شکریہ پروفیسر صاحب
حفیظ ہمیشہ خطروں سے کھیلنے والے کھلاڑی رہے ہیں مگر یہ خطرات فیلڈ نہیں فیلڈ سے باہر کے تھے
پرنٹ میڈیا میں برسوں کام کرنے کے بعد ''کرکٹ پاکستان'' ویب سائٹ کے ذریعے مجھے ڈیجیٹل میڈیا میں انٹری ملی، یہاں بڑے بڑے سپراسٹورز کے درمیان ایک چھوٹی سی دکان سجائی لیکن عزت دینے والی ذات اللہ کی ہے، ویب سائٹ کیلیے محدود پیمانے پر تھوڑا سا ہی کام کیا ہے لیکن اس میں سے کئی ویڈیوز وائرل ہوگئیں۔
ان میں سے ایک سابق جنوبی افریقی پیسر ڈیل اسٹین کا انٹرویو تھا جس میں انھوں نے پی ایس ایل کو آئی پی ایل سے بڑی لیگ قرار دے کر بھارتیوں کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی،البتہ سب سے زیادہ ہٹ محمد حفیظ کا انٹرویو ہوا جس میں ایک سوال پر انھوں نے یہ تاریخی جملہ کہا کہ ''رمیز راجہ سے زیادہ کرکٹ کی سمجھ میرے12سالہ بیٹے کو ہے'' یہ ویڈیو بھی وائرل ہوئی، اس وقت کوئی نہ جانتا تھا کہ رمیز بعد میں چیئرمین پی سی بی بنیں گے، جب ایسا ہوا تو پھر حفیظ کی یہ کلپ سوشل میڈیا پر چلنے لگی،سب کو اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ اب وہ زیادہ عرصے قومی ٹیم کا حصہ نہیں رہ سکیں گے۔
حفیظ ہمیشہ خطروں سے کھیلنے والے کھلاڑی رہے ہیں مگر یہ خطرات فیلڈ نہیں فیلڈ سے باہر کے تھے، وہ ان چند کرکٹرز میں سے ایک ہیں جو لگی لپٹی نہیں رکھتے، آپ ان سے جو بھی سوال پوچھیں وہ صاف گوئی سے جواب دیں گے،اسی بات کا ان کو نقصان ہوا، جب تک بیٹ ساتھ دیتا رہا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا، احسان مانی کے دور میں وسیم خان سے ان کی کبھی نہیں بنی، سینٹرل کنٹریکٹ، این او سی سمیت کئی معاملات پر اختلافات ہوئے، ایک دن تو نوبت یہاں تک آ پہنچی تھی کہ حفیظ سخت جواب دینے کا سوچنے لگے مگر میں نے انھیں سمجھایا تھا کہ ان کیلیے اپنے کیریئر پر توجہ دینا مناسب ہوگا۔
انتظار کریں وسیم خان جیسے لوگ ہمیشہ بورڈ میں تھوڑی رہیں گے، گذشتہ برس حفیظ کی فارم متاثر ہونا شروع ہوئی، انھیں خود بھی اس بات کا احساس تھا اس سے مخالفین کو مدد ملی اور وہ انھیں ٹیم سے پکا باہر کرنے کی مہم چلانے لگے، انھیں مختلف کارروائی سے اشتعال بھی دلانے کی کوشش ہوئی تاکہ خود ہی ریٹائر ہو جائیں لیکن حفیظ ڈٹے رہے، البتہ اب انھوں نے کیریئر ختم کرنے کا اعلان کر دیا، مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ اب بھی1،2 سال انٹرنیشنل کرکٹ کھیل سکتے تھے۔
