موسیقی آنکھوں سے نہیں کانوں سے دیکھی جاتی ہے سیموئل گل
آج کے پیر و مرشد جدید آلات ہیں، غیرفلمی موسیقی میں ہمہ گیر شناخت رکھنے والے موسیقار ’’ لِونگ لیجنڈ‘‘ سیموئل گل۔۔۔
لاہور:
ہر وقت عالمِ سماعت میں رہتے ہیں
کون؟
سیموئل گل!
کیسی عجیب بات ہے، موسیقار تو دوسروں کی سماعت میں رہتا ہے اور یہ ۔۔۔ ۔؟
گم سم، کم گو، کم آمیز ۔۔۔ یہ ہیں راول پنڈی کے معروف موسیقار، لِونگ لیجنڈ، سیموئل گل! لوگ اپنی چالاکی سے دوسروں کو حیران کرتے ہیں یہ اپنی سادگی سے دنگ کر دیتے ہیں۔ لکھنے والوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ لکھ کر سخن کرتے ہیں، یہ غنائیہ اور سازینہ کرتے ہیں، تبھی بولتے کم ہیں، پکاریے تو اکثر کسی جہانِ دیگر سے برآمد ہوتے ہیں۔ ان کی دھنوں کے طلسم میں صنم ایجادی کا وصف ہے، سننے والا سحرزدہ ہوکر رہ جاتا ہے۔
بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ پاکستان میں فلم سازی جب اپنے عروج پر تھی تو فلم کے بڑوں نے پرچانے کی بہت کوششیں کیں کہ یہ کسی طرح ان کی فلم کو موسیقا دیں مگر یہ آمادہ نہ ہوئے ''میاں! موسیقی آنکھوں سے نہیں کانوں سے دیکھی جاتی ہے، ہم جو کر رہے ہیں، اس سے فرصت نہیں اور یہ کافی ہے''۔ انہیں سننے والوں کی رائے ہے کہ سیموئل گِل غیر فلمی موسیقی کے رشید عطرے ہیں۔
سیموئل گل 20 جولائی 1950 کو ولیئم گِل کے ہاں راول پنڈی کے علاقے لال کڑتی میں پیدا ہوئے، والد صاحب آرمی (ایم ای ایس) میں ملازمت کرتے تھے، نغمہ وشعرکا ذوق بھی رکھتے تھے اور شوق بھی۔ سیموئل صاحب نے آغاز اپنے والد کے تخلیق کیے گیتوں کی کمپوزنگ سے کیا۔
اسکول جانے کی عمر لگی تو لال کڑتی کے سنڈے پرائمری اسکول اور بعد میں کرسچیئن ہائی اسکول میں داخل کرائے گئے۔ موسیقی کا جنون تھا سو ایک وقت ایسا آیا کہ جنوں، رسم پر غالب آگیا اور انہوں نے آٹھویں جماعت کے بعد مکتب و مدرسہ کو سلام آخر کیا اور تن من سے موسیقی کے ہولیے۔
طبلہ ان کے عشق کی ابتدا تھا، ہارمونیم کی ریاضت اِس کے علاوہ ! والد صاحب کے پاس جو شاگرد موسیقی کا درس لینے آتے ان کو چُپ شاہ کی طرح دیکھتے اور سنتے، جہاں دھیان تھا وہاں گیان بھی جِلو میں جلوہ آراء۔ گیارہویں کا سن تھا کہ رمضان المبارک میں سحری کے لیے نعت اور درود و سلام پڑھنے والوں کے ایک طائفے میں شامل ہوگئے ''کوچہ گردی میں نعت پڑھتے ایک عجب سرشاری طاری ہوجاتی تھی'' یہ شوق بتیس سال کی عمر تک جاری رہا ''مجھے خوشی ہوتی تھی جب میری آواز سن کر لوگ روزہ رکھنے کے لیے جاگتے''۔ عید میلادِ نبیﷺ کے جلسے جلوسوں میں شرکت بھی معمول رہا۔ پندرہ برس کے ہوئے تو 'چرچ موسیقی' سے وابستہ ہوگئے۔ اسکولوں اورچرچ میں ہارمونیم بجانے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
انہوں نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے دو ہزار سے زیادہ گیتوں کی دھنیں ترتیب دیں، مندر، چرچ، گوردوارہ، اسکول اور حمد ونعت پر بے شمار کام اس کے علاوہ ہے، ان کے کام کا مکمل احاطہ کرنا دشوار ہے۔
ان کا دور اساتذہ سے براہ راست فیض پانے کا زمانہ تھا، آج کتاب، کیسٹ، سی ڈی اور کمپیوٹر کا عہد ہے، ہر شے انٹر نیٹ سے منتقل ہو جاتی ہے، غلطی ہو تو کمپیوٹر سافٹ ویئر کے ذریعے دور کر دی جاتی ہے۔ سیموئل گل آج کی نسل کو خوش قسمت قرار دیتے ہیں '' اب ریاضت پر تکنیک غالب آچکی ہے، جدید آلات پیرومرشد کا درجہ حاصل کر چکے ہیں لیکن جس طرح ان آلات کے ماڈل چند دن میں بدل جاتے ہیں، اسی طرح آج کا فن کار بڑے باجے گاجے کے ساتھ آتا ہے، چندے بہارِ جاں فزا دکھلاتا ہے اور کاغذی پھول کی طرح پہلی بارش میں جاتا رہتا ہے''۔
