کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ
ساری دنیا میں کورونا وبا کی وجہ سے ایک بار پھر پٹرول سستا ہوگیا لیکن ہمارے عوام اس سہولت سے بھی محروم ہیں
عجیب زمانہ اوردور آگیاہے کہ سچ اور جھوٹ کی تمیز ہی ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ہرشخص خود کو سچااور صادق اوردوسرے کو جھوٹا اورکاذب سمجھ رہا ہے۔سیاسی روایت رہی ہے کہ سیاستدان ہمیشہ وزارت کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے بہت کچھ کہاکرتے تھے اور حکومت کی اقتصادی پالیسیوں پر گہری تنقید کیاکرتے تھے کہ مجھ جیسے تمام سادہ اورکم علم رکھنے والے یہ سمجھ بیٹھے کہ واقعی وہ جوکچھ کہہ رہے ہیں درست اورسچ ہے اوراگر انھیں موجودہ وزیر کی جگہ وزیر لگادیاجائے تو وہ پاکستان کو موجودہ مشکلوں سے یقیناً باہر نکال لینگے اور بعض مرتبہ خداکا کرنا ایسا ہوا کہ وہ اپنے اِن تنقیدی بیانوں کے فوراً بعد مشیریا وزیر بھی بنادیے گئے۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ آج کے وزیر بھی حکومت اورIMF کے درمیان طے ہونے والے معاملات کو درست سمت میں نہیں دیکھ رہے تھے اوراپنی جانب سے ایسے دعوے کررہے تھے کہ جیسے اگر انھیں یہ ذمے داری دے دی جائے تووہ شاید کچھ بہتر طریقے سے اورکچھ آسان شرائط پرIMF سے مالیاتی پیکیج حاصل کرلینگے۔ مگر دیکھایہ گیا کہ سابقہ تین وزراء خزانہ کی نسبت ہمارے موجودہ محترم وزیرخزانہ نے قوم اور حکومت کو اور بھی مشکلوں میں جکڑ کر رکھ دیا ہے۔ صرف ایک ارب ڈالر کی قسط وصول کرنے کے لیے وہ شرائط مان لی گئی ہیں جو ملک کی ستر سالا تاریخ میں کبھی نہیں مانی گئیں۔
پچھلے برس سالانہ بجٹ پیش کرتے ہوئے موصوف مشیر خزانہ نے قوم سے کوئی نیا یا منی بجٹ نہ لانے کا خوش کن وعدہ بھی کر ڈالاتھا جس کامن وعن ایفاء عہدہم اب اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں مالیاتی بل کے نام پر ایک منی بجٹ پیش کردیاگیاہے جس کی تشریح کے لیے حکومت کی وزارت خزانہ کی ایک ٹیم اپنے وفاقی وزیرخزانہ کی سربراہی میں کچھ دن پہلے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہی تھی کہ اس منی بجٹ سے مہنگائی کاکوئی سیلاب یاسونامی نہیں آنے والا۔ یہ تو مجموعی طور پرصرف دوارب روپے کا بجٹ ہے اوراس دوارب روپوں سے کون سی مہنگائی آجانے والی ہے ۔
اعدادوشمار کاگورکھ دھندہ پیش کرتے ہوئے سمجھ نہیں آرہاتاکہ وہ قوم کو اتنا بے وقوف یانادان سمجھ رہے تھے کہ 343 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگاکر بھی عوام اُن کی اِن میٹھی میٹھی باتوں پر من وعن یقین کرلینگے۔یا پھر وہ شاید IMF کے اہل کاروں کوبھی اتنا جاہل اوران پڑھ سمجھ رہے تھے کہ وہ دوارب روپوں کے اس منی بجٹ پر خوش ہوکر فوراً ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کردینگے۔