ان کی فٹنس کئی نوجوان کرکٹرز سے بہتر ہے، مگر پی ایس ایل کیلیے کیٹیگری میں تنزلی اور چیف سلیکٹر محمد وسیم کے حالیہ بعض بیانات سے واضح ہوگیا کہ انھیں قومی ٹیم سے باہر رکھنے کا ہدایت نامہ جاری ہو چکا ہے، حفیظ کو کرکٹ میں ان کی سمجھ بوجھ کی وجہ سے پروفیسر کہا جاتا ہے، ظاہر ہے وہ بھی اچھی طرح یہ سب باتیں سمجھ چکے تھے لہٰذا بہتر یہی سمجھا کہ اچھے انداز میں قومی ٹیم سے دور ہو جائیں،اگر وہ ایسا نہ کرتے تو اسکواڈ میں شامل نہ کیا جاتا یوں ایک اور ملکی اسٹار کا ریٹائرمنٹ کا اعلان کیے بغیرکیریئر ختم ہو جاتا، اس لحاظ سے انھوں نے درست قدم اٹھایا لیکن اس سے بڑا المیہ کیا ہو گاکہ 18 سال میں پاکستان کیلیے تقریباً400 انٹرنیشنل میچز کھیلنے والے کھلاڑی کو بھی چیئرمین سے ملاقات کا وقت نہ مل سکا،پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس آج اگر اربوں روپے ہیں تو یہ انہی کرکٹرز کی مرہون منت ہیں۔
ان کیلیے دفتر کے دروازے ہمیشہ کھلے ہونے چاہئیں مگر افسوس ایسا نہیں ہے، رمیز راجہ خود سابق کرکٹر رہے ہیں انھیں تو کھلاڑیوں کو زیادہ عزت دینی چاہیے، یہ کہا گیاکہ وہ سمجھے حفیظ پی ایس ایل کیٹیگری کی بات کرنے کیلیے ملنا چاہتے ہیں انھیں نہیں پتا تھا کہ وہ ریٹائر ہو رہے ہیں، اگر کیٹیگری یا کوئی بھی مسئلہ ہو بورڈ کے سربراہ کا فرض ہے کہ وہ کھلاڑیوں کی بات سنے لیکن چیئرمین نے اس وقت بورڈ کے تمام معاملات اپنے ہاتھوں میں لیے ہوئے ہیں شاید اس لیے ان کے پاس وقت نہیں ہے۔
البتہ اس سے غلط تاثر سامنے آیا اور لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ شاید رمیز کی جانب سے حفیظ کو نظرانداز کرنے کی وجہ ''کرکٹ کی سمجھ'' والا بیان ہے، خیر اب پی سی بی کو چاہیے کہ آل راؤنڈر کیلیے پی ایس ایل کے دوران یا اگلی سیریز میں کوئی تقریب سجائے، جس طرح سوشل میڈیا پوسٹس میں دنیا بھر کے کرکٹ بورڈز کی نقالی کی جاتی ہے ویسے ہی گوروں کی طرح آپ بھی اپنے کھلاڑی کو عزت دیں، ایک چھوٹی گاڑی میں فیملی کے ساتھ بٹھا کرگراؤنڈ کا چکر لگوائیں، ہم وطن تالیاں بجا کر داد دیں، ایک تقریر کروائیں، بورڈ کی جانب سے چند لاکھ روپے بھی دیں۔
اس سے ظاہر ہوگا کہ ہم اپنے اسٹارز کی قدر کرتے ہیں، امید ہے رمیز ایسا ہی کریں گے۔ حفیظ نے بھی ان کی طرح فکسرز کے خلاف ہمیشہ سخت اسٹانس لیا ہے،عامر کی واپسی پر احتجاج بھی کیا تھا جس پر ان سے کہا گیا کہ وہ تو کھیلے گا آپ کو جانا ہے تو جائیں، اسے حفیظ نے اپنے کیریئر کا سب سے افسوسناک لمحہ قرار دیا، جب ڈومیسٹک کرکٹرز کی ملازمتیں ختم ہوئیں تو ان کا کیس وزیر اعظم عمران خان کے سامنے پیش کرنے میں بھی وہ نمایاں تھے، ٹیم میں نوجوان کھلاڑیوں کی بھی حفیظ نے ہمیشہ رہنمائی کی،40 سال کی عمر میں ان کا کھیل مزید نکھر گیا تھا۔
پاور ہٹنگ کی صلاحیت بھی بہتر ہوئی، ان کی آف اسپن بولنگ بھی زبردست تھی مگر ایکشن کی بار بار رپورٹ ہونے سے اعتماد پر فرق پڑا،فیلڈنگ میں بھی وہ سب سے بہتر تھے، حفیظ کو گالف کا بہت شوق ہے، وہ اب اسے پورا کریں گے، ٹی ٹوئنٹی لیگز میں ان کی ویسے ہی بڑی ڈیمانڈ ہے، پرستار وہاں انھیں ایکشن میں دیکھ سکیں گے،ان جیسے کرکٹرز نے ہی اس تاثر کو اپنی کارکردگی سے غلط ثابت کر دکھایا کہ ''ٹی ٹوئنٹی صرف نوجوانوں کا کھیل ہے'' پاکستان کرکٹ کیلیے خدمات پر ''پروفیسر صاحب'' آپ کا بہت شکریہ، امید ہے اب فیلڈ سے باہررہ کر بھی قومی ٹیم کیلیے مددگار ثابت ہوتے رہیں گے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