پاکستان کے بڑے موسیقاروں میں سیموئل گل کو نثار بزمی، اے حمید، ماسٹرعنایت، بابا جی اے چشتی، خواجہ خورشید انور اور بھارت کے نوشاد، آرڈی برمن، ایس ڈی برمن اور اے آر رحمٰن بہت پسند ہیں البتہ اپنے استاد جی کے برابر کسی کو نہیں مانتے۔ سر، تال اور لے کا فیض انہوں نے استاد عبدالقادر پیا رنگ خاں صاحب سے پایا۔ یاد رہے کہ پیا رنگ کا خطاب ان کے استاد محترم کو ان کی عظمت اور موسیقی کے میدان میں ان کی بے بہا خدمات کے اعتراف میں دیا گیا تھا، وہ ہی ان کے پہلے باقاعدہ استاد تھے۔
اُن کے بارے میں کہتے ہیں '' وہ کلاسیکل گائک تو تھے ہی، بے مثل استاد بھی تھے۔ میرا میلانِ طبع گائکی کے بہ جائے موسیقی کی بندشوں کی طرف زیادہ تھا، میں راگوں کی تلاش میں رہتا تھا، جن کو سامنے رکھ کر دھن بنائی جاسکے، کلاسیکی گائکی کو میں مشکل سمجھتا تھا، اِس لیے دھن تخلیق کرنا مجھے نسبتاً آسان اور زیادہ بہتر لگا، استاد محترم نے اِس کام کی جب اجازت دی تو یہ تلقین کی ''میاں راگوں سے پکی دوستی ہونی چاہیے''۔ استاد جی نے سر، تال اور لے کے ساتھ ساتھ میرا تلفظ بھی درست کرایا۔
وہ موسیقی کے کسی روایتی گھرانے کا نسب و حسب نہیں رکھتے تھے مگر یہ ان کی عظمت ہے کہ ہر گھرانا ان کو مانتا ہے۔ مشرقی بنگال کے بہت بڑے گائک استاد زاہد علی خان کے باقاعدہ شاگرد تھے، برہمنوں اور پنڈتوں سے بھی کسبِ فیض کیا۔ تقسیم ہند کے بعد کراچی اور حیدر آباد میں رہے۔ گلوکارہ ارونا لیلیٰ ان کی شاگرد تھیں، بشریٰ انصاری کی والدہ بھی اِن سے سیکھیں، خود بشریٰ انصاری نے بھی ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا، آل انڈیا ریڈیو کے کمپوزر وحید عثمانی بھی ان کے شاگردوں میں سے تھے۔
کراچی میں تھے تو ارونا لیلیٰ سے رقص کرنے پر ناراض ہو گئے، ان کا تجربہ تھا کہ رقص کی مشقت گلے کے رچاؤ کو بگاڑ دیتی ہے مگر ارونا لیلیٰ اپنی ضد پر اڑی رہیں، بس اِس نافرمانی پر ایسے ناراض ہوئے کہ کراچی چھوڑ دیا، پنڈی آ بسرام کیا اور زندگی کی شام تک اس شہر سے کہیں نہ گئے، مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ مجھ سے کبھی ناراض نہیں ہوئے، میں ان کے چہیتے شاگردوں میں سے تھا، شاید اِس لیے کہ مجھے ہارمونیئم اور طبلہ بجانا آتا تھا ۔۔۔ راگوں کا سارا علم استاد پیا رنگ صاحب نے ہی عطا کیا، راگ جے جے ونتی اور بھٹیار انہوں نے خاص طور پر مجھے سکھائے، اِن راگوں میں، میں نے جو دھنیں ترتیب دیں، وہ بے حد مقبول ہوئیں''۔ سیموئل گل نے استاد محفوظ کھوکھر صاحب سے بھی درس لیا جو، خود استاد عبدالقادر صاحب کے شاگرد ہیں۔
موسیقار سیموئل گل کے مطابق ''گلوکاروں کی آوازیں دو طرح کی ہوتی ہیں، ایک وہ جو محنت سے بنائی جاتی ہیں اور دوسری وہ جو بنا کر زمین پر اتاری جاتی ہیں، اُن پر محنت نہیں کرنا پڑتی، یہ خدا کا عطیہ ہوتی ہیں، میری آواز دوسری قسم میں شمار ہوتی تھی، میں آواز کو بچانے کے لیے کھانے پینے میں کبھی احتیاط نہیں کرتا تھا جب کہ بہت سے نام ور گلوروں کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے''۔
