پاک افغان سرحد پر باڑکا تقدس

ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ طالبان ہمارے دوست ہیں۔ وہ بھارت کے ایجنٹ نہیں ہیں

msuherwardy@gmail.com

کراچی:
پاک افغان سرحد پرآج کل تناؤ کی خبریں آرہی ہیں۔ ایسی ویڈیوز سامنے آرہی ہیں، جن میں افغان طالبان پاک افغان سرحد پر لگی باڑ کو ہٹا رہے ہیں۔ افغان طالبان قیادت کی جانب سے ایسے بیانات بھی سامنے آرہے ہیں جن میں اس باڑ کو ہٹانے کے اقدام کی نہ صرف توثیق کی جا رہی ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کی جا رہی ہے۔ ابتدائی طور پر یہ خیال تھا کہ افغان طالبان کے مقامی کمانڈر باڑ ہٹا رہے ہیں لیکن اب جب سرکاری طور پر اس کی نہ صرف تصدیق ہو گئی ہے بلکہ اس کا دفاع بھی کیا جا رہا ہے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سرحد سے باڑ ہٹانا افغان طالبان کی سرکاری پالیسی ہے اور مقامی کمانڈرز کو مکمل سرکاری سر پرستی حاصل ہے۔

دو ممالک کے درمیان سرحدی تنازعات کی موجودگی کے باوجود سرحد کا ایک تقدس ہوتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کے درمیان سرحدی تنازعات موجود ہیں۔ لیکن پھر بھی سرحدوں کا تقدس قائم رکھا جاتا ہے۔ سرحدوں پر کسی بھی قسم کا یک طرفہ قدم دوسرا ملک اپنے لیے جارحیت ہی تصور کرتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر پر کوئی بین الاقوامی بارڈر نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی اس لائن آف کنٹرول کا ایک تقدس ہے۔ اس لیے افغان طالبان کی جانب سے سرحد کے تقدس کی پامالی کو اس طرح نظرا نداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ملک کی خود مختاری میں سرحدوں کے تقدس کو بنیادی اور کلیدی حیثیت حاصل ہے، اس پر سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔

میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ ڈیورنڈ لائن کوئی مستقل سرحد ہے کہ نہیں۔ افغان کہاں تک اپنا علاقہ سمجھتے ہیں اور پاکستان کہاں تک اپنا علاقہ سمجھتا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ڈیورنڈ لائن ایک سرحد کے طور پر موجود ہے۔ افغانستان میں کئی حکومتیں آئیں اور کئی گئیں۔ روس آیا چلا گیا۔ امریکا آیا چلا گیا۔ بادشاہت ختم ہوئی۔ کرزئی آیا اشرف غنی آیا۔ اسی طرح پاکستان میں کئی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن دونوں ممالک کے درمیان ڈیورنڈ لائن بین الااقوامی سرحد کے طور پر قائم رہی۔ ہر حکومت نے اسی کو مستند سرحد مانا ہے۔ اس لیے افغان طالبان کا یہ موقف کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا کہ یہ کوئی سرحد نہیں ہے۔


