گلوبل وارمنگ اور ماحولیات کے مسائل
حکومت کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو بہت سنجیدگی سے لینا ہوگا۔
کراچی:
ہم نے آنیوالی نسلوں کے لیے اپنے ماحول کو بچانا ہے اور گلوبل وارمنگ کو روکنا ہے ، ہمارے گلیشیئر پگھل رہے ہیں اور شہروں میںماحولیات کے مسائل پیدا ہورہے ہیں ، شہر پھیل رہے ہیں اور ان پر دباؤ بڑھ رہا ہے ، آبادیاں بڑھنے کی وجہ سے صاف پانی اور ہوا سمیت شہری مسائل کا سامنا ہے۔
ان خیالات کا اظہار وزیراعظم عمران خان نے وزارت موسمیاتی تبدیلی اور عالمی بینک کے مابین مشترکہ بیان پر دستخط کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انھوں نے مزید کہا کہ اقدامات نہ کیے گئے تو ماحولیاتی آلودگی کے برے اثرات ہوں گے، ملک میں درخت اگانے کی مہم اور نیشنل پارکس بہت ضروری ہیں اور کئی جنگل غائب ہو چکے ہیں جب کہ وہاں قبضے ہو چکے ہیں تاہم ہمیں اپنے جنگلات کو بچانا ہے۔
بلاشبہ وزیراعظم عمران خان ماحولیات کے مسائل اور گلوبل وارمنگ کے موضوع پر نہ صرف اپنے گرانقدر خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں ،بلکہ ان کی حکومت بھی مختلف منصوبوں پر کام کررہی ہے، لیکن ماحولیات اور گلوبل وارمنگ کے حوالے سے عوام میں شعور اورآگاہی کا فقدان ہے۔
اس اہم ترین مسئلے کی اہمیت کے بارے میں مناسب آگاہی قومی سطح پر اجاگر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ، کیونکہ گلوبل وارمنگ سے دنیا کے بعض حصوں میں خشکی اور بعض میں نمی کی مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے، پاکستان میں اگر گلوبل وارمنگ سے پیدا ہونے والے اثرات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کا حصہ گلوبل وارمنگ کا باعث بننے والی گیسز کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کے لیے کم ٹیکنالوجی کے باعث یہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔
اس کے باعث سلسلہ کوہ ہمالیہ میں گلیشیئرز کے پگھلنے سے ملک کے دریاؤں میں پانی کی سطح میں اضافے کا خطرہ ہے، جس سے بارشوں کے دوران ساحلی علاقوں میں سیلاب آنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ درجہ حرارت کے بڑھنے سے ملک کے بنجر اور نیم بنجر علاقوں میں زرعی پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ آب و ہوا میں ہونے والی تیزی سے تبدیلی سے جنگلات میں پودوں اور درختوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ گلوبل وارمنگ سے ہونے والے ان تمام نقصانات کی وجہ سے پاکستان میں خوراک اور توانائی کی سلامتی کو خطرہ درپیش ہے، گزشتہ بیس برسوں میں صرف یورپ میں لو لگنے سے ایک لاکھ اڑتیس ہزار لوگ زندگی کی بازی ہار گئے، ایشیا اور افریقہ میں مرنے والوں کی تعداد زیادہ تشویشناک ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان نہ صرف دنیا کے آب و ہوا سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک میں شامل ہے بلکہ یہ ماحولیاتی تبدیلی کے روزمرہ اثرات سے نمٹنے کے لیے تیزی سے اقدامات بھی نہیں کر رہا ہے، جس کا دائرہ موسم کی غیر یقینی ترتیب اور گرمی کی لہروں سے لے کر برفانی جھیل کے سیلابی ریلوں (جی ایل او ایفس) تک ہے، جس سے پوری کمیونٹی خطرے میں پڑ جاتی ہے اور بے گھر ہوجاتی ہے۔ موسمیاتی شدت سنگین صورت حال اختیار کرتی جارہی ہے، پاکستان کا درجہ حرارت بھی پچھلی ایک صدی کے دوران میں اعشاریہ 83 ڈگری بڑھ چکا ہے۔