موسیقار سیموئل گل ریڈیو پاکستان راول پنڈی سے دس سال بہ طور کمپوزر اور سنگر منسلک رہے ، پی ٹی وی پر انہیں اے کلاس آرٹسٹ لیا گیا۔ اس کے بعد 80 کی دہائی میں جب انہوں نے حکومت کے زیر اہتمام کیسٹ ریکارڈنگ کا پراجیکٹ شروع کیا تو انہیں خان صاحب مہدی حسن ، غلام علی، غلام عبا س، مہناز، ناہید اختر، افشاں، ترنم ناز، حمیرا چنا، حمیرا ارشد، اے نیئر، انور رفیع کے علاوہ درجنوں نام ور گلوکاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ 1972 میں ٹیلی ویژن کے لیے انہوں نے جو پہلی کمپوزیشن بنائی اُسے مجیب عالم نے گایا، جب لاہور میں بڑے گلوکاروں کے ساتھ کام کر رہے تھے تو فلم انڈسٹری نے سلور سکرین کے لیے آفر کی مگر انہوں نے نعت، حمد، ترانہ، بھجن، گیت، غزل، اشلوک اور چرچ کی موسیقی کے لیے کام کرنے کو ترجیح دی۔
کہتے ہیں '' بین المذاہب ہم آہنگی میرا مشن تھا اور اس راہ پر میں اب تک گام زن ہوں، اِس کام کے لیے خدا نے مجھے 50 سال قبل ہی ذمہ داریاں سونپ دی تھیں، گو کہ یہ کام اب بڑے بڑے ادارے کر رہے ہیں مگر میں نے مذاہب کے درمیان بھائی چارے کا راز بہت پہلے پا لیا تھا''۔ مذاہب میں موسیقی کے انگ پر کہتے ہیں ''موسیقی بھی خدا سے تعلق کا ایک راستہ ہے، دل صاف ہو، کدورت دھل جائے تو اُس ذات کو سر، لے یا تال کے ذریعے یاد کرنے سے وہ خوش ہوتی ہے۔ ملک سے میوزک کو ختم نہیں ہونا چاہیے، موسیقی انسان کو سکون دیتی ہے کیوں کہ یہ نوے فی صد انسانوں کی ضرورت ہے، اس بات کو کوئی مانے یا نہ مانے''۔
مو سیقار سیموئل گل دو سال کے تھے تو والدہ دار فانی سے رخصت ہوچکی تھیں، اِس لیے چار بھائیوں اور دو بہنوں کو ان کے والد نے ماں اور باپ بن کر پالا پوسا۔ بچپن میں گم سم بچے کی حیثیت سے شناخت بنائی، شرارت کرنا تو دور کی بات شرارت دیکھی بھی نہیں جاتی تھی، سدا کے شرمیلے ہیں، اب تک اِس ''خوبی'' سے متصف ہیں، اپنے کام کے علاوہ کوئی کام نہیں آتا۔ خود کہتے ہیں''میں سنگل ٹریک آدمی ہوں، عمر گزر گئی گاڑی تو درکنار موٹر سائیکل چلانا بھی نہیں آتا۔ سیکھتا کیا، بچپن سے لے آج تک دھن بنانے کے علاوہ کوئی اور کام ہی نہیں کیا سو کچھ اور نہیں آتا مجھے، میں تو اپنے جوتے اور کپڑے تک نہیں خرید سکتا، کھانے پینے میں جو مل جائے، خدا کا شکر ادا کرتا ہوں، آج تک فرمائش نہیں کی ، شاید اسی لیے میں خود کو ناکام نہیں سمجھتا، اللہ تعالیٰ کا نام کسی زبان، کسی انگ، رنگ میں لیا جائے، ناکامی نہیں ہوتی، ہوش سنبھالنے کے بعد اسی ایک نام کی مالا جاپی، مسلم ہوں، ہندو ہوں، سکھ یا عیسائی، سب نے مجھے دعا ہی دی ہے، جہاں بھی گایا یا بجایا، واہ واہ سے زیادہ دعائیں ملیں، یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ 30 سال کی عمر میں شادی ہوئی، شادی کے بعد اللہ کی ایسی مہربانی ہوئی کہ آج تک کام ملنا بند نہیں ہوا، ان دعاؤں کی وجہ سے مجھے بیوی کے روپ میں ایک بڑے ظرف اور حوصلے کی مالک خاتون ملیں''۔
بچپن کی ایک خواہش بیان کرتے ہیں '' نہ جانے کیوں دل میں ایک خواہش جاگی کہ پاکستان کے نام ور گلوکار میری کمپوزیشن میں گائیں، میرے خدا نے میری یہ خواہش پوری کردی اور گانے والوں نے بھی خوش ہو کر گایا، گانے والوں کی یہ خوشی شاید اس لیے تھی کہ جب موسیقار کو راگ کے موڈ کا علم ہو کہ موقع کی نزاکت کیا ہوتی ہے، خوشی کیا اور غم کسے کہتے ہیں؟ تو خوشی آ ہی جاتی ہے، اُس کے بعد لفظ اور شاعری آتی ہے، جب شاعری کا چناؤ ہو جائے تو راگ کے موڈ کی پہچان مزید آسان ہو جاتی ہے۔ میرے ساتھ یوں بھی ہوا کہ ایک دھن بنائی لیکن یہ معلوم نہ ہوا کہ کس راگ میں بنی، استاد جی نے دھن سنی تو فوراً بتایا کہ ارے یہ تو فلاں راگ ہے، کیا اس راگ کی تعلیم لی ہے؟ میں چپ ہو جاتا تو مسکرا پڑتے، اسی طرح میں نے ایک پنجابی گیت ''تیری راہواں تک تک ہارے، سجنا ساڈے نین وچارے''کی کمپوزیشن بنائی تو مجھے اُس کے راگ کا علم نہیں تھا، استاد جی نے سنا تو بتایا کہ یہ تو راگ ایمن ہے، اس پر انہوں نے مجھے شاباس دی اور کہا کہ یہ توفیق ہر کسی کو نہیں ہوتی، یہ اللہ کی دین ہے۔
