ملکی اقتصادی و زرعی تناظرکا جائزہ

زراعت میں بہتر میکانائزیشن ٹولز اور آئی سی ٹی سےپاکستان میں انقلاب برپا ہو جائے گا، وزیراعظم


Editorial January 05, 2022
زراعت میں بہتر میکانائزیشن ٹولز اور آئی سی ٹی سےپاکستان میں انقلاب برپا ہو جائے گا، وزیراعظم ۔ فوٹو : فائل

وزیر اعظم نے کہا ہے کہ پاکستان میں ابھی تک موئنجو دڑوکی ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے، سبزیاں بیچنے سے ترقی نہیں ہوتی، چینی سرمایہ کاروں کو ہر ممکن سہولیات فراہم کررہے ہیں۔ پاک چائنا بزنس انویسٹمنٹ فورم کے اجرا کی تقریب سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے کے لیے تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے کوشاں ہیں، صنعتی ترقی کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا، ملک میں زرعی شعبہ کی ترقی کے لیے جدید ٹیکنالوجی بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔

دریں اثنا ملک میں زرعی بہتری کے منصوبے پر منعقدہ اجلاس سے خطاب میں کہا کہ زراعت میں بہتر میکانائزیشن ٹولز اور آئی سی ٹی سے چلنے والی توسیعی خدمات کے متعارف ہونے سے پاکستان میں انقلاب برپا ہو جائے گا۔ ملک میں غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے تجارتی پیمانے پر زیتون کی کاشت اور جھینگوں کی فارمنگ وقت کی اہم ضرورت ہے، اس سے برآمدات کو بہتر بنانے میں بھی مدد ملے گی۔

وزیراعظم ملکی زراعت، اقتصادیات اور صنعتی ترقی اور معاشی انقلاب کے لیے ایک جا مع ماسٹر پلان کے چیدہ چیدہ نکات پر اپنا نکتہ نظر بیان کررہے تھے، حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ تمام شعبوں میں ہمہ جہت ترقی کے امکانات پر وزیراعظم اقتدار میں آنے کے بعد سے اظہار خیال کرتے آرہے ہیں لیکن گزشتہ چار سالہ معاشی دباؤ کے باعث وزیراعظم اپنے تمام تجربات کو دہرا رہے ہیں، انھیں مختلف شعبوں میں ترقی کی اہمیت، ضرورت کے گہرے ادراک نے ملکی معیشت کو ارتقا، اجتماعی فروغ، کے لیے ماہرین کو یاد دلایا ہے کہ وہ سبزی بیچنے سے ملک کو ترقی کی اعلیٰ منزلوں تک نہیں لے جاسکتے۔

انھوں نے شکایت کی کہ ملک میں ابھی تک موئن جو دڑو کے زمانے کی ٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہے، جب کہ تاریخی حوالوں سے موئن جو دڑو کی تہذیب اور سماج میں آبادکاری، شہری ترقی، تعمیرات و رہائش کے بارے میں اسے اپنے عہد کے دیگر تہذیبوں میں ایک انفرادیت حاصل ہے، اسی تناظر میں ملکی آرکیالوجسٹوں نے موئن جو دڑو کی تہذیب کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر ان آثار کے تحفظ اور بقا کے لیے موئن جو دڑو کو بچاؤ کے لیے اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے، لیکن بعض ماہرین کا خیال ہے کہ موئن جو دڑو کے تاریخی حوالوں سے ترقی کے نئے سماجی ماڈل کی ضرورت ہے۔

وزیر اعظم نے موئن جو دڑو کا حوالہ عہد کی تہذیبی ضروریات کے تحت دیا ہے، ان کا ماہرین کے لیے یہ پیغام تھا کہ جدید عہد کے تقاضوں کا عہد قدیم کی ٹیکنالوجی سے مقابلے کی ضرورت نہیں تاہم ملک کو موئن جو دڑو سے عہد کی صنعت و حرفت، ٹیکنالوجی اور ٹاؤن پلاننگ، سیوریج سسٹم، کھیتی باڑی، زرعی جدت اور سبزیوں کی کاشت کے لیے قدیم عہد کے تجربات سے شعور کی بیداری کا سبق سیکھنا چاہیے۔

