مہنگائی کے عام آدمی اور ملکی معیشت پر اثرات
مہنگائی کی اس دہشت ناک صورتحال کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے عوام کن حالات سے دوچار ہو سکتے ہیں
وزارت خزانہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ فنانس سپلیمنٹری بل کا غریب پر بوجھ نہیں پڑے گا، جب کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمت اب بھی کم ہے ، رواں برس جی ڈی پی پانچ فیصد رہے گی،دسمبر میں مہنگائی کا تناسب 12.3فی صد آیا ہے ، معیشت میں بہتری آئی تو شرح سود میں اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام پر17ارب 85 کروڑ روپے کا بوجھ ڈالنے کی ایک اور درخواست نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا)کو دے دی گئی۔ اس ضمن میں نیپرا کا کہنا ہے کہ بجلی کی تقسیم کارکمپنیوں( ڈسکوز) نے کیپیسٹی چارجز، ترسیلی و تقسیمی نقصانات اور دیگر مد میں بجلی کی قیمت میں اضافہ مانگا ہے۔
حکومت کی جانب سے معیشت میں بہتری کے دعوے تواتر کے ساتھ کیے جارہے ہیں ، لیکن زمینی حقائق کچھ اور بتا رہے ہیں ، یہ چوتھا مہینہ ہے کہ سی پی آئی انفلیشن ریٹ اوپر جارہا ہے، حکومت نے نئے سال کے موقعے پر پٹرول کی قیمت چار روپے فی لیٹر بڑھائی ہے اورکہا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے مطابق پٹرولیم لیوی بڑھانا پڑی ہے۔ حکومت کو ابھی قومی اسمبلی سے منی بجٹ پاس کروانا ہے، اس کے پاس ہونے کے بعد مہنگائی اور بڑھے گی۔
وطن عزیز میں اس وقت مہنگائی عروج کو چھو رہی ہے اور اشیاء خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی نظر آرہی ہیں ، اس وقت افراط زر اپنی بلند ترین سطح کو چھو رہا ہے یعنیHyper Inflationاس وقت دیکھنے میں آرہی ہے۔روپے کی قدر میں 30.5 فیصد کمی سے مہنگائی میں براہِ راست اتنا ہی زیادہ اضافہ ہوا ہے کیونکہ پاکستان جہاں پہلے ہی بڑے پیمانے پر اجناس اور ایندھن درآمد کرتا تھا، وہاں اسٹیٹ بینک کی جانب سے بنیادی شرحِ سود میں کیے جانے والے اضافے سے صنعتی پیداوار متاثر ہوگی کیونکہ اس عمل سے خام مال کی قیمت بڑھنے کا امکان ہے۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافہ اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی وجہ سے کرنسی بہت کمزور ہوئی ہے۔ پاکستان کو تیزی سے بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا سامنا ہے، جو بنیادی طور پر بڑھتے ہوئے درآمدات اور برآمدات کے تجارتی فرق کی وجہ سے ہے۔
روپے کی قدر کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ قدر میں کمی سے ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ موجودہ حکومت جب برسرِ اقتدار آئی تو کرنسی کی قدر 120 روپے فی امریکی ڈالر تھی۔ گزشتہ 40 ماہ کے دوران روپے کی قدر میں 30.5 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔ 1971 میں جب ملک دولخت ہوا تھا، اس وقت تاریخ میں سب سے بڑی گراوٹ دیکھنے کو ملی تھی، اور اس کے بعد موجودہ حکومت کے دور میں اس قدر بڑی گراوٹ ریکارڈ کی گئی ہے۔ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ روپے کی قدر میں کمی صرف اور صرف آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے کی گئی ہے اس کا معیشت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس سے پہلے روپے کی قدر میں کمی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ دوسری بڑی وجہ چینی، گندم اور کپاس کی درآمد برآمد کی پالیسی ہے، پھر تیل، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد مستقبل میں مہنگائی میں کمی کا خواب ایک سراب سے کم نہیں ہے۔ مہنگائی کم نہیں ہو گی بلکہ مزید بڑھے گی اسٹیٹ بینک کے تازہ اعدادوشمار بھی مہنگائی کی پیشگوئی کر رہے ہیں۔ اس کے ہمارے معاشرے اور ہماری سیاست پر گہرے اثرات ظاہر ہوں گے۔
پاکستان میں روپے کی اتنی بے قدری کبھی نہیں ہوئی جتنی اب ہے، اب ڈالر بہت اونچی اُڑان بھر رہا ہے۔ اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ حکومت کے بقول معیشت مستحکم ہو چکی ہے۔ زرِمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ بیرون ملک سے پاکستانی ڈالر پاکستان بھیج رہے ہیں لیکن پھر ڈالر کی قیمت کیوں چڑھتی جا رہی ہے۔ اب آئی ایم ایف کے دباؤ میں بجلی اور گیس کی قیمتیں بھی بڑھائی جا رہی ہیں۔
پٹرول کی قیمت مسلسل اوپر جا رہی ہیں ، یہ بھی ایک نیا ریکارڈ ہے، اس کے بعد مہنگائی مزید بڑھے گی۔ٹرانسپورٹ کے کرائے من مانے انداز میں بڑھا لیے گئے ہیں ، ملک کے لاکھوں ، کروڑوں افراد اس سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں ، انٹر سٹی بسوں والوں اپنی من مانی سے کرائے وصول کررہے ہیں ، کیوں ان پر روک ٹوک کرنیوالا نہیں ہے ، مہنگائی اب پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ غریب آدمی پہلے بھی پس رہا تھا اب بھی پس رہا ہے لیکن اب مڈل کلاس مشکل میں پڑ گئی ہے۔
اخبارات یا ٹیلی ویژن چینلز پر جب مہنگائی کی بات ہوتی ہے تو حکومت کے ترجمان آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں، بعض کہتے ہیں ہاں مہنگائی ہوئی ہے لیکن بہت سے ملکوں سے کم ہے، کوئی کہہ دیتا ہے کہ یہ مڈل مین کا قصور ہے کوئی کہتا ہے اس میں مافیا کا ہاتھ ہے، یہ مافیا بڑا کارآمد لفظ ہے یہ کہہ کر کسی بھی مسئلے سے بآسانی جان چھڑائی جا سکتی ہے کہ اس کے پیچھے مافیا ہے۔ گویا خرابی میں حکومت کا کوئی کردار نہیں اور مافیا کے معاملے میں حکومت بے بس ہے لہٰذا مسئلہ ختم۔
عالمی بینک کے مطابق دنیا بھر میں اشیاء خورونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتیں کروڑوں غریب افراد کو مزید غریبی کی گہرائیوں میں دھکیل سکتی ہیں۔ ان چند برسوں میں روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں 200 فیصد تک اضافہ ہوگیا ہے۔
اس مہنگائی اور غذائی بحران نے کتنے افراد کے دلوں سے خوشیاں اور ہونٹوں سے مسکراہٹیں چھین لی ہیں، اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو ہمارے ملک میں خوردنی اشیا مثلاً سبزی، دالیں، گوشت اور دیگر اشیا کی قیمتیں ساتویں آسمان پر پہنچ گئی ہیں مہنگائی کی سطح عروج پر ہے جس نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے، معاشرے کا کون سا ایسا طبقہ ہے جو اس کمر توڑ مہنگائی سے براہ راست متاثر نہ ہوا ہو۔ غریب اور مزدور طبقے کی تو بات ہی مت پوچھیے ان کے یہاں تو چولہا جلنا بھی دشوار ہو گیا ہے۔