ایک دن استاد جی دردِ شکم میں مبتلا بستر پر لیٹے تھے، میں نے ان کی دل جوئی کے لیے بھارت کے ایک شاعر کی پنجابی غزل ''مینوں تیرا شباب لے بیٹھا، رنگ چہرہ گلاب لے بیٹھا'' ہارمونیم کے ساتھ چھیڑ دی، یہ دھن میں نے راگ مال کونس میں ترتیب دی تھی، استاد جی نے مکھڑا سنا تو درد ورد بھول گئے، اٹھے اور طبلے پر سنگت دینا شروع کردی، غزل ختم ہوئی تو پوچھا کہ دھن کس کی تھی؟ میں نے سر جھکا دیا، حیران ہوئے، فرمایا کمال ہو گیا، دراصل اس راگ میں ایک نکھاد لگتا ہے، دوسرا نہیں ، میں نے دونوں لگا دیے تھے اور ساتھ ہی دونوں گتیں بھی لگائی تھیں، جس سے راگ کی ایک نئی شکل بن گئی تھی، استاد جی اس تجربے پر اتنے خوش ہوئے کہ دوسرے دن خود ریڈیو پاکستان جا کر کے ڈائریکٹر خواجہ صاحب کو سنائی''۔
موسیقار سیموئل گل فوک گلوکار طفیل نیازی، مہدی حسن، میڈم نور جہاں اور نصرت فتح علی خان کو پاکستان کا سرمایا کہتے ہیں لیکن وہ افسوس کرتے ہیں کہ میڈم نور جہاں کی آواز میں ان کی کوئی دھن گائی نہ جا سکی، میڈم کی مصروفیت ان کے آڑے آتی رہی ، اسی طرح انہوں نے نصرت فتح علی خان کے لیے ایک دھن ترتیب دی مگر وہ امریکا میں اپنی مصروفیت کے باعث پاکستان پہنچ نہ سکے البتہ ایک ریکارڈنگ کے دوران نصرت فتح علی نے سیموئل گل کی دھنوں کی دل کھول کر تعریف کی تھی۔
سیموئل گل طبلہ نواز استاد اللہ رکھا اور استاد شوکت خان سے غائبانہ اکتساب کا اقرار کرتے ہیں، استاد عبدالستار خان تاری کے مداح ہیں، ان کے بہ قول استاد تاری کے دونوں ہاتھوں میں سر اور تال ہے لیکن استاد طافو خان کے ہاتھوں کی جو لپک ہے وہ، باید و شاید ہے، وہ طبلے کو موسیقی کا بنیادی ساز قرار دیتے ہیں ''یہ ساز، تال سے وابستہ ہے جب کہ سُر ان دیکھا ہوتا ہے، اِس کا کوئی وجود نہیں ہوتا، صرف محسوس کیا جا سکتا ہے لیکن تال کی ایک ٹھوس شکل ہوتی ہے جس میں، ماترے بھی شامل ہوتے ہیں، میں نے طبلے کے چاروں گھرانوں سے استفادہ کیا ہے، استاد غلام حسن شگن کے ساتھ ایک بار ریڈیو پر ''ایک تالے'' پر طبلے کی سنگت کا موقع ملا، انہوں نے مجھے بڑی داد دی جو، میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے''۔
موسیقار سیموئل گل کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے، بڑے بیٹے سوشیل گل کو گانے کا شوق ہے اور وہ خود ہی اُس کی تربیت کر رہے ہیں۔ میوزک کی آدھی صدی خدمت کرنے کے صلے میں راول پنڈی اسلام آباد چرچ آرگنائزیشن نے موسیقار سیموئل گل کو سال 2012 میں ''Living Legend'' کا خطاب پیش کیا، اس کے علاوہ چھے دیگر ایوارڈ بھی ان کو پیش کیے جا چکے ہیں۔ اِن میں نیشنل کلچر ایوارڈ بھی شامل ہے، حکومت پنجاب نے ان کو Life Achievement Award بھی پیش کیا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے انہوں نے فشار خون اور سلسل بول کے عارضے میں مبتلا ہوگئے جس کے باعث طویل عرصہ تک کام چھوڑے رکھا مگر بحمداللہ اب صحت یاب ہو کر کام کی طرف لوٹ آئے ہیں۔ ان امراض سے جان خلاصی میں مدد دینے پر اپنے ایک شاگرد جاوید نذیر کی بہت تعریف کرتے ہیں، بہ قول ان کے اِس شاگرد کی کوششوں نے میری اوور ہالنگ کردی ہے۔
ہر وقت عالمِ سماعت میں رہتے ہیں
کون؟
سیموئل گل!
