ان میں ایک نیا بھٹو دیکھتے ہیں اور ان کے بقول ان کی سیاست آصف علی زرداری کی سیاست سے مختلف ہو گی ۔
لیکن کیا ایسا ممکن ہو سکے گا کہ بلاول بھٹو آصف زرداری کی سیاست سے مختلف انداز اختیار کر سکیں گے، مشکل نظر آتا ہے۔ ایک واضح وجہ تو یہ ہی ہے کہ ابھی بھی پارٹی کی کمانڈ آصف علی زرداری ہی کے ہاتھوں میں ہے۔ اس لیے بلاول بھٹو کے لیے مشکل ہو گا کہ وہ فوری طور پر آصف علی زرداری کی سیاسی حکمت عملیوں اور ان کی سیاسی چھتری سے باہر نکل سکیں گے۔ اس کا احساس خود بلاول بھٹو کو بھی ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ وہ فوری طور پر کوئی بڑا فعال کردار ادا کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ وہ اس وقت پارٹی کی عملی سیاست میں کم ا ور ٹوئٹر کی سیاست پر زیادہ بالا دست نظر آتے ہیں۔ بلاول بھٹو کے ٹوئٹر پر بیانات یا سندھ کی سیاست میں کی جانے والی تقریروں اور آج کی پیپلز پارٹی او راس کی پارلیمانی پارٹی کی سیاست اور پالیسیوں میں ایک واضح تضاد نظر آتا ہے۔
بلاول بھٹو اس وقت وہ ٹوئٹر پر طالبان سے مذاکرات کی بجائے فوجی آپریشن کی حمایت کرتے ہوئے پر جوش نظر آتے ہیں۔ وہ حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہیں کہ وہ طالبان سے مذاکرات کیوں کر رہی ہے۔ لیکن بلاول بھٹو کو یہ بات تو اپنی ہی پارٹی کی بڑی قیادت سے پوچھنی چاہیے کہ انھوں نے اے پی سی میں کیونکر مذاکرات کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ ابھی بھی جب مذاکراتی عمل شروع ہوا تو پیپلز پارٹی کے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بھی حکومتی کمیٹی کی تشکیل اور مذاکراتی عمل کی حمایت کی۔ اس لیے جو موقف بلاول بھٹو نے فوجی آپریشن کا لیا ہے اس پر انھیں پہلے اپنی ہی پارٹی سے مشورہ کرنا چاہیے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی نے اپنے دور اقتدار میں اس دہشت گردی کے خلاف جنگ کے خاتمہ میں کیا کردار کیا اس پر بھی بلاول بھٹو کو اپنی رائے ضرور دینی چاہیے۔
بلاول بھٹو زرداری کو سب سے زیادہ فکر پارٹی کے اصل تشخص کی بحالی پر مرکوز کرنی چاہیے۔ کیونکہ پارٹی عملی طور پر اس وقت اپنی فعالیت اور سیاسی ساکھ کی بحالی کے لیے اپنے ہی لوگوں میں سوالیہ نشان کے طور پر کھڑی زمانے میں پیپلز پارٹی شہری مڈل اور لوئر مڈل کلاس سمیت غریب طبقہ میں اہم سمجھی جاتی تھی۔ طلبہ، مزدور، کسان، وکلا، عورتوں، اقلیتوں اور نوجوان میں بھی پیپلز پارٹی کو بہت زیادہ پزیرائی حاصل تھی۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ پارٹی سماج اور نظام کی تبدیلی کی بات شد و مد سے کرتی تھی، لیکن اب اس کی ترجیحات میں تبدیلی اس کے اپنے ووٹر اور کارکن بھی محسوس کرتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اب پیپلز پارٹی کی اصل طاقت کے فریق پارٹی کی موجودہ پالیسیوں سے نالاں نظر آتے ہیں یا وہ پارٹی کی موجودہ قیادت سے فاصلے پر کھڑے ہیں۔ ان ناراض لوگوں کو منانے کے لیے بلاول بھٹو کیا واقعی پارٹی میں انقلابی تبدیلیاں لا سکیں گے، اس کا جواب مبہم نظر آتا ہے۔ پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کا نہ ہونا، اہم عہدوں پر نظریاتی لوگوں کو نظر انداز کر کے غیر سیاسی لوگوں کی تقرریاں، سابقہ حکومت میں شامل کرپٹ لوگوں کی پشت پناہی، نئے لوگوں کی پارٹی میں عدم شمولیت جیسے اہم مسائل پر بلاول بھٹو کو ضرور غور کرنا چاہیے۔
لیکن اگر بلاول بھٹو واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو انھیں عام لوگوں کے مسائل اور ان کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑنا ہوگا ، لیکن یہ اچھی نظریاتی اور سیاسی کمٹیڈ ٹیم کے بغیر ممکن نہیں ہو گا۔ اس کے لیے پارٹی کو اپنے اندر ایک بڑے آپریشن کی مدد سے ایسے لوگوں کو سامنے لانا ہو گا جو پارٹی کا اصل چہرہ ہیں۔ کیونکہ پارٹی کے اصل جیالے ان لوگوں کو کبھی قبول نہیں کرتے جو محض اقتدار کی سیاست کے لیے پارٹی کا حصہ بنتے ہیں اور مشکل وقت میں کسی اور کی سیاست کا حصہ ہوتے ہیں ۔
پیپلز پارٹی کی قیادت میں ایک سیاسی زعم پایا جاتا ہے کہ وہ کوئی غیر مقبول نہیں ہوئی۔ وہ اس سوچ کو پارٹی کے سیاسی مخالفین اور اسٹیبلشمنٹ کی بڑی سازش سے جوڑتے ہیں ۔ یہ مفروضہ مکمل طور پر غلط نہیں۔ کیونکہ ہماری اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتوں کے اندر اس طرز کی توڑ پھوڑ کرتی رہی ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی کو یہ سمجھنا ہو گا کہ ان کا ووٹ بینک اور بالخصوص شہری علاقوں میں تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ نوجوان طبقہ میں بھی ان کی مقبولیت وہ نہیں جو کبھی پارٹی کی اصل طاقت ہوا کرتی تھی۔ اس کے لیے ہم اگر1988ء کے بعد کے انتخابات اور ان کے نتائج یا اعداد و شمار دیکھیں جن میں2013ء، 1990, 1993, 1997, ء 2002, 2008 شامل ہیں تو اس سے صورتحال کو سمجھنے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔ لیکن اگر پارٹی کی قیادت ان حقایق کا ادراک کرنے کے لیے تیار نہیں تو سوائے ماتم کے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
بلاول بھٹو زرداری نوجوان ہیں اور واقعی کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں۔ ان کے خیالات میں جوش بھی ہے، لیکن اگر وہ اس جوش میں کچھ معاملات پر سیاسی حقائق کا ادراک کر کے اپنے سفر کو آگے بڑھائیں تو یہ واقعی پارٹی کی اہم خدمت ہو گی۔ بلاول بھٹو کواپنے نانا، نانی، والدہ اور والد کی سیاست میں سے اسی سیاست کو اپنی سیاست کی بنیاد بنانا ہو گا جو کارکنوں اور ان کے ووٹروں کے درمیان ایک نیا سیاسی ٹانک فراہم کر کے انھیں دوبارہ متحرک اور فعال کردار ادا کرنے میں مجبور کرے۔ وگرنہ آصف علی زرداری کی مفاہمتی، انتظامی اور محض اقتدار کی سیاست انھیں طاقت کے مراکز میں طاقت تو دے سکتی ہے، لیکن پارٹی کا بحران اور اس کی مقبولیت پر سوالیہ نشان موجود رہے گا۔ مفاہمت کی سیاست اہم ہے۔ کیونکہ جو مسائل پاکستان کو درپیش ہیں اس میں سب کو مفاہمت کی سیاست کے ساتھ ہی آگے بڑھنا چاہیے۔ لیکن مفاہمت اگر محض اقتدار کو برقرار رکھنے یا طاقت کے حصول میں تبادلہ کی صورت میں ہو گی تو اس سے پارٹی کی ساکھ متاثر ہو گی۔ مسلم لیگ)ن ( کے ساتھ پیپلز پارٹی کی پس پردہ مفاہمتی سیاسی پینگیں بھی کسی ڈھکی چھپی نہیں، اس عمل نے بھی پیپلز پارٹی اور اس کے ورکروں کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے ۔ پیپلز پارٹی کا سیاسی ورکرز مزاحمت کے لیے تیار ہے ، لیکن قیادت کی حکمت عملی سیاسی کارکن سے مختلف نظر آتی ہے ۔
پیپلز پارٹی کو وفاق کی اہم علامت سمجھا جاتا ہے، لیکن اب پیپلزپارٹی کی قیادت کا اصل مرکز سندھ کی سیاست تک محدود ہو گیا ہے۔ پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں قیادت کا منظر سے غائب ہونا توجہ طلب مسئلہ ہے ۔ جب تک وہ چاروں صوبوں اور بالخصوص پنجاب میں مزاحمتی اور فعال کردار جس میں وہ یہاں نظر بھی آئیں نہیں کریں گے، کامیابی کے امکانات محدود ہونگے۔ اگر ان کا خیال ہے کہ وہ ٹوئٹر پریا دبئی یا لاڑکانہ میں بیٹھ کر پارٹی کو اس کی اصل حالت میں لا سکیں گے ، تو یہ محض خوش فہمی ہو گی۔ بلاول بھٹو عملی طور ایک امتحان گاہ سے گزر رہے ہیں۔ انھیں عملی طور پر اپنے اندر ٹھہراو بھی پیدا کرنا ہو گا اور پارٹی پر اپنی گرفت بھی، جو اس وقت کافی کمزور ہے ۔