ایک تجربہ مل بیٹھنے کا بھی کرلیں

اپنے مسائل پر غور کریں اور گروہی مفاد سے اوپر اٹھ کر قومی مفاد میں کوئی فیصلہ کریں


فاروق عادل January 03, 2022
[email protected]

کراچی: آزمائش بھی ایک نعمت ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان کی تخلیقی صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں اور وہ کوئی نہ کوئی نیا کام کر گزرتا ہے۔ کوئی ایسا نیا اور اچھا کام جو انسانیت کی فلاح کا باعث بنے۔ ایک ایسا ہی تجربہ لاہور میں ہوا ہے۔ وسطی پنجاب کی دھند نے زندگی مشکل بنا دی ہے۔

عمر فاروق میرے عزیز بھی ہیں اور دوست بھی۔ نان شبینہ کے لیے سرکار کی ملازمت کرتے ہیں۔ روحانی احتیاج قبلہ صوفی صاحب مرحوم کی رہنمائی میں پوری کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کے پاس بہت سا وقت بچ رہتا ہے۔ یہ وقت تخلیقی سرگرمیوں کی نذر کر دیتے ہیں۔ صرف اپنے گھر کو ہی سنوارتے سجاتے نہیں رہتے، موسم اور محل وقوع کے مطابق گھروں کے نقشے تیار کرتے ہیں۔ کچھ اس طرح کہ گھر میں قیام کچھ مزید اچھا اور آرام دہ ہو جائے۔ اپنی ان ہی تخلیقی صلاحیتوں کے باعث وہ مجھے بہت عزیز رہتے ہیں۔ گزشتہ روز کسی کام کے سلسلے میں ان کا اسلام آباد آنا ہوا۔ ازراہ محبت ملنے بھی آئے مگر چائے تک کے لیے نہیں رکے۔ شکل دکھائی اور یہ جا وہ جا۔ انھیں خوف تھا کہ موٹر وے پر دھند چھا جائے گی، اس کے بعد جانے کیا کیا مشکلات درپیش ہوں۔

آفتاب اقبال میرے زمانہ طالب علمی کے دوست ہیں۔ شعر و ادب کے طالب علم تھے۔ صحافت کو وظیفہ زندگی بنایا۔ یہ شعبہ جلد ہی سوکھ جائے گا اور اپنے متعلقین کا نان نفقہ پورا نہ کر پائے گا۔ اس کا اندازہ انھیں بہت پہلے ہو گیا تھا۔ لہٰذا یہ شعبہ چھوڑ کر ڈیویلپمنٹ سیکٹر سے منسلک ہوئے۔ اس شعبے میں بھی خوب نام پیدا کیا۔ وہ بتا رہے تھے کہ اس دھند نے کہیں کا نہیں چھوڑا، چند دن ہوتے ہیں کہ لاہور میں ان کی ایک بزرگ وفات پا گئیں۔ سبب یہی دھند بنی۔

دھند کی تباہ کاری کی یہ دو مثالیں میرے دائیں بائیں سے ہیں۔دھند سے پیدا ہونے والے اگر محض انسانی مسائل کی فہرست ہی مرتب کرنی شروع کر دیں تو ایک دفتر وجود میں آ جائے گا۔ دھند کی اسی بڑھی ہوئی ہلاکت خیزی میں واسا لاہور کے سربراہ کا تخیل جاگا۔ ان کے ذہن میں آیا کہ کیوں نہ عوام کو سائیکل سواری کی طرف متوجہ کیا جائے۔ اس بھولی بسری سواری کے احیا سے آلودگی کا خاتمہ تو ہو گا ہی، ایک صحت مندانہ سرگرمی بھی فروغ پائے گی۔ بس، انھوں نے یہ سوچا اور فیصلہ کر لیا۔ فیصلہ یہ تھا کہ ادارے کے ذمے داران ان کی قیادت میں سائیکل پر سوار ہو کر دفتر پہنچا کریں۔ یہ ایک اچھا فیصلہ تھا۔ اس پر عمل درآمد بھی ہو گیا۔ سائیکل سواروں کا یہ قافلہ پیڈل مارتا ہوا فاصلے طے کرتا اچھا لگا لیکن ان ہی مناظر میں ایک منظر پریشان کر دینے والا بھی تھا۔