کیسی عجیب بات ہے، موسیقار تو دوسروں کی سماعت میں رہتا ہے اور یہ ۔۔۔ ۔؟
گم سم، کم گو، کم آمیز ۔۔۔ یہ ہیں راول پنڈی کے معروف موسیقار، لِونگ لیجنڈ، سیموئل گل! لوگ اپنی چالاکی سے دوسروں کو حیران کرتے ہیں یہ اپنی سادگی سے دنگ کر دیتے ہیں۔ لکھنے والوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ لکھ کر سخن کرتے ہیں، یہ غنائیہ اور سازینہ کرتے ہیں، تبھی بولتے کم ہیں، پکاریے تو اکثر کسی جہانِ دیگر سے برآمد ہوتے ہیں۔ ان کی دھنوں کے طلسم میں صنم ایجادی کا وصف ہے، سننے والا سحرزدہ ہوکر رہ جاتا ہے۔
بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ پاکستان میں فلم سازی جب اپنے عروج پر تھی تو فلم کے بڑوں نے پرچانے کی بہت کوششیں کیں کہ یہ کسی طرح ان کی فلم کو موسیقا دیں مگر یہ آمادہ نہ ہوئے ''میاں! موسیقی آنکھوں سے نہیں کانوں سے دیکھی جاتی ہے، ہم جو کر رہے ہیں، اس سے فرصت نہیں اور یہ کافی ہے''۔ انہیں سننے والوں کی رائے ہے کہ سیموئل گِل غیر فلمی موسیقی کے رشید عطرے ہیں۔
سیموئل گل 20 جولائی 1950 کو ولیئم گِل کے ہاں راول پنڈی کے علاقے لال کڑتی میں پیدا ہوئے، والد صاحب آرمی (ایم ای ایس) میں ملازمت کرتے تھے، نغمہ وشعرکا ذوق بھی رکھتے تھے اور شوق بھی۔ سیموئل صاحب نے آغاز اپنے والد کے تخلیق کیے گیتوں کی کمپوزنگ سے کیا۔
اسکول جانے کی عمر لگی تو لال کڑتی کے سنڈے پرائمری اسکول اور بعد میں کرسچیئن ہائی اسکول میں داخل کرائے گئے۔ موسیقی کا جنون تھا سو ایک وقت ایسا آیا کہ جنوں، رسم پر غالب آگیا اور انہوں نے آٹھویں جماعت کے بعد مکتب و مدرسہ کو سلام آخر کیا اور تن من سے موسیقی کے ہولیے۔
طبلہ ان کے عشق کی ابتدا تھا، ہارمونیم کی ریاضت اِس کے علاوہ ! والد صاحب کے پاس جو شاگرد موسیقی کا درس لینے آتے ان کو چُپ شاہ کی طرح دیکھتے اور سنتے، جہاں دھیان تھا وہاں گیان بھی جِلو میں جلوہ آراء۔ گیارہویں کا سن تھا کہ رمضان المبارک میں سحری کے لیے نعت اور درود و سلام پڑھنے والوں کے ایک طائفے میں شامل ہوگئے ''کوچہ گردی میں نعت پڑھتے ایک عجب سرشاری طاری ہوجاتی تھی'' یہ شوق بتیس سال کی عمر تک جاری رہا ''مجھے خوشی ہوتی تھی جب میری آواز سن کر لوگ روزہ رکھنے کے لیے جاگتے''۔ عید میلادِ نبیﷺ کے جلسے جلوسوں میں شرکت بھی معمول رہا۔ پندرہ برس کے ہوئے تو 'چرچ موسیقی' سے وابستہ ہوگئے۔ اسکولوں اورچرچ میں ہارمونیم بجانے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
انہوں نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے دو ہزار سے زیادہ گیتوں کی دھنیں ترتیب دیں، مندر، چرچ، گوردوارہ، اسکول اور حمد ونعت پر بے شمار کام اس کے علاوہ ہے، ان کے کام کا مکمل احاطہ کرنا دشوار ہے۔
ان کا دور اساتذہ سے براہ راست فیض پانے کا زمانہ تھا، آج کتاب، کیسٹ، سی ڈی اور کمپیوٹر کا عہد ہے، ہر شے انٹر نیٹ سے منتقل ہو جاتی ہے، غلطی ہو تو کمپیوٹر سافٹ ویئر کے ذریعے دور کر دی جاتی ہے۔ سیموئل گل آج کی نسل کو خوش قسمت قرار دیتے ہیں '' اب ریاضت پر تکنیک غالب آچکی ہے، جدید آلات پیرومرشد کا درجہ حاصل کر چکے ہیں لیکن جس طرح ان آلات کے ماڈل چند دن میں بدل جاتے ہیں، اسی طرح آج کا فن کار بڑے باجے گاجے کے ساتھ آتا ہے، چندے بہارِ جاں فزا دکھلاتا ہے اور کاغذی پھول کی طرح پہلی بارش میں جاتا رہتا ہے''۔