تاہم ملکی ترقی اور ارتقائی عمل میں ماہرین کا فرض ہے کہ وہ معیشت کو جدید و قدیم کے بہترین تناظر میں ترقی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں، وزیراعظم نے جن شعبوں میں ترقی اور پیش رفت کی ہدایت کی ہے وہ ملکی اقتصادیات، برآمدات، اور ترقی کے لیے نئی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کی امنگ جگانے اور ملکی ترقی کا قابل تحسین نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔

دوسری طرف وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ کوئی مقدس گائے نہیں ہے، قابل ٹیکس آمدنی ے والے سب لوگوں کو ٹیکس دینا ہوگا، اب ان کے گرد گھیرا تنگ کرنے جا رہے ہیں۔ رواں ماہ نوٹس جاری کرنا شروع کریں گے مگر کسی کو ہراساں نہیں کیا جائے گا۔ ٹیکس کلچر بنانا ہے تو شروعات پارلیمنٹیرینز سے ہونی چاہیے۔

ارکان پارلیمنٹ کی ٹیکس ڈائریکٹری کے اجراء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا یہاں جس کی جتنی طاقت ہے وہ ٹیکس چھپاتا ہے، ہم کرنٹ اخراجات بھی اپنے ریونیو سے پورا نہیں کر پا رہے، پائیدار ملکی ترقی اور معاشی نمو کے لیے آیندہ 6 برسوں میں جی ڈی پی کی شرح سے ٹیکسوں کی وصولی کو20 فیصد تک بڑھانا ہو گا، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی یہ شرح سات سے آٹھ فیصد جی ڈی پی گروتھ کو سپورٹ کرے گی۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر ٹیکس انتظامیہ اور ٹیکس کے نظام میں ہم آہنگی کے لیے کام ہو رہا ہے، شناختی کارڈ کے ذریعے پتہ لگائیں گے کہ کس کی کتنی انکم ہے۔

انکم ٹیکس اور جی ایس ٹی کے علاوہ کوئی ٹیکس نہیں ہونا چاہیے۔ جیسے جیسے ٹیکس نیٹ بڑھے گا تو ٹیکس شرح بھی کم کریں گے، ڈیڑھ کروڑ لوگ آمدنی سے کم ٹیکس دیتے ہیں اسی ماہ انھیں نوٹس جاری کرنا شروع کریں گے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شوکت ترین نے کہا فنانس بل کی منظوری میں دو چار دن کی تاخیر ہوئی تو کوئی ایشو نہیں ہے اس سے آئی ایم ایف سے پاکستان کے لیے چھٹے اقتصادی جائزہ اور اگلی قسط کی منظوری پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

آئی ایم ایف کے ساتھ اگرچہ12جنوری کی تاریخ طے ہے مگر آئی ایم ایف کے لیے دو چار دن اوپر کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ سپلیمنٹری فنانس بل کل سینیٹ میں پیش کر دیا جائے گا ہو سکتا ہے چار روز میں سینیٹ سے کلیئر ہو جائے اس کے بعد بل قومی اسمبلی سے پاس کرایا جائے گا۔

ٹیکس کلچر کی بات ملک کے اقتصادی نظام کے بنیادی مسائل کی نشاندہی کیے بغیر ممکن نہیں، بنیادی سوال عوام کے طرز عمل، ذہنی رجحان اور ملک کی اقتصادی ترقی میں فرد کے انفرادی کردار اور معیشت کی ترقی میں اس کے رول کا ہے، ملکی اقتصادی مسائل میں اہم کردار ٹیکس کلچر کا ہے، کاروباری لوگ ٹیکس سے بچنا چاہتے ہیں، یہ انداز فکر حکمرانوں کا ہے، وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے، لیکن وہ اس گورکھ دھندے کو زیر بحث نہیں لاتے کہ عوام ٹیکس کیوں نہیں دیتے، یہی عوام، کسٹم ڈیوٹیز، انکم ٹیکس، اور بجلی اور گیس کے بل ادا کرتے ہیں، کیونکہ ایک سسٹم بنایا گیا ہے۔