ان میں سے ایک سابق جنوبی افریقی پیسر ڈیل اسٹین کا انٹرویو تھا جس میں انھوں نے پی ایس ایل کو آئی پی ایل سے بڑی لیگ قرار دے کر بھارتیوں کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی،البتہ سب سے زیادہ ہٹ محمد حفیظ کا انٹرویو ہوا جس میں ایک سوال پر انھوں نے یہ تاریخی جملہ کہا کہ ''رمیز راجہ سے زیادہ کرکٹ کی سمجھ میرے12سالہ بیٹے کو ہے'' یہ ویڈیو بھی وائرل ہوئی، اس وقت کوئی نہ جانتا تھا کہ رمیز بعد میں چیئرمین پی سی بی بنیں گے، جب ایسا ہوا تو پھر حفیظ کی یہ کلپ سوشل میڈیا پر چلنے لگی،سب کو اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ اب وہ زیادہ عرصے قومی ٹیم کا حصہ نہیں رہ سکیں گے۔
حفیظ ہمیشہ خطروں سے کھیلنے والے کھلاڑی رہے ہیں مگر یہ خطرات فیلڈ نہیں فیلڈ سے باہر کے تھے، وہ ان چند کرکٹرز میں سے ایک ہیں جو لگی لپٹی نہیں رکھتے، آپ ان سے جو بھی سوال پوچھیں وہ صاف گوئی سے جواب دیں گے،اسی بات کا ان کو نقصان ہوا، جب تک بیٹ ساتھ دیتا رہا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا، احسان مانی کے دور میں وسیم خان سے ان کی کبھی نہیں بنی، سینٹرل کنٹریکٹ، این او سی سمیت کئی معاملات پر اختلافات ہوئے، ایک دن تو نوبت یہاں تک آ پہنچی تھی کہ حفیظ سخت جواب دینے کا سوچنے لگے مگر میں نے انھیں سمجھایا تھا کہ ان کیلیے اپنے کیریئر پر توجہ دینا مناسب ہوگا۔
انتظار کریں وسیم خان جیسے لوگ ہمیشہ بورڈ میں تھوڑی رہیں گے، گذشتہ برس حفیظ کی فارم متاثر ہونا شروع ہوئی، انھیں خود بھی اس بات کا احساس تھا اس سے مخالفین کو مدد ملی اور وہ انھیں ٹیم سے پکا باہر کرنے کی مہم چلانے لگے، انھیں مختلف کارروائی سے اشتعال بھی دلانے کی کوشش ہوئی تاکہ خود ہی ریٹائر ہو جائیں لیکن حفیظ ڈٹے رہے، البتہ اب انھوں نے کیریئر ختم کرنے کا اعلان کر دیا، مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ اب بھی1،2 سال انٹرنیشنل کرکٹ کھیل سکتے تھے۔
ان کی فٹنس کئی نوجوان کرکٹرز سے بہتر ہے، مگر پی ایس ایل کیلیے کیٹیگری میں تنزلی اور چیف سلیکٹر محمد وسیم کے حالیہ بعض بیانات سے واضح ہوگیا کہ انھیں قومی ٹیم سے باہر رکھنے کا ہدایت نامہ جاری ہو چکا ہے، حفیظ کو کرکٹ میں ان کی سمجھ بوجھ کی وجہ سے پروفیسر کہا جاتا ہے، ظاہر ہے وہ بھی اچھی طرح یہ سب باتیں سمجھ چکے تھے لہٰذا بہتر یہی سمجھا کہ اچھے انداز میں قومی ٹیم سے دور ہو جائیں،اگر وہ ایسا نہ کرتے تو اسکواڈ میں شامل نہ کیا جاتا یوں ایک اور ملکی اسٹار کا ریٹائرمنٹ کا اعلان کیے بغیرکیریئر ختم ہو جاتا، اس لحاظ سے انھوں نے درست قدم اٹھایا لیکن اس سے بڑا المیہ کیا ہو گاکہ 18 سال میں پاکستان کیلیے تقریباً400 انٹرنیشنل میچز کھیلنے والے کھلاڑی کو بھی چیئرمین سے ملاقات کا وقت نہ مل سکا،پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس آج اگر اربوں روپے ہیں تو یہ انہی کرکٹرز کی مرہون منت ہیں۔