پاکستان کے بڑے موسیقاروں میں سیموئل گل کو نثار بزمی، اے حمید، ماسٹرعنایت، بابا جی اے چشتی، خواجہ خورشید انور اور بھارت کے نوشاد، آرڈی برمن، ایس ڈی برمن اور اے آر رحمٰن بہت پسند ہیں البتہ اپنے استاد جی کے برابر کسی کو نہیں مانتے۔ سر، تال اور لے کا فیض انہوں نے استاد عبدالقادر پیا رنگ خاں صاحب سے پایا۔ یاد رہے کہ پیا رنگ کا خطاب ان کے استاد محترم کو ان کی عظمت اور موسیقی کے میدان میں ان کی بے بہا خدمات کے اعتراف میں دیا گیا تھا، وہ ہی ان کے پہلے باقاعدہ استاد تھے۔
اُن کے بارے میں کہتے ہیں '' وہ کلاسیکل گائک تو تھے ہی، بے مثل استاد بھی تھے۔ میرا میلانِ طبع گائکی کے بہ جائے موسیقی کی بندشوں کی طرف زیادہ تھا، میں راگوں کی تلاش میں رہتا تھا، جن کو سامنے رکھ کر دھن بنائی جاسکے، کلاسیکی گائکی کو میں مشکل سمجھتا تھا، اِس لیے دھن تخلیق کرنا مجھے نسبتاً آسان اور زیادہ بہتر لگا، استاد محترم نے اِس کام کی جب اجازت دی تو یہ تلقین کی ''میاں راگوں سے پکی دوستی ہونی چاہیے''۔ استاد جی نے سر، تال اور لے کے ساتھ ساتھ میرا تلفظ بھی درست کرایا۔
وہ موسیقی کے کسی روایتی گھرانے کا نسب و حسب نہیں رکھتے تھے مگر یہ ان کی عظمت ہے کہ ہر گھرانا ان کو مانتا ہے۔ مشرقی بنگال کے بہت بڑے گائک استاد زاہد علی خان کے باقاعدہ شاگرد تھے، برہمنوں اور پنڈتوں سے بھی کسبِ فیض کیا۔ تقسیم ہند کے بعد کراچی اور حیدر آباد میں رہے۔ گلوکارہ ارونا لیلیٰ ان کی شاگرد تھیں، بشریٰ انصاری کی والدہ بھی اِن سے سیکھیں، خود بشریٰ انصاری نے بھی ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا، آل انڈیا ریڈیو کے کمپوزر وحید عثمانی بھی ان کے شاگردوں میں سے تھے۔
کراچی میں تھے تو ارونا لیلیٰ سے رقص کرنے پر ناراض ہو گئے، ان کا تجربہ تھا کہ رقص کی مشقت گلے کے رچاؤ کو بگاڑ دیتی ہے مگر ارونا لیلیٰ اپنی ضد پر اڑی رہیں، بس اِس نافرمانی پر ایسے ناراض ہوئے کہ کراچی چھوڑ دیا، پنڈی آ بسرام کیا اور زندگی کی شام تک اس شہر سے کہیں نہ گئے، مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ مجھ سے کبھی ناراض نہیں ہوئے، میں ان کے چہیتے شاگردوں میں سے تھا، شاید اِس لیے کہ مجھے ہارمونیئم اور طبلہ بجانا آتا تھا ۔۔۔ راگوں کا سارا علم استاد پیا رنگ صاحب نے ہی عطا کیا، راگ جے جے ونتی اور بھٹیار انہوں نے خاص طور پر مجھے سکھائے، اِن راگوں میں، میں نے جو دھنیں ترتیب دیں، وہ بے حد مقبول ہوئیں''۔ سیموئل گل نے استاد محفوظ کھوکھر صاحب سے بھی درس لیا جو، خود استاد عبدالقادر صاحب کے شاگرد ہیں۔
موسیقار سیموئل گل کے مطابق ''گلوکاروں کی آوازیں دو طرح کی ہوتی ہیں، ایک وہ جو محنت سے بنائی جاتی ہیں اور دوسری وہ جو بنا کر زمین پر اتاری جاتی ہیں، اُن پر محنت نہیں کرنا پڑتی، یہ خدا کا عطیہ ہوتی ہیں، میری آواز دوسری قسم میں شمار ہوتی تھی، میں آواز کو بچانے کے لیے کھانے پینے میں کبھی احتیاط نہیں کرتا تھا جب کہ بہت سے نام ور گلوروں کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے''۔