لوگ اس نظام کے تحت بلنگ کے عمل میں شامل ہوتے ہیں لیکن بجلی اور گیس کی بلنگ نے عوام کی زندگی کو ناقابل یقین مصائب اور دباؤ میں مبتلا کیا ہے، غریب آدمی کے لیے بجلی اور گیس کے بل ہوشربا ہیں، اسی طرح ماہرین نے نے رائے دی تھی کہ عوام پر ٹیکس کا بوجھ کم کیا جائے تو وہ خوشی سے ٹیکس دیں گے، لیکن ٹیکس سسٹم میں بھی عوام اور کاروباری طبقے کو ریلیف اور سہولتیں مہیا کی جائیں، ٹیکس سسٹم کرپشن سے پاک ہونا چاہیے، غربت اور مہنگائی کو کنٹرول کیے بغیر ملک میں ٹیکس کلچر کے شفاف نظام کا قیام ایک بنیادی سوال ہے۔

وطن عزیز میں ٹیکس کلچر اب تک مستحکم نہیں ہو سکا ہے لیکن اس میں اصل قصور ٹیکس دینے والوں کا نہیں بلکہ بیشتر حصہ ٹیکس وصولی کے فرسودہ نظام اور متعلقہ اہلکاروں کے رویوں اور طریق کار کا ہے۔ ٹیکس کی ادائیگی کو شہریوں کے لیے ایک ناگوار اور خوفناک عمل کے بجائے خوشگوار فریضہ بنانے کی خاطر ضروری ہے کہ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں کو خصوصی مراعات دی جائیں مثلاً جنرل سیلز ٹیکس، پراپرٹی اور موٹر وہیکل ٹیکس وغیرہ کے معاملے میں رعایت دی جائے اور سماجی حوالوں سے نمایاں سہولتیں فراہم کی جائیں۔ ٹیکس کی ادائیگی کا نظام زیادہ سے زیادہ آسان اور مکمل طور پر خودکار بنایا جائے تاکہ ٹیکس اہلکاروں سے لوگوں کا واسطہ کم سے کم پڑے اور وہ رشوتوں کے مطالبوں اور خوف و ہراس کے بغیر ٹیکس کی ادائیگی کرسکیں نیز حکمراں، ارکانِ پارلیمنٹ، بیوروکریسی کے ارکان اور دیگر مقتدر حلقے بروقت اور مکمل ٹیکس ادائیگی کے ضمن میں خود پوری قوم کے لیے مثال بنیں تاکہ ان کی جانب سے عوام سے ٹیکس ادا کرنے کے مطالبے کا اخلاقی جواز مستحکم ہو سکے۔

حکمران طبقات کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ معاشی ترقی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوتی۔ اس کے لیے ایک جامع سیاسی اور معاشی نظام درکار ہوتا ہے جو مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہو۔ یہ عمل ایک مضبوط ادارہ جاتی نظام بھی مانگتا ہے۔ کیونکہ اداروں کی مدد سے ہی ہم معاشی ترقی سے وابستہ اہداف کو حاصل کرسکتے ہیں۔ ہماری ادارہ جاتی صلاحیت بہت کمزور ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم بہت زیادہ وسائل خرچ کرکے بھی مطلوبہ نتائج کے حصول کو ممکن نہیں بنا پارہے۔ عالمی سطح پر ہماری ترقی اورعام آدمی کے مفاد سے جڑے اعدادوشمار ہمیں بدحالی کی طرف دھکیلتے ہیں۔ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی، بے روز گاری، مہنگائی، پٹرول، بجلی، گیس اور ادویات کی قیمتوں میں اضافہ عام آدمی کی مشکلات میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔اس لیے ہماری مجموعی سیاست کو نئے سرے سے ایسے خطوط او رفریم ورک میں لانا ہوگا۔

حکمرانوں کو ملک کے اقتصادی اور معاشی نظام کی بہتری کے لیے جرات مندانہ فیصلے کرنے پڑیں گے، ڈنگ ٹپاؤ طریقہ کار سے کام نہیں چلے گا، ارباب اختیار معاشی معاشی حکمت عملی کو انصاف، شفافیت اور میرٹ پر استوار کریں تو ملک کو فلاحی ریاست کی طرف گامزن ہونے میں کسی صدی کا انتظار نہیں کرنا پڑیگا۔ صرف مضبوط قوت ارادی درکار ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں