دبئی دبئی ہے

وطن عزیز کی غالب اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں

S_afarooqi@yahoo.com

فارسی زبان کا ایک شعر ہے جس کا مصرعہ ثانی بڑا معنی خیز اور مشہور ہے ''تن ہمَہَ داغ داغ شُد پنبہ کُجا کُجا نِہُم'' جس کا مفہوم یہ ہے کہ دل جگہ جگہ سے جلا ہوا ہے، روئی کا پھایا(مرہم)کہاں کہاں رکھوں۔ یہ مصرعہ وطن عزیز پاکستان پر حرف با حرف صادق آتا ہے جو کہلاتا تو اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مگر جو بدقسمتی سے نہ تو اسلامی ہے اور نہ جمہوریہ۔ بانیانِ پاکستان کے ملک عدم سدھارنے کے بعد سے یہ کبھی طالع آزماؤں تو کبھی جمہوری بازیگروں کے ہاتھوں میں تماشہ بنا ہوا ہے جو باری باری بھولے بھالے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر آتے جاتے رہتے ہیں۔

دل گرفتہ قوم بے چاری مسلسل کسی ایسے قائد کی تلاش میں ہے جو مخلص بھی ہو اور اہلیت بھی رکھتا ہو۔ اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ہمارا وطن قدرتی وسائل کے انمول خزانوں اور افرادی قوت سے مالا مال ہے۔ ہمارے محنت کش اور ماہرین بیرونی ممالک میں اپنی کارگزاری کے جھنڈے گاڑھ رہے ہیں اور بیش قیمت زرِ مبادلہ کما کما کر قومی خزانے کو بھرنے کے لیے اپنا خون پسینہ ایک کر رہے ہیں۔اِن میں خاصی بڑی تعداد اُن مجبوروں کی ہے جنھیں نظام کی خرابی کی وجہ سے وطن عزیز میں روزگار کے مواقع میسر نہ آنے کی وجہ سے اپنے گھر بار اور وطن عزیز اور اپنے پیاروں کو چھوڑنا پڑتا ہے۔

وطن عزیز کی غالب اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جب کہ حکمرانوں کے وارے نیارے ہیں۔ وقفے وقفے سے چہرے بدلتے رہتے ہیں لیکن نظام نہیں بدلتا۔ کوئی اسلام کا نعرہ لگا کر عوام کو لبھاتا ہے تو کوئی روٹی ،کپڑا، مکان کا وعدہ کرکے لبھاتا ہے۔لوگوں نے تبدیلی کے نام پر بھی قسمت کو آزما کر دیکھ لیا لیکن شدید مایوسی کے سوائے کچھ بھی نہیں مل سکا۔ سچ پوچھیے تو حالات پہلے سے بھی زیادہ بدتر ہو رہے ہیں اور عوام کو بار بار یہ تسلی دی جارہی ہے کہ ''گھبرانا نہیں!''

مرزا غالبؔ یاد آرہے ہیں جو پہلے ہی فرما چکے ہیں:

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں

ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

تبدیلی سرکار نے اپنی آمد سے قبل جی ڈی پی میں اضافے کی جو نوید سنائی تھی وہ اب گیس، ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں میں وقفے وقفے سے پے در پے لامتناہی اضافے کی صورت میں حقیقت کا روپ دھار رہی ہیں۔پہلے خاندان کا ایک فرد کماتا تھا اور پورا کنبہ کھاتا تھا اور اب عالم یہ ہے کہ بچہ بچہ کما رہا ہے اور گزارا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

عوام میں مایوسی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور مہنگائی ہے کہ آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ ناجائز منافع اور ذخیرہ اندوزوں کو کھلی آزادی ہے کہ وہ جو چاہیں کریں۔کوئی روکنے والا نہیں اور نہ کوئی ٹوکنے والا۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے نتیجے میں قتل اور چوری ڈکیتی کی وارداتوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور جرائم پیشہ افراد کو پولیس اور مافیا کی پشت پناہی حاصل ہے۔قانون شکنی عام ہے اور عدالتوں میں انصاف بک رہا ہے۔ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی کارکردگی تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہے۔بجلی کی سپلائی کا محکمہ تو بدنام تھا ہی اب گیس کے محکمہ نے بھی ستانا شروع کردیا ہے۔