موسموں کی شدت دنیا کے ہر کونے تک پہنچ رہی ہے، بین الاقوامی ادارے نووا نے جولائی 2021 کو کرہ ارض کا گرم ترین مہینہ قرار دیا تھا۔گرین ہاؤس گیسز کرہ ارض کے درجہ حرارت کو بڑھانے کا باعث ہیں، ان میں سب سے اہم کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے جو سورج کی روشنی جذب کرتی ہے اور اسے خلا میں واپس جانے سے روک دیتی ہیں اور یوں گلوبل وارمنگ کا باعث بنتی ہے۔جنگلات اور پودے ان گیسز کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس لیے ان کی حفاظت اور اضافے پر ماہرین زور دے رہے ہیں۔
ہماری زمین کے ماحول میں کچھ ایسی گیسز پائی جاتی ہیں جو نیم مستقل لیکن دیرپا رہتی ہیں، یہ گیسز قدرتی طور پر نہیں بلکہ زمین پر ہونے والے مختلف قسم کے عوامل کے نتیجے میں ہماری آب و ہوا کا حصہ بنتی ہیں۔ ان میں خاص طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور کلوروفلورو کاربن ہیں جن کے آب و ہوا میں شامل ہونے سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہاہے۔ ہوا میں ان گیسز کے اضافے کی ذمے داری بھی کافی حد تک ہم انسانوں پر ہی آتی ہے۔ حیاتیاتی ایندھن کو جلانے درختوں کی کٹائی اور صنعتی انقلاب کا دور شروع ہوتے ہی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ماحول میں بلا روک ٹوک اضافہ ایسی تبدیلیوں کا باعث بن رہا ہے جنھیں بدلا نہیں جا سکتا۔ اس کے علاوہ اے سی ریفریجریٹرز وغیرہ سے خارج ہونے والی گیس کلوروفلورو کاربن زمین کے کرہ سے اوزون کی تہہ کو تباہ کرنے کا باعث بن رہی ہے جو کہ سورج سے نکلنے والی شعاعوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ غرض زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا ذمے دار بہت حد تک انسان اور اس کی ایجادات ہی ہیں۔
ملک کے بہت سے معروف گلیشیئر، دریا اور صحرا، بڑھتی آبادی کے ساتھ مل کر، ایک پھندا سا بن گئے ہیں، جو شہریوں کے گرد مسلسل تنگ ہو رہا ہے، کیونکہ عالمی گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج گلوبل وارمنگ کو مہلک ڈگری تک لے جا رہا ہے اور قدرتی آفات کو متحرک کررہا ہے،اگر گلوبل وارمنگ اپنی موجودہ رفتار پر جاری رہتی ہے اور عالمی اوسط درجہ حرارت 3.2 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ جاتا ہے، تو پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا میں تقریباً 63 ملین افراد بے گھر ہوں گے۔ توقع ہے کہ 2050 تک اکیلے پاکستان میں 20 لاکھ کے قریب افراد موسمی تبدیلی کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہونگے۔
ان میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو سیلاب اور سمندری طوفان جیسے موسمیاتی آفات کے اچانک واقع ہونے سے بے گھر ہو جائیں گے۔ اس مسئلے کی سنگینی کا اندازہ لگانے کے لیے، گنجان آبادی والے شہروں کی آبادی آیندہ تیس برسوں میں چھ گنا ہوسکتی ہے ۔یہ ایک الارمنگ صورتحال ہے ، ایک سروے کے مطابق پاکستان کی 39 فیصد آبادی زراعت، مویشی گیری اور ماہی گیری پر انحصار کرتی ہے۔ یہ سب آب و ہوا کی تبدیلی سے منفی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔
غربت موسمیاتی تبدیلی کے خطرے کا فیصلہ کن عنصر ہے اور نقل مکانی کی بڑی وجہ بھی۔ اگر ہم پاکستان کے دل لاہور کی بات کریں تو گزشتہ کافی عرصے سے دنیا کے پہلے تین آلودہ شہروں میں اس کا شمار ہورہا ہے ، اسموگ اور آلودگی نے شہریوں کی زندگی اجیرن کردی ہے ،ماضی کا سرسبز شاداب لاہور اب رہنے کے قابل شہر نہیں رہا ہے۔
گو عالمی سطح پر پاکستان نے فوری طور پر اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ وہ خود اس آلودگی کا بڑا ذمے دار نہیں ،لیکن ہم اس حقیقت سے نظریں نہیں چراسکتے کہ موسمیاتی بحران سے نمٹنے کی ناقص اور غیرمساوی ملکی حکومتی پالیسیوں نے موسمیاتی بحران کی شدت کو ہوا دی ہے۔ سندھ اور بلوچستان کے بڑے علاقوں سے موسمیاتی نقل مکانی میٹھے پانی کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہوتی ہے، جس کے بغیر مقامی لوگ فصلیں نہیں اگا سکتے، جانور نہیں پال سکتے اور نہ ہی اپنی روز مرہ کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔
تاہم پاکستان کے پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت کا مزید ڈیموں کی تعمیر کا عندیہ دینا ، اس امر کا متقاضی ہے کہ فوری طور پر ملک میں چھوٹے ،بڑے ڈیمز بنائے جائیں، بالخصوص کالا باغ ڈیم جس پر ترقیاتی کام مکمل ہوچکا ہے ، اگر سیاست سے ہٹ کر کالا باغ ڈیم کو فنکشنل کردیا جائے اور ملکی مفادکومقدم رکھا جائے تو ہمارے مسائل میں نمایا ںکمی دیکھنے میں آئے گی ۔
ملک میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ خواتین کو ہجرت غیر متناسب طور پر متاثر کرتی ہے۔ یہ ان کی جسمانی اور جذباتی صحت اور تندرستی کو متاثر کرتی ہے، ان پر گھریلو کام کا بوجھ بڑھاتی ہے، نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈالتی ہے اور کمائی کے مواقعے کو ختم کرتی ہے کیونکہ زیادہ تر دیہی خواتین زرعی شعبے میں کام کرتی ہیں۔موسمیاتی تبدیلی پاکستان بھر میں بیماریوں کے پھیلنے میں معاون ہے، اگر ہم جلد ہی موسمیاتی تبدیلیوں کو سست نہ کریں تو مزید مہلک وبائیں آئیں گی۔
گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں زرعی زمینوں پر کاشت کو ختم کرکے رہائشی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانے کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ گیا، جس سے اوسط قابل کاشت رقبے میں تشویشناک حد تک کمی واقع ہوئی ہے، اس کا سب سے بدترین اثر یہ ہوگا کہ آنے والے وقت میں پاکستان غذائی قلت کا مزید شکار ہوتا ہوا دکھائی دے گا۔
حکومت کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو بہت سنجیدگی سے لینا ہوگا، کیونکہ اگر ان اثرات کی وجہ سے پاکستان میں غذائی ضروریات کے مقابلے میں خوراک کی پیداوار وافر نہ ہوئی تو نہ جانے، غذائی قلت کا شکار ہونے والی آبادی کی شرح کہاں تک جاپہنچے،ملک میں زراعت کے شعبے میں برق رفتار، اور ٹھوس اصلاحات کا نفاذ ہی مفلوک الحال کسان کو مزید تباہی سے بچانے میں کارگر ثابت ہوگا۔
ایک پودا لگانا فطرت کے ساتھ ہمارا سب سے گہرا تعلق قائم کرتا ہے، کیونکہ درختوں کو زمین کے پھیپھڑے کہا گیا ہے،حکومت کو خوش کن وعدوں کے بجائے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مربوط اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
