الیکٹرانک کچرا انسانی زندگی کے لیے بڑھتا ہوا ایک اور خطرہ
پاکستان میں الیکٹرانک فضلے کو تلف کرنے یا ری سائیکلنگ کے حوالے سے کوئی واضع قانون نہیں ہے
ISLAMABAD:
الیکٹرانک اشیا کے بڑھتے ہوئے استعمال سے دنیا بھر کی طرح پاکستان کو ای ویسٹ یعنی الیکٹرانک کچرے کو تلف کرنے کے مسائل کا سامنا ہے، ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ای ویسٹ کے لئے ٹھوس اقدامات اور پالیسی مرتب نہ کی گئی تو یہ نہ صرف ہمارے ماحول بلکہ انسانی زندگیوں کے لئے بھی ایک بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔
لاہور کی سب سے بڑی الیکٹرانک مارکیٹ ہال روڈ اور میو اسپتال کے قریب الیکٹرانک کچرا بیچنے والوں کی بہتات ہے جہاں ناکارہ موبائل فون، بیٹریاں، الیکٹرانکس کی اشیا، چارجر، استعمال شدہ کمپیوٹر، کیبورڈ اور دیگرسامان فروخت کیا جاتا ہے۔
لاہور کے علاقہ بند روڈ میں کئی ایسے گودام اور کارخانے بھی ہیں جہاں الیکٹرانک کچرے کو جلایا جاتا ہے یا پھر مختلف طریقوں سے الیکٹرانک کچرے میں سے مختلف دھاتوں کو الگ کیا جاتا ہے۔ اس کے لئے مختلف مائع کیمیکل اور پانی استعمال کیا جاتا ہے اور پھر یہ انتہائی زہریلا پانی سیوریج کے ذریعے دریائے راوی میں پھینکا جاتا ہے۔
ملک کے کئی علاقوں میں غیر ملکوں سے ای-کچرا درآمد کرکے ان سے مفید چیزیں نکالنے کا کاروبار بھی ہو رہا ہے۔ پرانے لیپ ٹاپ، ڈیسک ٹاپ، موبائل فون، بیٹریاں، کنڈیسر اور سی ڈی و فیکس مشینوں کو کیمیکلز میں ڈبو کر ان سے تھوڑی بہت مقدار میں سونا، چاندی، پلیٹینم وغیرہ دھاتوں کو نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی پنجاب کے ڈپٹی ڈائریکٹر علی اعجاز نے بتایا کہ پاکستان باسل کنونشن کا دستخط کنندہ ہے اور اس نے 24 جولائی 1994 کو اس کی توثیق کی ہے۔ یہ کنونشن ای ویسٹ جیسے زہریلے کچرے کی نقل و حرکت پر نظر رکھتا ہے۔ پنجاب میں ماحولیاتی قانون سازی کے باوجود پاکستان میں الیکٹرانک ویسٹ کے لیے کوئی خاص رہنما اصول نہیں ہیں، الیکٹرانک کچرا میونسپل کے ٹھوس کچرے کاایک حصہ ہے لیکن ہمارے یہاں سالڈویسٹ کوتلف کرنے سے متعلق کوئی رولزنہیں ہیں، یہ ہمارے لئے ایک مسئلہ ہے۔
پنجاب انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) کی ایک رپورٹ کے مطابق الیکٹرانک کچرا ہمارے عام ٹھوس کچرے کا محض ایک اعشاریہ چار فیصد ہے تاہم یہ ہماری زمین میں 70 فیصد بھاری دھاتوں کا سبب بن سکتا ہے جس میں چالیس فیصد تک سیسہ بھی شامل ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیاتی سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سلمان طارق کہتے ہیں کہ ای ویسٹ میں زہریلا مواد ہوتا ہے جو انسانی جسم میں چکنائی والے ٹشوز کو متاثر کرتا ہے، اس سے جنین کی نشوونما اور دودھ پلانے والے بچوں پر شدید منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، ٹی وی اسکرینیوں میں پائی جانیوالی مرکری اور نیوروٹوکسن انسان کے اعصابی نظام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، کیڈ میم اور مرکری پانی میں شامل ہوکر اسے آلودہ کرتے ہیں، سرکٹ بورڈز اور بیٹریوں میں کیڈمیم ہوتا ہے، جو کینسر کی مختلف اقسام کے فروغ میں براہ راست ملوث ہونے کے لیے جانا جاتا ہے۔ پولی ونائل کلورائیڈ ایک مصنوعی پولیمر ہے جو الیکٹرانک آلات کی تاروں اور کیبلز کی موصلیت کے لیے استعمال ہوتا ہے، جب اسے ضائع کیا جاتا ہے تو کلورینیٹڈ ڈائیکسنز اور فرانز کے اخراج کو جنم دیتا ہے۔