بجٹ کے اعدادوشمار کبھی بھی عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آتے۔ حکومت جس طرح چاہے ناک کو سامنے سے پکڑلے یا ہاتھ سر کے پیچھے سے گھما کر پکڑلے بیچارے عوام انھیں چیلنج نہیں کرسکتے۔ سوال یہ ہے کہ بات اگر صرف دو ارب روپے کے اضافی ٹیکسوں کی ہوتی تو حکومت کو اتنے پاپڑ کیوں بیلنے پڑتے۔کیوں دو مہینوں سے سرجوڑ کر بیٹھنا پڑتا اور کیوں اپنے اتحادیوں کو ساتھ رکھنے کے جتن کرنے پڑتے۔بات اگر اتنی سادہ ہوتی تو عوام کی طرف سے کسی ری ایکشن کا خوف کیوں طاری ہوتا۔ یہ سب توجیہات پیش کرتے ہوئے وزیر صاحب کا چہرہ اورلب ولہجہ اُن کے بیانوں کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ لیکن کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی نوکری بچانے کی فکر میں سرگرداں ہیں ۔
ہر حکومت کے پاس مہنگائی کااثر متوسط اور غریب طبقے پر نہ ڈالنے کا ایک حربہ ہوتاہے جسے سبسڈی کانام دیاجاتاہے۔ یہ سبسڈی ایک ایسا دلفریب حربہ ہے جو ہر حکومت بڑی فراخدلی سے استعمال کرتی ہے۔ وہ اسے استعمال کرکے نجانے کسے بیوقوف بنارہی ہوتی ہے ۔غریب اورسادہ لوح عوام کو یاپھر اپنے غیر ملکی آقاؤں کو۔کیونکہ سبسڈی کا ڈول ڈال کر عوام سے یہ کہاجاتاہے کہ مجوزہ مہنگائی کااثر غریب عوام پر نہیں پڑے گااوراُسے سے سبسیڈائزڈ ریٹ پر کھانے پینے کی تمام اشیاء یوٹیلیٹی اسٹور سے باآسانی دستیاب ہونگی۔ یہ باآسانی عمل کتنا مشکل اورتکلیف دہ ہوتاہے یہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔
عوام ایک یادوکلوچینی کے لیے ساراسارادن لائنوں میں کھڑے ہوکر ذلیل وخوار ہوتے ہیں جب جاکہ انھیں کوئی بیس تیس روپے کامجموعی فائدہ ممکن ہوتا ہے۔پھر حکومت جب چاہتی ہےIMF کی شرائط کا بہانہ بناکر اس سبسڈی کو واپس بھی لے لیتی ہے جیساکہ حالیہ منی بجٹ یا مالیاتی بل کو لاتے ہوئے کیاجارہاہے۔حکومت نے ایک طرف تمام ضروری اشیاء پر دی جانے والی سبسڈی ختم کردی ہے تودوسری جانب 343ارب روپے کے نئے اضافی ٹیکس لگاکرعوام پر مہنگائی کے جوپہاڑ توڑے ہیں اُسے صرف دوارب کابناکر پیش کرنے کو ہمارے وزیر صاحب کا حسن کرشمہ ساز ہی کہا جاسکتا ہے۔
ابھی یہ مالیاتی بل پارلیمنٹ سے منظور بھی نہیں ہوا ہے لیکن IMF کی شرائط پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے۔ پٹرول پر لیوی میں اضافہ تو دسمبر کی پہلی تاریخ سے ہی کر دیاگیاہے۔ ہر ماہ 4 روپے اضافہ کرنے کی تجویز تھی مگر ہماری یہ حکومت جسے اپنے عوام کا بہت دکھ درد ہے ہر پندرہ دن بعد لیوی میں اضافہ کرکے یعنی ایک مہینے میں 8 روپے بڑھاکر IMF کے اہل کاروں کو اتنا خوش کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ وہ فوراً اُسے ایک ارب ڈالر کے بجائے دو ارب دینے پرراضی ہوجائیں گے۔
ساری دنیا میں کورونا کی نئی وباء کی وجہ سے ایک بار پھر پٹرول سستا ہوگیا لیکن ہمارے عوام اس سہولت سے بھی محروم کردیے گئے ہیں۔حکومت کو معلوم ہے کہ اُس کے سرپر جب تک مہربانوں کاہاتھ موجود ہے اُسے ایسے کسی اقدام سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پارلیمنٹ میں عددی برتری کے ساتھ وہ ہر بل باآسانی پاس کرواسکتی ہے ۔
