اگر ممکن ہو تو قوم کی فرسٹریشن ختم کی جائے
ہر سال کی طرح اس سال بھی ’’ہیپی نیو ائیر نائٹ ‘‘ پر لوگ جوق در جوق باہر نکل رہے تھے
ISLAMABAD:
ہر سال کی طرح اس سال بھی ''ہیپی نیو ائیر نائٹ '' پر لوگ جوق در جوق باہر نکل رہے تھے۔ اس رات لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر اسے چاند رات بنا دیا تھا۔ خوشی کے ان لمحات میں گھر کی چار دیواری کے درمیان رہنے کے بجائے ہلہ گلہ کرنے کے موڈ میں تھے، مارکیٹوں میں عارضی طور پر لگائے گئے اسٹالوں پر خواتین اور بچے خریداری کرتے دکھائی دیے۔
موسم سرد تھا ۔ رات بارہ بجتے ہی جس نے جس طرح چاہا خوشی منائی۔ پھر کچھ ہی دیر بعد فضاء میں ہوائی فائرنگ شروع ہو گئی گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا ، شدید فائرنگ کی وجہ سے لوگ انتہائی خوف زدہ ہو گئے تھے۔
پھر پولیس بھی پورے شہر میں گشت کر رہی تھی، پولیس کو دیکھ کر تو ایسے لگ رہا تھا جیسے ہم کسی چھاؤنی میں رہ رہے ہیں، وہ نوجوانوں کو پکڑ رہی تھی، جگہ جگہ ناکے لگا کر تلاشیاں لی جا رہی تھیں اور کہیں کہیں مال بھی بٹورا جا رہا تھا۔ اس بار ایسا شاید اس لیے بھی تھا کہ سرکار نے ہیپی نیو ائیر نائٹ پر فائر ورک اور دیگر میوزیکل شوز وغیرہ پر پابندی لگا رکھی تھی۔ جب دنیا بھر میں نئے سال کی آمد کی خوشی اچھے انداز میں منائی جا رہی تھی تو ہماری حکومت نے فائر ورک اور میوزیکل کنسرٹس کیوں رکوا دیے تھے۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ لاہور کی تمام سڑکیں جام ہوگئیں۔
ہمارے لوگ فرسٹریشن کا شکار ہوچکے ہیں، وہ باہر نکل کر کچھ دیر کے لیے تفریح چاہتے ہیں، وہ پریشانیوں سے کچھ دیر کے لیے آزاد ہونا چاہتے ہیں، وہ مہنگائی، کورونا، آلودگی اور کئی بیماریوں سے تنگ آچکے ہیں، وہ ہلکا پھلکا انٹرٹینمنٹ چاہتے ہیں، جو انھیں کسی صورت میسر نہیں آرہا۔ سب جانتے ہیں کہ ہم میلوں ٹھیلوں والی قوم ہیں، اجتماعی کھیلیں شروع ہی سے ہمارے کلچر کا حصہ رہی ہیں، اسی لیے ہماری قوم فرسٹریشن کا شکار ہو چکی ہے۔
اسے مایوسی سے نکالنے کے لیے نہ تو حکومت کوئی کام کر رہی ہے اور نہ ہی اس حوالے سے ملک بھر میں کوئی تھنک ٹینک موجود ہے، حالانکہ دنیا بھر کی حکومتیں نوجوانوں کے لیے خاص طور پر مقابلوں کی فضاء قائم کرتی ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت ہی کو دیکھ لیں، بھارت اسکول کی سطح پر مقابلوں کا انعقاد کروا کر ہی دنیا میں اپنا نام روشن کر رہا ہے، پھر کلچرل فیسٹیولز کا انعقاد کیا جائے، یا اس کے ساتھ ساتھ میلوں ٹھیلوں کا انعقاد کیا جائے اور پھر سب سے بڑھ کر کھیلوں کا انعقاد کیا جائے۔ گزشتہ ساڑھے تین سال سے اس ملک پر ''کپتان'' کی حکومت ہے۔
لہٰذا''کپتان '' کچھ اور نہیں تو کم از کم کھیلوں کو فروغ دینے کے حوالے سے اقدام کر لیں۔ کیوں کہ ایسا کرنے سے نوجوان نسل کا ٹیلنٹ بروئے کار لایا جا سکتاہے۔ خان صاحب جانتے ہیں کہ50اور60کی دہائی میں بھی پاکستان غریب ملک تھا لیکن اُس وقت پاکستانی قوم کے حوصلے بلند تھے۔
اُس وقت چکوال کے گاؤں جنڈ اعوان کے رہنے والے حوالدار عبدالخالق کو 1954 کے ایشیائی کھیلوں میں سو اور دو سو میٹر کی ریس میں دوڑتے ہوئے دیکھ کر جواہر لعل نہرو وسحرزدہ ہو کر رہ گئے تھے اور نہرو نے حوالدار عبدالخالق کو ''ایشیاء کا پرندہ''قرار دیا۔ اسی پاکستانی اتھیلیٹ کو ایشیاء کا ''تیز رفتار ترین انسان'' کا خطاب بھی ملا۔ عبدالخالق نے 1956میں میلبورن کے اولمپکس میں بھی حصہ لیا۔ سو اور دو سو میٹرز کی ریس میں سلور میڈل حاصل کرلیا۔ مجموعی طور پر حوالدار عبدالخالق نے دوڑوں میں چھتیس(36) سونے اور سولہ (16) چاندی کے تمغے حاصل کیے۔
حوالدار یونس بھی فوج سے ہی تھا اس نے 1973 کے اولمپکس میں چار سو میٹر کی ریس میں حصہ لیا اور سونے کا تمغہ حاصل اپنے نام کیا۔ صوبیدار رازق نے ایشیائی گیمز میں 110 میٹرز کی رکاوٹوں والی دوڑمیں سونے کا تمغہ لیا۔ایک اور پاکستانی دیہاتی نوجوان اللہ داد نے 1973 کو اولمپکس میں جیولین تھرو میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ لیکن اُس کے بعد ہماری نوجوان نسل سے آہستہ آہستہ جذبہ ختم کر کے ہواؤں کا رُخ تبدیل کر دیا گیا۔
بہرحال اگر پاکستانی قوم کو مایوسی اور فرسٹریشن سے نکالنا ہے تو کم از کم کھیلوں کو ہی فروغ دے دیں، اس میں نہ تو فنڈز درکار ہیں اور نہ ہی لیبر۔ فنڈز کا میں نے اس لیے کہا کیوں کہ یہاں کھیلوں کی ایک الگ وزارت ہے۔
ایک اسپورٹس بورڈ بھی ہے اولمپکس کھیلوں میں حصہ لینے کے لیے ایک کمیٹی بھی یہاں موجود ہے۔ کھیلوں کے فروغ کے لیے سالانہ اربوں روپے کا بجٹ بھی مختص کیا جاتا ہے۔ تب بھی کوئی نہیں یہ بات جانتا کہ اربوں روپے کا بجٹ کہاں جاتا ہے؟ اس کا کوئی آڈٹ ہوتا ہے! کھیل کے شعبوں میں مسلسل پسپائی اور ناکامی پر کسی کا احتساب بھی ہوتا ہے؟
شہروں میں کسی نئی سوسائٹی میں کھیلوں کے لیے گراؤنڈز مختص نہیں کیے جاتے، حالانکہ سوسائٹیوں کو پاس کرنے والی اتھارٹیاں بھی اس چیز کی پابند نہیں کر رہیں کہ گراؤنڈز لازمی جزو ہیں۔