انہوں نے بتایا موبائل فون، لیپ ٹاپ یا دیگر الیکٹرانک آلات/ڈیوائسز اوران کی بیٹریاں ان سبھی میں استعمال ہونے والی معدنیات، پلاسٹک اور تابکاری پیدا کرنے والے پرزے سیکڑوں سال تک زمین میں دبے رہنے کے باوجود ختم نہیں ہوتے ہیں۔ ایک موبائل فون کی بیٹری ہی 6 لاکھ لیٹر پانی آلودہ کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک پرسنل کمپیوٹر میں 3.8پونڈ مہلک سیسہ اور فاسفورس، کیڈمیئم و مرکری (پارہ) جیسے عناصر ہوتے ہیں، جو جلائے جانے پر براہ راست ماحول میں شامل ہوجاتے ہیں اور زہریلے اثرات پیدا کرتے ہیں۔ کمپیوٹروں کی اسکرین کے طور پر استعمال ہونے والی کیتھوڈ رے پکچر ٹیوب جس مقدار میں سیسہ ماحولیات میں چھوڑتی ہے، وہ بھی کافی نقصان دہ ہوتا ہے۔ کچرے میں پہنچنے والی یہ ساری چیزیں آخرکار انسانوں اور دیگر جانداروں میں کینسر جیسی کئی سنگین بیماریاں پیدا کرتی ہیں۔
گلوبل ای ویسٹ مانیٹر کی 2020 میں شائع ہونیوالی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت سالانہ 53 اعشاریہ 6 فیصد الیکٹرانک فضلہ پیدا کیا جارہا ہے جس میں سے صرف 17 اعشاریہ 4 فیصد کچرے کو ری سائیکل کیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ الیکٹرانک کچرا چین میں پھینکا جاتا ہے جس کاحجم 10 اعشاریہ ایک فیصد ہے ،دوسرے نمبرپر امریکا میں 6 اعشاریہ 9 فیصد الیکٹرانک فضلہ پھینکا جاتا ہے جبکہ تیسرے نمبر پر ہمسایہ ملک بھارت ہے جہاں 3 اعشاریہ 2 مین ٹن الیکٹرانک کچراپیداہوتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں بھارت واحدملک ہے جہاں الیکٹرانک کچرے کو ٹھکانے لگانے سے متعلق قانون سازی کی گئی ہے تاہم اس پرعمل درآمد نہ ہونے کے برابرہے جبکہ پاکستان میں الیکٹرانک فضلے کو تلف کرنے یا پھرری سائیکلنگ کے حوالے سے کوئی واضع قانون نہیں ہے۔
انٹرنیشنل لیبرآرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق دنیا میں سالانہ 50 ملین ٹن الیکٹرانک کچرا پھینکا جاتا ہے جس کی مالیت 60 بلین ڈالرہے،اس میں سے صرف 2 فیصد الیکٹرانک فضلے کو ری سائیکل کیاجاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بہت سے ممالک میں ایسا کوڑا کباڑ غیرمناسب اور غیرقانونی طریقے سے زیر زمین دبایا جا رہا ہے، جس کے نہ صرف ماحول بلکہ انسانی صحت پر بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جہاں الیکڑانک کوڑے کو زیر زمین دبایا جا رہا ہے، ان علاقوں کے بچوں کے خون میں لیڈ جیسے عناصر کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور وہ بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
لاہورویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے ترجمان نے بتایا کہ لاہور میں جتنا بھی کچراجمع ہوتا ہے ہم ا س میں کوئی تقسیم نہیں کرتے وہ تمام کچراڈمپنگ سائیٹ پرپھینک دیاجاتا ہے جہاں پر ہمارے کمپوسٹ پلانٹ لگے ہیں۔ وہاں کچھ اس کچرے سے کھادبنائی جاتی ہے جبکہ ٹھوس کچراجس میں شیشے اورٹین کی بوتلیں شامل،ڈھکن شامل ہوتے ہیں ان کوالگ کردیا جاتاہے ،کمپوسٹ پراسیس کے بعد بچ جانے والے کچرے کوزمین میں ڈمپ کیاجاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ الیکٹرانک کچرے کو الگ سے تلف کرنے سے متعلق کوئی پالیسی یاطریقہ کارنہیں ہے۔
ایکسپریس ٹربیون کی تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ گھروں ،مارکیٹوں اور ایل ڈبلیوایم سی کے کوڑادانوں میں پھینکاجانیوالا الیکٹرانک کچرا، کوڑااکٹھاکرنیوالے اٹھالیتے ہیں اورپھروہ اس کچرے کوکباڑیوں کے پاس فروخت کردیتے ہیں جوپھرآگے انہیں پراسیس کرنیوالوں کوبیچ دیتے ہیں یہ تمام لوگ اس بات سے لاعلم ہیں کہ یہ کچراناصرف ان کے لئے بلکہ ہمارے ماحول کے لئے بھی کتناخطرناک ہے۔
الیکٹرانک اشیا کے بڑھتے ہوئے استعمال سے دنیا بھر کی طرح پاکستان کو ای ویسٹ یعنی الیکٹرانک کچرے کو تلف کرنے کے مسائل کا سامنا ہے، ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ای ویسٹ کے لئے ٹھوس اقدامات اور پالیسی مرتب نہ کی گئی تو یہ نہ صرف ہمارے ماحول بلکہ انسانی زندگیوں کے لئے بھی ایک بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔
لاہور کی سب سے بڑی الیکٹرانک مارکیٹ ہال روڈ اور میو اسپتال کے قریب الیکٹرانک کچرا بیچنے والوں کی بہتات ہے جہاں ناکارہ موبائل فون، بیٹریاں، الیکٹرانکس کی اشیا، چارجر، استعمال شدہ کمپیوٹر، کیبورڈ اور دیگرسامان فروخت کیا جاتا ہے۔
لاہور کے علاقہ بند روڈ میں کئی ایسے گودام اور کارخانے بھی ہیں جہاں الیکٹرانک کچرے کو جلایا جاتا ہے یا پھر مختلف طریقوں سے الیکٹرانک کچرے میں سے مختلف دھاتوں کو الگ کیا جاتا ہے۔ اس کے لئے مختلف مائع کیمیکل اور پانی استعمال کیا جاتا ہے اور پھر یہ انتہائی زہریلا پانی سیوریج کے ذریعے دریائے راوی میں پھینکا جاتا ہے۔
ملک کے کئی علاقوں میں غیر ملکوں سے ای-کچرا درآمد کرکے ان سے مفید چیزیں نکالنے کا کاروبار بھی ہو رہا ہے۔ پرانے لیپ ٹاپ، ڈیسک ٹاپ، موبائل فون، بیٹریاں، کنڈیسر اور سی ڈی و فیکس مشینوں کو کیمیکلز میں ڈبو کر ان سے تھوڑی بہت مقدار میں سونا، چاندی، پلیٹینم وغیرہ دھاتوں کو نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی پنجاب کے ڈپٹی ڈائریکٹر علی اعجاز نے بتایا کہ پاکستان باسل کنونشن کا دستخط کنندہ ہے اور اس نے 24 جولائی 1994 کو اس کی توثیق کی ہے۔ یہ کنونشن ای ویسٹ جیسے زہریلے کچرے کی نقل و حرکت پر نظر رکھتا ہے۔ پنجاب میں ماحولیاتی قانون سازی کے باوجود پاکستان میں الیکٹرانک ویسٹ کے لیے کوئی خاص رہنما اصول نہیں ہیں، الیکٹرانک کچرا میونسپل کے ٹھوس کچرے کاایک حصہ ہے لیکن ہمارے یہاں سالڈویسٹ کوتلف کرنے سے متعلق کوئی رولزنہیں ہیں، یہ ہمارے لئے ایک مسئلہ ہے۔
پنجاب انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) کی ایک رپورٹ کے مطابق الیکٹرانک کچرا ہمارے عام ٹھوس کچرے کا محض ایک اعشاریہ چار فیصد ہے تاہم یہ ہماری زمین میں 70 فیصد بھاری دھاتوں کا سبب بن سکتا ہے جس میں چالیس فیصد تک سیسہ بھی شامل ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیاتی سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سلمان طارق کہتے ہیں کہ ای ویسٹ میں زہریلا مواد ہوتا ہے جو انسانی جسم میں چکنائی والے ٹشوز کو متاثر کرتا ہے، اس سے جنین کی نشوونما اور دودھ پلانے والے بچوں پر شدید منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، ٹی وی اسکرینیوں میں پائی جانیوالی مرکری اور نیوروٹوکسن انسان کے اعصابی نظام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، کیڈ میم اور مرکری پانی میں شامل ہوکر اسے آلودہ کرتے ہیں، سرکٹ بورڈز اور بیٹریوں میں کیڈمیم ہوتا ہے، جو کینسر کی مختلف اقسام کے فروغ میں براہ راست ملوث ہونے کے لیے جانا جاتا ہے۔ پولی ونائل کلورائیڈ ایک مصنوعی پولیمر ہے جو الیکٹرانک آلات کی تاروں اور کیبلز کی موصلیت کے لیے استعمال ہوتا ہے، جب اسے ضائع کیا جاتا ہے تو کلورینیٹڈ ڈائیکسنز اور فرانز کے اخراج کو جنم دیتا ہے۔
