پارلیمنٹ کی اہمیت
وزیر اعظم عمران خان پارلیمان کے بجائے وفاقی کابینہ کو سب سے اہم سپریم سمجھتے ہیں
ISLAMABAD:
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی پالیسی پر پارلیمنٹ میں بحث ہوتی تو شاید زیادہ بہتر چیزیں سامنے آجاتیں۔ موجودہ حکومت سمجھتی ہے کہ پارلیمنٹ میں ان پڑھ لوگ بیٹھے ہیں ، جن کو کسی چیز کا پتا نہیں۔ قومی سلامتی پالیسی پر پارلیمان میں بحث ہونی چاہیے تھی جو نہیں ہوئی۔ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ پہلی قومی سلامتی پالیسی داخلی و خارجی خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے، مگر اس پالیسی کو حکومت نے وفاقی کابینہ سے منظور کرا لیا اور اسے ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی قرار دیا ہے جب کہ قومی سلامتی جیسی پالیسی پہلے بھی بن چکی ہے ۔
حکومت نے قومی سلامتی جیسے اہم مسئلے پر بنائی گئی پالیسی کو خود ہی منظور کرلیا پارلیمان کو اعتماد میں نہیں لیا جس پر اپوزیشن بھی تنقید کر رہی ہے اور عوام بھی حیران ہے کہ حکومت صرف اپنی کابینہ کو ہی عقل کل سمجھتی ہے جب کہ یہ پالیسی کابینہ سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کی جاتی جہاں اس پر بحث ہوتی اور جمہوری طریقہ سے پارلیمان سے اس کو منظور کرا لیا جاتا تو بہتر تھا کیونکہ یہ سیاسی نہیں قومی مسئلہ ہے۔
خبر کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ایک بار پھر ملتوی ہو گیا اور یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ کورم پورا نہ ہوا ہو۔ قومی اسمبلی میں حکومتی ارکان کی اکثریت ہے مگر حکومتی ارکان قومی اسمبلی اس میں دلچسپی لیتے ہیں اور نہ اپوزیشن اجلاس کو اہمیت دیتی ہے اور کہنے کو کہا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم ہے جو صرف کہنے کی حد تک سپریم ہے اور اس کے سپریم ہونے کی حیثیت یہ ہے کہ وہ عدلیہ کو ناراض کرکے کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی۔
ماضی میں قومی اسمبلی کسی مسئلے پر فیصلہ کرنا چاہتی تھی مگر اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے پیغام دیا تھا کہ ایسے پارلیمانی فیصلے کو سپریم کورٹ منسوخ کر دے گی اس لیے پارلیمنٹ میں فیصلہ نہیں ہو سکا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہمیشہ سے پارلیمنٹ کو اہمیت دیتے آئے ہیں اور متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ سیاسی معاملات عدالتوں میں نہ لائے جائیں اور پارلیمنٹ ان کا فیصلہ خود کرے کیونکہ آئینی طریقہ بھی یہی ہے۔
اخبارات میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کی تصویر نمایاں طور پر شایع ہوئی ہے جس کی صدارت وزیر اعظم عمران خان کر رہے ہیں جس میں وسیع تر کابینہ کے تمام ارکان موجود ہیں اور کوئی کرسی خالی نظر نہیں آرہی جب کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اکثر نشستیں خالی رہتی ہیں اور بعض دفعہ کورم بھی پورا نہیں ہوتا مگر اجلاس جب تک چند ارکان ہی موجود ہوتے ہیں جاری رہتا ہے اور اپوزیشن کی طرف سے کورم کی نشاندہی پر ہی اجلاس ملتوی ہوتا ہے۔
اصولی اور جمہوری طور پر ملک کی قسمت کے فیصلے ارکان کی مجموعی اکثریت سے ہونے چاہئیں مگر قومی اسمبلی جہاں ملک بھر سے 342 منتخب ارکان ہیں وہاں کورم کے لیے بہت کم ارکان کی تعداد رکھی گئی ہے جب کہ سینیٹ میں ایک سو سے زائد سینیٹروں کے ایوان میں کورم کا مسئلہ کم ہی ہوتا ہے اور ایوان بالا ہے ، جس کے ارکان قومی اسمبلی کے ارکان سے زیادہ ذمے داری دکھاتے ہیں۔ وزیر اعظم ماضی میں بھی اور اب بھی قومی اسمبلی کی طرح سینیٹ کو بھی اہمیت نہیں دیتے اور بہت کم ہی سینیٹ کے ایوان میں آتے ہیں۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مجبوری یا کوئی اہم فیصلہ کرانے وزیر اعظم ضرور آتے ہیں مگر عام اجلاس کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ سینیٹ اجلاس میں ایک سال نہ آنے کا ریکارڈ وزیر اعظم نواز شریف کا تھا جس پر وزیر اعظم عمران خان بھی عمل پیرا ہیں،وہ بھی بہت کم اسمبلی اجلاس میں شریک ہوتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان پارلیمان کے بجائے وفاقی کابینہ کو سب سے اہم سپریم سمجھتے ہیں اور اسی لیے ہر ہفتے وزیر اعظم کی صدارت میں کابینہ کے اجلاس ہوتے ہیں جس کی وجہ سے کابینہ کے تمام ارکان اپنی شرکت کو یقینی بناتے ہیں جو پارلیمنٹ میں صرف وزیر اعظم کی موجودگی میں ہی آتے ہیں جو انھوں نے اپنا قومی فریضہ بنا رکھا ہے۔
وفاقی کابینہ میں صرف وزیر اعظم کے پسندیدہ افراد ہیں وہاں کوئی اپوزیشن نہیں ہوتی جو مخالفت کا نعرہ وزیر اعظم کو سننا پڑے۔ تمام ارکان وزیر اعظم کی رائے سے اختلاف کی جرأت نہیں رکھتے کیونکہ انھیں اپنی وزارت عزیز ہے جب کہ پارلیمان میں آنے نہ آنے پر ان سے کوئی باز پرس نہیں ہوتی نہ عوام انھیں کچھ کہہ سکتے ہیں اسی لیے وہ پارلیمان میں آنا ضروری نہیں سمجھتے اور یہی پارلیمان کی بے توقیری کی وجہ ہے، جو صرف نام کی حد تک سپریم ہے جس کو 5 سال بعد اہم سمجھا جاتا ہے اور وہاں جانے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں جن کی وصولی کے لیے انھیں 5 سال پارلیمان سے دور رہنا پڑتا ہے۔