گویا خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ بدل رہا ہے۔ موسمِ سرما کا آغاز ہوتے ہی گیس کا بحران شروع ہوگیا۔ ابتدا میں گیس کی فراہمی دھیمی پڑی اور پھر رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک آپہنچی کہ سپلائی بالکل منقطع ہوگئی جس کی وجہ سے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے اور شدید سردی کے عالم میں لوگوں کو غسل اور وضو تک کے لیے گرم پانی میسر نہیں آرہا۔ خلق خدا بری طرح پریشان ہے اور نقار خانے میں طوطی کی آواز سننے والا کوئی نہیں۔عام تاثر یہی ہے کہ حکومت نام کی کوئی چیز بھی موجود نہیں۔ بیچارے عوام بری طرح رُل رہے ہیں اور کوئی فریاد سننے والا نہیں ہے حتیٰ کہ عدالت بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور کوئی بازپرس کرنے والا نہیں ہے۔

ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جب کسی محکمہ یا ادارے کی عدم کارکردگی یا نااہلی کے بارے میں اخبار میں کوئی خبر چھپ جایا کرتی تھی تو اُس کے سربراہ کی گوشمالی ہوجایا کرتی تھی اور لینے کے دینے پڑجایا کرتے تھے لیکن میرٹ کے قتل عام اور سفارش کلچر نے ہر ادارے کا بیڑاغرق کردیا جس کا خمیازہ بیچارے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجامِ گلستان کیا ہوگا؟ سمجھ میں نہیں آتا کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔ بقول مصطفی زیدی:

میں اپنے ہاتھ پہ کس کا لہو تلاش کروں

تمام شہر نے پہنے ہیں دستانے

سردی کی شدت اور گیس کی عدم فراہمی کے عذاب سے بچنے کی ایک صورت یہ نکل آئی کہ دبئی کا رخ کیا جہاں ہمارے صاحبزادے مقیم ہیں اور جن سے کورونا کی سخت پابندیوں کے عائد ہونے کے سبب مدتِ دراز سے ملاقات نہیں ہوسکی تھی۔ یہ گویا ہمارے لیے خیرِمستور Blessing in Disguise تھی۔

جمہوریت کی طلسمی حدود سے باہر نکل کر جب تقریباً دو سوا دو گھنٹے کی فلائٹ کے بعد شاہی سلطنت کے حدود میں داخل ہوئے تو گویا نقشہ ہی بدل گیا۔ بے ہنگم ٹریفک کے بجائے ہر طرف قاعدے کے مطابق ٹریفک کی روانی سے ہی فرق صاف ظاہر ہوگیا۔ ہرطرف ڈسپلن کا وہ ماحول نظر آیا جس کی ہمارے بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے بحیثیت قوم ہمیں تاکید اور تلقین کی تھی۔قانون کی بالادستی ایسی کہ کسی کی مجال نہیں کہ جو اُس کی خلاف ورزی کر سکے۔

نہ کوئی ہلہ گلہ نہ کوئی جلسہ و جلوس اور نہ کوئی نعرے بازی۔ ہر کسی کو اپنے کام سے کام اور کسی کو کسی سے لڑنے جھگڑنے کی فرصت نہیں۔ قائد کے فرمان ''کام، کام اور صرف کام'' کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں آرہا تھا۔سارا کمال مثالی قیادت کا تھا کہ جس کی بدولت صحرا خوبصورت نخلستان میں تبدیل ہوگیا۔ اِس تبدیلی کا سہرا یہاں کی اعلیٰ اور دور اندیش Visionary قیادت کو جاتا ہے۔ صفائی جسے نصف ایمان کہا جاتا ہے ایسی کہ چپے چپے کو دیکھ کر انسان عش عش کر اٹھے۔ برق رفتار ترقی کا یہ عالم کہ مغربی ترقی یافتہ ممالک کے لوگ مقناطیسی کشش کی وجہ سے کَشا کَشا یہاں کھنچے چلے آرہے ہیں اور دنیا کی بڑی بڑی مشہور و معروف کمپنیوں کے صدر دفاتر یہاں منتقل اور قائم ہو رہے ہیں۔دنیا کے گوشے گوشے کے لوگ یہاں کا رخ کر رہے ہیں اور دلچسپیوں کی وہ تمام چیزیں یہاں دستیاب ہیں جو دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بھی میسر نہیں۔

دبئی اِس وقت دنیا بھر کی توجہ اور دلچسپی کا مرکز بنا ہوا ہے کیونکہ یہاں اِس وقت دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی نمائش Expo 2020 جاری ہے ،جسے دیکھنے کے لیے دنیا کے کونے کونے سے لوگ جوق در جوق کھنچے چلے آرہے ہیں جس کا احوال اِن شاء اللہ اپنے آیندہ کالم میں بیان کیا جائے گا۔
Load Next Story