انہوں نے بتایا موبائل فون، لیپ ٹاپ یا دیگر الیکٹرانک آلات/ڈیوائسز اوران کی بیٹریاں ان سبھی میں استعمال ہونے والی معدنیات، پلاسٹک اور تابکاری پیدا کرنے والے پرزے سیکڑوں سال تک زمین میں دبے رہنے کے باوجود ختم نہیں ہوتے ہیں۔ ایک موبائل فون کی بیٹری ہی 6 لاکھ لیٹر پانی آلودہ کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک پرسنل کمپیوٹر میں 3.8پونڈ مہلک سیسہ اور فاسفورس، کیڈمیئم و مرکری (پارہ) جیسے عناصر ہوتے ہیں، جو جلائے جانے پر براہ راست ماحول میں شامل ہوجاتے ہیں اور زہریلے اثرات پیدا کرتے ہیں۔ کمپیوٹروں کی اسکرین کے طور پر استعمال ہونے والی کیتھوڈ رے پکچر ٹیوب جس مقدار میں سیسہ ماحولیات میں چھوڑتی ہے، وہ بھی کافی نقصان دہ ہوتا ہے۔ کچرے میں پہنچنے والی یہ ساری چیزیں آخرکار انسانوں اور دیگر جانداروں میں کینسر جیسی کئی سنگین بیماریاں پیدا کرتی ہیں۔
گلوبل ای ویسٹ مانیٹر کی 2020 میں شائع ہونیوالی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت سالانہ 53 اعشاریہ 6 فیصد الیکٹرانک فضلہ پیدا کیا جارہا ہے جس میں سے صرف 17 اعشاریہ 4 فیصد کچرے کو ری سائیکل کیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ الیکٹرانک کچرا چین میں پھینکا جاتا ہے جس کاحجم 10 اعشاریہ ایک فیصد ہے ،دوسرے نمبرپر امریکا میں 6 اعشاریہ 9 فیصد الیکٹرانک فضلہ پھینکا جاتا ہے جبکہ تیسرے نمبر پر ہمسایہ ملک بھارت ہے جہاں 3 اعشاریہ 2 مین ٹن الیکٹرانک کچراپیداہوتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں بھارت واحدملک ہے جہاں الیکٹرانک کچرے کو ٹھکانے لگانے سے متعلق قانون سازی کی گئی ہے تاہم اس پرعمل درآمد نہ ہونے کے برابرہے جبکہ پاکستان میں الیکٹرانک فضلے کو تلف کرنے یا پھرری سائیکلنگ کے حوالے سے کوئی واضع قانون نہیں ہے۔
انٹرنیشنل لیبرآرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق دنیا میں سالانہ 50 ملین ٹن الیکٹرانک کچرا پھینکا جاتا ہے جس کی مالیت 60 بلین ڈالرہے،اس میں سے صرف 2 فیصد الیکٹرانک فضلے کو ری سائیکل کیاجاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بہت سے ممالک میں ایسا کوڑا کباڑ غیرمناسب اور غیرقانونی طریقے سے زیر زمین دبایا جا رہا ہے، جس کے نہ صرف ماحول بلکہ انسانی صحت پر بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جہاں الیکڑانک کوڑے کو زیر زمین دبایا جا رہا ہے، ان علاقوں کے بچوں کے خون میں لیڈ جیسے عناصر کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور وہ بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
لاہورویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے ترجمان نے بتایا کہ لاہور میں جتنا بھی کچراجمع ہوتا ہے ہم ا س میں کوئی تقسیم نہیں کرتے وہ تمام کچراڈمپنگ سائیٹ پرپھینک دیاجاتا ہے جہاں پر ہمارے کمپوسٹ پلانٹ لگے ہیں۔ وہاں کچھ اس کچرے سے کھادبنائی جاتی ہے جبکہ ٹھوس کچراجس میں شیشے اورٹین کی بوتلیں شامل،ڈھکن شامل ہوتے ہیں ان کوالگ کردیا جاتاہے ،کمپوسٹ پراسیس کے بعد بچ جانے والے کچرے کوزمین میں ڈمپ کیاجاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ الیکٹرانک کچرے کو الگ سے تلف کرنے سے متعلق کوئی پالیسی یاطریقہ کارنہیں ہے۔
ایکسپریس ٹربیون کی تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ گھروں ،مارکیٹوں اور ایل ڈبلیوایم سی کے کوڑادانوں میں پھینکاجانیوالا الیکٹرانک کچرا، کوڑااکٹھاکرنیوالے اٹھالیتے ہیں اورپھروہ اس کچرے کوکباڑیوں کے پاس فروخت کردیتے ہیں جوپھرآگے انہیں پراسیس کرنیوالوں کوبیچ دیتے ہیں یہ تمام لوگ اس بات سے لاعلم ہیں کہ یہ کچراناصرف ان کے لئے بلکہ ہمارے ماحول کے لئے بھی کتناخطرناک ہے۔