روس اور چین مل کر چاند پر اسٹیشن تعمیر کریں گے
اکیسویں صدی میں نئی خلائی دوڑ شروع ہونے کے بعد روس اور چین میں تعاون و اشتراک مسلسل بڑھ رہا ہے
LONDON:
چین کے خلائی تحقیقی ادارے (سی این ایس اے) نے روس کے تعاون سے چاند پر ایک مشترکہ خلائی اڈہ تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔
یہ خلائی اڈہ جسے 'انٹرنیشنل لیونر ریسرچ اسٹیشن' (ILRS) بھی کہا جاتا ہے، چاند پر انسانی تاریخ کا پیچیدہ اور جدید ترین منصوبہ بھی ہوگا جسے 2027 تک چاند کے جنوبی قطب کے نزدیک تعمیر کیا جائے گا۔
بتاتے چلیں کہ اکیسویں صدی میں نئی خلائی دوڑ شروع ہونے کے بعد سے روس اور چین میں تعاون و اشتراک مسلسل بڑھ رہا ہے۔
چین پہلے ہی اعلان کرچکا ہے کہ وہ 2030 تک اپنے اوّلین خلانورد چاند پر اتار دے گا۔
خلائی اڈے کا منصوبہ اس سے الگ ہے کیونکہ یہ سارا کام خودکار روبوٹس کے ذریعے، تھری ڈی پرنٹنگ کی مدد سے لیا جائے گا۔
روس اور چین میں معاہدے کے تحت یہ دونوں ممالک طاقتور راکٹوں کے علاوہ ایسی تعمیرات پر بھی کام کریں گے جو سورج سے آنے والی خطرناک شعاعوں کا بہ آسانی سامنا کرنے کے قابل ہوں۔
اس حوالے سے چین کی خلائی پروازوں کا آغاز 2024 سے متوقع ہے جن کے ذریعے روبوٹ، روورز (پہیوں والی گاڑیاں) اور تھری ڈی پرنٹرز جیسے آلات چاند پر پہنچائے جائیں گے جو وہاں موجود مٹی اور پتھر استعمال کرتے ہوئے، اڈے کی تعمیر شروع کردیں گے۔
قبل ازیں اس منصوبے کو 2035 تک مکمل ہونا تھا لیکن چین اور روس میں اشتراک سے اب اس کے بہت جلد پایہ تکمیل کو پہنچنے کی امید بڑھ گئی ہے۔
امریکی حلقوں میں روس اور چین کا یہ بڑھتا ہوا تعاون تشویش کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے کیونکہ یہ چاند پر پہلا بڑا عالمی منصوبہ ہوگا جس میں امریکا کی کوئی شراکت نہیں۔ اس سے خلائی تحقیق کے میدان میں امریکا کی مسلمہ اہمیت متاثرہ ہونے کا خدشہ ہے۔
یہی نہیں بلکہ چاند پر اڈّے تعمیر کرنے کےلیے موجودہ ٹیکنالوجیز کو بھی خاصی ترقی دینا ہوگی جو آنے والے برسوں میں امریکی سالمیت کےلیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔
چین کے خلائی تحقیقی ادارے (سی این ایس اے) نے روس کے تعاون سے چاند پر ایک مشترکہ خلائی اڈہ تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔
یہ خلائی اڈہ جسے 'انٹرنیشنل لیونر ریسرچ اسٹیشن' (ILRS) بھی کہا جاتا ہے، چاند پر انسانی تاریخ کا پیچیدہ اور جدید ترین منصوبہ بھی ہوگا جسے 2027 تک چاند کے جنوبی قطب کے نزدیک تعمیر کیا جائے گا۔
بتاتے چلیں کہ اکیسویں صدی میں نئی خلائی دوڑ شروع ہونے کے بعد سے روس اور چین میں تعاون و اشتراک مسلسل بڑھ رہا ہے۔
چین پہلے ہی اعلان کرچکا ہے کہ وہ 2030 تک اپنے اوّلین خلانورد چاند پر اتار دے گا۔
خلائی اڈے کا منصوبہ اس سے الگ ہے کیونکہ یہ سارا کام خودکار روبوٹس کے ذریعے، تھری ڈی پرنٹنگ کی مدد سے لیا جائے گا۔
روس اور چین میں معاہدے کے تحت یہ دونوں ممالک طاقتور راکٹوں کے علاوہ ایسی تعمیرات پر بھی کام کریں گے جو سورج سے آنے والی خطرناک شعاعوں کا بہ آسانی سامنا کرنے کے قابل ہوں۔
اس حوالے سے چین کی خلائی پروازوں کا آغاز 2024 سے متوقع ہے جن کے ذریعے روبوٹ، روورز (پہیوں والی گاڑیاں) اور تھری ڈی پرنٹرز جیسے آلات چاند پر پہنچائے جائیں گے جو وہاں موجود مٹی اور پتھر استعمال کرتے ہوئے، اڈے کی تعمیر شروع کردیں گے۔
قبل ازیں اس منصوبے کو 2035 تک مکمل ہونا تھا لیکن چین اور روس میں اشتراک سے اب اس کے بہت جلد پایہ تکمیل کو پہنچنے کی امید بڑھ گئی ہے۔
امریکی حلقوں میں روس اور چین کا یہ بڑھتا ہوا تعاون تشویش کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے کیونکہ یہ چاند پر پہلا بڑا عالمی منصوبہ ہوگا جس میں امریکا کی کوئی شراکت نہیں۔ اس سے خلائی تحقیق کے میدان میں امریکا کی مسلمہ اہمیت متاثرہ ہونے کا خدشہ ہے۔
یہی نہیں بلکہ چاند پر اڈّے تعمیر کرنے کےلیے موجودہ ٹیکنالوجیز کو بھی خاصی ترقی دینا ہوگی جو آنے والے برسوں میں امریکی سالمیت کےلیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