مہنگائی کے بے قابو جن نے غریبوں کا جینا محال کر رکھا ہے،آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی، بھوک و افلاس اور انتہائی شدید قسم کے غذائی بحرانوں نے عالمی سطح پر سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔تھوڑے عرصے میں روز مرہ کی چیزوں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔تعلیم، ادویات،کرایے،روز مرہ کی اشیاء غریب کی دسترس سے بالاتر ہوتی جا رہی ہیں۔نہ تعلیم، نہ صحت، نہ رہائش آخر غریب کے لیے ہے کیا؟مہنگائی نے کتنے لوگوں کو غربت کی لکیر کے نیچے لا کر چھوڑا۔کتنے غریب ایسے ہیں جو اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتے پالتے دنیا کی نظروں سے اوجھل ہو گئے،کتنے لوگ ہر سال مہنگائی کی وجہ سے خود کشیاں کر رہے ہیں۔
کتنے بچے تعلیم سے محروم ہو رہے ہیں،کتنے لوگ اپنے گردے بیچنے پر مجبور ہیں،کتنے لوگ اپنی آنکھیں بیچ رہے ہیں،کتنے والدین غربت اور مہنگائی کی وجہ سے اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں،اس کے علاوہ غریب والدین اپنے بچوں کو جب تڑپتا نہیں دیکھ سکتے تو اپنے ہی ہاتھوں سے انھیں ہمیشہ کی نیند سلا رہے ہیں۔
دراصل مہنگائی کے اس طوفان نے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے۔بھوک، افلاس، فاقہ کشی کا منظر، بھوک سے بلبلاتے بچے اس ناگفتہ بہ صورتحال میں مزید پٹرول، گیس، بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ بھی عوام کی مشکلات و پریشانی میں اضافے کا باعث بنا ہوا ہے۔ مملکتِ خداداد کے عوام جس صورتحال سے دوچار ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہے۔
مہنگائی کے منہ زور طوفان نے کئی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ پیپرز مہنگا ، کئی صنعتیں بند ، کچھ شدید مشکلات سے دوچار، اسی باعث کئی افراد بے روزگار ہوئے ، غریب دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہے۔پٹرول،ڈیزل اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ صرف مہنگائی بڑھنے کا ہی نہیں بلکہ گدا گری اور غربت میں اضافے کا بھی دوسرا نام ہے۔لوگ مہنگائی کے سبب پیٹ کاٹ کاٹ کر جینے پر مجبور ہیں۔سوچیں ان لوگوں کا کیا ہوتا ہو گا جو پورا دن فٹ پاتھوں پر بیٹھ کر مزدوری کی تلاش میں ہوتے ہیں،جو اعلیٰ تعلیم کے باوجود مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔
موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کی ایسی شرطیں بھی مان لی ہیں جو پہلی حکومتوں نے نہیں مانیں۔ اِن میں سب سے اہم فیصلہ کرنسی کی فری فلوٹنگ کا ہے۔ کہا گیا کہ یہ فیصلہ ملک کے وسیع تر مفاد میں کیا گیا ہے مقصد معیشت کو صحیح بنیادوں پر استوار کرنا بتایا گیا۔ کہا گیا کہ ماضی میں حکومتیں مارکیٹ میں ڈالر پھینک کر روپے کو مصنوعی طریقوں سے سہارا دیتی رہی ہیں جس سے معیشت کو لانگ ٹرم نقصان ہوا۔اِس دلیل میں کافی وزن تھا، لیکن حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں روپے کی اتنی بے قدری کبھی نہیں ہوئی جتنی اب ہے۔
مہنگائی کی اس خوفناک اور دہشت ناک صورتحال کو دیکھ کر مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ملک اور اس کے عوام کس صورتحال سے دوچار ہو سکتے ہیں۔اب بھی وقت ہے کہ حکومت کی معاشی ٹیم اپنی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لے ، ملکی معیشت کی صورتحال بہت خراب ہوچکی ہے ، سارا ملک پریشان ہے ، سرجوڑ کر بیٹھیں ، کوئی صائب حل نکالیںاور عام آدمی کی مشکلات میں کمی لائیں ۔