حکمران نظام صحت کی فکر کریں

پاکستان میں کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے سامنے آنے کے بعد کورونا کے یومیہ مثبت کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے

پاکستان میں کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے سامنے آنے کے بعد کورونا کے یومیہ مثبت کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے

پاکستان میں کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے سامنے آنے کے بعد کورونا کے یومیہ مثبت کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر (این سی او سی) کے مطابق گزشتہ 24گھنٹوں کے دوران ملک میں کورونا کے 708 نئے کیس سامنے آئے۔

این سی او سی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں 45 ہزار 643 ٹیسٹ کیے گئے جن میں سے 708 افراد کے ٹیسٹ مثبت آئے، یوں کورونا کے مثبت کیسز کی شرح 1.55 فیصد رہی، گزشتہ 24گھنٹوں میں کورونا سے 2 افراد ہلاک بھی ہوئے۔ واضح رہے کہ ملک میں گزشتہ 4 روز سے کورونا کیسز کی شرح ایک فیصد سے زائد رہی ہے، اس کے علاوہ آخری مرتبہ 2 ماہ قبل 30 اکتوبر کو 700 سے زائد مثبت کیسز سامنے آئے تھے جن کی تعداد 733 تھی۔

دوسری جانب این سی او سی کے اعلان کے مطابق آج سے کورونا ویکسین کی بوسٹر ڈوز لگانے کا آغاز ہو رہا ہے، یہ بوسٹر ڈوز 30 سال سے زائد عمر کے ان افراد کو لگائی جائے گی جنھیں ویکسین کی دوسری خوراک کم از کم 6 ماہ قبل لگائی گئی ہو۔ خبر کے مطابق 20 دسمبر کو این سی او سی نے پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں اومیکرون وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے 30 سال سے زائد عمر کے افراد کے لیے بوسٹر ڈوز کی منظوری دی تھی۔

کورونا نے ابھی تک عوام کا پیچھا نہیں چھوڑا، حکومت کا طرز عمل کورونا سے فتح کے شادیانے بجانے تک ہی محدود رہا، صحت سسٹم یا صحت انفرا اسٹرکچر میں کوئی توسیع نہیں کی گئی، صحت کی جملہ سہولتیں عوام کو نہیں مل سکیں، کورونا کی جزوی واپسی اور اومیکرون کے پھیلاؤ نے عوام کو واقعی ایک بار پھر الجھن میں ڈال دیا ہے، ملکی معاشی صورتحال ابتری کا شکار ہے، کوئی بنیادی بریک تھرو صحت سسٹم میں نظر آنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں، عوام کی اقتصادی اور معاشی صورتحال اعصاب شکنی کی انتہائی سطح سے بھی نیچے آ چکی ہے۔

طبی ذرایع کے مطابق کینسر نے بھی سر اٹھایا ہے دیگر امراض میں اضافہ کی شرح بھی تشویش ناک ہے، عوام کی جسمانی خستگی ان کی بیروزگاری، غربت، ماہانہ آمدنی میں جمود اور مہنگائی نے سوالیہ نشان بنا دی ہے، ایک غیر مصدقہ سرکاری اطلاع کے مطابق عوام کی صحت زندگی کے عمومی تقاضے بھی پورے کرنے کے قابل نہیں، بھوک کے مسائل نے اندرون سندھ، بلوچستان اور کراچی کے شہری علاقوں میں بھی اندوہ ناک اثرات ظاہر کر دیے ہیں، محنت کش طبقات کو اب حکومت کے اقدامات، معاشی نتیجہ خیزی پر اعتبار نہیں، ایک رپورٹ کے مطابق اقتصادی حالات کی بہتری کی اجتماعی حکومتی کوششیں جمود کا شکار ہیں، وزیر اعظم ملک کے معاشی مستقبل کے حوالے سے کوئی یقینی حکمت عملی کا اشارہ بھی نہیں دیتے، علمی مناظرے کی دعوت دیتے رہتے ہیں۔

ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کورونا اور امیکرون کی پانچویں لہر عوام کے لیے چیلنج بنی تو حکومتی اقدامات میں عوامی ولولہ انگیزی کا امکان مایوس کن رہے گا کیونکہ صحت سسٹم کو صحت کارڈز سے مشروط کرکے حکومت پوری دنیا کو یہ پیغام دے چکی ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی وہ اقدامات نہیں کر سکے جو حکومت نے پچھلے چار سالوں میں انجام دیے ہیں، صحت کے شعبے میں اس درجہ خود اعتمادی کی یہ نادر مثال ہے۔

جب کہ صحت سسٹم کو ابھی قرون وسطیٰ سے اوپر لے جانے کے لیے تھر کے صحرا میں خواتین اور غریب تھری بچوں کی ہلاکتیں رکنے کا نام نہیں لے رہیں، امیکرون اور کورونا کے سدباب کے حوالے سے جو اقدامات سامنے آئے ہیں، عوام صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کی جان نظام صحت کی فالٹ لائنوں کے خدشات اور مسائل سے کب نجات پائے گی، حکومت کی سیاسی مجبوریاں ناقابل بیان ہیں، حکومت نے بظاہر اعلانات کے سہارے پورے ملکی نظام حکومت کو یرغمال بنایا ہے۔

وزیر اعظم کو صحت کے سسٹم کو جدید ترین بنیادوں پر استوار کرنے کی فکر کرنی چاہیے مگر انھیں انقلاب کی خاموش آمد اور نچلے طبقات کی معاشی صورتحال کو دانشورانہ مباحث اور میڈیا ٹاکس کے ذریے بلند کرنے سے دلچسپی ہے، اگلے دن انھوں نے عوام سے یہ توقع بھی وابستہ کی کہ وہ احتساب اور جنسی جرائم کے خاتمے میں ان کے ساتھ اشتراک عمل کریں، یعنی ایک جنگ کا آغاز کریں، آخر عوام کی معاشی حالت اور ان کی صحت انھیں اس طرح کے عہد آفریں معرکہ آرائی کے لیے ذہنی استقامت دے سکیں گے، ایک ماہر طبیب کا کہنا ہے کہ کورونا، اومیکرون اور درجن بھر بیماریوں کے علاج کے لیے غریب آدمی کون سے اسپتال سے رابطہ کرے اور یہ صحت سسٹم اپنی مرکزیت کے ساتھ کہاں مل سکتا ہے جہاں وہ اپنے اہل خانہ کا علاج کرا سکے۔


دوسری طرف کورونا اور اومیکرون سے متعلق صحت کے بنیادی مسائل سے نمٹنے میں علمی اور مالی مسائل کا حل بھی عوام کے لیے مشکل بنا ہوا ہے۔ میڈیا کے مطابق ابتدا میں اعلان کیا گیا تھا کہ بوسٹر ڈوز لگانے کا عمل یکم جنوری سے شروع کیا جائے گا تاہم پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ چونکہ ویکسینیشن سینٹر کے عملے نے شب و روز کام کر کے 7 کروڑ افراد کو ویکسین کی دو خوراکیں لگانے کا ہدف پورا کیا ہے اس وجہ سے نئے سال کے پہلے دو روز ویکسینیشن سینٹر بند رکھے جائیں گے۔

اس کے علاوہ کئی ممالک میں ویکسین کے حوالے سے ہونے والے امتیازی سلوک کی وجہ سے مکس اینڈ میچ بوسٹر ویکسین کا بھی مفت آغاز کیا جا رہا ہے۔ مکس اینڈ میچ سے مراد یہ ہے کہ کسی فرد کو لگنے والی بوسٹر خوراک اسے ماضی میں لگائی گئی ویکسین سے مختلف ہو۔ تاہم بیرون ملک جانے کے خواہشمند افراد کی بڑی تعداد ایسا نہیں کر سکی تھی کیوں کہ بہت سے ممالک قرنطینہ کے بغیر داخلے کی اجازت صرف ان مسافروں کو دے رہے تھے۔

جنھیں ان کی جانب سے منظور شدہ ویکسین لگائی گئی تھی۔ حکومت نے ایسے مسافروں کو قرنطینہ سے بچانے کے لیے قیمتاً مکس اینڈ میچ بوسٹر خوراک لگانے کی سہولت متعارف کروائی تھی۔ منسٹری آف نیشنل ہیلتھ سروسز کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر رانا صفدر نے کہا کہ شہریوں کو ان کی مطلوبہ بوسٹر خوراک لگوائی جائے گی۔ ان کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ویکسین پہلے لگ چکی ہے اسی کی بوسٹر خوراک بھی لگوائی جا سکتی ہے یا پھر لوگوں کو ان کی مطلوبہ ویکسین کی بوسٹر خوراک بھی لگائی جا سکتی ہے۔

یہ بات تو پہلے ہی سامنے آ چکی ہے کہ کورونا وائرس مریض کے گردوں کو متاثر کر سکتا ہے مگر جسم کے اس عضو پر کیا اثرات ہوتے ہیں یہ اب تک واضح نہیں تھا۔ درحقیقت کووڈ 19 کا مرض براہ راست گردوں کے اندر خلیاتی تباہی کا باعث بن سکتا ہے جس کے نتیجے میں گردوں میں زخم ہو سکتے ہیں۔

یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں دریافت کی گئی۔ نتائج سے ثابت ہوا کہ کووڈ کے مریضوں کے گردوں کے ٹشوز کو پہنچنے والا نقصان دیگر گروپس سے زیادہ تھا۔ تحقیق کے پہلے مرحلے میں یہ واضح ہوگیا تھا کہ کووڈ 19 سے گردوں کو نقصان پہنچتا ہے، جس کے بعد محققین نے یہ تعین کرنے کا فیصلہ کیا کہ کورونا وائرس یہ کام کیسے کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے محققین نے چھوٹے مصنوعی گردے تیار کیے اور لیبارٹری میں ان میں گردوں کے مختلف خلیات کا اضافہ کیا گیا مگر مدافعتی خلیات ان میں شامل نہیں تھے۔ اس کے بعد ہر مصنوعی گردے کو کووڈ سے متاثر کیا گیا تاکہ تحقیقی ٹیم مشاہدہ کر سکے کہ کورونا وائرس گردوں کے خلیات پر براہ راست کیا اثرات مرتب کرتا ہے۔ ایک بار پھر محققین نے گردوں میں زخم اور ان سنگنلز کو دریافت کیا جو اس عمل میں کردار ادا کرتے ہیں۔

نتائج سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ بیماری کے بعد بہت زیادہ ورم یا کوئی اور اثر نہیں بلکہ کورونا وائرس براہ راست کووڈ 19 کے مریضوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ محققین نے بتایا کہ تحقیق کے دوران ہم نے کورونا وائرس سے گردوں کو نقصان پہنچتے دیکھا، متاثرہ مصنوعی گردوں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ وائرس براہ راست خلیات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ اس کام کے ساتھ ہم نے معمے کا وہ ٹکڑا تلاش کر لیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ وائرس جسم پر کیسے تباہ کن اثرات مرتب کر سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گردوں میں زخم کے طویل المیعاد بنیادوں پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جس کا سامنا گردوں کو ہونے والی ہر انجری سے ہو سکتا ہے جب کہ گردوں کے افعال پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہماری تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ کووڈ کے مریضوں کو بھی اس مسئلے کا سامنا ہو سکتا ہے اور اس سے ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ کووڈ کے مریضوں کے گردوں کے افعال متاثر کیوں ہوتے ہیں۔

صحت کے مسائل متنوع ہیں اور غربت تنوع کی معنویت کو نہیں جانتی، اسے حکومت سے ریلیف اور ملٹی پل وسائل درکار ہیں جو ایک فالٹ فری نظام بآسانی پہنچا سکے۔ ارباب اختیار عوام کے معاشی مسائل کو سمجھیں، انھیں مسائل کے پیچیدہ حل سے آگاہ کیجیے۔ ارباب اختیار صحت سسٹم کو سہل الحصول بنائیں، عوام ذہنی دباؤ سے نکلنے کے لیے حکومت کی طرف بے تابی سے دیکھ رہے ہیں۔
Load Next Story