پاکستان کے وزیر خارجہ نے نرم لہجہ میں تسلیم کر لیا ہے کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان سرحد پر باڑ کے حوالے سے اختلاف موجود ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے لہجہ میں نرمی کیوں ہے؟ ہم نے کیوں معذرت خواہانہ رویہ اپنایا ہوا ہے؟ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے پر تو اشرف غنی بھی خلاف تھے۔ لیکن ان کی حکومت کو یہ جرات نہیں تھی کہ پاکستان کی لگائی ہوئی باڑ کو ہاتھ بھی لگا سکیں۔ اشرف غنی جس کو ہم بھارت کا ایجنٹ کہتے تھکتے نہیں تھے، اس نے باڑ کو لگنے دیا۔ لیکن طالبان ہمارے دوست اس باڑ کو توڑ بھی رہے ہیں اور اس پر جشن بھی منا رہے ہیں۔ سرحد پر کھڑے ہو کر پاکستان کے خلاف باتیں بھی کرتے ہیں اور پاکستان سے دوستی کا دم بھی بھرتے ہیں۔ کیا یہ سوال آج اہم نہیں کہ ہم نے طالبان کی وکالت سے کیا کھویا کیا پایا؟ دنیا طالبان کی وجہ سے ہمارے خلاف ہے اور طالبان بھی ہمارے خلاف ہیں۔ ایسے میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان دہشت گردوں کی آمدو رفت کا مسئلہ بہت پرانا ہے۔ اشرف غنی اور حامد کرزئی پاکستان پر الزام لگاتے تھے کہ پاکستان سے دہشت گرد افغانستان میں داخل ہوتے ہیں، جب کہ پاکستان کا موقف رہا ہے کہ افغانستان سے دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل رہی ہیں۔ آج بھی تحریک طالبان پاکستان کی کارروائیوں میں افغانستان کی سرزمین استعما ل ہو رہی ہے۔اس تناظر میں پاک افغان سرحد پر باڑ پاکستان کی سلامتی اور امن وامان کے لیے ناگزیر ہے۔ جب تک پاک افغان سرحد پر آمد و رفت پر سرکاری کنٹرول نہیں ہوگا تب تک پاکستان میں دہشت گردی اور دیگر جرائم کا خاتمہ ممکن نہیں۔ یہ باڑ ایک ایک پاکستانی کے خون پسینے سے لگی ہے لہٰذا اس باڑ کی حفاظت ہم پر لازم ہے۔

ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ طالبان ہمارے دوست ہیں۔ وہ بھارت کے ایجنٹ نہیں ہیں۔ ان کے آنے سے پاکستان میں امن آئے گا۔ وہ ہمارے دہشت گرد ہمارے حوالے کر دیں گے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ پہلے انھوں نے ہمیں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر مجبور کیا۔ ایک فضول سیز فائر کرایا اورا ب وہ بھی ختم ہو گیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ افغان طالبان کا ٹی ٹی پی کے لیے نرم گوشہ کیوں ہے؟ اگر کوئی ملک ہماری سرحد پر جارحیت کرے تو ہمارا کیا جواب ہونا چاہیے، جواب یہ ہے کہ ہمیں اس جارحیت کا منہ توڑ جواب دینا چاہیے۔ ہم نے سرحد سے کافی اندر آکر اپنے علاقے میں یہ باڑ لگائی ہے۔ اس لیے جب اس باڑ کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے تو پاکستان کے علاقے میں اندر آکر اس باڑ کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ دشمن ہو یا دوست ملک کسی کو بھی ہم اپنے علاقے میں آکر کسی بھی قسم کی جار حیت کی اجازت نہیں دے سکتے۔

میں سمجھتا ہوں افغان طالبان پیار سے ہماری بات نہیں سنیں گے، وہ پیار کی بات سننے والے لوگ ہی نہیں ہیں۔ سرحد کے تقدس کے آداب ہمیں انھیں سکھاناہوںگے۔ ہمیں بتانا ہوگا کہ ساری دوستی اور ہمدردی ایک طرف لیکن سرحد کا تقدس ایک طرف، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کواس باڑ اور پاک افغان سرحد کے تقدس کے آداب افغان طالبان کو سمجھانا ہوں گے۔ اگر وہ بات نہیں مانتے تو ہمیں ان کے ساتھ اعلان لاتعلقی کرنے سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ تجارت بند کرنی چاہیے اور اگر اس پر بھی وہ باز نہیں آتے تو جو بھی باڑ کو ہاتھ لگائے اس کو سبق سکھانا چاہیے۔ ہم ایک ایٹمی ملک ہیں اور ہم ایک باڑ کی حفاطت نہ کرسکیں، یہ کیسے ممکن ہے۔ ہمارا نرم رویہ اقوم عالم میں ہمارا سبکی کا باعث بن رہا ہے۔ آج ہم افغان سرحد پر نرمی کریں گے تو کل باقی سب کو جرات ہوگی، اس لیے پاکستان سے بڑھ کر کچھ نہیں، طالبان بھی نہیں۔
Load Next Story