ہم نے آنیوالی نسلوں کے لیے اپنے ماحول کو بچانا ہے اور گلوبل وارمنگ کو روکنا ہے ، ہمارے گلیشیئر پگھل رہے ہیں اور شہروں میںماحولیات کے مسائل پیدا ہورہے ہیں ، شہر پھیل رہے ہیں اور ان پر دباؤ بڑھ رہا ہے ، آبادیاں بڑھنے کی وجہ سے صاف پانی اور ہوا سمیت شہری مسائل کا سامنا ہے۔
ان خیالات کا اظہار وزیراعظم عمران خان نے وزارت موسمیاتی تبدیلی اور عالمی بینک کے مابین مشترکہ بیان پر دستخط کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انھوں نے مزید کہا کہ اقدامات نہ کیے گئے تو ماحولیاتی آلودگی کے برے اثرات ہوں گے، ملک میں درخت اگانے کی مہم اور نیشنل پارکس بہت ضروری ہیں اور کئی جنگل غائب ہو چکے ہیں جب کہ وہاں قبضے ہو چکے ہیں تاہم ہمیں اپنے جنگلات کو بچانا ہے۔
بلاشبہ وزیراعظم عمران خان ماحولیات کے مسائل اور گلوبل وارمنگ کے موضوع پر نہ صرف اپنے گرانقدر خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں ،بلکہ ان کی حکومت بھی مختلف منصوبوں پر کام کررہی ہے، لیکن ماحولیات اور گلوبل وارمنگ کے حوالے سے عوام میں شعور اورآگاہی کا فقدان ہے۔
اس اہم ترین مسئلے کی اہمیت کے بارے میں مناسب آگاہی قومی سطح پر اجاگر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ، کیونکہ گلوبل وارمنگ سے دنیا کے بعض حصوں میں خشکی اور بعض میں نمی کی مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے، پاکستان میں اگر گلوبل وارمنگ سے پیدا ہونے والے اثرات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کا حصہ گلوبل وارمنگ کا باعث بننے والی گیسز کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کے لیے کم ٹیکنالوجی کے باعث یہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔
اس کے باعث سلسلہ کوہ ہمالیہ میں گلیشیئرز کے پگھلنے سے ملک کے دریاؤں میں پانی کی سطح میں اضافے کا خطرہ ہے، جس سے بارشوں کے دوران ساحلی علاقوں میں سیلاب آنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ درجہ حرارت کے بڑھنے سے ملک کے بنجر اور نیم بنجر علاقوں میں زرعی پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ آب و ہوا میں ہونے والی تیزی سے تبدیلی سے جنگلات میں پودوں اور درختوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ گلوبل وارمنگ سے ہونے والے ان تمام نقصانات کی وجہ سے پاکستان میں خوراک اور توانائی کی سلامتی کو خطرہ درپیش ہے، گزشتہ بیس برسوں میں صرف یورپ میں لو لگنے سے ایک لاکھ اڑتیس ہزار لوگ زندگی کی بازی ہار گئے، ایشیا اور افریقہ میں مرنے والوں کی تعداد زیادہ تشویشناک ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان نہ صرف دنیا کے آب و ہوا سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک میں شامل ہے بلکہ یہ ماحولیاتی تبدیلی کے روزمرہ اثرات سے نمٹنے کے لیے تیزی سے اقدامات بھی نہیں کر رہا ہے، جس کا دائرہ موسم کی غیر یقینی ترتیب اور گرمی کی لہروں سے لے کر برفانی جھیل کے سیلابی ریلوں (جی ایل او ایفس) تک ہے، جس سے پوری کمیونٹی خطرے میں پڑ جاتی ہے اور بے گھر ہوجاتی ہے۔ موسمیاتی شدت سنگین صورت حال اختیار کرتی جارہی ہے، پاکستان کا درجہ حرارت بھی پچھلی ایک صدی کے دوران میں اعشاریہ 83 ڈگری بڑھ چکا ہے۔
