میرٹ پر یقین رکھنے والا آدمی ہوں ڈاکٹر پرویز احمد سیہڑ

سیکریٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی، سندھ اور ایم ڈی نساسک، ڈاکٹر پرویز احمد سیہڑ کی کہانی

سیکریٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی، سندھ اور ایم ڈی نساسک، ڈاکٹر پرویز احمد سیہڑ کی کہانی۔ فوٹو : فائل

سندھ کی مٹی میں کیسی تاثیر ہے۔ ذرے کو آفتاب بنا دیتی ہے۔ گم ناموں کو نام وری بخشتی ہے۔ موئن جودڑو جیسی زرخیز تہذیب یہیں پروان چڑھی۔ ڈاکٹر پرویز احمد سیہڑ بھی اس کی تاثیر کے قائل ہیں۔ خود اُنھوں نے سندھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں آنکھ کھولی، اور آج بیوروکریسی کی دنیا میں نام کما رہے ہیں۔

صوبائی سیکریٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی کے منصب پر وہ فائز ہیں۔ مینیجنگ ڈائریکٹر نساسک کا عہدہ بھی اُن کے پاس ہے۔ چار اضلاع کی چھے تحصیلوں میں صفائی ستھرائی اور نکاسی و فراہمی کے مسائل سلجھانے میں مصروف ہیں۔ پراجیکٹ ڈائریکٹر، سندھ سٹیزن امپرومنٹ پروگرام کی دیکھ ریکھ بھی اُن ہی کے ذمے ہے۔ خواہش ہے کہ تمام شعبوں سے انصاف کریں، اور یہ خواہش خاصا مصروف رکھتی ہے۔ کہتے ہیں،''میری آرزو ہے کہ اِس ملک اور صوبے نے مجھے جو مقام دیا ہے، اُس کا حق ادا کر سکوں۔'' وہ ایک محنتی، ایمان دار اور اصول پسند افسر کی شہرت رکھتے ہیں۔ میرٹ پر یقین رکھنے والے آدمی ہیں۔ اِس رویے کی وجہ سے چند حلقے ناراض بھی ہوجاتے ہیں، تاہم اصولوں پر سمجھوتا کرنا انھیں گوارا نہیں۔

پرویز سیہڑ نے 25 مارچ 1967 کو ضلع نوشہروفیروز کی تحصیل، مورو کے علاقے، علی بخش سیہڑ میں ایک بیوروکریٹ، خان محمد سیہڑ کے گھر آنکھ کھولی۔ دس بہن بھائیوں میں اُن کا نمبر ساتواں ہے۔ گھرانے میں تعلیم کو خصوصی اہمیت حاصل رہی۔ تین بھائی ڈاکٹر ہیں، تو تین انجینئر، ایک نے بینکنگ سیکٹر میں نام روشن کیا۔ شمار ہونہار طلبا میں ہوا کرتا تھا۔ زیادہ وقت کتابوں کے ساتھ گزرتا۔ کھیل کود میں بہت کم حصہ لیا۔ کبھی کبھار کرکٹ، بیڈمنٹن، گلی ڈنڈا یا کبڈی کھیل کر دل بہلا لیا کرتے تھے۔

تمام امتحانات امتیازی نمبروں سے پاس کیے۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی اسکول، مورو سے حاصل کی۔ 82ء میں میٹرک کرنے کے بعد نواب شاہ کا رخ کیا۔ گورنمنٹ ڈگری کالج سے 85ء میں گریجویشن کی۔ لیاقت میڈیکل کالج سے 91ء میں ایم بی بی ایس کا مرحلہ طے کیا۔ 98ء میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کراچی یونیورسٹی کا رخ کیا، 2002 میں یہ مرحلہ طے کیا۔ فنانس مینجمنٹ اینڈ اکنامکس میں ڈپلوما حاصل کرنے کے لیے آئی بی اے، کراچی کا حصہ بن گئے۔ اپریل 2010 میں ملایشیا سے رزلٹ بیس مینجمنٹ کا کورس کیا۔ جون 2012 میں امریکا سے ٹیچرز ایجوکیشن پالیسی کی ٹریننگ حاصل کی۔

اپنے اساتذہ کا ذکر وہ بڑے احترام سے کرتے ہیں۔ اسکول کے اساتذہ فیض محمد سومرو اور غلام محمد بھٹی کی نصیحتیں آج بھی یاد ہیں۔ والد اور بھائیوں کا بھی تذکرہ آتا ہے، جنھوں نے قدم قدم پر راہ نمائی کی۔