سائیکل سواروں کے اس قافلے نے اپنے جوش و خروش میں ایک اہم بات نظر انداز کر دی۔ ان کی سائیکلیں عین وسط سڑک کے فراٹے بھر رہی تھیں۔ وہ بھی اس طرح کہ ان کے پیچھے آنے والی تیز رفتار ٹریفک کا راستہ مسدود ہو چکا تھا۔ہماری کچھ ایسی ہی خوبیاں ہیں جنھیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہم لوگ یک رخے ہیں۔ یہ ہمارا یک رخا پن ہی ہے کہ اگر ہم ایک اچھا کام کرتے تو اس کے ساتھ کوئی دوسری مصیبت کھڑی ہو جاتی ہے۔ ایسا مزاج صرف دھند سے نمٹنے کاراستہ دکھانے والوں کا نہیں۔ ہم سب کا ہے۔ زندگی کا ہر شعبہ اس سے متاثر ہے۔

ابھی تھوڑے دن ہوتے ہیں۔ آصف علی زرداری بولے۔ کہا کہ یہ ملک دراصل فارمولا گزیدہ ہے۔ یہی فارمولے ہیں جن کی وجہ سے یہ ملک مسائل کی آماجگاہ بنا۔ ہوتے ہوتے یہ مسائل ایک دلدل کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ ایک ایسی دلدل جس میں ہم فقط گھرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ دھنستے جارہے ہیں۔ ذرا گہرائی سے جائزہ لیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ دلدل بھی ہماری اپنے دیس کے ساتھ محبت، حد سے بڑھے ہوئے احساس فرض شناسی اور غیر معمولی تحرک کا نتیجہ ہے۔

مطلب یہ ہے کہ ہم لوگ وہ کام بھی اپنے ہاتھ میں لینے سے نہیں چوکتے جو ہمارا نہیں۔یہی سبب ہے کہ خرابی جنم لیتی ہے۔ خرابی بھی پہلے سے بڑھ کر اور نتائج کے اعتبار سے ہلاکت خیز۔ ہم نے سوچا کہ باریوں کے چکر سے اس ملک کو نکالیں اور کوئی نیا تجربہ کریں۔ اب اس تجربے سے لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ اب یہ تجربہ تجربہ نہیں رہا۔ درویش کا کمبل بن چکا ہے۔

اتارنا چاہیں تو اتار نہیں سکتے۔ رہ گیا اوڑھنا تو یہ بھی بس میں نہیں رہا۔ایسے ہی مسائل ہوتے ہیں جن میں نئے فارمولوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایک فارمولا، دوسرا فارمولا، ایک ایک کر کے ہم تجربے کرتے جاتے ہیں لیکن بات بنتی دکھائی نہیں دیتی۔سبب کیا ہے؟ سبب یہ ہے کہ ہر فارمولے کے بیچ ایک ایسا خلا رکھ دیا جاتا جس کی وجہ سے سیدھا چلتے چلتے کوئی رکاوٹ پڑتی ہے اور راستہ کھوٹا ہو جاتا ہے۔

اس بار بھی یہی کچھ ہوا۔ معیشت کی تباہی کی وجہ سے جب ہمارا وجود تک خطرے میں پڑ گیا تو ہم نے اصلاح کی ٹھانی۔ غلطیوں کے ازالے کی کوشش کی۔ اس مبارک کوشش میں پھر ایک اڑچن آ گئی۔ توسیع کی خواہش نے اچھے خاصے آگے بڑھتے ہوئے معاملے میں اڑ چن ڈال دی۔ یہ اڑچن پڑی تو دائیں بائیں میں بھی کچھ حرکت پیدا ہوئی۔ سوچا گیا کہ آٹھ نو مہینے یوں ہی کسی حیلے بہانے سے گزار لیے جائیں اور کوشش کی جائے کہ معاملہ تقرر تک جا پہنچے۔ ایک ایسا تقرر جس کی خواہش کئی فریق رکھتے ہیں۔

یوں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ نیا تجربہ کامیاب ہو چاہے نہ ہو، اسے مہلت مل جائے گی، ممکن ہے کہ ایک اور ٹرم بھی مل جائے۔ معیشت کی دھند جائے بھاڑ میں، یہ چھٹے نہ چھٹے، اس سے فرق کیا پڑتا ہے۔ کاش، کسی دھند میں کوئی ایسا خیال بھی جنم لے جس کے نتیجے میں باہم مل بیٹھیں۔ اپنے مسائل پر غور کریں اور گروہی مفاد سے اوپر اٹھ کر قومی مفاد میں کوئی فیصلہ کریں۔ ایسا فیصلہ جس کے بعد یہ قوم سراٹھا کر کھڑی ہو سکے۔ آخر بنگلہ دیش والے بھی تو ایسا کر گزرے ہیں۔ ہم میں ایسی کیا کمی ہے جو ہم ایسا نہیں کر سکتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