موسیقار سیموئل گل ریڈیو پاکستان راول پنڈی سے دس سال بہ طور کمپوزر اور سنگر منسلک رہے ، پی ٹی وی پر انہیں اے کلاس آرٹسٹ لیا گیا۔ اس کے بعد 80 کی دہائی میں جب انہوں نے حکومت کے زیر اہتمام کیسٹ ریکارڈنگ کا پراجیکٹ شروع کیا تو انہیں خان صاحب مہدی حسن ، غلام علی، غلام عبا س، مہناز، ناہید اختر، افشاں، ترنم ناز، حمیرا چنا، حمیرا ارشد، اے نیئر، انور رفیع کے علاوہ درجنوں نام ور گلوکاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ 1972 میں ٹیلی ویژن کے لیے انہوں نے جو پہلی کمپوزیشن بنائی اُسے مجیب عالم نے گایا، جب لاہور میں بڑے گلوکاروں کے ساتھ کام کر رہے تھے تو فلم انڈسٹری نے سلور سکرین کے لیے آفر کی مگر انہوں نے نعت، حمد، ترانہ، بھجن، گیت، غزل، اشلوک اور چرچ کی موسیقی کے لیے کام کرنے کو ترجیح دی۔
کہتے ہیں '' بین المذاہب ہم آہنگی میرا مشن تھا اور اس راہ پر میں اب تک گام زن ہوں، اِس کام کے لیے خدا نے مجھے 50 سال قبل ہی ذمہ داریاں سونپ دی تھیں، گو کہ یہ کام اب بڑے بڑے ادارے کر رہے ہیں مگر میں نے مذاہب کے درمیان بھائی چارے کا راز بہت پہلے پا لیا تھا''۔ مذاہب میں موسیقی کے انگ پر کہتے ہیں ''موسیقی بھی خدا سے تعلق کا ایک راستہ ہے، دل صاف ہو، کدورت دھل جائے تو اُس ذات کو سر، لے یا تال کے ذریعے یاد کرنے سے وہ خوش ہوتی ہے۔ ملک سے میوزک کو ختم نہیں ہونا چاہیے، موسیقی انسان کو سکون دیتی ہے کیوں کہ یہ نوے فی صد انسانوں کی ضرورت ہے، اس بات کو کوئی مانے یا نہ مانے''۔
مو سیقار سیموئل گل دو سال کے تھے تو والدہ دار فانی سے رخصت ہوچکی تھیں، اِس لیے چار بھائیوں اور دو بہنوں کو ان کے والد نے ماں اور باپ بن کر پالا پوسا۔ بچپن میں گم سم بچے کی حیثیت سے شناخت بنائی، شرارت کرنا تو دور کی بات شرارت دیکھی بھی نہیں جاتی تھی، سدا کے شرمیلے ہیں، اب تک اِس ''خوبی'' سے متصف ہیں، اپنے کام کے علاوہ کوئی کام نہیں آتا۔ خود کہتے ہیں''میں سنگل ٹریک آدمی ہوں، عمر گزر گئی گاڑی تو درکنار موٹر سائیکل چلانا بھی نہیں آتا۔ سیکھتا کیا، بچپن سے لے آج تک دھن بنانے کے علاوہ کوئی اور کام ہی نہیں کیا سو کچھ اور نہیں آتا مجھے، میں تو اپنے جوتے اور کپڑے تک نہیں خرید سکتا، کھانے پینے میں جو مل جائے، خدا کا شکر ادا کرتا ہوں، آج تک فرمائش نہیں کی ، شاید اسی لیے میں خود کو ناکام نہیں سمجھتا، اللہ تعالیٰ کا نام کسی زبان، کسی انگ، رنگ میں لیا جائے، ناکامی نہیں ہوتی، ہوش سنبھالنے کے بعد اسی ایک نام کی مالا جاپی، مسلم ہوں، ہندو ہوں، سکھ یا عیسائی، سب نے مجھے دعا ہی دی ہے، جہاں بھی گایا یا بجایا، واہ واہ سے زیادہ دعائیں ملیں، یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ 30 سال کی عمر میں شادی ہوئی، شادی کے بعد اللہ کی ایسی مہربانی ہوئی کہ آج تک کام ملنا بند نہیں ہوا، ان دعاؤں کی وجہ سے مجھے بیوی کے روپ میں ایک بڑے ظرف اور حوصلے کی مالک خاتون ملیں''۔
بچپن کی ایک خواہش بیان کرتے ہیں '' نہ جانے کیوں دل میں ایک خواہش جاگی کہ پاکستان کے نام ور گلوکار میری کمپوزیشن میں گائیں، میرے خدا نے میری یہ خواہش پوری کردی اور گانے والوں نے بھی خوش ہو کر گایا، گانے والوں کی یہ خوشی شاید اس لیے تھی کہ جب موسیقار کو راگ کے موڈ کا علم ہو کہ موقع کی نزاکت کیا ہوتی ہے، خوشی کیا اور غم کسے کہتے ہیں؟ تو خوشی آ ہی جاتی ہے، اُس کے بعد لفظ اور شاعری آتی ہے، جب شاعری کا چناؤ ہو جائے تو راگ کے موڈ کی پہچان مزید آسان ہو جاتی ہے۔ میرے ساتھ یوں بھی ہوا کہ ایک دھن بنائی لیکن یہ معلوم نہ ہوا کہ کس راگ میں بنی، استاد جی نے دھن سنی تو فوراً بتایا کہ ارے یہ تو فلاں راگ ہے، کیا اس راگ کی تعلیم لی ہے؟ میں چپ ہو جاتا تو مسکرا پڑتے، اسی طرح میں نے ایک پنجابی گیت ''تیری راہواں تک تک ہارے، سجنا ساڈے نین وچارے''کی کمپوزیشن بنائی تو مجھے اُس کے راگ کا علم نہیں تھا، استاد جی نے سنا تو بتایا کہ یہ تو راگ ایمن ہے، اس پر انہوں نے مجھے شاباس دی اور کہا کہ یہ توفیق ہر کسی کو نہیں ہوتی، یہ اللہ کی دین ہے۔