پیشہ ورانہ سفر کی تفصیلات یوں ہیں کہ 92ء میں وہ گورنمنٹ حمایت اﷲ ہائی اسکول، حیدرآباد سے بہ طور میڈیکل آفیسر منسلک ہوگئے۔ تن خواہ 3340 روپے تھی۔ ایک سال بعد اسسٹنٹ کمشنر یوٹی، میرپور خاص تعیناتی ہوئی۔ پھر صوبائی حکومت نے ٹریننگ کے لیے پشاور اکیڈمی بھیج دیا۔ لوٹنے کے بعد ایڈیشنل مجسٹریٹ سٹی نواب شاہ کا منصب سنبھالا۔ 2002 میں ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن اینڈ کوآرڈینیشن لوکل گورنمنٹ، کراچی تعینات ہوئے۔ اگلے برس اسپیشل سیکریٹری ایجوکیشن کا منصب سنبھالا۔ 27 ستمبر 2013 کو سیکریٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی، سندھ تعینات ہوئے۔


ملکی حالات اُنھیں پریشان رکھتے ہیں۔ شکایت ہے کہ ہم قائد اعظم اور اُن کے رفقا کی جدوجہد اور اصولوں کو بھول چکے ہیں۔ ''ہماری قوم کا سب سے بڑا مسئلہ ڈسپلن کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں، پورا سسٹم بگڑ چکا ہے۔'' اداروں میں بڑھتی سیاسی مداخلت کا بھی تذکرہ آتا ہے جس کی وجہ سے میرٹ کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اُن کے مطابق ماضی کے برعکس آج کے اساتذہ اپنے پیشے سے مخلص نظر نہیں آتے۔ وقت کی قدر نہیں کرتے۔ ''تعلیمی نظام اُس وقت تک بہتر نہیں ہوگا، جب تک اساتذہ خود کو بہتر نہیں بنائیں گے۔''

سیاست میں اُنھیں قطعی دل چسپی نہیں۔ اِس کا سبب والد کی نصیحت ہے، جنھیں یقین تھا کہ اگر بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہے، تو اُنھیں سیاست سے دُور رکھنا ہوگا۔ سیاست سے تو دُور رہے، تاہم اچھے سیاست دانوں کو سراہتے ہیں۔ اِس ضمن میں شہید ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی تعریف کرتے ہیں۔



اپنے والد سے متعلق کہتے ہیں،''اُنھوں نے ایک استاد کی طرح قدم قدم پر میری راہ نمائی کی۔ ڈاکٹری چھوڑ کر سول سروس جوائن کرنے کے فیصلے پر وہ بہت ناخوش تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ اس سے میری مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ البتہ جب میں نے اسسٹنٹ کمشنر کی پوسٹ سنبھالی، اور سائلین کے مسائل پر فیصلہ تحریر کیا، تو اُسے پڑھ کر وہ بہت خوش ہوئے، اور کہا؛ تم درست سمت میں جارہے ہو۔''

سیکڑوں امیدواروں میں اسسٹنٹ کمشنر کی اسامی کے لیے منتخب ہونا زندگی کا سب سے خوش گوار لمحہ تھا۔ بہ قول اُن کے،''دوست احباب کہا کرتے تھے کہ جس تعداد میں لوگ اِس اسامی کے لیے انٹرویو دے رہے ہیں، اُسے دیکھتے ہوئے تمھارا انتخاب مشکل ہے، مگر مجھے اپنی قابلیت پر پورا بھروسا تھا، اور اﷲ تعالیٰ نے مجھے سرخرو کیا۔''

2000 میں اُن کی شادی ہوئی۔ خدا نے ایک بیٹی، کشف پرویز اور دو بیٹوں، فلک پرویز اور اعتزاز احمد سیہڑ سے نوازا۔ خواہش ہے کہ بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں، اور ملک کی ترقی اور خوش حالی میں اپنا کردار ادا کریں۔ کھانے میں انھیں بریانی پسند ہے۔ سردی کے موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مصروفیات کے باعث گھر والوں کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے۔ تلافی کے لیے خود پر شرط عاید کر رکھی ہے کہ رات آٹھ بجے کے بعد گھر سے نہیں نکلتے۔ چھٹی والا دن اہل خانہ کے ساتھ گزرتا ہے۔ فارغ وقت میں تفریحی پروگرامز سے لطف اندوز ہوتے ہوں۔ پاکستانی این جی اوز کی کارکردگی سے وہ مطمئن نظر نہیں آتے۔ غیرملکی این جی اوز کی کوششوں میں اُنھیں پھر بھی امکان نظر آتا ہے۔
Load Next Story