اُس کے اتحادی بھی ان افعال میں اس کاساتھ اس وقت تک نبھاتے رہیں گے جب تک کہ کوئی منفی اشارہ نادیدہ قوتو ں کی جانب سے نہیں مل جاتا۔اپوزیشن چاہے لاکھ جتن کرلے لیکن بظاہر کمزور نظر آنے والی یہ حکومت ایک مضبوط حکومت کی طرح اپنا ہر بل پارلیمنٹ سے منظورکروالے گی۔پچھلے بلوں کی طرح اس بار بھی ایسا ہی ہوگا۔حکومت اپنا کام کرجائے گی اوراپوزیشن صرف شور مچاتی رہ جائے گی۔گویا ثابت ہوگیاکہ طاقت کامنبع پارلیمنٹ نہیں بلکہ کوئی اورہے۔یہاں دو تہائی اکثریت والی حکومت بھی چند منٹوں میں زیر کی جاسکتی ہے اور سادہ اکثریت نہ رکھنے والی حکومت بھی بڑی آسانی سے نہ صرف اپنے تمام کام سرانجام دے سکتی ہے بلکہ پانچ سال بھی پورے کرسکتی ہے۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ آج کے وزیر بھی حکومت اورIMF کے درمیان طے ہونے والے معاملات کو درست سمت میں نہیں دیکھ رہے تھے اوراپنی جانب سے ایسے دعوے کررہے تھے کہ جیسے اگر انھیں یہ ذمے داری دے دی جائے تووہ شاید کچھ بہتر طریقے سے اورکچھ آسان شرائط پرIMF سے مالیاتی پیکیج حاصل کرلینگے۔ مگر دیکھایہ گیا کہ سابقہ تین وزراء خزانہ کی نسبت ہمارے موجودہ محترم وزیرخزانہ نے قوم اور حکومت کو اور بھی مشکلوں میں جکڑ کر رکھ دیا ہے۔ صرف ایک ارب ڈالر کی قسط وصول کرنے کے لیے وہ شرائط مان لی گئی ہیں جو ملک کی ستر سالا تاریخ میں کبھی نہیں مانی گئیں۔
پچھلے برس سالانہ بجٹ پیش کرتے ہوئے موصوف مشیر خزانہ نے قوم سے کوئی نیا یا منی بجٹ نہ لانے کا خوش کن وعدہ بھی کر ڈالاتھا جس کامن وعن ایفاء عہدہم اب اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں مالیاتی بل کے نام پر ایک منی بجٹ پیش کردیاگیاہے جس کی تشریح کے لیے حکومت کی وزارت خزانہ کی ایک ٹیم اپنے وفاقی وزیرخزانہ کی سربراہی میں کچھ دن پہلے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہی تھی کہ اس منی بجٹ سے مہنگائی کاکوئی سیلاب یاسونامی نہیں آنے والا۔ یہ تو مجموعی طور پرصرف دوارب روپے کا بجٹ ہے اوراس دوارب روپوں سے کون سی مہنگائی آجانے والی ہے ۔
اعدادوشمار کاگورکھ دھندہ پیش کرتے ہوئے سمجھ نہیں آرہاتاکہ وہ قوم کو اتنا بے وقوف یانادان سمجھ رہے تھے کہ 343 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگاکر بھی عوام اُن کی اِن میٹھی میٹھی باتوں پر من وعن یقین کرلینگے۔یا پھر وہ شاید IMF کے اہل کاروں کوبھی اتنا جاہل اوران پڑھ سمجھ رہے تھے کہ وہ دوارب روپوں کے اس منی بجٹ پر خوش ہوکر فوراً ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کردینگے۔
بجٹ کے اعدادوشمار کبھی بھی عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آتے۔ حکومت جس طرح چاہے ناک کو سامنے سے پکڑلے یا ہاتھ سر کے پیچھے سے گھما کر پکڑلے بیچارے عوام انھیں چیلنج نہیں کرسکتے۔ سوال یہ ہے کہ بات اگر صرف دو ارب روپے کے اضافی ٹیکسوں کی ہوتی تو حکومت کو اتنے پاپڑ کیوں بیلنے پڑتے۔کیوں دو مہینوں سے سرجوڑ کر بیٹھنا پڑتا اور کیوں اپنے اتحادیوں کو ساتھ رکھنے کے جتن کرنے پڑتے۔بات اگر اتنی سادہ ہوتی تو عوام کی طرف سے کسی ری ایکشن کا خوف کیوں طاری ہوتا۔ یہ سب توجیہات پیش کرتے ہوئے وزیر صاحب کا چہرہ اورلب ولہجہ اُن کے بیانوں کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ لیکن کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی نوکری بچانے کی فکر میں سرگرداں ہیں ۔