ایک دن استاد جی دردِ شکم میں مبتلا بستر پر لیٹے تھے، میں نے ان کی دل جوئی کے لیے بھارت کے ایک شاعر کی پنجابی غزل ''مینوں تیرا شباب لے بیٹھا، رنگ چہرہ گلاب لے بیٹھا'' ہارمونیم کے ساتھ چھیڑ دی، یہ دھن میں نے راگ مال کونس میں ترتیب دی تھی، استاد جی نے مکھڑا سنا تو درد ورد بھول گئے، اٹھے اور طبلے پر سنگت دینا شروع کردی، غزل ختم ہوئی تو پوچھا کہ دھن کس کی تھی؟ میں نے سر جھکا دیا، حیران ہوئے، فرمایا کمال ہو گیا، دراصل اس راگ میں ایک نکھاد لگتا ہے، دوسرا نہیں ، میں نے دونوں لگا دیے تھے اور ساتھ ہی دونوں گتیں بھی لگائی تھیں، جس سے راگ کی ایک نئی شکل بن گئی تھی، استاد جی اس تجربے پر اتنے خوش ہوئے کہ دوسرے دن خود ریڈیو پاکستان جا کر کے ڈائریکٹر خواجہ صاحب کو سنائی''۔
موسیقار سیموئل گل فوک گلوکار طفیل نیازی، مہدی حسن، میڈم نور جہاں اور نصرت فتح علی خان کو پاکستان کا سرمایا کہتے ہیں لیکن وہ افسوس کرتے ہیں کہ میڈم نور جہاں کی آواز میں ان کی کوئی دھن گائی نہ جا سکی، میڈم کی مصروفیت ان کے آڑے آتی رہی ، اسی طرح انہوں نے نصرت فتح علی خان کے لیے ایک دھن ترتیب دی مگر وہ امریکا میں اپنی مصروفیت کے باعث پاکستان پہنچ نہ سکے البتہ ایک ریکارڈنگ کے دوران نصرت فتح علی نے سیموئل گل کی دھنوں کی دل کھول کر تعریف کی تھی۔
سیموئل گل طبلہ نواز استاد اللہ رکھا اور استاد شوکت خان سے غائبانہ اکتساب کا اقرار کرتے ہیں، استاد عبدالستار خان تاری کے مداح ہیں، ان کے بہ قول استاد تاری کے دونوں ہاتھوں میں سر اور تال ہے لیکن استاد طافو خان کے ہاتھوں کی جو لپک ہے وہ، باید و شاید ہے، وہ طبلے کو موسیقی کا بنیادی ساز قرار دیتے ہیں ''یہ ساز، تال سے وابستہ ہے جب کہ سُر ان دیکھا ہوتا ہے، اِس کا کوئی وجود نہیں ہوتا، صرف محسوس کیا جا سکتا ہے لیکن تال کی ایک ٹھوس شکل ہوتی ہے جس میں، ماترے بھی شامل ہوتے ہیں، میں نے طبلے کے چاروں گھرانوں سے استفادہ کیا ہے، استاد غلام حسن شگن کے ساتھ ایک بار ریڈیو پر ''ایک تالے'' پر طبلے کی سنگت کا موقع ملا، انہوں نے مجھے بڑی داد دی جو، میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے''۔
موسیقار سیموئل گل کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے، بڑے بیٹے سوشیل گل کو گانے کا شوق ہے اور وہ خود ہی اُس کی تربیت کر رہے ہیں۔ میوزک کی آدھی صدی خدمت کرنے کے صلے میں راول پنڈی اسلام آباد چرچ آرگنائزیشن نے موسیقار سیموئل گل کو سال 2012 میں ''Living Legend'' کا خطاب پیش کیا، اس کے علاوہ چھے دیگر ایوارڈ بھی ان کو پیش کیے جا چکے ہیں۔ اِن میں نیشنل کلچر ایوارڈ بھی شامل ہے، حکومت پنجاب نے ان کو Life Achievement Award بھی پیش کیا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے انہوں نے فشار خون اور سلسل بول کے عارضے میں مبتلا ہوگئے جس کے باعث طویل عرصہ تک کام چھوڑے رکھا مگر بحمداللہ اب صحت یاب ہو کر کام کی طرف لوٹ آئے ہیں۔ ان امراض سے جان خلاصی میں مدد دینے پر اپنے ایک شاگرد جاوید نذیر کی بہت تعریف کرتے ہیں، بہ قول ان کے اِس شاگرد کی کوششوں نے میری اوور ہالنگ کردی ہے۔