موسموں کی شدت دنیا کے ہر کونے تک پہنچ رہی ہے، بین الاقوامی ادارے نووا نے جولائی 2021 کو کرہ ارض کا گرم ترین مہینہ قرار دیا تھا۔گرین ہاؤس گیسز کرہ ارض کے درجہ حرارت کو بڑھانے کا باعث ہیں، ان میں سب سے اہم کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے جو سورج کی روشنی جذب کرتی ہے اور اسے خلا میں واپس جانے سے روک دیتی ہیں اور یوں گلوبل وارمنگ کا باعث بنتی ہے۔جنگلات اور پودے ان گیسز کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس لیے ان کی حفاظت اور اضافے پر ماہرین زور دے رہے ہیں۔
ہماری زمین کے ماحول میں کچھ ایسی گیسز پائی جاتی ہیں جو نیم مستقل لیکن دیرپا رہتی ہیں، یہ گیسز قدرتی طور پر نہیں بلکہ زمین پر ہونے والے مختلف قسم کے عوامل کے نتیجے میں ہماری آب و ہوا کا حصہ بنتی ہیں۔ ان میں خاص طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور کلوروفلورو کاربن ہیں جن کے آب و ہوا میں شامل ہونے سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہاہے۔ ہوا میں ان گیسز کے اضافے کی ذمے داری بھی کافی حد تک ہم انسانوں پر ہی آتی ہے۔ حیاتیاتی ایندھن کو جلانے درختوں کی کٹائی اور صنعتی انقلاب کا دور شروع ہوتے ہی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ماحول میں بلا روک ٹوک اضافہ ایسی تبدیلیوں کا باعث بن رہا ہے جنھیں بدلا نہیں جا سکتا۔ اس کے علاوہ اے سی ریفریجریٹرز وغیرہ سے خارج ہونے والی گیس کلوروفلورو کاربن زمین کے کرہ سے اوزون کی تہہ کو تباہ کرنے کا باعث بن رہی ہے جو کہ سورج سے نکلنے والی شعاعوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ غرض زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا ذمے دار بہت حد تک انسان اور اس کی ایجادات ہی ہیں۔
ملک کے بہت سے معروف گلیشیئر، دریا اور صحرا، بڑھتی آبادی کے ساتھ مل کر، ایک پھندا سا بن گئے ہیں، جو شہریوں کے گرد مسلسل تنگ ہو رہا ہے، کیونکہ عالمی گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج گلوبل وارمنگ کو مہلک ڈگری تک لے جا رہا ہے اور قدرتی آفات کو متحرک کررہا ہے،اگر گلوبل وارمنگ اپنی موجودہ رفتار پر جاری رہتی ہے اور عالمی اوسط درجہ حرارت 3.2 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ جاتا ہے، تو پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا میں تقریباً 63 ملین افراد بے گھر ہوں گے۔ توقع ہے کہ 2050 تک اکیلے پاکستان میں 20 لاکھ کے قریب افراد موسمی تبدیلی کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہونگے۔
ان میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو سیلاب اور سمندری طوفان جیسے موسمیاتی آفات کے اچانک واقع ہونے سے بے گھر ہو جائیں گے۔ اس مسئلے کی سنگینی کا اندازہ لگانے کے لیے، گنجان آبادی والے شہروں کی آبادی آیندہ تیس برسوں میں چھ گنا ہوسکتی ہے ۔یہ ایک الارمنگ صورتحال ہے ، ایک سروے کے مطابق پاکستان کی 39 فیصد آبادی زراعت، مویشی گیری اور ماہی گیری پر انحصار کرتی ہے۔ یہ سب آب و ہوا کی تبدیلی سے منفی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔
غربت موسمیاتی تبدیلی کے خطرے کا فیصلہ کن عنصر ہے اور نقل مکانی کی بڑی وجہ بھی۔ اگر ہم پاکستان کے دل لاہور کی بات کریں تو گزشتہ کافی عرصے سے دنیا کے پہلے تین آلودہ شہروں میں اس کا شمار ہورہا ہے ، اسموگ اور آلودگی نے شہریوں کی زندگی اجیرن کردی ہے ،ماضی کا سرسبز شاداب لاہور اب رہنے کے قابل شہر نہیں رہا ہے۔
گو عالمی سطح پر پاکستان نے فوری طور پر اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ وہ خود اس آلودگی کا بڑا ذمے دار نہیں ،لیکن ہم اس حقیقت سے نظریں نہیں چراسکتے کہ موسمیاتی بحران سے نمٹنے کی ناقص اور غیرمساوی ملکی حکومتی پالیسیوں نے موسمیاتی بحران کی شدت کو ہوا دی ہے۔ سندھ اور بلوچستان کے بڑے علاقوں سے موسمیاتی نقل مکانی میٹھے پانی کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہوتی ہے، جس کے بغیر مقامی لوگ فصلیں نہیں اگا سکتے، جانور نہیں پال سکتے اور نہ ہی اپنی روز مرہ کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔
تاہم پاکستان کے پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت کا مزید ڈیموں کی تعمیر کا عندیہ دینا ، اس امر کا متقاضی ہے کہ فوری طور پر ملک میں چھوٹے ،بڑے ڈیمز بنائے جائیں، بالخصوص کالا باغ ڈیم جس پر ترقیاتی کام مکمل ہوچکا ہے ، اگر سیاست سے ہٹ کر کالا باغ ڈیم کو فنکشنل کردیا جائے اور ملکی مفادکومقدم رکھا جائے تو ہمارے مسائل میں نمایا ںکمی دیکھنے میں آئے گی ۔
ملک میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ خواتین کو ہجرت غیر متناسب طور پر متاثر کرتی ہے۔ یہ ان کی جسمانی اور جذباتی صحت اور تندرستی کو متاثر کرتی ہے، ان پر گھریلو کام کا بوجھ بڑھاتی ہے، نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈالتی ہے اور کمائی کے مواقعے کو ختم کرتی ہے کیونکہ زیادہ تر دیہی خواتین زرعی شعبے میں کام کرتی ہیں۔موسمیاتی تبدیلی پاکستان بھر میں بیماریوں کے پھیلنے میں معاون ہے، اگر ہم جلد ہی موسمیاتی تبدیلیوں کو سست نہ کریں تو مزید مہلک وبائیں آئیں گی۔
گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں زرعی زمینوں پر کاشت کو ختم کرکے رہائشی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانے کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ گیا، جس سے اوسط قابل کاشت رقبے میں تشویشناک حد تک کمی واقع ہوئی ہے، اس کا سب سے بدترین اثر یہ ہوگا کہ آنے والے وقت میں پاکستان غذائی قلت کا مزید شکار ہوتا ہوا دکھائی دے گا۔
حکومت کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو بہت سنجیدگی سے لینا ہوگا، کیونکہ اگر ان اثرات کی وجہ سے پاکستان میں غذائی ضروریات کے مقابلے میں خوراک کی پیداوار وافر نہ ہوئی تو نہ جانے، غذائی قلت کا شکار ہونے والی آبادی کی شرح کہاں تک جاپہنچے،ملک میں زراعت کے شعبے میں برق رفتار، اور ٹھوس اصلاحات کا نفاذ ہی مفلوک الحال کسان کو مزید تباہی سے بچانے میں کارگر ثابت ہوگا۔
ایک پودا لگانا فطرت کے ساتھ ہمارا سب سے گہرا تعلق قائم کرتا ہے، کیونکہ درختوں کو زمین کے پھیپھڑے کہا گیا ہے،حکومت کو خوش کن وعدوں کے بجائے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مربوط اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