ہر حکومت کے پاس مہنگائی کااثر متوسط اور غریب طبقے پر نہ ڈالنے کا ایک حربہ ہوتاہے جسے سبسڈی کانام دیاجاتاہے۔ یہ سبسڈی ایک ایسا دلفریب حربہ ہے جو ہر حکومت بڑی فراخدلی سے استعمال کرتی ہے۔ وہ اسے استعمال کرکے نجانے کسے بیوقوف بنارہی ہوتی ہے ۔غریب اورسادہ لوح عوام کو یاپھر اپنے غیر ملکی آقاؤں کو۔کیونکہ سبسڈی کا ڈول ڈال کر عوام سے یہ کہاجاتاہے کہ مجوزہ مہنگائی کااثر غریب عوام پر نہیں پڑے گااوراُسے سے سبسیڈائزڈ ریٹ پر کھانے پینے کی تمام اشیاء یوٹیلیٹی اسٹور سے باآسانی دستیاب ہونگی۔ یہ باآسانی عمل کتنا مشکل اورتکلیف دہ ہوتاہے یہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔
عوام ایک یادوکلوچینی کے لیے ساراسارادن لائنوں میں کھڑے ہوکر ذلیل وخوار ہوتے ہیں جب جاکہ انھیں کوئی بیس تیس روپے کامجموعی فائدہ ممکن ہوتا ہے۔پھر حکومت جب چاہتی ہےIMF کی شرائط کا بہانہ بناکر اس سبسڈی کو واپس بھی لے لیتی ہے جیساکہ حالیہ منی بجٹ یا مالیاتی بل کو لاتے ہوئے کیاجارہاہے۔حکومت نے ایک طرف تمام ضروری اشیاء پر دی جانے والی سبسڈی ختم کردی ہے تودوسری جانب 343ارب روپے کے نئے اضافی ٹیکس لگاکرعوام پر مہنگائی کے جوپہاڑ توڑے ہیں اُسے صرف دوارب کابناکر پیش کرنے کو ہمارے وزیر صاحب کا حسن کرشمہ ساز ہی کہا جاسکتا ہے۔
ابھی یہ مالیاتی بل پارلیمنٹ سے منظور بھی نہیں ہوا ہے لیکن IMF کی شرائط پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے۔ پٹرول پر لیوی میں اضافہ تو دسمبر کی پہلی تاریخ سے ہی کر دیاگیاہے۔ ہر ماہ 4 روپے اضافہ کرنے کی تجویز تھی مگر ہماری یہ حکومت جسے اپنے عوام کا بہت دکھ درد ہے ہر پندرہ دن بعد لیوی میں اضافہ کرکے یعنی ایک مہینے میں 8 روپے بڑھاکر IMF کے اہل کاروں کو اتنا خوش کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ وہ فوراً اُسے ایک ارب ڈالر کے بجائے دو ارب دینے پرراضی ہوجائیں گے۔
ساری دنیا میں کورونا کی نئی وباء کی وجہ سے ایک بار پھر پٹرول سستا ہوگیا لیکن ہمارے عوام اس سہولت سے بھی محروم کردیے گئے ہیں۔حکومت کو معلوم ہے کہ اُس کے سرپر جب تک مہربانوں کاہاتھ موجود ہے اُسے ایسے کسی اقدام سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پارلیمنٹ میں عددی برتری کے ساتھ وہ ہر بل باآسانی پاس کرواسکتی ہے ۔
اُس کے اتحادی بھی ان افعال میں اس کاساتھ اس وقت تک نبھاتے رہیں گے جب تک کہ کوئی منفی اشارہ نادیدہ قوتو ں کی جانب سے نہیں مل جاتا۔اپوزیشن چاہے لاکھ جتن کرلے لیکن بظاہر کمزور نظر آنے والی یہ حکومت ایک مضبوط حکومت کی طرح اپنا ہر بل پارلیمنٹ سے منظورکروالے گی۔پچھلے بلوں کی طرح اس بار بھی ایسا ہی ہوگا۔حکومت اپنا کام کرجائے گی اوراپوزیشن صرف شور مچاتی رہ جائے گی۔گویا ثابت ہوگیاکہ طاقت کامنبع پارلیمنٹ نہیں بلکہ کوئی اورہے۔یہاں دو تہائی اکثریت والی حکومت بھی چند منٹوں میں زیر کی جاسکتی ہے اور سادہ اکثریت نہ رکھنے والی حکومت بھی بڑی آسانی سے نہ صرف اپنے تمام کام سرانجام دے سکتی ہے بلکہ پانچ سال بھی پورے کرسکتی ہے۔