ان کیلیے دفتر کے دروازے ہمیشہ کھلے ہونے چاہئیں مگر افسوس ایسا نہیں ہے، رمیز راجہ خود سابق کرکٹر رہے ہیں انھیں تو کھلاڑیوں کو زیادہ عزت دینی چاہیے، یہ کہا گیاکہ وہ سمجھے حفیظ پی ایس ایل کیٹیگری کی بات کرنے کیلیے ملنا چاہتے ہیں انھیں نہیں پتا تھا کہ وہ ریٹائر ہو رہے ہیں، اگر کیٹیگری یا کوئی بھی مسئلہ ہو بورڈ کے سربراہ کا فرض ہے کہ وہ کھلاڑیوں کی بات سنے لیکن چیئرمین نے اس وقت بورڈ کے تمام معاملات اپنے ہاتھوں میں لیے ہوئے ہیں شاید اس لیے ان کے پاس وقت نہیں ہے۔
البتہ اس سے غلط تاثر سامنے آیا اور لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ شاید رمیز کی جانب سے حفیظ کو نظرانداز کرنے کی وجہ ''کرکٹ کی سمجھ'' والا بیان ہے، خیر اب پی سی بی کو چاہیے کہ آل راؤنڈر کیلیے پی ایس ایل کے دوران یا اگلی سیریز میں کوئی تقریب سجائے، جس طرح سوشل میڈیا پوسٹس میں دنیا بھر کے کرکٹ بورڈز کی نقالی کی جاتی ہے ویسے ہی گوروں کی طرح آپ بھی اپنے کھلاڑی کو عزت دیں، ایک چھوٹی گاڑی میں فیملی کے ساتھ بٹھا کرگراؤنڈ کا چکر لگوائیں، ہم وطن تالیاں بجا کر داد دیں، ایک تقریر کروائیں، بورڈ کی جانب سے چند لاکھ روپے بھی دیں۔
اس سے ظاہر ہوگا کہ ہم اپنے اسٹارز کی قدر کرتے ہیں، امید ہے رمیز ایسا ہی کریں گے۔ حفیظ نے بھی ان کی طرح فکسرز کے خلاف ہمیشہ سخت اسٹانس لیا ہے،عامر کی واپسی پر احتجاج بھی کیا تھا جس پر ان سے کہا گیا کہ وہ تو کھیلے گا آپ کو جانا ہے تو جائیں، اسے حفیظ نے اپنے کیریئر کا سب سے افسوسناک لمحہ قرار دیا، جب ڈومیسٹک کرکٹرز کی ملازمتیں ختم ہوئیں تو ان کا کیس وزیر اعظم عمران خان کے سامنے پیش کرنے میں بھی وہ نمایاں تھے، ٹیم میں نوجوان کھلاڑیوں کی بھی حفیظ نے ہمیشہ رہنمائی کی،40 سال کی عمر میں ان کا کھیل مزید نکھر گیا تھا۔
پاور ہٹنگ کی صلاحیت بھی بہتر ہوئی، ان کی آف اسپن بولنگ بھی زبردست تھی مگر ایکشن کی بار بار رپورٹ ہونے سے اعتماد پر فرق پڑا،فیلڈنگ میں بھی وہ سب سے بہتر تھے، حفیظ کو گالف کا بہت شوق ہے، وہ اب اسے پورا کریں گے، ٹی ٹوئنٹی لیگز میں ان کی ویسے ہی بڑی ڈیمانڈ ہے، پرستار وہاں انھیں ایکشن میں دیکھ سکیں گے،ان جیسے کرکٹرز نے ہی اس تاثر کو اپنی کارکردگی سے غلط ثابت کر دکھایا کہ ''ٹی ٹوئنٹی صرف نوجوانوں کا کھیل ہے'' پاکستان کرکٹ کیلیے خدمات پر ''پروفیسر صاحب'' آپ کا بہت شکریہ، امید ہے اب فیلڈ سے باہررہ کر بھی قومی ٹیم کیلیے مددگار ثابت ہوتے رہیں گے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)